دور حاضر کے امامیہ اثناء عشریہ کے علماء کا اپنے مذہب کے عقیدہ تحریف قرآن کے بارے میں کیا مؤقف ہے؟ اختصار سے بیان کر دیں۔
الشیخ عبدالرحمٰن الششریدورِ حاضر کے امامیہ اثناء عشریہ کے علماء کا اپنے مذہب کے عقیدہ تحریف قرآن کے بارے میں کیا مؤقف ہے؟ اختصار سے بیان کر دیں۔
جواب: دورِ حاضر کے شیعہ علماء اس معاملے میں چار اقسام میں تقسیم ہو چکے ہیں۔
اول قسم: ان لوگوں نے اپنی کتابوں میں اس عقیدہ کے وجود کا بالکل سرے سے انکار کیا ہے۔ ان میں سے عبد الحسین الامین النجفی ہے اس نے امام ابنِ حزمؒ کے اس قول کا رد لکھا ہے جس طرح کہ امام ابنِ حزمؒ نے ذکر فرمایا ہے کہ بلاشبہ شیعہ علماء و مشائخ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ قرآن تحریف شدہ ہے۔ لہٰذا یہ کہتا ہے:
کاش کہ یہ جرأت مند مفتری شیعہ کی کسی قابل اعتماد کتاب سے اپنے جھوٹ کا اشارہ پیش کرتا بلکہ ہم بھی اس کے ساتھ مل کر اس قول سے دست برداری کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ ان کے کسی جاہل کا قول ہے یا ان کے زبان دراز کسی دیہاتی کا قول ہے یا یہ فضول بکواس ہے یہ شیعہ کے سب گروہ جن میں امامیہ پیش پیش ہیں سبھی اس بات پر متفق اور مجتمع ہیں کہ جو ان دوستوں کے درمیان ہے وہی وہ کتاب ہے جس میں کوئی شک و شبہ نہیں۔
(الغدير فی الكتاب و السنة و الادب: جلد، 3 صفحہ، 147)
وضاحتی نوٹ:
پھر اللہ تعالیٰ نے اس عبد الحسین النجفی ہی سے یہ بات کہلوائی اور اسے شعور تک نہیں ہوا، اپنی کتاب الغدیر فی الكتاب والسنة والادب: جلد، 1 صفحہ، 425)
میں ایک جھوٹی آیت ان الفاظ میں درج کرتا ہے.
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينِكُم۔ بِإِمَامَتِهِ فَمَنْ لَّمْ يَأْتَمَّ بِهِ وَ بِمَنْ كَانَ مِنْ وَلَدِی مِنْ صُلْبِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ وَ فِی النَّارِ هُمْ خَلِدُوْنَ إِنَّ إِبْلِيسَ أَخْرَجَ آدَمَ عَلَيْهِ السَّلَامَ مِنَ الْجَنَّةِ مَعَ كَوْنِهِ صفوة اللَّهِ بِالْحَسَنِ، فَلَا تَحْسُدُوا فَتَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَ تَزِلُّ أَقْدَامُكُمْ۔
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین اس کی امامت کے ساتھ پورا کر دیا ہے۔ تو جس نے اس کی امامت کو قبول نہ کیا اور اس کی پشت میں سے قیامت تک آنے والی میری اولاد کی امامت کو قبول نہ کیا تو یہی لوگ ہوں گے جن کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور آگ میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ بے شک ابلیس نے حسد کے ساتھ آدم کو جنت سے نکلوایا ہے باوجود یہ کہ وہ اللہ تعالیٰ کا چنیدہ تھا لہٰذا تم حسد نہ کرنا وگرنہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور تمہارے قدم پھسل جائیں گے۔
