امامت علی کی چوتھی دلیل:
امام ابن تیمیہامامت علی کی چوتھی دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت علی کی چوتھی دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَالنجم اِذَا ہَوٰیoمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾
’’اور ستارے کے قسم ! جب وہ ٹوٹ جائے۔کہ تمھارا ساتھی (رسول) نہ راہ بھولا ہے اور نہ غلط راستے پر چلا ہے ۔‘‘
فقیہ ابن مغازلی شافعی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ: میں بنی ہاشم کی ایک جماعت کے ساتھ بارگاہ نبوی میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں آسمان کا ایک ستارہ ٹوٹا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے گھر میں یہ ستارہ ٹوٹا وہ میرے بعد میرا وصی ہو گیا۔چنانچہ نوجوانوں کا ایک گروہ اس کی کھوج لگانے کے لیے چلا گیا؛ معلوم ہوا کہ وہ ستارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر پر ٹوٹا ہے۔ تووہ نوجوان کہنے لگے کہ :’’آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت میں سیدھی راہ سے بھٹک گئے ہیں :’’ تب یہ آیت اتری:﴿وَالنجم اِذَا ہَوٰیo مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾ [انتہی کلام الرافضی]
[جواب]:پہلی بات : ہم اس روایت کی صحت کا مطالبہ کرتے ہیں ؛جیسا کہ اس سے پہلے بھی ہم بارہا یہ مطالبہ کر چکے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں یہ کھلا ہوا جھوٹ ہے اور بلا علم و معرفت اللہکے بارے میں کوئی بات کہنا حرام ہے؛اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ﴾ (الإسراء:۳۶)
’’جس بات کا آپ کو علم نہیں وہ بیان نہ کریں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَہَرَ مِنْہَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بَغَیْرِ الْحَقَّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [الأعراف ۳۳]
’’کہہ دے میرے رب نے تو صرف بے حیائیوں کو حرام کیا ہے، جو ان میں سے ظاہر ہیں اور جو چھپی ہوئی ہیں اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کو اور یہ کہ تم اللہ کے ساتھ اسے شریک ٹھہراؤ جس کی اس نے کوئی دلیل نہیں اتاری اور یہ کہ تم اللہ پر وہ کہو جو تم نہیں جانتے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ھٰٓاَنْتُمْ ھٰٓؤُلَآئِ حَاجَجْتُمْ فِیْمَا لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ فَلِمَ تُحَآجُّوْنَ فِیْمَا لَیْسَ لَکُمْ بِہٖ عِلْمٌ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ [آل عمران ۶۶]
’’ دیکھو تم وہ لوگ ہو کہ تم نے اس بات میں جھگڑا کیا جس کے متعلق تمھیں کچھ علم تھا، تو اس بات میں کیوں جھگڑتے ہو جس کا تمھیں کچھ علم نہیں اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ ﴾ [الحج ۳]
’’ اور لوگوں میں سے کوئی وہ ہے جو اللہ کے بارے میں کچھ جانے بغیر جھگڑتا ہے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿الَّذِیْنَ یُجَادِلُوْنَ فِیْ اٰیٰتِ اللّٰہِ بِغَیْرِ سُلْطَانٍ اَتَاہُمْ کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ وَعِنْدَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ [غافر ۳۵]
’’ وہ لوگ جو اللہ کی آیات میں جھگڑتے ہیں ، بغیر کسی دلیل کے جو ان کے پاس آئی ہو، بڑی ناراضی کی بات ہے اللہ کے نزدیک اور ان کے نزدیک جو ایمان لائے ۔‘‘
