امامت علی رضی اللہ عنہ پر قرآنی دلائل پہلی دلیل: ﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا﴾ اور اس پر ردّ:
امام ابنِ تیمیہؒامامت علی رضی اللہ عنہ پر قرآنی دلائل
پہلی دلیل: ﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا﴾ اور اس پر ردّ:
[اشکال]:شیعہ مصنف امامت علی رضی اللہ عنہ پر قرآنی دلائل پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے : ’’ دوسرا منہج : قرآن سے مأخوذ دلائل اور براہین جو کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت پر دلالت کرتی ہیں ‘بہت کثرت کے ساتھ ہیں ۔‘‘
اوّل:....اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ ﴾ [المائدۃ ۵۵]
’’بیشک تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور(خشوع و خضوع کیساتھ) رکوع کرنے والے ہیں ۔‘‘
علماء کا اجماع اس بات پر منعقد ہو چکا ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ثعلبی اپنی اسناد سے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ :’’میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنے ان دوکانوں کے ساتھ سنا اور اگر نہ سنا ہو تو یہ بہرے ہو جائیں ۔ اور میں نے اپنی ان دو آنکھوں سے دیکھا ؛اگرنہ دیکھا ہو تو میری دونوں آنکھیں اندھی ہو جائیں ؛ فرماتے تھے:’’ علی رضی اللہ عنہ نیکوں کے قائد اور کفار کے قاتل ہیں ، جو ان کی مدد کرے گا اس کی مدد کی جائے گی، اور جو ان کو بے یارومددگار چھوڑے گاتو اسے بے یارومددگار چھوڑ دیاجائے گا۔‘‘
میں نے ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی نماز ادا کی ۔ اتنے میں ایک سائل نے آکر سوال کیا مگر کسی نے اسے کچھ بھی نہ دیا، اس نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا:’’ اے اللہ! تو گواہ رہ کہ میں نے تیرے نبی کی مسجد میں سوال کیا اور مجھے کچھ بھی نہیں دیا گیا ۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ رکوع کی حالت میں تھے آپ نے حالت رکوع میں اپنی چھوٹی انگلی کی جانب اشارہ کیا ؛ آپ نے اس میں انگوٹھی پہن رکھی تھی۔ سائل نے آگے بڑھ کر آپ کی انگوٹھی اتار لی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ ماجرا دیکھ رہے تھے، جب نماز سے فارغ ہوئے تو آسمان کی جانب سر اٹھا کر کہا:اے اللہ! موسیٰ علیہ السلام نے تجھ سے سوال کیا تھا:
﴿قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْo وَ یَسِّرْلِیْ ٓاَمْرِیْo وَاحْلُلْ عُقْدَۃً مِّنْ لِّسَانِیْo یَفْقَہُوْا قَوْلِیْo وَ اجْعَلْ لِّیْ وَزِیْرًا مِّنْ اَہْلِیْo ھٰرُوْنَ اَخِیo اشْدُدْ بِہٖٓ اَزْرِیْo وَ اَشْرِکْہُ فِیْٓ اَمْرِیْ﴾ [طہ ۲۵۔ ۳۲]
’’ اس نے کہا اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔اور میرے لیے میرا کام آسان کر دے۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ وہ میری بات سمجھ لیں ۔اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک بوجھ بٹانے والا بنا دے۔ہارون کو، جو میرا بھائی ہے۔اس کے ساتھ میری پشت مضبوط کر دے۔اور اسے میرے کام میں شریک کر دے ۔‘‘
ان کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
﴿قَالَ سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِاَخِیْکَ وَ نَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطٰنًا فَلَا یَصِلُوْنَ اِلَیْکُمَا بِاٰیٰتِنَآ﴾ [القصص ۳۵]
’’ فرمایا کہ ہم تیرے بھائی کے ساتھ تیرا بازو مضبوط کر دیں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے فرعونی تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ۔‘‘
آپ نے دعا کی : اے اللہ! میں محمد ہوں تیرا نبی اور تیرا برگزیدہ؛ اے میرے رب! میرے لیے میرا سینہ کھول دے۔اور میرے لیے میرا کام آسان کر دے۔اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ وہ میری بات سمجھ لیں ۔اور میرے لیے میرے گھر والوں میں سے ایک بوجھ اٹھانے والا بنا دے یعنی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو؛اوراس کے ساتھ میری پشت مضبوط کر دے۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : آپ اپنی گفتگو ختم نہ کر پائے تھے کہ جبرائیل مذکورہ بالا آیت لے کر حاضر ہوئے ۔ [اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]:
﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ ﴾ [المائدۃ ۵۵]
’’بیشک تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور رکوع (خشوع و خضوع)کرنے والے ہیں ۔‘‘
فقیہ ابن المغازی الواسطی الشافعی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ اس آیت میں جو ولی کا لفظ مذکور ہے اس سے متصرف مراد ہے۔ گویا اللہ تعالیٰ نے جس طرح اپنے اور رسول علیہ السلام کے لیے ولایت فی الامہ کا اثبات کیا ہے، اسی طرح حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی کیا۔‘‘ ( شیعہ کا بیان ختم ہوا)
[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے:
پہلی بات:....اس کا جواب یہ ہے کہ شیعہ مصنف نے جوکچھ ذکر کیا ہے کہ وہ اس قابل نہیں ہے کہ عقلاً قبول کیاجائے۔ بلکہ اس کا ذکر کردہ واقعہ صاف جھوٹ پر مبنی ہے۔اور وہی فلاسفہ و حمقاء کے کلام کی جنس سے تعلق رکھتا ہے۔ اور اگر اسے عقلی طور پر مان لیا جائے تو پھر اسے برہان کہنا انتہائی منکر اور بری بات ہے۔ اس لیے کہ قرآن میں اور دوسرے مقامات پر برہان کا لفظ اس چیز کے لیے استعمال ہوتا ہے جس سے علم اور یقین کا فائدہ حاصل ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ قَالُوْا لَنْ یَّدْخُلَ الْجَنَّۃَ اِلَّا مَنْ کَانَ ہُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی تِلْکَ اَمَانِیُّہُمْ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ ﴾ [البقرہ ۱۱۱]
’’یہ کہتے ہیں کہ جنت میں یہود و نصاری کے سوا اور کوئی نہ جائے گا، یہ صرف ان کی آرزوئیں ہیں ، ان سے کہو کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَمَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗ وَ مَنْ یَّرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ ئَ اِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ قُلْ ہَاتُوْا بُرْہَانَکُمْ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْن﴾ [النمل ۶۴]
’’ کیا وہ جو مخلوق کی اول دفعہ پیدائش کرتا ہے؛وہ پھر اسے لوٹائے گا اور جو تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دے رہا ہے کیا اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود ہے کہہ دیجئے کہ اگر سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ ۔‘‘
سچے کو اپنی سچائی پر دلیل و برہان چاہیے۔اور دو ٹوک سچائی وہی ہے جس کے متعلق معلوم ہو کہ یہ سچ ہے۔
اس رافضی مصنف نے جتنی بھی حجتیں پیش کی ہیں ‘ ان میں جھوٹ ہے۔ اس کے بس میں نہیں کہ اپنے تمام مقدمات پر ایک بھی سچی حجت پیش کرسکے۔ کیونکہ سچے مقدمات کے لیے ممکن نہیں ہے کہ ان کی بنیاد جھوٹ اور باطل پر رکھی جائے۔ ہم ان شاء اللہ اس کی ایک ایک بات کا تارو پود کھول کر رکھ دیں گے جس سے اس کا جھوٹ بالکل واضح ہوجائے گا۔ ایسی حجتوں کو براہین کا نام دینا بذات خود بہت بڑا اور انتہائی برا جھوٹ ہے ۔
یہ رافضی مصنف قرآن کی تفسیر میں بعض لوگوں سے نقل کیے گئے اقوال پر اعتماد کرتا ہے۔حالانکہ بسا اوقات اس میں بھی راوی پر جھوٹ گھڑلیا گیا ہوتا ہے۔ اور اگر سچ بھی ہوتو بہت سارے علمائے کرام رحمہم اللہ نے اس کی مخالفت کرکے اس نظریہ یا تفسیر کو رد کیا ہوتا ہے۔اگر کہیں پر واحدی کاقول نقل کیا گیا ہے توواحدی کی صداقت خود مجہول ہے ؛ نیز بہت سارے علمائے کرام رحمہم اللہ نے دلائل و براہین کی روشنی میں اس کے خلاف حق کو بھی بیان کیا ہوتاہے۔ اس لیے کہ واحدی کے اقوال کے خلاف اسی جنس کے بہت سارے اقوال ہیں جو اس کے متناقض ہیں ۔ جب براہین کا تعارض اقوال سے ہوجائے تو اقوال متناقض شمار ہوتے ہیں جب کے اقوال کے مقابلہ میں براہین متعارض نہیں ہوسکتیں ۔
