Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا آپ شیعی علماء کی تفسیر کے چند نمونے ذکر فرمائیں گے؟

  الشیخ عبدالرحمٰن الششری

کیا آپ شیعی علماء کی تفسیر کے چند نمونے ذکر فرمائیں گے؟ 

 جواب: جی لیجیئے 
1:  شیعی علماء قرآنِ مجید کی تفسیر اپنے ائمہ سے کرتے ہیں۔ 
کلینی روایت کرتا ہے:
ابو خالد الکابلی کہتا ہے کہ میں نے سیدنا ابو جعفرؒ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر پوچھی فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰهِ وَرَسُوۡلِهٖ وَالنُّوۡرِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلۡنَا‌ الخ۔ (سورۃ التغابن: آیت، 8)
 ترجمہ: پس تم اللہ اور اس کے رسول اور اس نور پر ایمان لاؤ جو ہم نے نازل کیا۔ 
تو انہوں نے کہا اللہ کی قسم اس نور سے مراد تا قیامت آنے والے آلِ محمدﷺ کے ائمہ ہیں۔ اللہ کی قسم ائمہ وہی نور ہیں جو اللہ نے نازل کیا۔ اللہ کی قسم وہ زمین و آسمان میں اللہ کا نور ہیں۔
(اصولِ کافی: جلد، 1 صفحہ، 139کتاب الحجتہ، حدیث نمبر، 1 باب ان الائمہ علیھم السلام نور اللہ عزوجل تاویل الآیات الظاهرۃ فی فضائل العترۃ الطاہرہ: جلد، 2 صفحہ، 696 حدیث نمبر، 2 سورۃ التغابن، وما فیھامن الآیات الائمہ المھداۃ، تفسیر البرہان: جلد، 8 صفحہ، 27 ح، 2 سورۃ التغابن)
شیعی علامہ قمی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی جھوٹی تفسیر کرتے ہوئے لکھتا ہے:
الٓمّٓ۞ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ لَا رَيْبَ فِيْهِ ھُدًى لِّلْمُتَّقِيْنَ۞  (سورۃ البقرة: آیت2،1)
ترجمہ: الم۔ یہ کتاب ایسی ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں، یہ ہدایت ہے پر ہیز گاروں کے لیے۔
ابو بصیر کی سند سے ابو عبداللہؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کتاب سے مراد علیؓ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔اور یہ شیعہ کے لیے ہدایت ہے۔
(تفسیر نور الثقلین: جلد ،1 صفحہ، 26 ح،5)
2: اسی طرح شیعی مفسرین قرآن مجید میں وارد النور سے ائمہ مراد لیتے ہیں۔
 شیعی شیخ کلینی ابو عبد اللہؒ سے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر کرتا ہے:
اَللَّهُ نُورُ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلۡأَرۡضِ‌ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشۡكَوٰةٍ فِيہَا مِصۡبَاحٌ‌ ٱلۡمِصۡبَاحُ فِى زُجَاجَةٍ‌ ٱلزُّجَاجَةُ كَأَنَّہَا كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَـٰرَڪَةٍ زَيۡتُونَةٍ لَّا شَرۡقِيَّةٍ وَلَا غَرۡبِيَّةٍ يَكَادُ زَيۡتُہَا يُضِىٓءُ وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٌ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ يَہۡدِى َاَللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَآءُ‌ۚ وَيَضۡرِبُ ٱللَّهُ ٱلۡأَمۡثَـٰلَ لِلنَّاسِ‌ وَاَللَّهُ بِكُلِّ شَىۡءٍ عَلِيمٌ۞
(سورۃ النور:آیت، 35)