ان کے آیت اللہ النجفی کا کہنا ہے بے شک رسولﷺ نے فرمایا: بلا شبہ یہ آیت علیؓ بن ابی طالب کے نام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
(الغدير فی الكتاب والسنة و الادب: جلد، 1 صفحہ، 425)
ذرا غور کریں:
اللہ اسے ذلیل و رسواء کرے کہ یہ نجفی اولاد کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کر رہا ہے اور ایسی حرکت کا ارتکاب کر رہا ہے جس کے مرتکب یہود و نصاریٰ اور مشرکین بھی نہیں ہوئے۔ اس نے تو اللہ تعالیٰ پر افتراء باندھتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا ہے اس کی پشت میں سے قیامت تک آنے والی میری اولاد۔
یہ تو اپنے اماموں کو اللہ تعالیٰ کی اولاد قرار دے رہا ہے اور سیدنا علیؓ کی پشت سے کہہ رہا ہے ہم اللہ تعالیٰ کی اس شرک سے اور ان اہلِ شرک سے پناہ مانگتے ہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے تو یہ ارشاد فرمایا ہے:
وَقَالُوۡا اتَّخَذَ الرَّحۡمٰنُ وَلَدًا۞ لَقَدۡ جِئۡتُمۡ شَيۡئًا اِدًّا۞ تَكَادُ السَّمٰوٰتُ يَتَفَطَّرۡنَ مِنۡهُ وَتَـنۡشَقُّ الۡاَرۡضُ وَتَخِرُّ الۡجِبَالُ هَدًّا۞ اَنۡ دَعَوۡا لِلرَّحۡمٰنِ وَلَدًا۞ وَمَا يَنۡۢبَغِىۡ لِلرَّحۡمٰنِ اَنۡ يَّتَّخِذَ وَلَدًا۞ اِنۡ كُلُّ مَنۡ فِى السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ اِلَّاۤ اٰتِى الرَّحۡمٰنِ عَبۡدًا۞ لَقَدۡ اَحۡصٰٮهُمۡ وَعَدَّهُمۡ عَدًّا۞ وَكُلُّهُمۡ اٰتِيۡهِ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ فَرۡدًا۞
(سورۃ مريم: آیت، 88۔95)
ترجمہ: اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ خدائے رحمن کی کوئی اولاد ہے۔(ایسی بات کہنے والو) حقیقت یہ ہے کہ تم نے بڑی سنگین حرکت کی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں، زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر گر پڑیں۔ کہ ان لوگوں نے خدائے رحمٰن کے لیے اولاد ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ حالانکہ خدائے رحمٰن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اولاد ہو۔ آسمانوں اور زمین میں جتنے لوگ ہیں، ان میں سے کوئی ایسا نہیں ہے جو خدائے رحمٰن کے حضور بندہ بن کر نہ آئے۔ یقین رکھو کہ اس نے سب کا احاطہ کر رکھا ہے اور انہیں خوب اچھی طرح گن رکھا ہے۔ اور قیامت کے دن میں سے ایک ایک شخص اس کے پاس اکیلا آئے گا۔
قسم دوم: ان لوگوں نے قرآن میں تحریف کے وجود کا اعتراف کیا ہے لیکن انہوں نے اس کے مبررات بھی بیان کرنے کی کوشش کی ہے.