بلکہ ہم ان شاء اللہ اس رافضی کی نام نہاد براہین کے خلاف حقیقی براہین قائم کریں گے جن کا آپس میں کوئی تعارض بھی نہیں ہوگا۔ رافضی کے اکثر اقوال میں جھوٹ بالکل ظاہر ہوتا ہے۔ یہ جھوٹ صرف ان لوگوں پر مخفی رہ سکتا ہے جن کے دلوں کو اللہ تعالیٰ نے اندھا کردیا ہو۔ [اورواضح کریں گے کہ ] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر دلالت کرنے والی براہین برحق ہیں اور بیشک قرآن بھی حق ہے۔ اور یہ کہ دین اسلام حق ہے ۔ یہ ان تمام چیزوں سے متناقض ہیں جنہیں رافضی نے براہین کا نام دیا ہے۔ اگر عقلمند انسان کچھ دیر کے لیے غور کرے گا تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ رافضی مصنف جن دلائل کو براہین کا نام دیتا ہے اس کے لوازم سے ایمان و قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر قدح وارد ہوتی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ رافضیت کی اصل بنیاد کچھ زندیق لوگوں کے ہاتھوں پر اٹھائی گئی ہے۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ؛ قرآن پر اور دین اسلام پر اعتراضات اور قدح کی جائے۔ اس غرض کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انہوں نے ایسی روایات گھڑلیں جن کو سچا ماننے سے دین اسلام پر طعن لازم آتا ہے ۔پھر انہوں نے اپنی وضع کردہ روایات کو لوگوں میں عام اور مشہور کردیا۔ لوگوں میں جاہل بھی تھے اور ہویٰ پرست بھی۔انہوں نے اپنی ہویٰ پرستی کی وجہ سے ان حکایات و روایات کو قبول کرلیا ؛ مگر یہ نہ دیکھا کہ ان کی اصل حقیقت کیا ہے ؟ ان میں سے بعض اہل نظر لوگ بھی تھے جنہوں نے ان میں غور وفکر کیا تو پتہ چلا کہ یہ روایات دین اسلام کی حقانیت پر قدح کرتی ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ان روایات کے موجب عقیدہ اپنا لیا اور دین اسلام پر قدح کرنے لگے۔ اس کی وجہ شروع سے ہی ان کے دین و اعتقاد کی خرابی تھی۔ یا پھر اس کا یہ اعتقاد تھا کہ یہ روایات صحیح ہیں ؛ اور جوکچھ وہ دین اسلام کا عقیدہ رکھتا تھا اس پر قدح وارد ہوتی تھی۔ [لہٰذا اس نے ان روایات کو قبول کرلیا]۔
[اسماعیلیہ اور نصیریہ کی گمراہی کی وجہ]:
یہی وجہ ہے کہ اکثر زنادقہ اسلام میں شیعیت کے دروازہ سے داخل ہوئے، اور ان اکاذیب کے بل بوتے پر اسلام کو مطعون کرنا شروع کیا۔وہ جہلاء ان مکذوبات کی بنا پر شبہات کا شکار ہو گئے جنہیں یہ علم نہ تھا کہ یہ روایات جھوٹی ہیں ؛ بس انہیں صرف اتنا پتہ تھا کہ دین اسلام ایک سچا مذہب ہے۔
فرقہ ہائے اسماعیلیہ و نصیریہ بھی اسی وجہ سے گمراہ ہوئے۔ جھوٹی اور من گھڑت روایات قرآن کی تفسیر اور حدیث کی شرح میں پیش کرتے ہوئے شیعہ کی روایت کردہ اکاذیب پر مہر تصدیق ثبت کر دی۔ چنانچہ انھوں نے سب سے پہلے آل محمد پر اظہار رحم و کرم کا آغاز کیا، پھر صحابہ پر نقد وجرح اور گالی گلوچ کا بیڑا اٹھایا۔ بعد ازاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہدف ملامت بنایا، کیوں کہ آپ یہ سب باتیں سن کر خاموش رہے تھے، پھر رسول علیہ السلام کو تنقید کا نشانہ بنایا اور بعد ازاں اللہکی تردید و تکذیب پر اتر آئے۔ جیسا کہ صاحب البلاغ الاکبر نے اس ترتیب پر روشنی ڈالی ہے۔ جیسا کہ عبیدی ائمہ کی بنیاد رافضیوں کے من گھڑت واقعات پر ہے ؛ تاکہ اس طرح سے گمراہ شیعہ لوگوں کو اپنا شکار کرسکیں ۔ پھر اس کے بعد صحابہ کرام میں طعن کرنا شروع کرتے ہیں ؛ پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شان میں قدح کرتے ہیں ‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اور پھر الٰہیات میں طعنہ زنی کرتے ہیں جیسا کہ ’’البلاغ الاکبر اور الناموس الاعظم ‘‘ کے مصنف نے ان کے لیے درجات مقرر کیے ہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ رافضیت کفرو الحاد کا رئیسی دروازہ اور دھلیز شمار ہوتی ہے۔
دوسری بات:....ہم کہتے ہیں : اس آیت کے جواب میں کئی امور ہیں :
اوّل :....ہم اس روایت کی صحت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔سب سے پہلے حدیث کو اس انداز میں پیش کیاجائے جس سے حجت قائم ہوسکتی ہو۔ کیونکہ صرف تفسیر ثعلبی کی طرف منسوب کرلینا؛ یا ان لوگوں سے اجماع نقل کرنا جو منقولات کا علم ہی نہیں رکھتے ؛ اگرچہ وہ نقل کرنے میں سچے بھی ہوں ؛ اہل علم کے ہاں بالاجماع یہ حجت نہیں ہوسکتا ۔ اگراس کی اسناد کی معرفت ثابت نہ ہو۔
ایسے ہی جب ثعلبی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی فضیلت میں کوئی روایت نقل کرے ؛ تو صرف اس روایت کے موجود ہونے کی وجہ سے اس فضیلت کے ثابت ہونے کا اعتقاد رکھنا جائز نہیں ۔ اس پر اہل علم کا اجماع ہے۔
اہل سنت والجماعت کسی چیز کے ثابت کرنے کے لیے یہ طریقہ نہیں اپناتے۔ نہ ہی کوئی فضیلت ثابت کرنے کے لیے اور نہ ہی حکم ثابت کرنے کے لیے۔اورنہ ہی دیگر کسی مسئلہ میں ۔ اورایسے ہی شیعہ [کو بھی کرنا چاہیے]۔
جب تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ صرف روایت کا موجود ہونا حجت نہیں ہوسکتا[جب تک کہ اس کی صحت ثابت نہ ہو جائے] بلکہ اس سے استدلال کرنا باطل ہے۔ ایسے ہی ہر وہ قول جسے ابو نعیم ؛ ثعلبی؛ نقاش؛ اور ابن مغازلی جیسے لوگوں کی طرف منسوب کیا جائے۔[وہ صرف روایت کے موجود ہونے کی وجہ سے حجت نہ ہوگا]۔
دوم :....شیعہ مصنف کا دعوی ہے کہ : ’’اس آیت کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہونے پر اجماع ہے ۔‘‘
[جواب]:....ہم کہتے ہیں : یہ سب سے بڑا جھوٹا دعوی ہے۔بلکہ اجماع اس بات پر منعقد ہوا ہے کہ یہ آیت خاص طور پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق نازل نہیں ہوئی۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز کی حالت میں اپنی انگوٹھی بطور صدقہ نہیں پیش کی۔اور محدثین کرام کا اجماع ہے کہ شیعہ کی بیان کردہ روایت صاف جھوٹ ہے ۔ [اس آیت کی تفسیر میں علامہ طبری رحمہ اللہ نے پانچ آثار نقل کیے ہیں کہ اس آیت سے مقصود حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں ؛ چنانچہ اثر نمبر12210میں امام سدی رحمہ اللہ سے منقول ہے؛ اس سے مراد تمام اہل ایمان ہیں ؛ لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کے پاس سے ایک سائل گزرا۔ آپ مسجد میں رکوع کی حالت میں تھے۔ تو آپ نے اسے انگوٹھی عطا کی۔‘‘ اور اس کے بعد دوسرے اور تیسرے اثر میں ہے: بیشک یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں نازل ہوئی۔ اور بیشک آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو ایمان لائے ہیں ۔ اس اثر نمبر 1223پر استاذ احمد شاکر نے ان پر تبصرہ کرتے ہوئے انہیں ضعیف کہا ہے۔ اور تیسرے اثر میں میں بھی ایک غالب بن عبیداللہ العقیلی الجزری نامی راوی ضعیف اور منکر الحدیث ہے۔لوگوں نے اس سے حدیث روایت کرنا ترک کردیا تھا۔[لسان المیزان ؛ التاریخ الکبیر ۴؍ ۱۰۱]]
جو کچھ اس نے ثعلبی کی تفسیر سے نقل کیا ہے ؛ محدثین کرام کا اجماع ہے کہ ثعلبی ایک گروہ سے موضوعات اور من گھڑت روایات نقل کرتا ہے۔جیسا کہ ہر سورت کے شروع میں اس نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اس سورت کی فضیلت میں ایک روایت نقل کی ہے۔ ثعلبی اور اس کا تلمیذ واحدی دونوں اور ان کے امثال دوسرے مفسرین کا بھی یہی حال ہے؛وہ ’’حاطب لیل (رات کا لکڑہارا جو خشک و تر میں تمیز کیے بغیر ہر قسم کی لکڑیاں جمع کرتا ہے) تھے ۔ہر صحیح وضعیف [بلکہ موضوع ]روایات تک نقل کرتے تھے۔[ علاوہ ازیں شیعہ مصنف کے ذکر کردہ دلائل سب باطل ہیں اور وہی شخص ان کو تسلیم کر سکتا ہے جو گونگا، بہرہ، صاحب ہویٰ و ضلالت ہو اور اللہ تعالیٰ نے اس کے دل کو قبول حق سے اندھا کردیا ہو]۔ اس لیے کہ علامہ بغوی رحمہ اللہ حدیث کے بڑے عالم تھے؛ ثعلبی اور واحدی سے بڑھ کر[حدیث کا] علم رکھتے تھے۔آپ کی تفسیر ثعلبی کی تفسیر سے مختصرکی گئی ہے۔آپ نے اپنی تفسیر میں ان موضوع احادیث میں سے کوئی بھی روایت نقل نہیں کی جو کہ ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کی ہیں ۔اور نہ ہی اہل بدعت کی تفسیر نقل کی؛جیسے کہ ثعلبی نے نقل کی ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ثعلبی میں خیر اوردین داری ہے ؛لیکن صحیح اور ضعیف احادیث کے بارے میں آپ کی معلومات بہت کمزور ہیں ۔اور بہت سارے اقوال میں سنت اور بدعت میں تمیز نہیں کرپاتا۔ جبکہ بڑے اور مشہور اہل علم مفسرین جیسے : محمد بن جریر الطبری ؛ بقی بن مخلد ؛ ابن ابی حاتم ؛ ابن المنذر ؛ عبد الرحمن بن ابراہیم دحیم اور ان کے امثال نے اپنی تفاسیر میں ان موضوع روایات میں سے کوئی بھی روایت نقل نہیں کی۔
