کیا اسلام بزور شمشیر پھیلا؟
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنیکیا اسلام بزورِ شمشیر پھیلا؟
’’اسلام کو امن و سلامتی کا مذہب کیسے کہا جا سکتا ہے جبکہ یہ تلوار کے زور سے پھیلا؟‘‘
کچھ غیر مسلم عام طور پر اعتراض اٹھاتے ہیں کہ اسلام کے ماننے والے اتنی زیادہ تعداد میں نہ ہوتے اگر اسلام تلوار کے ذریعے سے نہ پھیلا ہوتا۔ مندرجہ ذیل نکات یہ حقیقت واضح کریں گے کہ اسلام بزورِ طاقت ہر گز نہیں پھیلا بلکہ اپنی عالمگیر صداقت، عقل پر مبنی تصورات اور سچائی پر مبنی دلائل کی بدولت اسلام کو فروغ ملا ہے۔
اسلام کا مطلب
اسلام لفظ ’’سلام‘‘ سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے سلامتی اور امن۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اپنے آپ کواللہ کی رضا کے آگے جھکا دیا جائے، پس اسلام سلامتی اور امن کا مذہب ہے جو اپنے آپ کو اللہ کی مرضی کے آگے جھکا دینے کی بدولت نصیب ہوتا ہے۔
طاقت کا استعمال
دنیا میں ہر انسان امن اور ہم آہنگی قائم رکھنے کے حق میں نہیں ہوتا یا بہت سے لوگ ہوتے ہیں جو اپنے مفادات کے لیے امن و امان کو خراب کرتے ہیں، لہٰذا بعض اوقات امن قائم رکھنے کے لیے طاقت کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرائم کے سد باب کے لیے پولیس کا نظام قائم کیا گیا ہے جو مجرموں اور سماج دشمن عناصر کے خلاف طاقت استعمال کرتی ہے تا کہ ملک میں امن و امان قائم رہے۔ اسلام امن کا خواہاں ہے لیکن اس کے ساتھ ہی اپنے ماننے والوں کو ظلم اور استحصال کے خلاف لڑنے کا حکم دیتا ہے۔ بعض اوقات ظلم سے لڑنے اور اسے ختم کرنے کے لیے طاقت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسلام میں طاقت کا استعمال صرف ظلم کے خاتمے، امن کے فروغ اور عدل کے قیام کے لیے ہے اور اسلام کا یہ پہلو سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے عہد کے ادوار سے بخوبی آشکار ہوتا ہے۔
مؤرخ ڈی لیسی اولیری کی رائے
اس غلط نظریے کا جواب کہ اسلام بزورِ شمشیر پھیلا، ایک انگریز مؤرخ ڈی لیسی اولیری نے اپنی کتاب "Islam at the Cross Road" (صفحہ8) میں بہترین انداز میں دیا ہے:
’’ تاریخ بہر حال یہ حقیقت واضح کر دیتی ہے کہ مسلمانوں کے متعلق روایتی تعصب پر مبنی کہانیاں کہ اسلام تلوار کے زور پر پھیلا اور اس کے ذریعے سے جنونی مسلمان دنیا پر چھا گئے، سب نا معقول اور فضول افسانے ہیں جنھیں مؤرخین نے بار بار دُہرایا ہے۔‘‘
سپین میں مسلمانوں کے 800 برس
مسلمانوں نے سپین میں تقریباً 800 سال حکومت کی اور وہاں لوگوں کو مسلمان کرنے کے لیے کبھی تلوار نہیں اٹھائی۔ بعد میں صلیبی عیسائی برسراقتدار آئے تو انھوں نے وہاں سے مسلمانوں کا صفایا کر دیا اور پھر سپین میں ایک بھی مسلمان ایسا نہ تھا جو آزادی سے ’’اذان‘‘ دے سکے۔
تقریبا ڈیڑھ کروڑ عرب نسلی عیسائی ہیں
مسلمان دنیائے عرب پر 1400 سال سے حکمران ہیں۔ اس کے باوجود ابھی تک 14 ملین، یعنی ایک کروڑ چالیس لاکھ عرب ایسے ہیں جو نسلوں سے عیسائی ہیں، جیسے مصر کے قبطی عیسائی۔ اگر اسلام تلوار یا طاقت کے زور پر پھیلا ہوتا تو عرب میں ایک بھی عیسائی نہ ہوتا۔
بھارت میں غیر مسلم
ہندوستان میں مسلمانوں نے تقریباً ایک ہزار سال حکومت کی۔ اگر وہ چاہتے تو بذریعہ طاقت ہندوستان کے ہر غیر مسلم کو مسلمان کر لیتے۔ آج بھارت کی 80 فیصد آبادی غیر مسلموں کی ہے۔ یہ تمام غیر مسلم کیا اس بات کی زندہ شہادت نہیں ہیں کہ اسلام تلوار سے نہیں پھیلا۔
انڈونیشیا اور ملائشیا میں اسلام
دُنیا بھر کے ممالک میں سے انڈونیشیا میں مسلمانوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے، اسی طرح ملائشیا میں بھی اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ کون سی اسلامی فوج انڈونیشیا اور ملائشیا گئی تھی؟
افریقہ کا مشرقی ساحل
اسی طرح اسلام بہت تیزی سے بر اعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پر پھیلا۔ مستشرقین سے
اسی طرح اسلام بہت تیزی سے بر اعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پر پھیلا۔ مستشرقین سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام تلوار کے ذریعے سے پھیلا تو کونسی اسلامی فوج افریقہ کے مشرقی ساحل پر گئی تھی۔
تھامس کارلائل کی دلیل