ان لوگوں میں سے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ تحریف کی روایات ضعیف، شاذ اور اخبار آحاد ہیں جو علم کا فائدہ دیتی ہیں اور نہ ہی عمل۔ ان کی مخصوص حالات کے مطابق تاویل کر لی جائے یا انہیں دیوار پر پھینک مارا جائے۔
(اصل الشيعة وأصولها: صفحہ، 67 النبوة)
وضاحتی نوٹ:
یہ لوگ اپنے کبار علماء کے اس قول کا کیا جواب دیں گے جو بار بار کہہ رہے ہیں کہ ایسی روایات مشہور اور متواتر ہیں جن میں قرآن میں تحریف، کمی اور زیادتی کا ذکر ہے اور جن لوگوں نے تحریف کی روایات کو روایت کیا اور ان پر اپنے ایمان کو ظاہر کیا ہے اور ان پر عقیدہ کر رکھا ہے کہ ان کی توثیق کرنا جائز نہیں ہے۔
ان کی ایک دوسری جماعت یہ کہتی ہے کہ روایاتِ تحریف تو ثابت ہیں لیکن بہت ساری روایات میں ائمہ کے قول تحریف فی القرآن سے مراد یہ ہے کہ جس طرح وہ نازل ہوا ہے یہ تو دراصل باطن کے اعتبار سے قرآن کریم ہی کی تفسیر ہے۔
(الميزان فی تفسير القرآن: جلد، 12 صفحہ، 108 كلام فی أن القرآن مصون عن التحريف فی فصول، الفصل الثانی)
وضاحتی نوٹ:
انکا یہ قول تحریفِ قرآن کے قول ہی کی تائید ہے یہ اس کا دفاع نہیں ہے۔ آپ یہ دیکھ لیں کہ ان کے نزدیک صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تفسیر تو تحریف ہے جبکہ ان کے شیوخ القمی، الکلینی اور المجلسی وغیرہ کی تحریف عین قرآن کی تفسیر ہے۔ شیعہ علماء کی ایک جماعت کہتی ہے کہ ان روایات سے مراد نسخ ہے یا یہ یعنی قرآن میں موجود آیات سے زائد تعداد ان چیزوں میں سے ہے جس کی تلاوت منسوخ ہو چکی ہے۔
(کتاب الوفی: جلد، 9 صفحہ، 1781 باب اختلاف القراءات وعدد الآیات)
رسواء کن بات:
لیکن دورِ حاضر کا شیخ شیعہ جسے یہ لوگ امام الاکبر کے لقب سے یاد کرتے ہیں جو ان کے نزدیک الآیۃ العظمیٰ اور میدانِ علم کا قائد ہے اور ان کا مرجع اکبر ہے یعنی ابو القاسم الموسوی الخوئی وہ کہتا ہے تلاوت کے منسوخ ہونے والا قول بھی تحریف و اسقاط والا قول ہی ہے۔
(البیان فی تفسیر القرآن للخوئی: صفحہ، 205 صیانة القرآن من التحریف)
نسخ اور تحریف کے درمیان فرق تو واضح ہے، تحریف تو ایک انسانی عمل ہے جس کے فاعل کی اللہ تعالیٰ نے مذمت بیان فرمائی ہے جبکہ نسخ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
مَا نَنۡسَخۡ مِنۡ اٰيَةٍ اَوۡ نُنۡسِهَا نَاۡتِ بِخَيۡرٍ مِّنۡهَآ اَوۡ مِثۡلِهَا اَلَمۡ تَعۡلَمۡ اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ۞
(سورۃ البقرة: آیت، 106)
ترجمہ: ہم جب بھی کوئی آیت منسوخ کرتے ہیں یا اسے بھلا دیتے ہیں تو اس سے بہتر یا اسی جیسی (آیت) لے آتے ہیں۔ کیا تمہیں یہ معلوم نہیں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے؟
جب کہ یہ کتاب اللہ کسی بھی حال میں چھیڑنے کو مستلزم نہیں۔
ایک جماعت یہ کہتی ہے کہ جو قرآن اب ہمارے ہاتھوں میں موجود ہے اس میں تحریف تو نہیں ہوئی ہے لیکن یہ ناقص ہے اس میں سے وہ چیزیں ساقط ہو چکی ہیں جو سیدنا علیؓ کی ولایت کے ساتھ مختص تھیں۔