جو ان سے بڑے علماء ہیں مثلاً تفسیر احمد بن حنبل؛ اسحاق بن راہویہ ؛ اور دوسرے علماء ؛ ان کی تو بات ہی چھوڑیے۔ بلکہ ایسی روایات تو عبد بن حمید اور عبدالرزاق کے ہاں بھی نہیں ملتیں ۔ حالانکہ عبدالرزاق شیعیت کی طرف میلان رکھتا تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت ساری روایات نقل کیا کرتا تھا اگرچہ وہ ضعیف ہی کیوں نہ ہوں ۔ لیکن اس کا مقام و مرتبہ اس سے بہت بلند ہے کہ وہ اس جیسا کھلا ہوا جھوٹ روایت کرے۔
اہل علم محدثین کا اجماع ہے کہ کسی فرد واحد کے مجرد روایت کرنے سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔ اسی جنس سے ثعلبی ؛ واحدی اور نقاش اوران جیسے دوسرے لوگ بھی تعلق رکھتے ہیں ۔کیونکہ یہ لوگ اپنی تفاسیر میں اکثر وہ احادیث روایت کرتے ہیں جو کہ ضعیف ہی نہیں بلکہ موضوع ہوتی ہیں ۔ اگر ہمیں چند دوسری وجوہات کی بنا پر بھی ان لوگوں کا جھوٹا ہونا معلوم نہ ہوتا تو پھر بھی ان کی روایات پراس لیے اعتماد کرنا جائز نہ ہوتا کہ انہیں ثعلبی اور اس کے امثال نے روایت کیا ہے۔توپھر جب ہمیں اس جھوٹ کا پتہ بھی ہے تو ان روایات پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟
ہم ان شاء اللہ وہ دلائل ذکر کریں گے جن سے ان کا جھوٹ عقلاً و نقلاً کھل کر سامنے آجائے گا۔ یہاں پر صرف اس مصنف کی افترا پردازی اور کثرت جہالت کا بیان کرنا ہمارا مقصد ہے۔ کیونکہ اس کا دعوی ہے کہ : ’’اس پر اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘ صد افسوس کہ اس بیچارے کو یہ بھی علم ہوتا کہ اہل علم میں سے جو لوگ ایسے امور میں اجماع کے حقائق کا علم رکھتے ہیں ‘ ان میں سے کس نے یہ اجماع نقل کیا ہے ؟ اس لیے کہ ایسے امور میں غیر اہل علم کا نقل کردہ اجماع ہر گز قبول نہیں ہوتا۔اور پھر اس میں اجماع بھی نہیں ‘ بلکہ اختلاف ہے۔
اس لیے کہ متکلم ؛ مفسر اور مؤرخ جب بلا سند کوئی روایت نقل کرکے کسی معاملے کا دعوی کریں تو ان کی بات پر اعتماد نہیں کیا جاتا۔تو پھر جب وہ اجماع کا دعوی کرے تو کیسے قابل قبول ہوسکتا ہے ؟
تیسری بات:....اس سے پوچھا جائے کہ :شیعہ مصنف نے اپنی تائید میں ثعلبی کا حوالہ دیا ہے، وہ مفسرین جن کی کتابوں سے یہ تفسیر نقل کی گئی ہے ؛ وہ ثعلبی سے زیادہ جانتے ہیں ۔انہوں نے اس کے برعکس نقل کیا ہے ۔ ہم کہتے ہیں کہ ثعلبی نے حضرت ابن عباس کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ یہ آیت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔‘‘
نیز ثعلبی نے عبد الملک سے نقل کیا ہے کہ میں نے ابوجعفر باقر سے اس آیت کی تفسیر پوچھی۔ تو انھوں نے فرمایا:’’ اس سے سب مومن مراد ہیں ۔‘‘ میں نے عرض کیا، بعض لوگ اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد لیتے ہیں ۔
یہ سن کر امام باقر رحمہ اللہ نے فرمایا :’’ اہل ایمان میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔‘‘ ضحاک اورسدی سے بھی یہی مروی ہے۔
ابن ابی حاتم نے اپنی تفسیر میں اپنے والد سے روایت کیا ہے وہ کہتے ہیں : ہم سے لیث کے کاتب ابو صالح نے بیان کیا ؛ وہ کہتا ہے ہم سے معاویہ بن صالح نے بیان کیا؛ ان سے علی بن ابی طلحہ نے بیان کیا ؛وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اس آیت کی تفسیر میں نقل کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا:’’ اہل ایمان سب مومن و مسلم اللہتعالیٰ اور اس کے رسول کے ولی ہیں ۔‘‘
نیز کہتے ہیں :ہم سے ابو سعید الاشج نے بیان کیا؛ وہ محاربی سے وہ عبدالملک بن ابو سلیمان سے روایت کرتے ہیں : کہا: میں نے ابو جعفر سے اس آیت کے متعلق پوچھا ؛ تو آپ نے فرمایا: اس سے مراد تمام اہل ایمان ہیں ۔‘‘ میں نے کہا: یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا: ’ اہل ایمان میں علی رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں ۔‘‘ امام سدی سے بھی ایسی روایت منقول ہے۔
چوتھی بات:....ہم شیعہ کے دعوائے اجماع کو معاف کرتے ہیں اور ان سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اپنے دعویٰ کے اثبات میں ایک سند صحیح ہی پیش کریں ۔ ثعلبی سے ذکر کردہ روایت ضعیف ہے اور اس کے راوی متہم بالکذب ہیں ۔ باقی رہا فقیہ ابن المغازلی واسطی تووہ ضعیف سے بھی ضعیف تر ہے؛ اس کی کتاب اکاذیب کا پلندہ ہے۔ اس حقیت سے ہر وہ شخص آشنا ہے جو علم حدیث سے معمولی سی واقفیت بھی رکھتا ہے۔اور ہمارا صحیح سند کا مطالبہ ہردو کتابوں کو شامل ہے۔
پانچویں بات:....اگر آیت کا مطلب یہ قرار دیا جائے کہ حالت رکوع میں بھی زکوٰۃ ادا کی جائے ؛جیسا کہ ان کا کہنا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حالت نماز میں اپنی انگوٹھی صدقہ کی تھی؛ تو اس سے وجوباً موالات کی شرط ٹھہرے گی؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی مسلمان ولی نہیں بن سکے گا ۔ بنا بریں حسن و حسین رضی اللہ عنہما بھی موالات [دوستی]کے مستحق نہیں ہوں گے۔ اور نہ ہی باقی بنی ہاشم سے کوئی موالات و دوستی ہوگی ۔ یہ بات سب مسلمانوں کے اجماع کے خلاف ہے۔
چھٹی بات:....اس آیت میں ﴿الذین﴾ جمع کا صیغہ ہے۔ لہٰذا فرد واحد حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کا مصداق نہیں ہو سکتے ۔
ساتویں بات:....علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تعریف صرف کسی اچھے کام پر کی جاتی ہے۔وہ اچھا کام یا تو واجب ہوگا یا پھر مستحب۔ صدقہ ؛ غلام آزاد کرنا ؛ ہبہ ؛ ہدیہ ؛ اجارہ ؛ نکاح ؛ طلاق وغیرہ عقود کے معاملات نماز میں نہ ہی واجب ہیں اور نہ ہی مستحب ؛اس پر تمام مسلمانوں کا اتفاق و اجماع ہے ۔بلکہ اکثر علماء کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے سے نماز باطل ہوجائے گی اگرچہ وہ زبان سے بات نہ بھی کرے۔ بلکہ ایسے اشارہ سے بھی نماز باطل ہوجاتی ہے جس کا مفہوم سمجھا جا سکتا ہو۔علماء کرام کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : ایسا کرنے سے شرعی ایجاب نہ ہونے کی بنا پر ملکیت حاصل نہیں ہوگی۔
ظاہر ہے کہ نماز میں یہ کام کرنا فعل محمود نہیں ہے، اگر یہ اچھا[مستحب] کام ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی ایسا کرتے اور اس کی ترغیب دیتے۔ نیز حضرت علی رضی اللہ عنہ بار بار یہ فعل سرانجام دیتے۔اصل میں یہ فعل نماز کے منافی ہے پھر یہ کہنا کس حد تک درست ہے کہ ولی وہی شخص ہوگا جو حالت رکوع میں صدقہ کرے۔
جب نماز میں کوئی ایسی بات مشروع نہیں ہے۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ نماز میں صدقہ کرنا اعمال صالحہ میں سے نہیں ہے اور سائل کو دینے کا موقع ختم نہیں ہوسکتا ؛ جب انسان نماز سے فارغ ہوجائے تب بھی وہ صدقہ کرسکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نماز میں ایک طرح کا انہماک ہوتا ہے۔[اور اس میں حرکت یا فعل اس انہماک کے منافی ہے ]۔
آٹھویں بات:....اگر یہ بات مان لی جائے کہ نماز میں صدقہ دینا مشروع ہے ۔ تو پھر بھی رکوع کو اس کام کے لیے خاص نہیں کیا جاسکتا۔بلکہ قیام یاقعود کی حالت میں ایسا کرنا زیادہ آسان تھا۔تو پھر کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ تمہارا ولی وہی ہوسکتا ہے جو صرف رکوع کی حالت میں زکوٰۃ ادا کرے۔ تو کیا اگر کوئی حالت قیام یا قعود میں صدقہ کرے تووہ موالات اور دوستی کا مستحق نہیں ہوگا؟
٭ اگر [شیعہ]اس کے جواب میں یہ کہیں : اس سے مراد خصوصی طور پرحضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کرنا ہے ۔
٭ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ: ’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اوصاف جن کی وجہ سے آپ مشہور ہیں ‘ وہ بہت زیادہ اور صاف ظاہر ہیں ۔ پھر معروف باتوں کو چھوڑ کر ایسی باتیں کیوں بیان کی جاتی ہیں جنہیں کوئی جانتا ہی نہ ہو؟