ترجمہ: اللہ آسمانوں اور زمین میں نور ہے اس کے نور کی مثال کچھ (یوں ہے) جیسے ایک طاق ہو جس میں چراغ ہو چراغ ایک شیشے (کی قندیل) میں ہو، شیشہ جیسے ایک ستارا ہو وہ (چراغ) ایک مبارک درخت زیتون (کے تیل) سے جلایا جاتا ہو جو نہ مشرقی ہو نہ غربی یوں لگے جیسے اس کا تیل خود بخود سلگ اٹھے اگرچہ اسے آگ نے مس نہ کیا ہو۔ وہ نور علیٰ نور ہے۔ اللہ اپنے نور کی طرف ہدایت دیتا ہے جسے چاہے اور اللہ لوگوں لیے مثالیں بیان کرتا ہے، اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔
ابو عبد اللہؒ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمانِ گرامی کی تفسیر میں فرمایا ہے: 
(اَللّٰهُ نُوۡرُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ مَثَلُ نُوۡرِهٖ كَمِشۡكٰوةٍ) فاطمهؓ۔
ترجمہ: اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے یعنی فاطمہؓ۔
(فِيۡهَا مِصۡبَاحٌ‌) ای: الحسنؓ۔
ترجمہ: جس میں چراغ ہو یعنی حسنؓ۔
(الۡمِصۡبَاحُ فِىۡ زُجَاجَةٍ‌) ای الحسينؓ۔
ترجمہ: اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔ یعنی حسینؓ۔
(اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ) فَاطِمَةُؓ كَوۡكَبٌ دُرِّىٌّ بَيْنَ نِسَاءِ أَهْلِ الدُّنْيَا۔
ترجمہ: شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو۔ یعنی فاطمہؓ اہلِ دنیا کی تمام خواتین کے درمیان چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ 
(يُّوۡقَدُ مِنۡ شَجَرَةٍ مُّبٰـرَكَةٍ) إبراهيم۔
ترجمہ: وہ چراغ ایک با برکت درخت سے جلایا جاتا ہو یعنی ابراہیم۔ 
(زَيۡتُوۡنَةٍ لَّا شَرۡقِيَّةٍ وَّلَا غَرۡبِيَّةٍ) لَا يَهُودِيَّةٍ وَلَا نَصْرَانِيَّةٍ ۔
ترجمہ: زیتون کے درخت سے جو نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی یعنی وہ نہ تو یہودیت ہے اور نہ ہی نصرانیت۔ 
(يَّكَادُ زَيۡتُهَا يُضِىۡٓءُ) : يَكَادُ الْعِلْمُ يَنفَجِرُ بِهَا۔
ترجمہ: خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے یعنی قریب ہے کہ علم خود بخود ہی اس سے پھوٹنے لگے۔ 
(وَلَوۡ لَمۡ تَمۡسَسۡهُ نَارٌ‌ نُوۡرٌ عَلٰى نُوۡرٍ‌) إِمَامٌ مِّنْهَا بَعْدَ إِمَامٍ۔
ترجمہ: گو اسے مطلقاً آگ لگی ہی نہ ہو نور پر نور ہے یعنی ایک امام کے بعد دوسرا امام ہے۔ 
(يَهۡدِى اللّٰهُ لِنُوۡرِهٖ مَنۡ يَّشَآءُ‌) يَهْدِي اللَّهُ لِلْأَئِمَّةِ مَنْ يَشَاءُ۔
ترجمہ: اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہے ائمہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ 
(وَيَضۡرِبُ اللّٰهُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ‌)
 ترجمہ: لوگوں کے سمجھانے کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے۔ 
(اصول الکافی: جلد، 1صفحہ، 140کتاب الحجتہ حدیث نمبر، 5 ان الائمہ نور اللہ مرقدہ)
3: شیعی علماء شرک سے روکنے والی آیات کی تفسیر کرتے ہیں کہ وہ آیات علیؓ بن ابی طالب کی ولایت میں شرک کرنے سے روکنے والی ہیں یا آپؓ کی ولایت کا کفر کرنے سے روکنے والی ہیں۔ قمی سیدنا باقرؒ پر افتراء پردازی کرتے ہوئے روایت کرتا ہے (حالانکہ وہ اس سے بری ہیں) انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا: 
وَلَـقَدۡ اُوۡحِىَ اِلَيۡكَ وَاِلَى الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِكَ‌ۚ لَئِنۡ اَشۡرَكۡتَ :تفسيرها لئن أمرت بولاية أحد مع ولاية على من بعدك) لَيَحۡبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِيۡنَ‏۔ (سورة الزمر: آیت 65) 
