Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے اثبات میں دوسری دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے اثبات میں دوسری دلیل:

اشکال:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت علی رضی اللہ عنہ (بلا فصل ) کی دوسری دلیل یہ آیت قرآنی ہے:

﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ﴾ [المائدۃ ۶۷]

’’ اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی ۔‘‘

بالاتفاق یہ آیت کریمہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ -جمہور میں سے-ابو نعیم اپنی سند سے ابن عطیہ سے روایت کرتے ہیں ‘ آپ بیان کرتے ہیں کہ یہ ’’ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں اتری۔‘‘

تفسیر ثعلبی میں ہے:اس کا معنی یہ ہے کہ : ’’ آپ کے رب نے آپ پر جو کچھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کے بارے میں نازل کیا ہے ؛ اس کی تبلیغ کیجیے ۔ اس کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘’’ جس کا میں مولی ہوں ‘ علی بھی اس کا مولی ہے ۔‘‘

ظاہر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کے اجماعاً مولیٰ تھے، بنا بریں حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے بھی مولیٰ ہوں گے ۔ لہٰذا وہی امام برحق ہوں گے۔

تفسیر ثعلبی میں ہے:’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خُمّ کے روز صحابہ کو پکارا جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘

چنانچہ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح مشہور ہو گئی، جب حارث بن نعمان فہری رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ ارشاد مبارک سنا تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر مدینہ پہنچا۔ اپنااونٹ وادی میں بٹھایااور اس کو باندھ دیا؛پھروہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ آپ چند صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا:

’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں دو شہادتوں کا حکم دیا؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ نہیں ہمیں پانچ نمازوں کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی،پھر آپ نے ہمیں اپنے اموال سے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔ اور آپ نے ہمیں حکم دیاکہ ماہ رمضان کے روزے رکھیں ؛ہم نے آپ کی بات مان لی؛آپ نے ہمیں بیت اللہ کا حج کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے ۔اب آپ نے اپنے چچا زاد بھائی علی کا سر اونچا کردیا اور اس کو ہم پر فوقیت بخشی ہے،اور آپ نے فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘ کیا آپ اپنی طرف سے یہ کہہ رہے ہیں یا اللہکے حکم سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: اللہکی قسم! یہ اللہکا حکم ہے۔‘‘ چنانچہ حارث یہ کہتے ہوئے اپنی سواری کی طرف رخصت ہو گیا کہ:’’اے اللہ! اگر یہ بات تیری جانب سے حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسایا ہمیں درد ناک عذاب میں مبتلاکر۔‘‘

ابھی وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچا تھا کہ ایک پتھر اس کے سر پر گر ااور دُبر سے نکل گیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ تب یہ آیت اتری:[اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]:

﴿سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ oلِّلْکٰفِرینَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ oمِّنَ اللّٰہِ﴾ [المعارج۱۔۳]

’’ ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں ۔اللہ کی طرف سے ۔‘‘

نقاش نے بھی اپنی تفسیر میں یہ روایت بیان کی ہے۔(شیعہ مصنف کا بیان ختم ہوا)

جواب: اس کے جواب میں کئی نکات ہیں : 

پہلی وجہ : ہم کہتے ہیں کہ یہ دلیل پہلی دلیل سے بھی زیادہ جھوٹی ہے۔ہم آگے چل کر اس کی تفصیل بیان کریں گے ۔ ان شاء اللہ وتعالیٰ۔ رافضی کا یہ قول کہ یہ آیت بالاتفاق حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘

یہ بہت بڑا اورصریح کذب ہے جوکہ اس آیت کی تفسیر میں کہاگیاہے۔ بلکہ یہ بات کسی بھی ایسے عالم نے نہیں کہی جو تفسیر کو اچھی طرح جانتاہے ۔

باقی رہیں ابو نعیم، ثعلبی اور نقاش اورواحدی کی تصانیف تو محدثین کرام کا اتفاق ہے کہ ان کتب میں لا تعداد جھوٹی روایات موجود ہیں ۔اورثعلبی کی اس روایت کے بارے میں بھی محدثین کا اتفاق ہے کہ یہ موضوع اور جھوٹی روایت ہے۔ہم آگے چل کر دلائل کے ساتھ واضح کریں گے کہ یہ روایت جھوٹی ہے۔ اور ثعلبی کا شمار محدثین میں نہیں ہوتا۔

لیکن ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہاں پر ایک قاعدہ کی یاددلائی جائے۔ منقولات میں بہت ساری جھوٹی روایات بھی ہیں اور بہت ساری سچی روایات بھی ہیں ۔ احادیث و روایات میں [صحیح اور موضوع میں فرق ]کے بارے میں ان علماء پر اعتماد کیا جائے گا جو حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے امین ہیں ۔ جس طرح نحوی مسائل میں علمائے نحو کی طرف رجوع کیا جاتا ہے اور قراء ت، لغت کے مسائل میں اہل لغت کی طرف اور طب کے مسائل میں ان علماء کی طرف رخ کیا جاتا ہے جو ان علوم میں ماہرانہ بصیرت رکھتے ہیں اس لیے کہ ’’لِکُلِّ فَنٍّ رِجَالٌ۔‘‘’’ہر فن کے لیے اس کے اہل لوگ ہوتے ہیں ۔‘‘

[محدثین کرام اور ان کی خدمات جلیلہ]:

محدثین کرام بہت زیادہ قدر و منزلت رکھتے ہیں ۔ سب لوگوں کی نسبت حق و صداقت کے زیادہ طلبگار تھے ۔ ان کی منزلت باقی علماء سے بہت اونچی ہے؛اور ان میں دین داری زیادہ پائی جاتی ہے۔یہ لوگ سچائی اور امانت داری میں باقی سب لوگوں پر فائق ہیں ۔جرح وتعدیل کے بیان کرنے میں ان کا علم اورتجربہ بہت زیادہ ہے۔

[[جیسا کہ علم حدیث سے واقفیت رکھنے والے حضرات کلیۃً اس سے آگاہ ہیں ۔ چنانچہ جس روایت کو وہ بالاتفاق ضعیف یا لغو قرار دیں وہ ساقط عن الاحتجاج ہوگئی اور جس کی صحت پر متفق ہوں وہ صحیح ہوگی اور جس میں وہ مختلف الخیال ہوں اس میں عدل و انصاف کے تقاضا کے مطابق غورو فکر کیا جائے گا۔ محدثین کرام علم حدیث کا معیار و مدار ہیں ۔ شہرۂ آفاق محدثین حضرات کے اسماء گرامی حسب ذیل ہیں ]]:

جیسے : امام مالک،شعبہ، اوزاعی، لیث، سفیان بن عیینہ، سفیان ثوری،ذوالنون، حماد، ابن مبارک ، یحییٰ قطان، عبدالرحمن بن مہدی، وکیع ، ابن علیہ ، شافعی، عبد الرزاق، فریابی، ابو نعیم، قعنبی، حمیدی،ابو عبید، ابن المدینی، احمد، اسحاق،ابن معین، ابوبکربن ابی شیبہ، ذہلی،بخاری ، ابو زرعہ، ابو حاتم، ابو داود، مسلم ، موسیٰ بن ہارون، صالح جزرہ، نسائی، ابن خزیمہ، ابو احمد بن عدی۔ ابن حبان ، دارقطنی اور دیگر محدثین و ماہرین علم الرجال و جرح و تعدیل (رحمہم اللہ)۔ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ اس کا شمار کیا جانا ممکن نہیں ۔ یہ لوگ رجال اور جرح و تعدیل کے ماہرین میں سے ہیں ۔ ان میں سے بھی بعض ایک دوسرے سے بڑھ کر عالم ہوا کرتے تھے۔ اور بعض کلام میں دوسروں کی نسبت زیادہ عادل اورحق پسند ہوا کرتے تھے۔ جیسا کہ باقی تمامعلوم میں لوگوں کی حالت ہوا کرتی ہے۔

معرفت رجال کے موضوع پر متعدد چھوٹی بڑی کتب تصنیف کی گئی ہیں ۔ چند ایک کتب کے نام حسب ذیل ہیں ۔

طبقات ابن سعد، تاریخ صغیربخاری، تاریخ کبیر بخاری، کتب یحیی ابن معین، اور احمد بن حنبل بروایت تلامذہ،اور ان سے قبل کتاب یحییٰ بن سعید القطان، کتاب علی بن مدینی، تاریخ یعقوب بن سفیان الفسوی، ابن ابی خیثمہ، ابن ابی حاتم، عقیلی، ابن عدی ،اور ابن حازم کی کتابیں ۔

ایسے ہی بہت ساری کتابیں مسانید کے طرز پر لکھی گئی ہیں جن میں مصنف اپنی سند سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث روایت کرتا ہے؛ جیسا کہ مسند أحمد بن حنبل؛ مسند طبرانی، مسند اسحاق ، مسند ابو داود الطیالسی، مسند ابو بکر ابن ابی شیبہ، مسند محمد بن ابی عمر العدنی، مسند ابن منیع، مسند ابو یعلی الموصلی ، مسندابوبکرالبزار البصری اور دوسرے لوگ۔

مندرجہ ذیل کتب حدیث فقہی ابواب کی ترتیب کے مطابق جمع کی گئی ہیں : صحیح بخاری، صحیح مسلم، ابن ابی خزیمہ ابن حبان وغیرہ اور ایسے ہی وہ کتابیں جو کہ صحیحین پر تخریج میں لکھی گئی ہیں جیسا کہ اسماعیلی اور برقی اور ابو نعیم وغیرہ کی کتابیں ۔ اور وہ کتابیں جن میں سنن کی تخریج کی ہے جیسے : سنن نسائی، سنن ابی داؤد، سنن ابن ماجہ۔ اور بعض نے جامع احادیث ذکر کی ہیں جن میں فضائل اور دوسرے امور بھی آتے ہیں جیسے : جامع الترمذی۔ اور دیگر لا تعداد کتب حدیث جن کا ذکر طوالت کا موجب ہے۔یہ عظیم الشان علم باقی تمام اسلامی علوم میں عظمت ومنزلت رکھتاہے۔

خلاصہ کلام! اس میں کوئی شک وشبہ نہیں کہ رافضی اس علم میں بہت ہی کم معرفت رکھتے ہیں تمام بدعتی اورگمراہ فرقوں میں اس علم میں رافضیوں سے بڑھ کر کوئی دوسرا جاہل نہیں ۔

باقی گمراہ فرقوں میں اس علم کے بارے میں کوتاہی پائی جاتی ہے؛ جیسے معتزلہ ؛مگر معتزلہ بھی خوارج سے زیادہ عالم ہوتے ہیں اور خوارج اپنی جہالت کے باوجود روافض سے زیادہ سچے ؛ ان سے بڑے عالم ؛ زیادہ دین دار؛ اورخوف ِالٰہی رکھنے والے ہوتے ہیں ۔ بلکہ یہ حقیقت ہے کہ خوارج جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے۔بلکہ وہ دیگر لوگوں کی نسبت زیادہ سچے ہوتے ہیں ۔

معتزلہ بھی باقی تمام فرقوں کی طرح ہیں ۔ ان میں سچے بھی ہیں اور جھوٹے بھی؛ لیکن ان میں حدیث اور علوم حدیث کا وہ اہتمام نہیں پایا جاتا جو کہ اہل سنت والجماعت کے ہاں پایا جاتا ہے۔ اس لیے کہ یہ لوگ حدیث کو دین کا حصہ سمجھتے ہیں ‘[ اس لیے انہیں معرفت حدیث کی ضرورت پڑتی ہے]۔تو ضرورت ہوتی ہے کہ سچائی کو پہچان سکیں ۔ جب کہ خوراج ایک دوسری راہ کے مسافر ہیں جسے انہوں نے خود ہی گھڑلیا ہے ‘ اور اسی پر ان کا اعتماد ہے [وہ نہ جھوٹی روایات سے احتجاج کرتے ہیں اور نہ ہی صحیح روایات سے۔ انھوں نے از خود کچھ قواعد گھڑ رکھے ہیں اور وہ انہی کو پیش نظر رکھتے ہیں ]۔ جس میں ان کے ہاں حدیث کاذکر تک نہیں پایا جاتا ؛ بلکہ وہ اپنے اصول میں قرآن تک کوذکر نہیں کرتے ۔ صرف اس سے تقویت حاصل کرنے کے لیے ؛ اعتماد کے لیے نہیں ۔

روافض کا یہ عالم ہے کہ عقل و نقل دونوں سے تہی دامن ہیں ۔ نہ ہی وہ کسی روایت کی اسناد دیکھتے ہیں اور نہ ہی باقی ساری شرعی اور عقلی دلیلوں کاخیال کرتے ہیں کہ کیا یہ ان کے موافق ہیں یامخالف۔یہی وجہ ہے کہ ان کے ہاں کو ئی بھی صحیح اور متصل سند نہیں پائی جاتی۔بلکہ ان کے ہاں جو بھی سند متصل ہوگی ؛ اس میں کوئی نہ کوئی راوی ضرور ایسا ہوگا جس پر جھوٹ بولنے کی تہمت ہوگی یہ پھر وہ کثرت کے ساتھ غلطیاں کرنے والا ہوگا۔

رافضی اس باب میں یہودیوں سے مشابہت رکھتے ہیں ۔ان کے ہاں بھی کوئی سند نہیں پائی جاتی۔جب کہ اسناد اس امت کی خصوصیات میں سے ہے۔ اور پھر اہل اسلام میں احادیث وآثار اور اسانید کی پہچان اہل سنت والجماعت کا خاصہ بن کر رہ گیا ہے۔ روافض کے نزدیک کسی حدیث کی صحت کی علامت یہ ہے کہ وہ اس کے افکار و معتقدات سے ہم آہنگ ہو، امام عبد الرحمن بن مہدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’ اہل علم موافق و مخالف سب احادیث لکھتے ہیں ، مگر مبتدعین وہی روایات لکھتے ہیں جن سے انکے نظریات کی تائید ہوتی ہو۔‘‘