(اس لئے بہتر یہ تھا کہ شیعی علماء وحی کے نقص کے ابواب قائم کرتے یا وہ ایک اور وحیِ نزول یا عدم نزول کی صراحت کرتے تاکہ کافر، ضعیف العقل لوگوں کو یہ کہہ کر دھوکہ نہ دے سکتے کہ مسلمانوں کے ایک گروہ کے اعتراف کے مطابق قرآنِ مجید میں تحریف موجود ہے)
(الذریعة إلى تصانيف الشيعة: جلد، 3 صفحہ، 314)
وضاحتی نوٹ:
یہ قول بھی سابق قول ہی کی مثل ہے یہ بھی دفاع کرنے والا نہیں ہے بلکہ یہ تو تحریف کے وقوع اور نقص فی القرآن کی مزید تاکید ہے۔
پانچویں جماعت کا عقیدہ ہے کہ: ہم موجودہ قرآن پر ایمان رکھتے ہیں اس میں کوئی نقص اور کوئی زیادتی نہیں ہے البتہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ ہم اثناء عشری شیعہ کا گروہ اس امر کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے علاوہ بھی ایک ایسا قرآن ہے جسے سیدنا علیؓ جب وہ رسولﷺ کے کفن دفن سے اور آپﷺ کی وصایا کو نافذ کرنے سے فارغ ہوئے تھے تو اپنے دستِ مبارک سے تحریر کیا تھا۔ پھر ہر امام اس کی نگہداشت کرتا رہا جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے امانت ہوتی کہ وہ الامام المهدی القائم کے پاس محفوظ ہے، اللہ تعالیٰ امام مہدی کا جلد خروج کر کے ہماری پریشانیاں ختم فرمائے-
(الذريعة الى تصانيف الشيعة: جلد، 3 صفحہ، 314، نمبر 1151)
وضاحتی نوٹ:
اس قول کے قائلین اس امر کا اعتراف کر رہے ہیں کہ ایک قرآن اور بھی ہے ہم اس کفر و ضلالت والے بیان سے اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔
قسم سوم: نقص و تحریفِ قرآنی کا ظاہراً انکار کرنے کے ساتھ ساتھ نقص و تحریف کا مکاری کے ساتھ اعتراف و اثبات کرنے کی پر زور کوشش اس طریق پر چلنے والوں میں سے سب سے خبیث اس کا شیخ الخوئی ہے جو عراق اور بعض دوسرے علاقوں میں شیعہ کا سابقہ مرکز و محور ہے اور وہ تفسیر البیان میں یوں اقرار کرتا ہے:
شیعہ علماء اور محققین کے ہاں مشہور اور بالکل مصالحاتی بیان یہ ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔(لبيان فی تفسیر القرآن: صفحہ، 201 صیانة القرآن من التخریف رای المسلمین فی التخریف)
وضاحتی نوٹ:
لیکن یہی الخوئی بنفس نفیس جملہ روایات تحریف کی صحت پر قطعی فیصلہ بھی دیتے ہوئے کہتا ہے بلاشبہ معصومین سے بعض روایات اور روایات کی کثرت تو یہ قطعی فیصلہ صادر کر رہی ہیں اور اس میں اطمینان سے کم کچھ نہیں، اور ان روایات میں سے ایسی بھی ہیں جو معتبر طریق سے مروی ہیں۔
(البیان فی التفسیر القرآن: صفحہ، 225)
الخوئی اپنے علماء سے نقص قرآن کے عقیدے کی نفی کر رہا ہے لیکن بذاتِ خود ہی سیدنا علیؓ کے ایک ایسے مصحف کے وجود کا اثبات بھی کر رہا ہے جن میں ان میں ایسے ایسے اضافے بھی موجود ہیں جو کتاب اللہ میں نہیں ہیں وہ کہتا ہے:
سیدنا علیؓ کا مصحف موجودہ قرآنِ مجید کی سورتوں کی ترتیب میں بلاشک وشبہ مختلف ہے، اور علماء کرام نے اس مصحف علیؓ کے وجود پر اتنے دلائل دیے ہیں کہ اس کے ثبوت کے لیے تکلف کرنے سے بے پرواہ کر دیتا ہے، ایسے ہی مصحف علیؓ میں ایسی زیادہ اشیاء بھی ہیں جو موجودہ قرآن میں نہیں، اگرچہ یہ صحیح ہے مگر اس کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ زیادات قرآنِ مجید میں تھیں اور اسے تحریف کر کے ساقط کر دیا گیا ہے بلکہ صحیح یہ ہے کہ یہ زیادات تاویل کے عنوان سے تفسیر تھی۔