ترجمہ: یقیناً آپ کی طرف وحی کی گئی اور آپ سے پہلے (انبیاء) کی طرف بھی کہ اگر آپ نے شرک کیا (اس کی تفسیر یہ ہے کہ اگر آپ نے علیؓ کی ولایت کے ساتھ کسی اور کی ولایت کا حکم دیا) تو آپ کے عمل ضائع ہو جائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
(تفسیر القمی: صفحہ، 593 سورۃ الزمر، تفسیر نور الثقلین، جلد، 1 صفحہ، 498 تفسیر الصافی: جلد، 1 صفحہ، 328 سورۃ الزمر)
 شیعہ علامہ اور ان کا حجت اللہ کلینی ابو عبداللہؒ سے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی یہ تفسیر بیان کرتا ہے کہ اگر آپ نے ولایتِ علیؓ میں کسی دوسرے کو شریک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہو جائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہو جائیں گے۔
(اصول کافی: جلد، 1 صفحہ، 323)
شیعہ عالم عیاشی سیدنا ابو جعفرؒ سے جھوٹی روایت کرتا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تفسیر اس طرح کی ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغۡفِرُ اَنۡ يُّشۡرَكَ بِهٖ (يعنى أنه لا يغفر لمن يكفر بولاية على) وَيَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰ لِكَ لِمَنۡ يَّشَآءُ‌ (يعنى لمن والى علياؓ) (سورۃ النساء: آیت، 48)
ترجمہ: یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا (یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں بخشے گا جو علیؓ کی ولایت کا انکار کرتا ہے) اور اس کے سواء جسے چاہے بخش دیتا ہے۔ (یعنی محبانِ علی کو معاف کر دے گا)  
(تفسیر العیاشی: جلد، 1 صفحہ، 272 حدیث نمبر، 149 تفسیر البرہان)
4: شیعہ مفسرین جن آیات میں ایک اللہ کی عبادت کا حکم اور طاغوت سے اجتناب کا امر ہے اس کی تفسیر ائمہ ولایت اور ائمہ کے دشمنوں سے برأت کرنا کرتے ہیں۔ وہ روایت کرتے ہیں کہ سیدنا ابو جعفرؒ نے فرمایا( اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسا فرمائے) اللہ تعالیٰ نے ہر نبی کو ہماری ولایت کی خبر دینے اور ہمارے دشمنوں سے برأت کا اعلان کرنے کے لیے مبعوث کیا۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمائی ہے اور وہ یہ ہے:
وَلَـقَدۡ بَعَثۡنَا فِىۡ كُلِّ اُمَّةٍ رَّسُوۡلًا اَنِ اعۡبُدُوا اللّٰهَ وَاجۡتَنِبُوا الطَّاغُوۡتَ‌ فَمِنۡهُمۡ مَّنۡ هَدَى اللّٰهُ وَمِنۡهُمۡ مَّنۡ حَقَّتۡ عَلَيۡهِ الضَّلٰلَةُ‌ (بتكذيبهم آلِ محمد) (سورۃ النحل: آیت نمبر، 37) 
ترجمہ: ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سواء تمام معبودوں سے بچو، پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی۔ 
(یعنی آلِ محمد کی تکذیب کرنے کی وجہ سے ان پر ضلالت ثابت ہو گئی)
(تفسیر العیاشی: جلد، 2 صفحہ، 280 تفسیر الصافی: جلد، 3 صفحہ، 134)
اور ابو عبد اللہؒ نے فرمایا اور وہ اس قول سے بری ہیں:
وَقَالَ اللّٰهُ لَا تَـتَّخِذُوۡۤا اِلٰهَيۡنِ اثۡنَيۡنِ‌(يَعني بِذَلِكَ لَا تَتَّخِذُوا إِمَامَيْنِ اثْنَيْنِ)۔  (سورۃ النحل: آیت، 51)
ترجمہ: اللہ تعالیٰ ارشاد فرما چکا ہے کہ دو معبود نہ بناؤ۔ (یہاں سے مراد یہ ہے کہ دو امام نہ بناؤ)