پھر یہ کہ ان کے پہلے لوگ بہت زیادہ جھوٹ بولتے تھے۔ان کی روایات ان لوگوں تک منتقل ہوئیں جو صحیح اور سقیم کی معرفت سے عاری تھے۔پس ان کے بس میں صرف اتنا ہی تھا کہ یا تو تمام روایات کی تصدیق کریں اور یا پھر تمام روایات کی تکذیب کریں ۔اور غیر مستند اور منفصل دلائل سے استدلال کرتے رہیں ۔

ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ آیا تم نقاش و ثعلبی و ابو نعیم کی مرویات ہر حال میں قبول کرتے ہو، مخالف یا موافق ہوں ؟ یا مطلقاً ان کو ٹھکرا دیتے ہو؟ یا موافق روایات کو قبول کرتے اور مخالف کی تکذیب کرتے ہو؟

ابو نعیم نے اپنی کتاب ’’ الحلیہ ‘‘میں فضائل صحابہ رضی اللہ عنہم جمع کیے ہیں ۔ان میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مناقب پر ایک کتاب ہے ۔ ایسے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مناقب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مناقب موجود ہیں ۔ ان میں صحیح روایات بھی ہیں ‘ ضعیف بھی ہیں ؛ بلکہ بعض منکر روایات بھی موجود ہیں ۔ ابو نعیم اپنی منقولات کا خوب علم رکھنے والے انسان تھے۔ لیکن آپ اور آپ کے امثال ہر طرح کی روایات جمع کرتے ہیں تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ اس باب میں یہ روایت بھی موجود ہے۔اور لوگوں کو روایات کے موجود ہونے کاپتہ چل جائے۔ان کی مثال اس مفسر کی ہے جو تفسیر میں لوگوں کے اقوال نقل کرتا ہے ؛ اور فقیہ جو فقہ میں لوگوں کے اقوال ذکر کرتا ہے ؛ اورمصنف جو لوگوں کے دلائل ذکر کرتا ہے۔ تاکہ لوگوں کو ان چیزوں کاپتہ چل جائے ۔ اگرچہ وہ ان میں سے بہت ساری چیزوں کے صحیح ہونے کا اعتقاد نہیں بھی رکھتا؛ بلکہ انہیں ضعیف سمجھتا ہے۔اس لیے کہ وہ خود کہتا ہے : میں نے وہی چیزیں ذکر کی ہیں جو میرے علاوہ دوسرے لوگوں نے نقل کی ہیں ۔اس کی ذمہ داری اس کے قائل پر ہوتی ہے نقل کرنے والے پر نہیں ۔

بہت ساری ایسی کتابیں جو کہ عبادات کے فضائل اور فضائل اوقات یا اس طرح کے دیگر عنوانات پر لکھی گئی ہیں ؛ ان میں بہت ساری ضعیف احادیث کو جمع کردیا گیا ہے ‘ بلکہ موضوع روایات تک موجود ہیں ۔اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ جیساکہ رجب کے روزوں کے بارے میں جو احادیث بیان کی جاتی ہیں اہل علم کے ہاں وہ تمام ضعیف ہی نہیں بلکہ جھوٹی ہیں ۔ایسے ہی صلاۃ رغائب جو رجب کے پہلے جمعہ کی رات کو پڑھی جاتی ہے او رنصف شعبان کا الفیہ اور فضائل عاشوراء محرم کے متعلق جو اہل و عیال کے اخراجات میں وسعت دینے کی روایت ہے؛ اور مصافحہ کے فضائل ؛ اور مہندی اورخضاب کے فضائل؛غسل وغیرہ کے فضائل ؛ عاشوراء کے دن کی نماز ۔ یہ تمام روایات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ ہیں ۔ عاشوراء کے روزہ کے علاوہ اس دن کی فضیلت کے بارے میں کوئی بھی صحیح روایت موجود نہیں ۔امام حرب الکرمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

’’میں نے احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے اس روایت کے متعلق پوچھا کہ:جو کوئی عاشوراء کے دن اپنے اہل خانہ کے کھانے میں وسعت کرتا ہے ‘ اللہ تعالیٰ سارے سال کے لیے اس کے رزق میں وسعت پیدا کردیتے ہیں ۔توآپ نے فرمایا : اس روایت کی کوئی اصل [بنیاد] ہی نہیں ہے۔‘‘

فضائل صحابہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دوسرے اصحاب کے بارے میں بہت سارے لوگوں نے کتابیں لکھی ہیں ؛ مثلاً : خیثمہ بن سلیمان طرابلسی وغیرہ ۔ خیثمہ ابو نعیم سے پہلے گزرے ہیں ۔ ابو نعیم ان سے ان کی اجازت سے نقل کرتے ہیں ۔ابو نعیم اور اس کے امثال کی عادت ہے کہ جو کچھ بھی اس باب میں موجود ہوتا ہے اور جو کچھ سنتے ہیں وہ تمام روایات نقل کردیتے ہیں ۔

لیکن تاریخ کی کتابوں میں انصاف سے کام لینے والے؛ جیسا کہ ابن عساکر کی تاریخ دمشق ؛ اور دوسری کتابیں ۔ ان میں سے کوئی ایک جب خلفائے اربعہ میں سے کسی ایک کے؛یا کسی دوسرے کے حالات زندگی بیان کرتے ہیں ؛تو وہ تمام چیزیں بیان کردیتے ہیں جو اس باب میں موجود ہوتی ہیں ۔ پس وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں وارد ان احادیث کو بیان کردیتے ہیں جنہیں اہل علم و فضل محدثین کرام جانتے ہیں کہ یہ سچ ہے اور یہ جھوٹ ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل صحیحین اور دوسری کتب احادیث میں ثابت ہیں ۔ جب کہ صحیح بخاری میں بطور خاص حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی کوئی فضیلت بیان نہیں ہوئی۔ لیکن آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ حنین؛ غزوہ طائف اور غزوہ تبوک میں شریک ہوئے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج وداع بھی کیا؛ اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی بھی تحریر فرمایا کرتے تھے۔ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتابت وحی پر امین بنایا تھا۔ جیسا کہ آپ نے اس امانت پر آپ کے علاوہ دوسرے صحابہ کی ذمہ داری بھی لگائی تھی۔