اس کی طرف سے دی گئی سلطان سے مراد حجت اور دلیل ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَمْ اَنْزَلْنَا عَلَیْہِمْ سُلْطٰنًا فَہُوَ یَتَکَلَّمُ بِمَا کَانُوْا بِہٖ یُشْرِکُوْنَ﴾ [الروم ۳۵]
’’ یا ہم نے ان پر کوئی دلیل نازل کی ہے کہ وہ بول کر وہ چیزیں بتاتی ہے جنھیں وہ اس کیساتھ شریک ٹھہرایا کرتے تھے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَمْ لَکُمْ سُلْطَانٌ مُّبِیْنٌ oفَاْتُوا بِکِتٰبِکُمْ اِِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ ﴾ [الصافات ۱۵۶۔۱۵۷]
’’ یا تمھارے پاس کو ئی واضح دلیل ہے ؟ تو لاؤ اپنی کتاب، اگر تم سچے ہو ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِِنْ ہِیَ اِِلَّا اَسْمَآئٌ سَمَّیْتُمُوْہَآ اَنْتُمْ وَآبَاؤُکُمْ مَا اَنزَلَ اللّٰہُ بِہَا مِنْ سُلْطَانٍ﴾ [النجم ۲۳]
’’ یہ (بت) چند ناموں کے سوا کچھ بھی نہیں ہیں ، جو تم نے اور تمھارے باپ دادا نے رکھ لیے ہیں ، ان کی کوئی دلیل اللہ نے نازل نہیں فرمائی ۔‘‘
جو چیز انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی طرف سے لیکر آئے ہیں اسے سلطان یعنی’’دلیل‘‘ کہتے ہیں ۔ ایسے ہی سنت بھی سلطان ہے۔اور سنت کی معرفت بھی اس وقت ہوتی ہے جب وہ صحیح سند کے ساتھ منقول ہو۔ جو شخص حدیث نبوی سے استدلال کرنا چاہے اس پر لازم ہے کہ استدلال کرنے سے قبل اس کی صحت معلوم کرلے۔ اور جب اس سے کسی دوسرے کے خلاف احتجاج کرے تو ساتھ ہی اس کی صحت بھی بیان کردے۔وگرنہ اس کا شمار بغیر علم کے بات کرنے والوں میں اور بغیر علم کے استدلال کرنے والوں میں ہوگا۔ جب یہ بات معلوم ہے کہ فضائل وغیرہ جیسے موضوعات پرلکھی گئی کتابوں میں جھوٹی روایات بھی پائی جاتی ہیں توصرف ان کتابوں میں روایت کے موجود ہونے کی بنا پر اس پر اعتماد کرنا اسی طرح ہے جیسے فاسق کی شہادت سے استدلال کرنا جو سچ بھی بولتا ہو اور جھوٹ بھی۔اگر ہمیں یہ علم ہوجائے کہ اس میں جھوٹ ہے ؛تو اس روایت سے ہمیں کوئی علمی فائدہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ہمیں کسی صحیح روایت کا علم نہ ہوجائے جسے ثقہ علماء نے روایت کیا ہو۔
ہمارے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مابین کئی صدیوں کا فاصلہ ہے۔ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں لوگ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یا کسی دوسرے سے نقل کرتے ہیں ‘ اس میں جھوٹ بھی آجاتا ہے اور سچ بھی ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا تھا : ’’ عنقریب مجھ پر جھوٹ بولا جائے گا۔‘‘ اگر یہ حدیث سچی ہے تو پھر [پیغمبر کی بات سچ ثابت ہونے کے لیے ] ضروری ہے کہ آپ پر جھوٹ بھی بولا جائے۔ اور اگریہ روایت جھوٹ ہے تو پھر یقیناً آپ پر جھوٹ بولا گیا ہے۔ جب یہ مسئلہ اس طرح سے ثابت ہوگیا تو پھر کسی انسان کے لیے ہر گز جائز نہیں ہے کہ وہ کسی فرعی مسئلہ میں کسی حدیث سے استدلال کرے یہاں تک کہ اس حدیث کی صحت ثابت ہوجائے۔توپھر اصولی مسائل میں اس طرح کا استدلال کیوں کر جائز ہوسکتا ہے جس کی وجہ خیر القرون کے جمہور اہل اسلام ؛ اہل تقوی اور اولیاء اللہ کے سرداروں پر اعتراض وارد ہوتا ہو؛ اور خود اس روایت کے صحیح ہونے کا کوئی علم ہی نہ ہو؟
ایسے انسان سے اگر پوچھا جائے : کیا تم حقیقت میں جانتے ہو کہ ایسا واقعہ پیش آیا تھا ؟ اگر وہ جواب میں کہے : ہاں تو یقیناً اس نے جھوٹ بولا۔اس لیے کہ اسے کس طرح پتہ چلا کہ یہ واقعہ پیش آیا ہے ؟اس سے پھر پوچھا جائے گا: تمہیں اس واقعہ کے سچا ہونے کا کیسے پتہ چلا؟ یہ بات اس وقت تک معلوم نہیں ہوسکتی جب تک واقعہ کی اسناد اور راویوں کے احوال معلوم نہ ہوں ۔جب کہ ان چیزوں کے بارے میں تمہیں کوئی علم ہی نہیں ہے۔اگر تمہیں راویوں کے احوال معلوم ہوتے تو تم جان لیتے کہ یہ روایت جھوٹی ہے۔