جمہور مسلمین نے یہ خبر نہیں سنی۔اور نہ ہی مسلمانوں کی کسی معتمد کتاب میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی ہے ۔نہ ہی صحاح ستہ میں ؛ نہ ہی سنن میں ؛ نہ ہی جوامع اور معجمات میں اور نہ ہی امہات الکتب میں سے کسی ایک کتاب میں ایسی کوئی چیز پائی جاتی ہے ۔ تو اب دوباتوں میں سے ایک بات لازم آتی ہے :
۱۔ اگر اس سے مقصود وصف کی مدح کرنا ہے تویہ محال اور باطل ہے۔
۲ ۔ اور اگر اس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تعریف بیان کرنا تو بھی باطل ہے ۔
نویں بات:....اس سے کہا جائے گا کہ:﴿وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ﴾ تمہارے قول کے مطابق اس آیت کا تقاضا ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے والا رکوع کی حالت میں ہو۔ عہد رسالت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تنگ دست تھے اورزکوٰۃ ان پر فرض نہ تھی۔ چاندی کی زکوٰۃ اس شخص پر فرض ہوتی ہے جو نصاب کا مالک ہو اور اس پر ایک سال گزر جائے، مگر حضرت علی رضی اللہ عنہ صاحب نصاب نہ تھے۔
دسویں بات:....مزید براں اکثر علماء کے نزدیک زکوٰۃ میں انگوٹھی کا دینا کافی نہیں ہے۔اس کی صرف یہ صورت ہوسکتی ہے جب زیور پر بھی زکوٰۃ کو فرض مان لیا جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیور کی اسی جنس سے زکوٰۃ نکالی جائے گی۔جن لوگوں نے اس کے بجائے قیمت ادا کرنے کو جائز کہا ہے تو ایسے چیزوں میں کوئی متعین قیمت مقرر کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے کہ احوال کے اختلاف کی وجہ سے ان کی قیمتیں بھی بدلتی رہتی ہیں ۔
گیارھویں بات:....حقیقت یہ ہے کہ شیعہ مصنف کی ذکر کردہ آیت مندرجہ ذیل آیات کی مانند ہے اور ان میں کوئی فرق نہیں پایا جاتا ہے۔ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
۱....﴿وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ (البقرۃ:۴۳)
’’اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘
یہاں پر رکوع کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔
۲....﴿اُقْنُتِیْ لِرَبِّکِ وَاسْجُدِیْ وَارْکَعِیْ مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾(آل عمران:۴۳)
’’ اپنے رب کی اطاعت کرو اور سجدہ کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کر۔‘‘
یہ بھی کہا گیا ہے کہ : یہ ذکر ان الفاظ میں اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ لوگ جماعت کے ساتھ نمازپڑھتے تھے۔ اس لیے کہ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے والا جب رکوع کو پالے تو اسے رکعت مل جاتی ہے؛ بخلاف اس کے جو صرف حالت سجدہ میں نمازکو پاتا ہے ؛ اور رکوع اس سے چھوٹ جاتا ہے۔ اس سے رکعت بھی رہ جاتی ہے۔قیام میں ادراک شرط نہیں ہے۔
خلاصہ کلام! یہاں پر واؤ یا تو حالیہ ہے ؛ یا پھر واؤ عطف کا ہے۔ اکثر علماء کرام اسے عطف کا مانتے ہیں ۔ اور ایسے مواقع پرخطاب میں معروف یہی ہے۔رافضی مصنف کا قول اس وقت صحیح ہوتا جب یہ واؤ حالیہ ہوتا۔ اگر اس کے تعین پر دلیل نہ ہو تو حجت باطل ہوجاتی ہے۔ تو اس وقت کیا عالم ہوگا جب دلا ئل اس کے خلاف ہوں ۔
بارھویں وجہ :....سلف وخلف تمام مفسرین کے ہاں یہ بات عام طور سے معروف ہے کہ زیر نظر آیت موالات کفار سے روکنے اور اہل اسلام کے ساتھ دوستانہ مراسم استوار کرنے کے سلسلہ میں نازل ہوئی۔ غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاق کلام بھی اسی پر دلالت کرتا ہے۔نیزاس میں اہل ایمان کیساتھ دوستی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جبکہ بعض منافقین جیسے عبد اللہ بن ابی ابن سلول یہود سے دوستی رکھتا تھا اور کہتا تھا : میں گردش ایام سے ڈرتا ہوں ۔‘‘
اہل ایمان میں سے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے کہا : یارسول اللہ ! میں اللہ اور اس کے رسول سے دوستی کرتا ہوں ؛ میں ان کفار کے ساتھ اپنے اتحاد اور دوستی سے اللہ اور اس کے رسول کی جناب میں برأت کا اظہار کرتا ہوں ۔
یہی وجہ ہے کہ بنو قینقاع والے دن عبد اللہ بن ابی ابن سلول کی چالوں کی وجہ سے ان لوگوں پر وہ دن آگیا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔جس میں عمومی طور پر اہل ایمان کی محبت کو واجب کیا گیا تھا۔اور کفار کے ساتھ محبت اور دوستی سے منع کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے صحابہ اور تابعین رحمہم اللہ کا کلام گزر چکا ہے کہ یہ آیت صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص نہیں ۔
[متنازعہ آیت کی صحیح تفسیر]:
تیرھویں وجہ :....غورکرنے والے کے لیے یہ بات واضح ہوسکتی ہے کہ ا س آیت کا سیاق ہمارے اس موقف پر دلالت کرتا ہے ۔ اس لیے کہ اللہتعالیٰ نے فرمایا ہے:
﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَہُوْدَ وَ النَّصاٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَّ مَنْ یَّتَوَلَّہُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْہُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَہْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ﴾ [المائدۃ۵۱]
’’اے ایمان والو!تم یہود و نصاری کو دوست نہ بنا ؤ یہ تو آپس میں ہی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔ تم میں سے جو بھی ان میں سے کسی سے دوستی کرے وہ بیشک انہی میں سے ہے، ظالموں کو اللہ تعالیٰ ہرگز راہ راست نہیں دکھاتا۔‘‘
اس آیت میں یہود ونصاریٰ کے ساتھ دوستانہ مراسم قائم کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے بعد فرمایا:
﴿فَتَرَی الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ یُّسَارِعُوْنَ فِیْہِمْ یَقُوْلُوْنَ نَخْشٰٓی اَنْ تُصِیْبَنَا دَآئِرَۃٌ فَعَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّاْتِیَ بِالْفَتْحِ اَوْ اَمْرٍ مِّنْ عَنْدِہٖ فَیُصْبِحُوْا عَلٰی مَآ اَسَرُّوْا فِیْٓ اَنْفُسِہِمْ نٰدِمِیْنَ o وَ یَقُوْلُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ اَقْسَمُوْا بِاللّٰہِ جَہْدَ اَیْمَانِہِمْ اِنَّہُمْ لَمَعَکُمْ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فَاَصْبَحُوْا خٰسِرِیْنَ﴾ [المائدۃ ۵۲۔۵۳]
’’ جن لوگوں کے دلوں میں کھوٹ ہے آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بھاگ بھاگ کر ان( یہود ونصاریٰ) کی طرف جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمیں ( ان کے ساتھ دوستی نہ لگانے کی صورت میں ) کسی مصیبت میں گرفتار ہوجانے کا اندیشہ ہے۔ اللہ تعالیٰ عنقریب ہی کسی فتح یا کسی اوربات کی بشارت سنائے گا، جس سے وہ ان باتوں پر نادم ہوں گے، جو انھوں نے اپنے جی میں پوشیدہ رکھی تھیں ۔اور ایماندار کہیں گے، کیا یہی وہ لوگ ہیں جو بڑے مبالغہ سے اللہ کی قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں ۔ ان کے اعمال غارت ہوئے اور یہ ناکام ہوگئے۔‘‘
یہ ان لوگوں کا وصف بیان کیا جارہا ہے جن کے دلوں میں بیماری ہے [نفاق کا مرض ہے]۔ جوکہ کفار اور منافقین سے دوستی رکھتے ہیں ۔ پھراس کے بعد فرمایا:
﴿ یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَ یُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکٰفِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآئِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَ اللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ﴾ [المائدۃ ۵۴]
’’اے مؤمنو!تم میں سے جو شخص اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم کو لائے گا جو اللہ کی محبوب ہوگی اور وہ بھی اللہ سے محبت رکھتی ہوگی وہ نرم دل ہونگے مسلمانوں پر سخت اور تیز ہونگے کفار پر، اللہ کی راہ میں جہاد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ بھی نہ کریں گے یہ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل جسے چاہے دے، اللہ تعالیٰ وسعت اور زبردست علم والا ہے ۔‘‘
اس میں اللہ تعالیٰ نے مرتدین کا ذکر کیا ؛ او ریہ بھی بیان فرمایا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو ہر گز کوئی نقصان نہیں دے سکتے ۔اور اللہ تعالیٰ ان کی جگہ ایک دوسری قوم کو لے آئے گا۔ پھر اس کے بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ ہُمْ رٰکِعُوْنَ o وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ [المائدۃ ۵۵۔۵۶]