اگرشیعہ ہر حال میں ان کتابوں میں موجود تمام روایات قبول کرتے ہیں ؛توان کتابوں میں بہت ساری ایسی روایات بھی ہیں جو ان کے عقیدہ سے ٹکراؤ رکھتی ہیں ۔اور اگر تمام روایات کو رد کرتے ہیں تو پھرروایت کو محض ان کی طرف منسوب کرنے سے ہی ان سے استدلال کرنا باطل ٹھہرا۔ ور اگر موافق روایات کو قبول اور مخالف روایات کو رد کرتے ہیں تو ان کے مخالف کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ اس طرح کا کلام باطل ہے[اور ان کی مقبول روایات کو مسترد کردے۔ اوران کی رد کردہ روایات سے استناد کرے۔ لوگوں میں یہ بات عام طور سے رائج ہے کہ وہ مناقب و مثالب کے بارے میں ہر قسم کی روایات کو قبول کرلیتے ہیں ]۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ایسی روایات سے مذہب کی صحت پر استدلال کرنا ہر گزجائز نہیں ۔ اس لیے کہ اس سے کہا جاسکتا ہے کہ : اگر تم اپنے مذہب سے ہٹ کر اس حدیث کی صحت کو جانتے تھے ؛ تو پھر اپنے مذہب کے صحیح ہونے پر دلیل لاؤ۔ اور اگر تم اس بنا پر اس روایت کو صحیح سمجھتے ہو کہ یہ تمہارے مذہب کے موافق ہے ؛ تو اپنے مذہب کی بنیاد پر روایت کو صحیح کہنا ممتنع ہے۔ اس لیے کہ اس صورت میں مذہب کا صحیح ہونا اس حدیث پر موقوف ہوگا اور حدیث کا صحیح ہونا مذہب پر موقوف ہوگا۔ اس سے دور لازم آئے گا۔ جب کہ دور کا لازم آنا ممتنع ہے۔

مزید برآں مذہب میں یہ ہے کہ اگر تم نے کسی اور سند سے اس روایت کی صحت معلوم کی تھی ؛ تواس سے اس سند کابھی صحیح ہونا لازم نہیں آتا۔اس لیے کہ کبھی کبھار انسان کسی دوسرے پر کچھ جھوٹ بھی بول لیتا ہے اگرچہ وہ بات حق ہی کیوں نہ ہو ۔بہت سارے لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے اقوال روایت کرتے ہیں ؛ جو اقوال بذات خود حق ہیں ؛ لیکن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہیں ۔ پس کسی چیز کے سچا ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہو۔اور اگر تمہیں اس کی صحت اسی طریق سے معلوم ہوئی ہے ؛ تو یہ بھی ممنوع ہے۔کیونکہ ایسا نہیں ہوسکتا کہ کسی چیز کے صحیح ہونے سے اس کی اصل صحت کو ثابت کیا جائے ؛ اس سے دور لازم آئے گا۔

پس یہ بات ثابت ہوگئی کہ اپنے مذہب کی موافقت ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کی صحت ثابت نہیں ہوسکتی ؛ خواہ مذہب کی صحت معلوم ہویا نہ معلوم ہو۔

ہر وہ انسان جس کو منقولات سے ادنی سا بھی واسطہ ہے ؛ وہ جانتا ہے کہ ان میں سچ اور جھوٹ ہر طرح کی چیزیں پائی جاتی ہیں ۔اور لوگوں نے عیب جوئی اور فضائل بیان کرنے کے لیے بہت سارے جھوٹ بھی گھڑ لیے ہیں ۔جیسا کہ دوسرے کئی امور میں بھی جھوٹ بولا گیا ہے۔ اور ان روایات میں بھی جھوٹ ہے جو ان کے موافق یا مخالف ہیں ۔

ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل میں بہت سارا جھوٹ بھی شامل ہے جیسا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بھی بہت ساری روایات جھوٹی ہیں ۔ لیکن جتنے بھی بدعتی اور ہویٰ پرست گروہ ہیں ؛ ان میں رافضیوں سے بڑھ کر جھوٹا کوئی نہیں ہے۔ بخلاف دوسرے لوگوں کے؛ بلاشبہ خوارج بہت کم جھوٹ بولتے ہیں ؛ بلکہ وہ اپنی بدعت اور گمراہی کے باوجود لوگوں میں سب سے سچے شمار ہوتے ہیں ۔

اہل علم اور اہل دین لوگ کسی روایت کی تصدیق یا تکذیب صرف اس بنا پر نہیں کرتے کہ وہ ان کے عقیدہ کے موافق ہے۔ بلکہ کبھی کوئی انسان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس امت کے فضائل میں بہت ساری احادیث نقل کرتا ہے تو انہیں صرف اس وجہ سے رد کردیتے ہیں کہ وہ ان کا جھوٹ ہونا جانتے ہیں ۔ او ربہت ساری احادیث کو ان کے صحیح ہونے کی وجہ سے قبول کرلیتے ہیں ۔اگرچہ ان کا ظاہر ان کے عقیدہ کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے کہ یاتو ان کے بارے میں وہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ احادیث منسوخ ہیں ؛ یا پھر ان کی کوئی ایسی تفسیر ہے جس کی مخالفت وہ نہیں کرتے ۔

منقولات میں اصل یہ ہے کہ ائمہ نقل اور اس فن کے علماء کی طرف رجوع کیا جائے۔ اور جو کوئی ان کیساتھ اس علم میں شریک ہوتا ہے ؛ وہ بھی ان کے علوم سے آگاہ ہوجاتا ہے۔ اوریہ ضروری ہے کہ کسی روایت کے صحیح یا ضعیف ہونے پر علیحدہ سے تفصیل ہونی چاہیے ؛ وگرنہ صرف کسی کے اتنا کہہ دینے سے کہ ’’ فلاں نے اسے روایت کیا ہے ‘‘ قابل حجت نہیں ہوسکتا ؛ نہ ہی اہل سنت کے ہاں اور نہ ہی اہل شیعہ کے ہاں ۔ اور مسلمانوں میں کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ہر مصنف کی ہر روایت سے استدلال کرنے لگ جائے؛ پس ہر وہ حدیث جسے بطور حجت پیش کیا جائے ہم سب سے پہلے اس کی صحت کا مطالبہ کریں گے۔

اہل علم کا اتفاق ہے کہ صرف کسی روایت کو ثعلبی کی طرف منسوب کردینے سے اس کی صحت ثابت نہیں ہوجاتی۔یہی وجہ ہے کہ وہ علماء حدیث جو مرجع سمجھے جاتے ہیں انہوں نے اپنی کتابوں میں کوئی ایسی روایت نقل نہیں کی۔نہ ہی صحاح و سنن میں نہ ہی مسانیدو معاجم میں ؛ اور نہ ہی کسی دوسری معتبر کتاب میں ۔ اس لیے کہ ایسی روایات کا جھوٹ ہونا کسی ادنی علم رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں رہ سکتا۔

[بے بنیاد روایات]:

ایسی روایات اہل علم کے ہاں گمان کے درجہ میں ہوتی ہیں ۔ہم کہتے ہیں کہ یہ روایت باتفاق محدثین جھوٹی ہے اور حدیث کی کسی قابل اعتماد کتاب میں مندرج نہیں ۔ اس حدیث کی صحت کا دعویٰ وہی شخص کرتا ہے جو اس حد تک جھوٹا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کا پیرو خیال کرتا ہے اور اس بات کا دعویٰ دار ہے کہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے پیدا ہوئے ہیں ۔ یا جس طرح ترکوں کاایک گروہ کہتا ہے کہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بہت سی لڑائیاں لڑی تھیں اور وہ ان لڑائیوں کا ذکر بھی کرتے ہیں ، حالانکہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ نے بدر میں شرکت کی تھی اور غزوہ احد میں شہادت سے مشرف ہوئے۔ یا جس طرح بہت سے عوام یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا ور اویس قرنی دمشق میں مدفون ہیں ۔اہل علم یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن میں سے کوئی ایک بھی دمشق تشریف نہیں لے گئی۔لیکن شام میں حضرت اسماء بنت یزید بن السکن الانصاریہ رضی اللہ عنہا تھیں ؛ اہل شام انہیں ام سلمہ کہا کرتے تھے۔ اس سے جاہل لوگوں نے یہ گمان کرلیا کہ یہ ام سلمہ ام المؤمنین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ ہیں۔

حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کا انتقال مدینہ طیبہ میں ہوا۔ اویس قرنی تابعی شام گئے ہی نہیں ۔ [ یا عوام کا یہ نظریہ کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جامع دمشق کے باب القبہ میں احادیث روایت کیا کرتی تھیں ]۔ اسی طرح یہ افواہ بھی بے بنیاد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نجف میں مدفون ہیں ، حالانکہ اہل علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و معاویہ رضی اللہ عنہ اور عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما کواپنے اپنے شہر میں قصر الامارت میں دفن کیا گیا تھا کیونکہ اس بات کا خطرہ دامن گیر تھا کہ خوارج ان کی قبریں نہ کھود ڈالیں ۔ [کوفہ کا قصر الامارت جس میں سیدنا علی مدفون ہیں جامع کوفہ سے جانب قبلہ واقع ہے۔ مشہور شیعہ مورخ لوط بن یحییٰ کہتا ہے کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ جامع کوفہ کے ایک کونہ اور قصر الامارت کے صحن میں ابواب کندہ کے قریب دفن کیے گئے تھے۔ شیعہ نے تیسری صدی ہجری میں سیدنا علی اور سیدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہم کے ایک مدت بعد یہ دعویٰ کیا کہ آپ نجف میں مدفون ہیں ، حقیقت شناس لوگوں کا قول ہے کہ نجف میں جو قبر سیدنا علی کی جانب منسوب ہے دراصل وہ سیدنا مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔دمشق کا قصر الامارت جہاں سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ مدفون ہیں اس کو الخضراء کہتے ہیں ، یہ مسجد دمشق کی اس دیوار سے متصل ہے جو جانب قبلہ واقع ہے، اس کی مشرقی جانب جیرون نامی حوض ہے۔ مغرب میں باب البرید اور جنوب میں قصر اسعد پاشا واقع ہے۔دمشق کے معمر لوگ اپنے آباؤ اجداد سے نقل کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اس دیوار کے نیچے مدفون ہیں جو جامع دمشق اور الدار الخضراء کے درمیان واقع ہے دولت عباسیہ کے عہد اقبال میں متقدمین نے جامع دمشق کی قبلہ والی دیوار پر سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی قبر کے نزدیک ایک کتبہ لگا دیا تھا جس پر لکھا تھا:’’یہ اﷲکے نبی ہود علیہ السلام کی قبر ہے۔‘‘ اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ حاسد لوگ آپ کی قبر نہ کھود ڈالیں ۔الدار الخضراء میں ایک اور قبر بھی تھی جو آج کل ’’ البزوریہ‘‘ نامی بازار میں واقع ہے۔ غالباً یہ معاویہ بن یزید بن معاویہ رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔سیدناعمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے عید الفطر ۴۳ھ میں وفات پائی آپ کے بیٹے عبد اﷲ نے نماز جنازہ پڑھائی، مجھے تادم تحریر اس بات کی کوئی دلیل معلوم نہیں ہو سکی کہ آپ دارالامارۃ میں مدفون ہیں ۔ مشہور یہ ہے کہ آپ وادی المعظم میں گھاٹی کے دروازہ کے نزدیک مدفون ہیں ، صحابہ کا نقطہ نظریہ تھا کہ آدمی اعمال سے زندہ جاوید ہوتاہے، پکی قبر سے نہیں ،یہی وجہ ہے کہ فراعنہ و جبابرہ کی طرح وہ اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ صلحاء اور نامور فاتحین صحابہ کی قبروں پر مقبرے بنائے جائیں اور ان پر عالی شان عمارتیں تعمیر کی جائیں ۔]

اس لیے کہ خوارج نے ان تینوں حضرات کو قتل کرنے کرنے کے لیے قسمیں اٹھالی تھیں ۔پس اس کے نتیجہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کو شہید کردیا گیا؛ حضرت امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے ۔جبکہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے اپنی جگہ نماز پڑھانے کے لیے خارجہ نامی ایک آدمی کو مقرر کیا تھا؛ جب قاتل نے حملہ کردیا تو اسے معلوم ہوا کہ یہ حضرت عمرو بن العاص نہیں ‘ بلکہ خارجہ ہے ؛ تواس نے کہا : ’’میں تو عمرو کو قتل کرنا چاہتا تھا اور اللہ تعالیٰ کا ارادہ خارجہ کا تھا۔‘‘ یہ بات لوگوں میں ضرب المثل بن گئی۔

اس طرح کی بہت ساری چیزیں ہیں جو جہلاء کے خیالات پر مبنی ہیں ۔اور منقولات کا علم رکھنے والے جانتے ہیں کہ ان روایات کی اصل میں کوئی حقیقت نہیں ہوتی۔

دوسری وجہ :....ہم کہتے ہیں کہ : بذات خود اس روایت میں ایسی باتیں موجود ہیں جوکئی لحاظ سے اس کے جھوٹا ہونے پر دلالت کرتی ہیں ۔ اس میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غدیر کے موقع پر موجود تھے ؛آپ نے لوگوں میں منادی کروائی؛ جب لوگ جمع ہوگئے تو آپ تفسیر ثعلبی میں ہے:’’سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خُمّ کے روز صحابہ کو پکارا جب سب جمع ہو گئے تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘

چنانچہ یہ بات جنگل کی آگ کی طرح مشہور ہو گئی۔ جب حارث بن نعمان فہری رضی اللہ عنہ نے آپ کا یہ ارشاد مبارک سنا تو اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر مدینہ پہنچا۔ اپنااونٹ وادی میں بٹھایااور اس کو باندھ دیا؛پھروہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا۔ آپ چند صحابہ رضی اللہ عنہم سمیت تشریف فرما تھے۔ اس نے کہا:

’’ اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے ہمیں دو شہادتوں کا حکم دیا؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ نہیں ہمیں پانچ نمازوں کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی،پھر آپ نے ہمیں اپنے اموال سے زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی؛ اور آپ نے ہمیں حکم دیاکہ ماہ رمضان کے روزے رکھیں ؛ہم نے آپ کی بات مان لی؛آپ نے ہمیں بیت اللہ کا حج کرنے کا حکم دیا ؛ ہم نے آپ کی بات مان لی۔پھر آپ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے ۔اب آپ نے اپنے چچا زاد بھائی علی کا سر اونچا کردیا اور اس کو ہم پر فوقیت بخشی ہے،اور آپ نے فرمایا:’’ مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ۔‘‘ کیا آپ اپنی طرف سے یہ کہہ رہے ہیں یا اللہکے حکم سے یہ بات کہہ رہے ہیں ؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر فرمایا: اللہکی قسم! یہ اللہکا حکم ہے۔‘‘ چنانچہ حارث یہ کہتے ہوئے اپنی سواری کی طرف رخصت ہو گیا کہ:’’اے اللہ! اگر یہ بات تیری جانب سے حق ہے تو ہم پر پتھروں کی بارش برسایا ہمیں درد ناک عذاب میں مبتلاکر۔‘‘

ابھی وہ منزل مقصود پر نہیں پہنچا تھا کہ ایک پتھر اس کے سر پر گر ااور دُبر سے نکل گیا جس سے اس کی موت واقع ہو گئی۔تب یہ آیت اتری:[اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ]:

﴿سَاَلَ سَآئِلٌ بِعَذَابٍ وَّاقِعٍ oلِّلْکٰفِرینَ لَیْسَ لَہٗ دَافِعٌ oمِّنَ اللّٰہِ﴾ [المعارج۱۔۳]

’’ ایک سوال کرنے والے نے اس عذاب کا سوال کیا جو واضح ہونے والا ہے۔کافروں پر، جسے کوئی ہٹانے والا نہیں ۔اللہ کی طرف سے ۔‘‘نقاش نے بھی اپنی تفسیر میں یہ روایت بیان کی ہے۔

جواب :ان کذابین سے کہا جائے گا کہ: اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ ’’ غدیر خُمّ‘‘ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو الفاظ ارشاد فرمائے؛ وہ حجۃ الوداع سے واپسی کے وقت کہے تھے۔ شیعہ اس کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اس کی دلیل شیعہ کا یہ عمل ہے کہ وہ اٹھارہ ذی الحجہ کو عید مناتے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع کے بعد پھر کبھی مکہ تشریف نہ لائے۔ بلکہ آپ حجۃ الوداع سے مدینہ واپس تشریف لائے؛ ذوالحجہ کے باقی ایام؛ محرم اور صفر مدینہ طیبہ میں قیام کیا؛ اور ربیع الاول میں آپ کا انتقال ہوگیا۔

اس حدیث [ کے اندر ایسے شواہد موجود ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ من گھڑت حدیث ہے۔اس میں ]ہے کہ آپ نے جب غدیر خم کے مقام پر یہ الفاظ ارشاد فرمائے تو یہ بات جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ مثلاً یہ الفاظ کہ آپ مکہ میں بطحاء کے مقام پر تشریف فرما تھے کہ ’’حارث آپ کے پاس آیا۔‘‘یہ ایسے جاہل انسان کا جھوٹ ہے جسے یہ بھی پتہ نہیں ہے کہ یہ واقع کب پیش آیا۔

نیز یہ بات کہ پھر ﴿ سَأَلَ سَائِلٌ﴾ والی آیت نازل ہوئی۔یہ سورت بالاتفاق مکی ہے۔ ہجرت سے پہلے مکہ میں نازل ہوئی تھی۔یہ سورت غدیر خم کے واقعہ سے دس سال یا اس سے بھی زیادہ عرصہ پہلے نازل ہوچکی تھی۔توپھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ اس واقعہ کے بعد نازل ہوئی۔

علاوہ ازیں یہ آیت ﴿وَ اِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ ﴾ یہ سورت الأنفال کی آیت ہے۔ یہ سورت بالاتفاق غزوہ بدر کے بعد غدیر خم سے کئی سال پہلے نازل ہوئی تھی۔ مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین مکہ مثلاً ابوجہل وغیرہ کے ان اقوال کی وجہ سے نازل ہوئی تھی جو انہوں نے ہجرت سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہے تھے۔ اس واقعہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کو ان لوگوں کی باتیں یاد دلاتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ان لوگوں نے کہا تھا: 

﴿وَ اِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ

’’اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ!اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔‘‘

یعنی ’’ اے پیغمبر ! وہ وقت یاد کرو جب وہ لوگ آپ سے ایسی باتیں کہہ رہے تھے۔‘‘

یہ بالکل ان آیات کی طرح ہے :

﴿وَ اِذْ قَالَ رَبُّکَ لِلْمَلٰٓئِکَۃَ ﴾ : اور وہ وقت یاد کرو جب آپ کے رب نے فرشتوں سے کہا ۔

اور فرمایا:﴿وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَہْلِکَ﴾ ’’اوریاد کرو جب صبح ہی صبح آپ اپنے گھر سے نکلے۔‘‘ 

اس طرح کی دیگر بھی بہت ساری آیات ہیں ۔ ان میں حکم دیا جاتا ہے کہ آپ گزرے ہوئے واقعات کو یاد کریں ۔تو اس سے واضح ہوگیا کہ یہ واقعہ اس سورت کے نازل ہونے سے پہلے کاہے۔

ایسے ہی جب ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ سے عذاب کی دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے واضح کردیا کہ تم پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں ہوگا جب تک تم میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں ۔ ارشادفرمایا:

﴿وَ اِذْ قَالُوا اللّٰہُمَّ اِنْ کَانَ ھٰذَا ہُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَۃً مِّنَ السَّمَآئِ اَوِائْتَنَا بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ [الأنفال۳۲]

’’اور جب کہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ!اگر یہ قرآن آپ کی طرف سے واقعی ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کردے۔‘‘

پھر اس کے بعد [عذاب نہ آنے کی وجہ بیان کرتے ہوئے ] فرمایا:

﴿وَ مَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَ اَنْتَ فِیْہِمْ وَ مَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَ ہُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَ﴾ [الأنفال۳۳]

’’اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں ۔‘‘

علماء کرام کا اتفاق ہے کہ اس کے باوجود اہل مکہ پر پتھر نہیں برسائے گئے تھے۔ اگریہ واقعہ درست ہوتا کہ پتھر حارث کے سرپر گرا اور دبر کے راستہ نکل گیا تو اصحاب الفیل کے واقعہ کی طرح یہ عظیم معجزہ تھا اور ہر کس و ناکس اس کو جانتا ہوتا‘ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔کیونکہ ایسے واقعات نقل کرنے اسباب اور ہمتیں موجود تھیں ۔ مگر ایسا نہیں کیا گیا۔

