شیعہ مذہب کے علماء و مشائخ کے نزدیک ائمہ اثناء عشریہ کے اقوال کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
الشیخ عبدالرحمٰن الششری شیعہ مذہب کے علماء و مشائخ کے نزدیک ائمہ اثناء عشریہ کے اقوال کا مقام و مرتبہ کیا ہے؟
جواب:
شیعہ امامیہ کے نزدیک ان کے ائمہ کے اقوال اللہ اور اس کے رسولﷺ کے اقوال جیسا مقام و مرتبہ رکھتے ہیں، وہ کہتے ہیں:
بے شک تمام ظاہری ائمہ کی حدیث اللہ تعالیٰ کے فرامین ہیں اور ان کے اقوال میں کوئی اختلاف نہیں جیسے اللہ تعالیٰ کے فرامین میں کوئی اختلاف نہیں۔
(شرح اصول الکافی جلد 2 صفحہ 225)
بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں جس شخص نے ابو عبداللہ سے حدیث سنی ہو اس کے لیے جائز ہے کہ وہ اس حدیث کو ابو عبداللہ کے والد یا ان کے کسی دادا سے روایت کرے۔ بلکہ یہ بھی جائز ہے کہ وہ روایت بیان کرتے وقت کہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا بلکہ یہی کہنا اولیٰ اور بہتر ہے۔
اس کی دلیل ابو بصیر کی روایت ہے وہ کہتا ہے:
میں نے ابو عبداللہ سے کہا میں جو حدیث آپ سے سنوں کیا اسے آپ کے والد کے حوالے سے بیان کر سکتا ہوں؟ یا جو حدیث میں نے آپ کے والد سے سنی ہو اسے آپ کے نام سے روایت کر سکتا ہوں؟ انہوں نے فرمایا یہ دونوں طریقے برابر ہیں البتہ میرے والد کے حوالے سے بیان کرو تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔
ابو عبد اللہ نے جمیل سے کہا: جو روایات تم نے مجھ سے سنی ہیں تم انہیں میرے والد سے روایت کرو۔
(اصول الکافی جلد 1 صفحہ 40 کتاب فضل العلم حدیث نمبر 4 باب روایة الكتب و الحدیث)
تضاد بیانی:
خود کلینی ہی نے ابوعبداللہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا خبر دار گھڑے ہوئے جھوٹ سے بچو ان سے پوچھا گیا گھڑا ہوا جھوٹ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا گھڑا ہوا جھوٹ یہ ہے کہ تمہیں ایک شخص حدیث بیان کرے پھر تم اس کا نام چھوڑ کر اس کے استاد سے وہی روایت بیان کرو۔
( اصول الکافی جلد 1 صفحہ 41 کتاب العلم حدیث نمبر 12 باب روایة الکتب و الحدیث)
شیعہ علماء کہتے ہیں:
الإمامة إذن هي إمتداد استمرار للنبُوة۔
بلا شبہ امامت تو نبوت ہی سے ماخوذ اور اس کا تسلسل ہے۔
(عقائد الامامیه فی ثوبہ الجدید 95 محمد رضا المظفر عمید کلیۃ الفقہ، النجف)
خمینی کہتا ہے: ان تعالیم الأئمة كتعالیم القرآن لا تختص جيلا خاصا والماهي تعاليم للجميع في كل عصر و مصر و الى يوم القيامة يجب تنفیذها واتباعها
ائمہ کی تعلیمات قرآنی تعلیمات جیسی ہیں، یہ کسی نسل کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ سب لوگوں اور ہر وقت و دور و علاقے قیامت تک کے لیے ہیں، ان کی تنفیذ اور اتباع واجب ہے۔
(الحکومیة الاسلامیة صفحہ 116)
شیعہ شیخ جواد مغنیہ کہتا ہے: امام معصوم کا قول اور علم مکمل طور پر اللہ تعالیٰ کی تنزیل کے برابر ہے۔
وَمَا يَنۡطِقُ عَنِ الۡهَوٰىؕ اِنۡ هُوَ اِلَّا وَحۡىٌ يُّوۡحٰىۙ
(سورۃ النجم:آیت 3،4)
ترجمہ: اور وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتے وہ وحی ہی تو ہے جو اس کی طرف بھیجی جاتی ہے۔
(الخمینی والدولة الأسلاميه صفحہ 59)
وضاحتی نوٹ:
ان کے اعتقاد میں آخری امام تک نص نبوی مستمر ہے، کیا ان کے اعتقاد میں ائمہ کا وجود ختم ہو چکا ہے؟
یہ روایات اپنے صریح اور کھلے جھوٹ کو آگے چلانے کے لیے بالکل واضح اور صریح ہیں وہ اس طرح واضح اور صریح ہیں کہ بطورِ مثال وہ سیدنا علیؓ کی طرف ایسا قول منسوب کر دیتے ہیں جو آپ نے کہا ہی نہیں ہے بلکہ وہ تو آپ کے پوتوں میں سے کسی نے کہا ہو، ان کے اعتقاد اور مذہب کی تعلیم کے مطابق اولیٰ ہی یہی ہے جس طرح کہ سابقہ روایات میں یہ بات مذکور ہے۔