’’بیشک(مسلمانوں !)تمہارا دوست خود اللہ ہے اور اسکا رسول ہے اور ایمان والے ہیں جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں اور زکوٰۃادا کرتے ہیں اور (خشوع و خضوع کیساتھ)رکوع کرنے والے ہیں ۔اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی ۔‘‘
یہ کلام ان لوگوں کے احوال کو متضمن ہے جومنافقین میں سے اسلام میں داخل ہوئے۔ اور مرتدین کے حال کو بھی متضمن ہے ۔ اور ان لوگوں کے حال کو بھی شامل ہے جو ظاہری و باطنی طور پر اسلام و ایمان پر ثابت قدم رہے۔
اس سیاق پر جو بھی انسان غور و فکر کر ے گا ؛ اسے علم الیقین حاصل ہوجائے گا یہ آیت ان تمام مؤمنین کے لیے عام ہے جو ان صفات سے موصوف ہیں ۔کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں ۔نہ ہی حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور نہ ہی عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نہ ہی عثمان و علی رضی اللہ عنہما یا کسی دوسرے کے ساتھ۔ مگریہ حضرات سابقین اوّلین صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان میں بالاولیٰ داخل ہیں ۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ اورمخالفین ....؟:
چودھویں وجہ :....جو شخص بھی اس روایت کے مذکورہ الفاظ میں غوروفکر کرے گا اس پر شیعہ مصنف کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر دروغ گوئی واضح ہوجائے گی کہ’’ علی رضی اللہ عنہ تمام نیکوں کے قائدنہیں ؛بلکہ تمام نیکوں کے قائد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ایسے ہی آپ تمام کفار کے قاتل بھی نہیں ہیں ،بلکہ آپ نے کچھ کفار کو قتل کیا ہے ؛ جیسا کہ آپ کے علاوہ دوسرے لوگوں نے بھی کچھ کفار کو قتل کیا ہے۔آپ بھی کفار کو قتل کرنے والے مجاہدین میں سے ایک تھے۔اور بعض کفار آپ نے ضرور قتل کیے ہیں ۔
ایسے ہی شیعہ کا قول کہ :’’ جو ان کی مدد کرے گا اس کی مدد کی جائے گی۔اور جو ان کو بے یارومددگار چھوڑے گاتو اسے بے یارومددگار چھوڑ دیاجائے گا۔‘‘
یہ خلاف واقع ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حق بات کے علاوہ کچھ بھی نہیں فرماتے؛ خصوصاً شیعہ کے قول کے مطابق ۔ اس لیے کہ شیعہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ پوری امت نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بے یار و مددگار چھوڑے رکھا ۔ [اور اگر شیعہ کی ذکر کردہ تفسیر صحیح ہوتی تو جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کاساتھ چھوڑا تھا اور ان کی مدد کا حق ادا نہیں کیا تھا وہ ذلیل و خوار ہو جاتے حالانکہ ایسا نہیں ہوا۔ بلکہ وہ مظفر و منصور ہوئے اور انھوں نے بلاد فارس و روم اور قبط کو فتح کیا۔] یہ تاریخ کی مسلمہ حقیقت ہے کہ امت مسلمہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت تک ہر میدان میں کامیاب و کامران اور منصور رہی، ایسا غلبہ بعد میں کبھی حاصل نہیں ہوا۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد امت کا شیرازہ بکھر گیا۔ ایک گروہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاون تھا اور دوسرا مخالف۔ تیسرا گروہ بالکل غیر جانبدار تھا۔انہوں نے کسی بھی فریق کا ساتھ نہیں دیا۔ اور جن لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا اور جنگیں لڑیں ۔ وہ دوسرے لوگوں پر حتی کہ کفار پر بھی غالب نہ آسکے۔ بلکہ دوسرے لوگ ہی ان پر غالب رہے۔ اور اس معاملہ کی ڈور ان کے ہاتھوں میں رہی۔ اس کے برعکس جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ خلیفہ بن گئے تو مسلمانوں کو پھر سے کفار پر فتح نصیب ہوئی۔ انہوں نے علاقے فتح کرنا شروع کیے ۔ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے دوسرے بھائیوں کی طرح خوارج پر منصور و کامیاب رہے ہیں ۔
اس کے برعکس وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے کفار اور مرتدین سے قتال کیا تھا؛ اللہ تعالیٰ نے ان کی نصرت فرمائی اور بہت بڑی کامیابی سے نوازا ۔ اور ایسے ہی نصرت نصیب ہوئی جیسے اللہ کا وعدہ تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ [غافر۵۱]
’’ یقیناً ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد زندگانی دنیا میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ۔‘‘
وہ قتال جس کا حکم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا تھا؛ جومؤمنین نے آپ کے ساتھ مل کر کفار و[ منافقین] مرتدین اور خوارج سے کیا ؛ اس میں یقین تقوی وصبر کی وجہ سے کامیاب رہے او ربہت بڑی نصرت و فتح نصیب ہوئی۔اس لیے کہ تقوی اور صبر و بنیادی ایمانی عنصر ہیں جن کے ساتھ فتح و نصرت معلق رہتی ہے۔
ایسے ہی [شیعہ مصنف کی ذکر کردہ ]وہ دعا جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ا نگوٹھی صدقہ کرنے کے بعد کی اس کا جھوٹ ہونا صاف ظاہر ہے ۔یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ضرورت کے وقت کہیں بہت زیادہ اللہ کی راہ میں خرچ کیا جس کا بہت بڑا فائدہ بھی حاصل ہوا؛ یہ صدقہ یقیناً انگوٹھی کے صدقہ کرنے سے بہت زیادہ تھا۔
صحیحین میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا ؛ جتنا فائدہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے ۔‘‘
’’میں سب لوگوں سے زیادہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال او ررفاقت کاممنون ہوں ۔‘‘
اگر میں اہل زمین سے کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت کسی شخص کے ساتھ مختص نہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا کسی شخص کی کھڑکی مسجد کی جانب کھلی نہ رہے۔‘‘[اس کی تخریج گزرچکی ہے]
[صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 1138 ۔ حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض وفات میں منبر پر تشریف فرما ہوئے اور آپ نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک بندہ کو اختیار دیا کہ وہ دنیا اور اس کی تروتازگی کو اختیار کرلے یا اللہ کے پاس جو نعمتیں ہیں انہیں اختیار کرلے تو اس بندہ نے اللہ کے پاس والی نعمتوں کو اختیار کرلیا ۔یہ سن کر ابوبکر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔میں نے (]
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک کے موقع پر اللہ کی راہ میں ایک ہزار اونٹ صدقہ میں دیئے ۔حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ جو بھی کرے گا ‘ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘‘ [اپنے دل میں کہا: یہ بڈھا کیوں رو رہا ہے ؛ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو ایک بندہ کا حال بیان فرما رہے ہیں کہ اللہ نے اس کو دنیا کی تروتازگی اور اپنے پاس کے انعامات کے درمیان اختیار دیاہے-؛ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اختیار دیا گیا تھا -اس اشارہ کو حضرت ابوبکر سمجھ گئے تھے اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہم میں سب سے بڑے عالم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ !رونا نہیں ؛ اپنی رفاقت اور مال کے اعتبار سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ہے اگر میں اپنی امت میں سے کسی کو خلیل [دوست حقیقی] بناتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا لیکن اسلامی دوستی کافی ہے ۔دیکھومسجد میں سوائے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دریچہ کے اور کوئی دریچہ کھلا ہوا باقی نہ رہے۔‘‘ [الترمذي ۵؍۲۸۹]؛یہ پوری حدیث اس طرح ہے: ’’حضرت عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک ہزار دینار لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس راویت میں ہے:....’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دیناروں کو اپنی گود میں ہی الٹ پلٹ رہے تھے اور فرما رہے تھے :’’ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کو کوئی گناہ ضرر نہیں پہنچا سکے گا‘‘ تین مرتبہ یہی فرمایا۔ یہ حدیث اس سند سے حسن غریب ہے۔یہ حدیث حضرت عبدالرحمن بن خباب کی سند سے بھی مذکور ہے؛ جس میں ہے: ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غزوہ تبوک کے لیے تیاری کے متعلق ترغیب دیتے ہوئے دیکھا۔ چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! سو اونٹ، پالان اور کجاوے وغیرہ سمیت میرے ذمے ہیں ؛ جو اللہ کی راہ کے لیے وقف ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب دی تو عثمان رضی اللہ عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے میں دو سو اونٹ پالان اور کجاوے وغیرہ سمیت اپنے ذمے لیتا ہوں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر ترغیب دی تو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تیسری مرتبہ کھڑے ہوئے اور تین سو اونٹ اپنے ذمے لیے۔‘‘ راوی کہتے ہیں کہ:’’ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے یہ کہتے ہوئے نیچے تشریف لے آئے کہ آج کے بعد عثمان کچھ بھی کرے اس کا مؤاخذہ نہیں ہوگا۔ آج کے بعد عثمان رضی اللہ عنہ کے کسی عمل پر اس کی پکڑ نہیں ہوگی۔‘‘ یہ حدیث اس سند سے غریب ہے۔ محقق نے ان دونوں اسناد کو ضعیف کہا ہے۔]
ایسے ہی اسلام کے شروع کے ایام میں اقامت دین کے لیے جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کیا گیا ؛ اس کی کوئی مثال باقی نہیں رہی ۔جب کہ سائل کو ضرورت کے وقت کچھ دے دینا ایسی نیکی ہے جو قیامت تک کے لیے باقی ہے ۔ جب اتنے عظیم الشان اور نفع بخش اور اہم ترین صدقات کے لیے بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی ایسی دعا نہیں فرمائی تو پھر ایک سائل کو انگوٹھی دینے کی وجہ سے ایسی دعا کرسکتے ہیں ؛ حالانکہ یہ احتمال بھی ہے کہ وہ سائل اپنے سوال میں جھوٹا ہو؟
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ روایت اور اس جیسی دوسری روایات ایک جاہل انسان کا من گھڑت جھوٹ ہے جس میں وہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی برابری کرنا چاہتا ہے ۔ [ابو بکر رضی اللہ عنہ کی شان میں ] اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی oالَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰی o وَمَا لِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیo اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی oوَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ [اللیل ۱۷۔۲۱]
’’ اور عنقریب اس سے وہ بڑا متقی دور رکھا جائے گا۔جو اپنامال دیتا ہے کہ پاک ہو جائے حالانکہ اس کے ہاں کسی کا کوئی احسان نہیں ہے کہ اس کا بدلہ دیا جائے۔مگر اپنے اس رب کی رضا مندی طلب کرنے کے لیے (د یتا ہے)جو سب سے بلند ہے۔ اور یقیناً عنقریب وہ راضی ہو جائے گا ۔‘‘
[من گھڑت روایت کا پس پردہ محرک]:
[رافضی مصنف چاہتا ہے کہ ] اس طرح کے فضائل جناب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے بھی ثابت کیے جائیں ۔ پس وہ ایسا نہیں کرسکا کہ شروع اسلام کے دنوں کے متعلق کوئی روایت گھڑ لیتا ؛ تو اس کی جگہ یہ روایت گھڑلی جسے صرف جاہل لوگوں میں پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے۔ [جوحقائق جاننے والے لوگ ہیں وہ اس جھوٹ کو فوراً پکڑلیتے ہیں ]۔
نیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے مدینہ طیبہ ہجرت کرنے اور نصرت و مدد حاصل ہونے کے بعد یہ کیسے ممکن ہے کہ آپ یہ دعا فرمائیں کہ اے اللہ ! میرے اہل خانہ میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو میرا وزیر بنا دے ؛ اور اس سے میری پشت کو مضبوط کردے ۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت سے اورپھر مؤمنین کے ذریعہ آپ کی مدد فرمائی ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ [الأنفال۶۲]
’’[اللہ آپ کو کافی ہے] اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے آپ کی تائید کی ہے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِلَّا تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لَاتَخْزَنْ اِنَّ اللّٰہَ مَعَنَا﴾ [التوبۃ۴۰]
’’اگر تم ان (نبی صلی اللہ علیہ وسلم )کی مدد نہ کرو تو اللہ ہی نے ان کی مدد کی اس وقت جبکہ انہیں کافروں نے(دیس سے) نکال دیا تھا، دو میں سے دوسرا جبکہ وہ دونوں غار میں تھے جب یہ اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ غم نہ کر اللہ ہمارے ساتھ ہے ۔‘‘
شروع اسلام میں انفاق سبیل اللہ اور دین کی اقامت کے لیے خرچ کرنا ایک سائل پر خرچ کرنے سے بہت زیادہ باعث عظمت [و اجر و ثواب] تھا۔یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! ، اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کر دے تو ان کے پاسنگ کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔‘‘[ تخریج گزرچکی ہے]
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿لَا یَسْتَوِی مِنْکُمْ مَنْ اَنْفَقَ مِنْ قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ اُوْلٰٓئِکَ اَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنْ الَّذِیْنَ اَنْفَقُوْا مِنْ بَعْدُ وَقَاتَلُوْا وَکُلًّا وَعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنَی﴾ [الحدید۱۰]
’’ تم میں سے جنہوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وہ(دوسروں کے) برابر نہیں بلکہ ان کے بہت بڑے درجے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہادکیا،ہاں بھلائی کا وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا ان سب سے ہے ۔‘‘
جس وقت کفار نے آپ کو نکالا ؛ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کی مدد فرمائی اس وقت آپ دو تھے ایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ۔ اور غزوہ بدر کے موقع پر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے جھونپڑہ یا خیمہ لگایا گیا؛ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے اس خیمہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ داخل ہونے والے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت میں مبارک حصہ اور قابل صد شکر کوششیں ہیں ۔[اللہ انہیں جزائے خیر سے نوازے ]۔
یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ جب احد کے دن حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی تلوار لیکر آئے تو حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دیتے ہوئے کہا: ’’ اسے دھوڈالو؛ اس میں مذمت کی کوئی بات نہیں ‘ آج اس نے مجھے سچا کر دکھایا ہے ۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: ’’ اگر تم نے یہ اچھائی اور نیکی کی ہے تو یقیناً فلاں اور فلاں اور فلاں نے بھی ایسی کارکردگی دیکھائی ہے ۔‘‘[تاریخ ابن کثیر ۴؍۴۷]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امثال وہمنوا صحابہ کوچھوڑ کر صرف آپ کی کوئی خصوصیت نہیں ہے ۔ اور نہ ہی کسی ایسے موقع کا علم ہوسکا ہے جہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو باقی صحابہ کو چھوڑ کر صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مدد کی ضرورت پڑی ہو۔نہ ہی زبانی کلامی مدد کی ضرورت پڑی اور نہ ہی جانی طور پر ۔
[ اہل اسلام پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کا الزام]:
یہ ایک بدیہی بات ہے کہ لوگوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان اور آپ کی اطاعت شعاری صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وجہ سے نہ تھی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو دعوت دی ہو؛ اور نہ ہی اس کے علاوہ کوئی اور خاص سبب تھا جیسے حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کے مابین اسباب تھے۔ بخلاف ازیں بنی اسرائیل ہارون علیہ السلام کو بے حد چاہتے تھے اور موسیٰ علیہ السلام سے خائف و ہراساں رہتے تھے۔ ہارون علیہ السلام ان سے الفت و محبت کا سلوک روا رکھتے تھے۔