جب علم نقل کرنے والے علماء کی ایک جماعت موجودتھی۔ اور کسی بھی اہل علم‘ مستند مصنف نے اس روایت کو اپنی تصنیف میں ذکر نہیں کیا ؛ نہ ہی مسند میں نہ ہی صحاح میں ؛ نہ ہی فضائل میں ؛ نہ تفسیر میں نہ ہی سوانح میں ؛ بلکہ اسے روایت کرنے والے وہی لوگ ہیں جو اس طرح کی منکر روایات جمع کرتے رہتے ہیں ؛ تو اس سے معلوم ہوا یہ روایت باطل اور جھوٹ ہے۔

اس روایت میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ان الفاظ کے کہنے والے نے اسلام کے پانچ بنیادی ارکان کا تذکرہ بھی کیا تھا؛ اس بنیاد پر وہ مسلمان تھا ؛ کیونکہ وہ کہہ بھی رہا تھا : ہم نے آپ کی بات مان لی۔یہ بات ضرورت کے تحت سبھی جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں کوئی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا۔ اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں اس نام کا کوئی معروف آدمی تھا۔ بلکہ یہ نام بھی ان اسماء کی جنس سے ہے جسے طرقیہ ذکر کرتے ہیں اور یہ واقعہ بھی عنتر اور دلہمہ کے افسانوی قصوں کی طرح ہے۔

بہت سارے علمائے کرام رحمہم اللہ نے ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام جمع کیے ہیں جن سے کوئی بھی روایت منقول ہے۔ حتی کہ ضعیف احادیث بھی ذکر کی ہیں ۔ جیسے : ابن عبد البر کی کتاب ’’ الاستعیاب ‘‘ ابن مندہ کی کتاب ؛ ابو نعیم اصفہانی کی کتاب ؛ حافظ ابو موسیٰ کی کتاب ؛ اور اس طرح کی دیگر کتابیں ۔ان میں سے کسی ایک نے بھی اس آدمی کا ذکر تک نہیں کیا ۔ تو اس سے معلوم ہوا کہ اس نام کے کسی آدمی سے کوئی روایت ذکر نہیں کی گئی ۔ اس لیے کہ یہ لوگ صرف وہی روایات ذکر کرتے ہیں جو اہل علم کے ہاں متداول ہوں ۔اور اہل طریقت وغیرہ کی روایات نقل نہیں کرتے ؛ جیسا کہ تنقلات الأنوار میں البکری کذاب نے کیا ہے ۔ 

تیسری وجہ:....ہم پوچھتے ہیں کہ تمہارا دعوی یہ تھا کہ تم امامت کو قرآنی نصوص سے ثابت کروگے۔قرآن کے ظاہر میں اصل میں کوئی ایسی چیز موجود ہی نہیں ۔ جو آیت تم نے پیش کی تھی:

﴿ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ ﴾ [المائدۃ ۶۷]

’’ کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔‘‘

یہ الفاظ تو عام ہیں ؛ جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے ‘ اس سب کو شامل ہیں ۔کسی بھی متعین چیز کی اس میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔

مدعی کا یہ دعوی کہ امامت علی رضی اللہ عنہ بھی ان ہی امور میں سے ایک ہے جن کی تبلیغ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی تھی؛ یا آپ کو اس کی تبلیغ کرنے کا حکم دیا گیاتھا؛ محض قرآن سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکی۔ اس لیے کہ قرآن میں ایسی کسی متعین چیز کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔

اگر ایسی کوئی بات نقل سے ثابت ہوجائے تو حدیث یا خبر سے ثابت تصور ہوگی نہ کہ قرآن سے ۔ پس جو کوئی یہ دعوی کرتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت قرآن سے ثابت ہے ؛ اور آپ کو اس کی تبلیغ کا حکم بھی دیا گیا تھا؛ یقیناً ایسا انسان قرآن پر بہتان تراشی کرتا ہے۔ قرآن میں کوئی بھی عام یا خاص ایسی دلیل موجود نہیں ہے۔

چوتھی وجہ :....ان سے یہ کہا جائے گا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احوال معلوم ہیں ؛ ان کی روشنی میں یہ آیت تمہارے دعوی کے الٹ پر دلالت کرتی ہے۔وہ یہ کہ اللہ تعالیٰ نے نہ ہی کوئی ایسا حکم نازل کیا ؛ اور نہ ہی اس کی تبلیغ کا حکم دیا۔اس لیے کہ اگر ایسی کوئی بھی چیز ہوتی جس کی تبلیغ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا جاتا توآپ ضرور ایسا کرتے ؛اور لو گوں تک یہ بات پہنچاتے ۔ اس لیے کہ آپ کسی طرح بھی اللہ کی نافرمانی کرنے والے نہ تھے۔

یہی وجہ ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : ’’ جو کوئی یہ خیال کرتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی میں سے کوئی چیز چھپائی تھی تو اس نے جھوٹ بولا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ ﴾ [المائدۃ ۶۷]

’’ اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی ۔‘‘

لیکن اہل علم بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے بارے میں کوئی بات نہیں کہی ۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے ان کے پاس کئی ایک دلائل موجود ہیں ۔

٭ علم نقل کرنے والوں کی ایک جماعت موجود تھی؛ اور نقلِ علم کے دواعی و اسباب بھی پائے جاتے تھے۔ اگر اس روایت کی کوئی اصل ہوتی تو جیسے اس طرح کی دوسری روایات نقل کی گئی ہیں ؛ ایسے ہی یہ روایت بھی ضرور نقل کی جاتی۔ خصوصاً جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بہت ساری ایسی روایات بھی نقل کی گئی ہیں جن کی کوئی اصل ہی نہیں ۔تو پھر وہ حقانیت اور سچائی کیونکر نقل نہ کی جاتی جسے لوگوں تک پہنچادیا گیا تھا۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو حکم دیا تھا کہ وہ جوبات بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنیں اسے آگے لوگوں تک پہنچائیں ۔ امت کے لیے بھی کسی ایک علمی بات کا چھپانا ہرگز جائز نہ تھا جس کی تبلیغ کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہو۔