مشہور مؤرخ تھامس کارلائل اپنی کتاب ’’ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ‘‘ میں اسلام کے پھیلاؤ کے بارے میں مغربی تصورات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ اسلام کے فروغ میں تلوار استعمال ہوئی لیکن یہ تلوار کیسی تھی؟ ایک نظریہ تھا۔ ہر نیا نظریہ شروع میں فردِ واحد کے نہاں خانۂ دماغ میں جنم لیتا ہے۔ وہاں وہ نشوونما پاتا رہتا ہے۔ اس پر دُنیا بھر کا صرف ایک ہی آدمی یقین رکھتا ہے، گویا ایک شخص فکری لحاظ سے تمام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر وہ ہاتھ میں تلوار لے اور اس کے ذریعے سے اپنا نظریہ پھیلانے کی کوشش کرے تو یہ کوشش بے سود رہے گی۔ لیکن اگر آپ اپنے نظریے کی تلوار سے سرگرمِ عمل رہیں تو وہ نظریہ دُنیا میں اپنی قوت سے خود بخود پھیلتا چلا جائے گا۔‘‘
دین میں کوئی جبر نہیں
یہ درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ مسلمان فروغ اسلام کے لیے تلوار استعمال کرنا چاہتے بھی تو استعمال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قرآن مجید مندرجہ ذیل آیت میں کہتا ہے:
{ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ }
’’ دین میں کوئی جبر نہیں۔ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔‘‘
البقرۃ : 256/2
اسی طرح اسلام بہت تیزی سے بر اعظم افریقہ کے مشرقی ساحل پر پھیلا۔ مستشرقین سے پوچھا جا سکتا ہے کہ اگر اسلام تلوار کے ذریعے سے پھیلا تو کونسی اسلامی فوج افریقہ کے مشرقی ساحل پر گئی تھی۔
تھامس کارلائل کی دلیل
مشہور مؤرخ تھامس کارلائل اپنی کتاب ’’ہیرو اینڈ ہیرو ورشپ‘‘ میں اسلام کے پھیلاؤ کے بارے میں مغربی تصورات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے:
’’ اسلام کے فروغ میں تلوار استعمال ہوئی لیکن یہ تلوار کیسی تھی؟ ایک نظریہ تھا۔ ہر نیا نظریہ شروع میں فردِ واحد کے نہاں خانۂ دماغ میں جنم لیتا ہے۔ وہاں وہ نشوونما پاتا رہتا ہے۔ اس پر دُنیا بھر کا صرف ایک ہی آدمی یقین رکھتا ہے، گویا ایک شخص فکری لحاظ سے تمام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے۔ اگر وہ ہاتھ میں تلوار لے اور اس کے ذریعے سے اپنا نظریہ پھیلانے کی کوشش کرے تو یہ کوشش بے سود رہے گی۔ لیکن اگر آپ اپنے نظریے کی تلوار سے سرگرمِ عمل رہیں تو وہ نظریہ دُنیا میں اپنی قوت سے خود بخود پھیلتا چلا جائے گا۔‘‘
دین میں کوئی جبر نہیں
یہ درست نہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا۔ مسلمان فروغ اسلام کے لیے تلوار استعمال کرنا چاہتے بھی تو استعمال نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قرآن مجید مندرجہ ذیل آیت میں کہتا ہے:
{ لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ }
’’ دین میں کوئی جبر نہیں۔ہدایت گمراہی سے واضح ہو چکی ہے۔‘‘
البقرۃ : 256/2
حکمت کی تلوار
فروغِ اسلام کا باعث دراصل حکمت کی تلوار ہے۔ یہ ایسی تلوار ہے جو دِل اور دماغ فتح کر لیتی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
{ ادْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ ۖ وَجَادِلْهُم بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ }
’’ لوگوں کو اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور بہترین وعظ کے ساتھ بلائیں اور ان سے بہترین طریقے سے بحث کریں۔‘‘
النحل : 125/16
نصف صدی میں عالمی مذاہب کے پیروکاروں میں اضافہ
1986ء میں ریڈرز ڈائجسٹ کے ایک مضمون میں 1934ء سے 1984ء تک نصف صدی میں دنیا کے بڑے بڑے مذاہب کے پیروکاروں کی تعداد میں فیصد اضافے کے اعداد و شمار دیے گئے تھے۔ یہ مضمون ’’صاف سچ‘‘ (The Plain Truth) نامی جریدے میں بھی چھپا۔ ان میں سرفہرست اسلام تھا جس کے پیروکاروں کی تعدادمیں 235 فیصد اضافہ ہوا اور عیسائیت میں اضافہ صرف 47فیصد رہا۔ پوچھا جا سکتا ہے کہ اس صدی میں کون سی مذہبی جنگ لڑی گئی جس نے لاکھوں لوگوں کو مسلمان کر دیا۔
امریکہ اور یورپ میں روز افزوں مذہب اسلام ہے
آج یورپ اور امریکہ میں سب سے زیادہ بڑھنے والا مذہب اسلام ہے۔ وہ کون سی تلوار
ہے جو لوگوں کو اتنی بڑی تعداد میں مسلمان ہونے پر مجبور کر رہی ہے؟ یہ تلوار اسلام کا سچا عقیدہ ہے۔
ڈاکٹر جوزف آدم پیٹرسن کا اعلانِ حقیقت
ڈاکٹر جوزف آدم پیٹرسن صحیح کہتے ہیں:
’’جو لوگ فکر مند ہیں کہ ایٹمی ہتھیار ایک دن عرب لوگوں کے ہاتھ لگ جائیں گے، وہ اس حقیقت کو سمجھنے میں ناکام رہے ہیں کہ اسلامی بم تو پہلے ہی گرایا جا چکا ہے، یہ اُس دِن گرا تھا جب محمد(صلی اللہ علیہ وسلم ) پیدا ہوئے تھے۔‘‘