اِنَّمَا هُوَ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ- إِمَامٌ وَاحِدٌ۔
ترجمہ: معبود تو صرف وہی اکیلا ہے (یعنی امام صرف ایک ہے۔) 
(تفسیر العیاشی: جلد، 2 صفحہ، 283 تفسیر نور الثقلین: جلد، 3 صفحہ، 60)
یہ لوگ کفار و منافقین کے بارے میں وارد آیات کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کے اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین مراد لیتے ہیں۔ 
انہوں نے روایت بیان کی ہے کہ ابو عبد اللہؒ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:
وَقَالَ الَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا رَبَّنَاۤ اَرِنَا الَّذَيۡنِ اَضَلّٰنَا مِنَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ نَجۡعَلۡهُمَا تَحۡتَ اَقۡدَامِنَا لِيَكُوۡنَا مِنَ الۡاَسۡفَلِيۡنَ۞
(سورۃ فصلت: آیت، 29)
ترجمہ: اور یہ کافر لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار! ہمیں ان جنات اور انسانوں دونوں کی صورت دکھائیے جنہوں نے ہمیں گمراہ کیا تھا، تاکہ ہم انہیں اپنے پاؤں تلے ایسا روندیں کہ وہ خوب ذلیل ہوں۔
کے متعلق فرمایا اس سے مراد وہ دونوں ہیں پھر فرمایا اور فلاں تو پکا شیطان تھا۔
ان کا علامہ مجلسی کہتا ہے دونوں سے مراد سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا عمرؓ ہیں اور فلاں سے مراد سیدنا عمرؓ ہے۔ قرآن کی جس آیت میں بھی جن کا ذکر ہو تو اس سے سیدنا عمرؓ مراد ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ یا تو وہ خود شیطان تھا یا تو اس میں شیطان کے شریک ہونے کی وجہ سے، کیونکہ وہ زانی کا بچہ ہے۔ یا مکر و فریب اور دھوکے بازی میں شیطان کی طرح تھا۔ اور دوسرا احتمال یہ ہو سکتا ہے کہ وہ سیدنا ابوبکرؓ مراد ہو۔ 
(مرآۃ العقول: جلد، 26 صفحہ، 288)
اسی طرح شیعی علماء کی سند سے ابو عبد اللہؒ سے جھوٹی روایت بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد:
 وَّلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِ الخ۔ (سورۃ البقرة: آیت، 168) 
ترجمہ: اور تم شیطانی راہوں پر مت چلو۔
کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس سے مراد دوسرے (عمرؓ) اور پہلے (ابوبکرؓ) کی ولایت ہے۔ 
(تفسیر العیاشی: جلد، 1 صفحہ، 121حدیث، 300 سورۃ البقرۃ)
مزید روایت کرتے ہیں کہ ابو عبد اللہؒ نے فرمایا اور وہ اس سے بری ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد:
يُؤۡمِنُوۡنَ بِالۡجِبۡتِ وَالطَّاغُوۡتِ (ابوبكرؓ و عمرؓ)  (سورۃ النساء: آیت، 51) 
ترجمہ: وہ بتوں کا اور باطل معبودوں کا اعتقاد رکھتے ہیں۔
اس کی تفسیر یہ ہے کہ بت اور شیطان سے مراد فلاں فلاں ہیں۔ 
(بصائر الدرجات الكبرىٰ: جلد، 1 صفحہ، 87 ح، 3 باب معرفة ائمه الهدى من ائمة الضلال وأنهم الجبت والطاغوت والفواحش تفسير العياشی: جلد، 1 صفحہ، 273 حدیث نمبر، 153(سورة النساء) بشارة المصطفىٰ الشيعة المرتضیٰ: صفحہ، 297 حدیث، 37)
فلاں فلاں کی وضاحت کرتے ہوئے مجلسی کہتا ہے اس سے مراد ابوبکرؓ اور عمرؓ ہیں۔
5: شیعی علماء دنوں اور مہینوں کی تفسیر بھی اپنے ائمہ سے کرتے ہیں۔