٭ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی۔ اور بعض انصار نے مطالبہ کیا کہ ایک امیر ان میں سے ہو؛ اور ایک امیر مہاجرین میں سے ہو؛ تو اس بات پر انکار کیا گیا۔اور مہاجرین نے کہا کہ : امارت صرف قریش میں ہی ہوسکتی ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کئی ایک متفرق مواقع پر ارشاد فرمائی گئی حدیث نقل کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ امامت صرف قریش میں ہوگی۔‘‘[ذکرہ الألبانِی فِی ِإروائِ الغلِیلِ 2؍298 ؛ حدیث رقم 520 وقال: صحِیح، ورد مِن حدیثِ جماعۃ مِن الصحابۃِ مِنہم أنس بن مالکِ وعلِی بن أبِی طالِب وأبو برزۃ الأسلمِی،والحدیث عن أنس رضِی اللہ عنہ مطولاً فِی المسندِ3؍129 ؛ وأولہ: الأئِمۃ مِن قریش، ولہم علیکم حق ولکم مِثل ذلِک۔وصححہ الألبانِی، وقال فِی ِإروائِ الغلِیلِ إِن الطیالِسِی أخرجہ فِی مسندِہِ وابن عساکِر وأبو نعیم فِی الحِلیۃِ والبیہقِی فِی سننِہِ۔وأما حدیث علِی رضِی اللہ عنہ فأولہ: الأئِمۃ مِن قریش، أبرارہا أمراء أبرارِہا، وفجارہا أمراء فجارِہا۔ الحدیث، وقال السیوطِی: إِن البیہقِی والحاِکم أخرجاہ، وذکر الألبانِی إنہ فِی المستدرکِ،75۔76 وفِی المعجمِ الصغِیرِ لِلطبرانِیِ ص 85 وفِی مجمعِ الزوائِدِ 5؍192 وفِی غیرِ ذلِک، وہو صحِیح عِند الألبانِیِ أیضاً، وحدیث أبِی برزۃ فِی المسندِ 4؍421، 424 وذکرہ الألبانِی فِی السنۃِ لِابنِ أبِی عاصِم رقم 1009، 1029۔]

اس مجلس میں یا کسی بھی دیگر موقع پر کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حق ہے۔

مسلمانوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی بیعت کی؛ بیعت کرنے والوں میں اکثر لوگ بنو عبدمناف -بنو امیہ اور بنو ہاشم وغیرہم -سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کا بڑا مضبوط میلان حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف تھاکہ آپ کوولایت کے لیے اختیار کیا جائے۔مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نص ذکر نہیں کی۔اور معاملہ ایسے ہی حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کے دور میں بھی رہا ۔ اورپھر آپ کے عہد میں جب آپ خلافت وامارت کے مرتبہ پر فائز ہوگئے توپھر بھی نہ ہی آپ نے ؛ نہ ہی اہل بیت میں سے کسی ایک نے؛ اور نہ ہی معروف صحابہ میں سے کسی ایک نے یہ نص ذکر کی ۔ یہ روایت اس کے بہت بعد میں سامنے آئی ۔

سنت اور حدیث کا علم رکھنے والے اہل علم جیسے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اور دوسرے ائمہ کرام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں اور آپ سے دوستی رکھتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں کہ : آپ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد خلیفہ برحق تھے۔ اہل علم کی ایک جماعت نے اس میں اختلاف بھی کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ : آپ کا زمانہ امت میں فتنے اور اختلاف کا زمانہ تھا۔آپ کے دور میں امت کا اتفاق نہ ہی آپ پر ہوسکا اور نہ ہی کسی دوسرے پر۔

ایک دوسری جماعت کرامیہ کا کہنا ہے کہ : آپ بھی خلیفہ برحق تھے؛ اورحضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی خلیفہ برحق تھے اور یہ لوگ ضرورت کے تحت دو خلیفہ ہونے کو جائز کہتے ہیں ۔ایسے ہی یہ لوگ حضرت ابن زبیر اور یزید کے دور کے متعلق بھی کہتے ہیں ۔اس لیے کہ لوگوں کا ایک خلیفہ پر اتفاق نہیں ہوسکا تھا۔

٭ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے امام تھے ؛ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر اس حدیث سے استدلال کیا ہے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :

’’ میرے بعد خلافت نبوت تیس سال تک ہوگی؛ پھر اس کے بعد بادشاہی ہوگی۔‘‘[سنن الترمذي۳؍۳۴۱]

بعض لوگوں نے اس حدیث کو ضعیف کہا ہے ۔مگر امام احمد اور دوسرے علمائے کرام رحمہم اللہ اسے صحیح ثابت کرتے ہیں ۔یہ حدیث ان کے مذہب میں خلافت علی رضی اللہ عنہ پر نصوص کی اساس اور سرمایہ ہے۔اگر یہ لوگ کوئی ایسی صحیح اور مستند یا مرسل حدیث پالیتے جو ان کی خواہشات کے مطابق ہو تو پھر ان کی خوشی کی کوئی انتہاء نہ رہتی ۔

اس سے معلوم ہوگیا کہ رافضی جس نص کے متعلق دعوی کرتے ہیں اہل علم نے قدیم و حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال سے کوئی ایسی بات نہیں سنی۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم ضرورت کے تحت ایسی روایات کے جھوٹ کو خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں ۔جیساکہ ان کے سامنے دوسری تمام جھوٹی روایات واشگاف ہوتی ہیں ۔

جب تحکیم الحکمین کا واقعہ پیش آیا۔ اس وقت اکثر لوگ آپ کے ساتھ تھے۔ اس وقت مسلمانوں میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس نے یہ نص بیان کی ہو؛نہ ہی آپ کے ساتھیوں میں سے اور نہ ہی دوسرے لوگوں میں سے ۔حالانکہ اس وقت آپ کے شیعہ بھی کثرت سے تھے۔ان میں کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جس نے یہ روایت بطور حجت پیش کی ہو۔ حالانکہ یہ ایسا موقع تھا کہ ایسی نصوص کو ہر حال میں سامنے لانا چاہیے تھا۔

او ریہ بھی طے شدہ بات ہے کہ اگر شیعان علی رضی اللہ عنہ کے پاس ہی کوئی اس قسم کی نص موجود ہوتی تو معروف عادت کا تقاضا تھا کہ کوئی بھی یہ کہہ دیتا کہ آپ کی خلافت کے بارے میں یہ نص موجود ہے ؛ لہٰذا حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر آپ کو مقدم کرنا واجب ہے۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ خو د انتہائی نیک دل مسلمانوں میں سے تھے ۔ اگر آپ کو یہ علم ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نص موجود ہے تو آپ کبھی بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معزول کرنے کی بات نہ کرتے۔ اور اگر آپ ایسی بات کرتے بھی تو اس کا انکار کیا جاتا کہ آپ کیسے اس انسان کو معزول کرنے کا کہہ رہے ہیں جس کی خلافت پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نص موجود ہے ؟

شیعہ نے ایک حجت یہ بھی پیش کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ عمار کو ایک باغی جماعت قتل کرے گی۔‘‘یہ حدیث خبر واحد ہے ؛ یا پھر اس کو روایت کرنے والے دو یا تین افراد ہیں ؛ متواتر نہیں ہے۔ اور نص کے لیے متواتر ہونا ضروری ہے ۔

واہ سبحان اللہ ! عجیب بات ہے کہ شیعہ حضرات صحیح منقول اور صریح معقول کو چھوڑ کر ایسی روایات سے استدلال کرتے ہیں ؛کیا ان میں سے کوئی ایک بھی کوئی نص پیش نہیں کرسکتا ؟