روافض کا دعویٰ ہے کہ اہل اسلام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور ان کے بارے میں جو نص تھی اس کو پوشیدہ رکھا۔ پھر یہ کہنا کیوں کر درست ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اسی طرح محتاج تھے جس طرح موسیٰ ہارون کے ؟ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو لیجیے؛ ان کے دستِ حق پرست پر عشرہ مبشرہ میں سے چھ صحابہ نے اسلام قبول کیا تھا ؛ان صحابہ کے نام ہے ہیں :عثمان ،طلحہ،زبیر؛ سعد، عبدالرحمن بن عوف، ابوعبیدہ(رضی اللہ عنہم)۔
مگر ہمیں نہیں معلوم کہ سابقین اوّلین مہاجرین و انصار صحابہ میں سے کسی نے بھی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ یا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پراسلام قبول کیا ہو۔حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ سابقین صحابہ میں شامل ہیں ۔عقبہ کی رات جب انصار نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مدینہ طیبہ روانہ فرمایا۔ان کے ہاتھ پرانصار کے سرداران جیسے حضرت اُسید بن حضیر رضی اللہ عنہ اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تھا۔ سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ وہ انسان ہیں جن کی موت پر اللہ تعالیٰ کا عرش کانپ گیا تھا۔‘‘ [البخارِیِ5؍35؛ ِکتاب مناقِبِ الأنصارِ، باب مناقِبِ سعدِ بنِ معاذ رضِی اللہ عنہ ، والحدیث عن جابِر وأنسِ بنِ مالکِ رضِی اللّٰہ عنہما فِی: مسلِم 4؍1915 ؛ کتاب فضائِلِ الصحابۃِ، باب مِن فضائِلِ سعدِ بنِ معاذ رضِی اللہ عنہ ؛ سنن التِرمِذِیِ 5؍353 کتاب المناقب، باب مناقِبِ سعدِ بنِ معاذ، وقال التِرمِذِی: وفِی البابِ عن أسیدِ بنِ حضیر وأبِی سعِید رمیثۃ، والحدیث فِی سنن ابن ماجہ ومسندِ أحمد۔]
موسم حج میں حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلتے اور کفار کو اسلام کی دعوت دیتے ۔اور دعوت کے میدان میں آپ کی بہت بڑی مدد کرتے ۔بخلاف دوسرے لوگوں کے [انہیں شروع ایام ِاسلام میں یہ سعادت نصیب نہ ہوئی تھی]۔یہی وجہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا:
’’اگر میں اہل زمین میں سے کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔‘‘[حوالہ گزرچکاہے]۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا:
’’اے لوگو! مجھے تمہاری طرف مبعوث کیا گیا ؛ میں نے کہا: میں اللہ کا رسول ہوں ؛ تم نے کہا : جھوٹ بولتے ہو۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ سچ فرماتے ہیں ۔ کیا تم میرے دوست کو میری خاطر نہیں چھوڑو گے ۔‘‘ [البخاری ۵؍۵]
پھر موسیٰ علیہ السلام نے یہ دعا کفار کو اسلام کی دعوت پہنچانے سے پہلے کی تھی؛ تاکہ آپ کو مددگار میسر آجائے۔اور ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مبعوث ہونے کے وقت سے اکیلے ہی لوگوں تک دین کی دعوت پہنچانی شروع کردی تھی۔اور باتفاق اہل علم سب سے پہلے جو لوگ ایمان لائے وہ چار ہیں :’’مردوں میں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ؛ عورتوں میں سے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ؛ بچوں میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ؛ اور غلاموں میں سے حضرت زید رضی اللہ عنہ ۔
اس جماعت میں سے دعوت کے میدان میں سب سے نفع بخش ہستی بالاتفاق حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر ان کے بعد حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ۔ اس لیے کہ آزاد مردوں میں بالاتفاق حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ایمان لانے والے پہلے شخص تھے۔ اور اس کے ساتھ ہی آپ اپنی جان و مال سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احسان کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ مگر اس کے باوجود رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی یہ دعا نہیں فرمائی کہ اللہ تعالیٰ کسی کے ذریعہ ان کی پشت کو مضبوط کردے ؛ نہ ہی ابوبکر رضی اللہ عنہ کے لیے یہ دعا کی اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کرتے ہوئے ؛ اس پر توکل کرتے ہوئے صبر و استقامت کے ساتھ ویسے ہی اٹھ کھڑے ہوئے جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُمْ فَاَنذِرْ oوَرَبَّکَ فَکَبِّرْ oوَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ oوَالرُّجْزَ فَاہْجُرْ oوَلَا تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ oوَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ ﴾ [المدثر ۲۔۷]
’’ اٹھیے کھڑے ہوجائیں ، پس ڈرائیے۔اور اپنے رب کی بڑائی بیان کر۔اور اپنے کپڑے پس پاک رکھ۔
اورپلیدگی کو پس چھوڑ دیں ۔اور( اس نیت سے) احسان نہ کر کہ زیادہ حاصل کرے۔اور اپنے رب ہی کے لیے پس صبر کر ۔‘‘
اوراللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ ﴾ [ھود ۱۲۳]
’ پس آپ اسی کی عبادت کریں اور اسی پر بھروسہ رکھیں ۔‘‘
جو انسان یہ خیال کرتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا کہ وہ لوگوں میں سے کسی شخص کے سبب سے آپ کی پشت مضبوط کردے ؛ جس طرح حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا تھا کہ میرے بھائی ہارون علیہ السلام سے میری پشت کو مضبوط کردے؛ تو یقیناً اس انسان نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں کوتاہی کی؛ اور آپ پر اپنی طرف سے ایک بہتان گھڑ لیا۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ رافضیت شرک و نفاق اور الحاد سے نکلی ہوئی ہے۔ کبھی ان سے اس الحاد کا اظہار ہو جاتا ہے اور کبھی مخفی و پوشیدہ رہتاہے۔
[موالات (دوستی)کی حقیقت]:
پندرھویں وجہ :....ان سے کہا جائے گا کہ: اہل ایمان پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے دوستی رکھنا واجب ہے۔ پس وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی دوستی رکھتے ہیں ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت و دوستی ہر ایمان والے انسان پر ایسے ہی واجب ہے جیسے دوسرے اہل ایمان کی محبت ودوستی اہل ایمان پر واجب ہے۔
اللہ تعالیٰ موالات کے بارے میں فرماتے ہیں :
﴿وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [التحریم۴]
’’اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی تو یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل اور نیک ایماندار ۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جو بھی صالح مومن ہو اللہ تعالیٰ، اور جبریل امین سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مولیٰ ہیں اور آپ ان کے مولیٰ ہے۔جب صالح مؤمنین آپ کے مولی ہیں ؛ اللہ تعالیٰ بھی آپ کا مولی ہے؛ جبریل امین بھی آپ کے مولی ہیں ؛ اس کا معنی یہ نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے متولی و متصرف ہو نگے ۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَائُ بَعْضٍ﴾ (التوبۃ:۷۱)
مومن مرد اور عورتیں باہم ایک دوسرے کے مولیٰ ہیں ۔‘‘
آیت سے معلوم ہوا کہ ہر مومن و متقی اللہکا ولی اور اس کا دوست ہے۔ اس سے کہیں بھی یہ مراد نہیں نکلتی کہ یہ آپس میں ایک دوسرے پر امیر ہوں یا معصوم ہوں ؛ یا پھر اس مولی کے بغیر کوئی دوسرا متولی نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَآ اِنَّ اَوْلِیَآئَ اللّٰہِ لَا خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَ لَا ہُمْ یَحْزَنُوْنَ o الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ [یونس ۶۲۔۶۳]
’’آگاہ رہوکہ اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی اندیشہ ہے اور نہ وہ غمگین ہوتے ہیں ۔یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے اور (برائیوں سے)پرہیز رکھتے ہیں ۔‘‘
پس ہر ایمان والا مؤمن شخص اللہ کا دوست ہے اور اللہ اسے دوست رکھتاہے۔ جیسا کہ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ (البقرۃ:۲۴۷)
’’ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا دوست ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ذٰلِکَ بِاَنَّ اللّٰہَ مَوْلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَاَنَّ الْکٰفِرِیْنَ لَا مَوْلَی لَہُمْ ﴾ [محمد ۱۱]