(البیان فی التفسیر القرآن: صفحہ، 223 صیانة القرآن من التحریف شبہات القائلین بالتحریف)
اس کا خیال ہے کہ اس امت اور اس کے ہر اول دستے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے قرآنی آیات کو ان معانی پر محمول کیا ہے جو غیر حقیقی تھے البتہ الکلینی کی تحریفات اور تھی اور العیاش کی آیات قرانیہ اس کے نزدیک کتاب اللہ کی حقیقی تفسیر ہیں یہ کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ تم نے اپنی تفسیر میں سارے مشائخ کی توثیق کی ہے، اور قمی کی ساری تفسیر تحریف قرآن پر دلالت کرنے والی روایات سے بھری ہوئی ہے۔
(معجم رجال الحدیث: جلد، 1صفحہ، 49 المقدمة الثالثة)
شیعہ الخوئی کہتا ہے: اس لیے ہم علی بن ابراہیم کے سارے ان اساتذہ اور مشائخ کی توثیق کرتے ہیں جن سے اس نے اپنی تفسیر میں معصومین ائمہ سے باسند روایات کی ہیں۔
شیعہ ذلت و رسوائی:
الخوئی اپنے آپ کو ذلیل و رسواء کرتے ہوئے اپنے تحریف والے عقیدے کو بیان کرتے ہوئے کہتا ہے
اس امت نے نبی کریمﷺ کے بعد بعض کلمات کو تبدیل کر دیا تھا اور ان کی جگہ پر دوسرے الفاظ لگا دیئے تھے ان میں سے ایک روایت علی بن ابراہیم قمی نے اپنی سند سے حریز سے بیان کیا ہے کہ سیدنا ابو عبد اللہؒ نے فرمایا کہ یہ آیت یوں تھی:
صِرَاطَ(من)اَنۡعَمۡتَ عَلَيۡهِمۡ غَيۡرِ الۡمَغۡضُوۡبِ عَلَيۡهِمۡ (غیر) الضَّآلِّيۡنَ۞
سورۃ الفاتحہ: آیت، 7)
اور ایک روایت عیاشی سے مروی ہے اس نے ہشام بن سالم سے روایت کی ہے اس نے کہا: میں نے ابو عبداللہؒ سے اس فرمانِ باری تعالیٰ کی تفسیر پوچھی:
اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰۤى اٰدَمَ وَنُوۡحًا وَّاٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ۞
ترجمہ: اللہ نے آدم علیہ السلام، نوح علیہ السلام ابراہیم علیہ السلام کے خاندان، اور عمران کے خاندان کو چن کر تمام جہانوں پر فضیلت دی تھی۔
(سورۃ آلِ عمران: آیت، 33)
تو آپ نے فرمایا: یہاں پر آلِ إبراہيم و آلِ محمد کے الفاظ تھے، جنہیں جہان والوں پر منتخب کیا ہے لیکن(صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے) آلِ محمدﷺ کی جگہ آلِ عمران لکھ دیا ہے۔
(البیان فی تفسیر القرآن: صفحہ، 232)
قسم چہارم: اس کفریہ عقیدہ کا اعلانیہ اظہار اور اس سے استدلال کرنے والے انتہائی مکاری اور ڈھٹائی سے قرآن میں نقص اور تحریف ثابت کرنے کی کوشش کرنے والے شیعہ علماء میں اس کفر کا بڑا قائد حسین النوری الطبرسی(المتوفی 1320ھ) ہے جس نے اس سلسلے میں اپنی کتاب فصل الخطاب فی تحریف کتاب رب الارباب تالیف کی ہے تا کہ وہ شیعہ کے اس کفریہ عقیدہ کو ثابت کر سکے، اس کتاب میں اس نے شیعہ علماء کے متفرق و مختلف اقوال کو یکجا کر دیا ہے اسی طرح اس نے ان کے اعتقاد کے مطابق تحریف شدہ آیات کو بھی جمع کر دیا ہے اس نے یہ تمام چیزیں جمع کر کے اس کتاب کو طبع کیا ہے یہ کتاب سنہ 1298 کو ایران میں طبع کی گئی ہے۔