سیدنا باقرؒ سے جھوٹی روایت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اِنَّ عِدَّةَ الشُّهُوْرِ الخ۔ (سورۃ التوبہ: آیت، 36) :الآية سال کے بارہ مہینے ہیں، اور وہ سیدنا علیؓ اور ان کے بعد آنے والے ائمہ کی تعداد ہے۔مِنْهَاۤ اَرْبَعَةٌ حُرُمٌ الخ اس میں سے چار حرمت والے ہیں، جو ایک ہی نام کے ہیں علی، علیؓ ابوالحسن عسکریؒ، علی بن موسیٰؒ،علی بن محمدؒ۔
(مناقب آلِ ابی طالب: جلد، 1 صفحہ، 230 فصل فی الآیات المنزلتہ فیھم علیہم السلام)
سیدنا ابو الحسن العسکریؒ سے روایت کرتے ہیں (حالانکہ وہ اس الزام سے بری ہیں) کہ انہوں نے فرمایا: (سبت) ہفتہ رسولﷺ ہیں۔ (الاحد) اتوار سے مراد علیؓ ہیں، (الاثنین) سوموار سے مراد حسنؓ و حسینؓ (الثلاثہ) منگل سے مراد علی بن حسینؒ، محمد بن علیؒ، اور جعفر بن محمدؒ ہیں۔ (الأربعا) بدھ سے مراد موسیٰ بن جعفرؒ، علی بن موسیٰؒ، محمد بن علیؒ اور میں ہوں۔ (الخمیس) جمعرات سے مراد میرا بیٹا حسن بن علیؒ ہے اور الجمعہ سے مراد میرا پوتا ہے۔ 
(وسائل الشیعہ: جلد، 5 صفحہ، 43 حدیث، 18 باب وجوب تعظیم یوم الجمعہ)
شیعہ کی رسوائی:
شیعہ نے ایامِ ہفتہ کے متعلق ایسی روایات گھڑ لی ہیں جن میں بعض ایام کی مذمت پائی جاتی ہے۔ یعنی ایک طرف اپنے ائمہ کو ہفتہ اتوار قرار دیتے ہیں دوسری طرف ایسی روایات بیان کرتے ہیں جو انہی دنوں کی مذمت کرتی ہیں۔
مثلاً ابو عبد اللہؒ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا ہفتہ ہمارا ہے، اتوار ہمارے شیعہ کا ہے، سوموار ہمارے دشمنوں کا ہے، منگل بنو امیہ کا ہے اور بدھ وہ دن ہے جس دن انہوں نے دوا پی تھی۔
(الخصال: جلد، 2 صفحہ، 378۔ وسفینتہ البحار: جلد، 1 صفحہ، 519)
نیز ایک روایت گھڑ کر موسیٰ بن جعفرؒ کی طرف منسوب کر دی ہے کہ آپ کہتے ہیں:
پیر کے دن سے بڑھ کر کوئی اور دن منحوس نہیں ہے۔
تعارض:
انہوں نے اپنی طرف سے ایک اور روایت گھڑ کر سیدنا علیؓ کی طرف منسوب کر دی ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ آپ فرماتے ہیں: 
اہلِ ایمان میں سے جو کوئی پیر کے دن مر گیا اللہ تعالیٰ اسے اور ہمارے دشمنان بنو امیہ کو جہنم میں کبھی اکٹھا نہیں فرمائیں گے۔ اور جو کوئی اہلِ ایمان منگل کے دن مر گیا اللہ تعالیٰ حشر میں اسے ہمارے ساتھ رفیقِ اعلیٰ میں اٹھائیں گے۔
(معالم الزلفی: صفحہ، 431)
گرتی دیوار کو ایک دھکا اور شیعہ علماء کی کمر توڑ دینے والی دلیل:
خود شیعہ نے ہی اپنی کمر پر ایک اور ماتمی کلہاڑے کا وار کیا انہوں نے سیدنا علیؓ بن ابی طالب کی اس قدر توہین کی ہے کہ قرآنِ مجید میں مذکور بعض حشراتُ الارض کی تفسیر کرتے ہوئے انہیں سیدنا علیؓ قرار دیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَسۡتَحۡـىٖۤ اَنۡ يَّضۡرِبَ مَثَلًا مَّا ‌بَعُوۡضَةً فَمَا فَوۡقَهَا ‌الخ۔
(سورۃ البقرة: آیت، 26)
ترجمہ: بے شک اللہ اس بات سے نہیں شرماتا کہ وہ کوئی سی مثال بیان کرے مچھر کی ہو یا اس سے بھی بڑھ کر حقیر یا عظیم ہو۔
کی تفسیر میں شیخ قمی نے کہا ہے کہ سیدنا ابو عبد اللہؒ کہتے ہیں: مچھر سے مراد سیدنا علیؓ ہیں۔
(تفسیر القمی: صفحہ، 37 اور تفسیر نور الثقلین: جلد، 1 صفحہ، 45 ح، 64 سورۃ البقرة)