’’اس لیے کہ ایمان والوں کا کارساز خود اللہ تعالیٰ ہے اور اس لیے کہ کافروں کا کوئی کارساز نہیں ۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ ہَاجَرُوْا وَ جٰہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا ....وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ﴾ [الأنفال ۷۲۔۷۵]
’’ جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی ........اور رشتے ناطے والے ان میں سے بعض بعض سے زیادہ نزدیک ہیں اللہ کے حکم میں بیشک اللہ تعالیٰ ہرچیز کا جاننے والا ہے ۔‘‘
ان تمام نصوص میں اہل ایمان کے مابین موالات اور دوستی ثابت ہے۔یہ اس کا دوست ہے ؛ وہ اس کا ولی و دوست ہے ؛ اورتمام اہل ایما ن اللہ کے ولی اور آپس میں دوست ہیں ‘ اور اللہ او راس کا رسول اور فرشتے بھی اہل ایمان کے دوست ہیں ۔
مذکورہ صدر آیات میں یہ کہیں بھی مذکور نہیں کہ جو کسی کا ولی ہو گا وہ اس کا متولی بھی ہو گا،اس کے علاوہ کوئی بھی اس کا متولی نہیں ہوگا۔ اور اس ولی کو اس پر متصرف بھی سمجھا جائے گا؛ باقی لوگوں کو نہیں ۔
[ولی اور متولی میں فرق]:
سولھویں وجہ :....وِلایت [واؤ کے نیچے زیر کے ساتھ ]اور وَلایت [واؤ کے اوپر زبر کیساتھ] کا فرق علماء میں عام طور پر معروف ہے۔ وَلایت عداوت کی ضد ہے ؛ ان نصوص میں اسی کا ذکر کیا گیا ہے۔اس سے وِلایت مراد نہیں جو کہ حکومت اور امارت کے معنی میں ہے۔ شیعہ کی جہالت کا یہ عالم ہے وہ ولی کو امیر سمجھتے ہیں ۔اور وَلایت اور وِلایت میں کوئی فرق نہیں کر پاتے ۔ چنانچہ امیر کو والی کہتے ہیں اور ولی نہیں کہتے۔ہاں اسے ولی الامر کہا جاتا ہے۔جیسے کہا جاتا ہے: (ولیت أمرکم) یعنی تمہارے امور کی زمام کار مجھے سونپی گئی ہے۔
جب کہ والی کے ارادہ سے مولی کا لفظ بولنا بھی اہل عرب کے ہاں معروف نہیں ہے ۔ [وہ اس لفظ کو ان معانی میں استعمال کرنا جانتے ہی نہیں ]۔بلکہ ولی کو مولی کے معنی میں استعمال کیا جاتا ہے والی کے معنی میں نہیں ۔
یہی وجہ ہے کہ فقہاء نے اس مسئلہ میں اختلاف کیا ہے کہ جب والی اور ولی دونوں جنازہ میں موجود ہوں تو جنازہ کون پڑھائے ،بعض نے کہا ہے کہ والی کو مقدم کیا جائے گا؛یہ اکثر علماء کا قول ہے۔اور بعض کہتے ہیں : ولی کو مقدم کیا جائے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ موالات معادات کی ضد ہے۔یہ وَلایت تمام اہل ایمان کے مابین ثابت ہے۔یہ وصف خلفاء اربعہ ؛ تمام اہل بدر اور اہل بیعت رضوان کے مابین بھی ثابت ہے۔ان میں سے ہر ایک دوسرے کا ولی اور دوست ہے۔اس آیت میں کہیں بھی یہ دلیل نہیں ہے کہ ان میں سے کوئی ایک دوسرے پر امیر ہے۔بلکہ یہ نظریہ کئی وجوہات کی بنا پر باطل ہے۔
اگر شیعہ مصنف کی اس ولایت سے مراد امارت ہو؛ تو اسے یوں کہنا چاہیے تھا: بیشک تم پر اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان متولی ہیں ۔اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متولی کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔ کیونکہ عربی زبان میں دوست کے لیے ولی اور حاکم کے لیے متولی یا والی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ کیونکہ لفظ ولی اور ولایت میں اور والی میں بہت بڑا فرق ہے۔یہ آیت تمام مؤمنین کے لیے عام ہے جب کہ امارت تمام لوگوں کے لیے عام نہیں ہوسکتی۔
سترھویں وجہ:....اگر اس ولایت سے مراد امارت ہوتی تویوں کہا جاتا:’’ بیشک تم پر اللہ اور اس کا رسول اور اہل ایمان متولی ہیں ۔اس نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے متولی کا لفظ استعمال نہیں کیا ۔اس لیے کہ جس کو امیر بنایا جاتا ہے اس کے لیے والی کا لفظ استعمال کرتے ہیں کیونکہ عربی زبان میں دوست کے ولی اور حاکم کے لیے متولی یا والی کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔
اٹھارھویں وجہ: ....اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے لیے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ اپنے بندوں پر متولی ہے ۔یا وہ ان کا امیر ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی شان اس سے بہت بلند ہے۔بلاشبہ اللہ تعالیٰ ہی ان کا خالق و مالک اور رازق ہے؛ ان کا رب اور بادشاہ ہے۔تمام خلقت اسی کی ہے ؛ اور حکم اس کا چلتا ہے۔ ایسے نہیں کہا جاسکتا کہ اللہ تعالیٰ امیر المؤمنین ہے؛جیسا کہ متولی کو کہا جاتا ہے۔مثلاً حضرت علی رضی اللہ عنہ امیر المؤمنین۔ بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپ لوگوں پر متولی ہیں ۔یا آپ ان کے امیر ہیں ۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اس سے بہت بلند ہے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو صحابہ کرام امیر المؤمنین نہیں کہتے تھے؛ بلکہ آپ خلیفہ ء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب سے یاد کرتے تھے۔ سب سے پہلے جن کے لیے امیر المؤمنین کا لفظ استعمال کیا گیا وہ حضرت امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں ۔
ایک روایت میں ہے حضرت عبد اللہ بن جحش رضی اللہ عنہ ایک سریہ پر امیر تھے۔تو آپ کو امیر المؤمنین کہہ کر پکارا گیا۔ لیکن آپ کی یہ امارت اس سریہ کے ساتھ خاص تھی۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے پہلے کسی کو بھی مسلمانوں کی امارت کی وجہ سے امیر المؤمنین کہہ کر نہیں پکارا گیا۔اورحقیقت میں آپ ہی اس نام کے سب سے زیادہ حق دار تھے۔
وَلایت عداوت کی ضدہے۔بیشک اللہ تعالیٰ نیک اہل ایمان سے دوستی رکھتاہے۔اہل ایمان اس سے محبت کرتے ہیں اور وہ اہل ایمان سے محبت کرتا ہے ۔ وہ ان سے راضی ہوتا ہے ؛ یہ اس سے راضی ہوتے ہیں ۔اور جو اللہ کے کسی ولی سے دشمنی رکھتا ہے گویا وہ اللہ تعالیٰ سے اعلان جنگ کرتا ہے۔یہ ولایت اس کی رحمت اور احسان ہے۔یہ مخلوق کی آپس میں ولایت اور دوستی کی طرح نہیں ہے جو کسی ضرورت پر مبنی ہوتی ہے۔ فرما ن الٰہی ہے:
﴿وَ قُلِ الْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ لَمْ یَتَّخِذْ وَلَدًا وَّ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِ وَ لَمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ ﴾ [الإسراء۱۱۱]
’’ اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک ساجھی رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو ۔‘‘
پس ایسا نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے کہ اسے کسی کی ضرورت ہو؛ بلکہ اللہ تعالیٰ توخود یہ فرماتے ہیں :
﴿مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا ﴾ [فاطر۱۰]
’’ جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو تو اللہ تعالیٰ ہی کی ساری عزت ۔‘‘
بخلاف بادشاہوں کے؛ بادشاہ جن لوگوں سے دوستی کرتے ہیں ‘ وہ اپنی ضرورت کے لیے ان سے دوستی کرتے ہیں ۔ [اس لیے کہ وہ اس طرح سے اپنے مددگار پیدا کرتے ہیں ] ورنہ ان کا کوئی مددگار نہیں ہوتا۔
انیسویں وجہ:....جس پر بھی کوئی عادل امام حاکم بن جائے اس کے لیے لازمی نہیں ہے کہ اللہ کی جماعت میں سے ہو ‘ اور ہمیشہ غالب ہی رہے۔بلکہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ عادل حکمران کفار اور منافقین پر بھی حکومت کرتے ہیں ۔مدینہ طیبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے تحت منافق اورذمی بھی رہتے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حکمرانی میں کفار بھی تھے اور منافقین بھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ وَمَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰہِ ہُمُ الْغٰلِبُوْنَ﴾ [المائدۃ ۵۶]
’’اور جو شخص اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول سے اور مسلمانوں سے دوستی کرے، وہ یقین مانے کہ اللہ تعالیٰ کی جماعت ہی غالب رہے گی ۔‘‘
اگر یہاں پر مرادامارت یا حکومت ہوتی تو پھر معنی یہ ہوتا کہ جو کوئی بھی اہل ایمان پر والی بن جائے ؛ وہ اللہ کی غالب آنے والی جماعت میں سے ہوگا۔ ایسا نہیں ہے ۔اس لیے کہ کفار اور منافقین اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضاء و قدر کے ماتحت ہیں ‘حالانکہ اللہ تعالیٰ کفار سے دوستی نہیں کرتا ؛ بلکہ ان سے نفرت کرتا ہے۔