اگر[شیعہ] اس کے جواب میں کہے: ’’ مجھے اس کا کوئی پتہ نہیں ؟ تو [پھر ہم اس سے پوچھتے ہیں ] جس چیز کے صحیح ہونے کا تمہیں کوئی پتہ نہیں ‘اس سے استدلال کرنا کیسے جائز ہوا؟
[روایت کی حقیقت]:
دوسری بات:....محدثین کرام رحمہم اللہ کا اس روایت کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے۔ مغازلی کا شمار محدثین میں نہیں ہوتا۔جیسا کہ ابو نعیم اور اس کے امثال محدثین ہیں ۔اور نہ ہی اس کا شمار ان علوم [روایات ]کو جمع کرنے والوں میں سے ہوتا ہے جن کی غالب روایات حق ہوتی ہیں ؛ لیکن ان میں سے بعض باطل چیزیں بھی لے آتے ہیں ؛ جیسے ثعلبی اور ان کے امثال۔ بلکہ ان لوگوں کا اصل کام حدیث کی جانچ پرکھ نہیں تھا؛ اس لیے انہوں نے لوگوں کی کتابوں میں فضائل علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں جو کچھ بھی دیکھا؛ اس سب کو جمع کردیا جیسا کہ خطیب خوارزمی نے کیا ہے۔ یہ دونوں حضرات حدیث کی گہرائیوں سے لاعلم ہیں ۔ان میں سے ہر ایک وہ روایات بھی جمع کرلیتا ہے جو لوگوں نے اپنی طرف سے فضائل کے باب میں جھوٹ گھڑلی ہوتی ہیں ۔ حدیث کے علوم سے ادنی شناسائی رکھنے والوں پر بھی ان روایات کا جھوٹ ہونا مخفی نہیں رہتا ۔
ہم نہیں جانتے کہ ان حضرات میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہوگا۔ لیکن ہم یہ بات یقینی طور پر کہہ سکتے ہیں کہ جو روایات انہوں نے نقل کی ہیں ان میں بہت زیادہ جھوٹ بھی ہے ؛ اور اہل علم کا اس پر اتفاق ہے۔ ان کو اس سے پہلے بھی اہل علم نے جھوٹ کہا ہوتا ہے ؛ مگر جب یہ لوگ روایت کرتے ہیں تو انہیں علم نہیں ہوتا کہ اس میں جھوٹ ہے۔ اور بسا اوقات انہیں اس کے جھوٹ ہونے کا علم بھی ہوتا ہوگا۔[مگر پھر بھی اس لیے روایت کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو یہ پتہ چل جائے کہ اس طرح کی روایات بھی اس بارے میں موجود ہیں ]۔ لیکن ہمیں یہ پکا علم نہیں کہ کیا ان حضرات کویہ علم تھا کہ یہ روایات جھوٹ ہیں ؛ یا انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں تھا؟
علاوہ ازیں محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو بالفاظ دیگر موضوعات میں شمار کیا ہے۔ ابن الجوزی رحمہ اللہ نے یہ حدیث بروایت محمد بن مروان ذکر کی ہے، اس نے کلبی سے، اس نے ابوصالح سے، اس نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے سنا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتویں آسمان کی سیر کرائی گئی اور اللہتعالیٰ نے آپ کو بہت سے عجائبات دکھائے تو علی الصبح آپ نے وہ واقعات بیان کردیے۔اہل مکہ میں سے کچھ لوگوں نے آپ کی تکذیب کی؛ کچھ لوگوں نے آپ کی تصدیق کی۔ اسی دوران آسمان سے ایک ستارہ ٹوٹا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جس کے گھر میں یہ ستارہ گرے گا وہ میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا؟ چنانچہ وہ ستارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں گرا۔ اہل مکہ کہنے لگے محمد گمراہ ہو گئے اپنے اہل بیت کی محبت میں گمراہ ہو گئے اور اپنے چچا زاد بھائی کی طرف جھک گئے۔ تب یہ آیت اتری:
﴿وَالنجم اِذَا ہَوٰیoمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾
محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :یہ حدیث موضوع ہے، اس کا واضع کتنا برا آدمی ہے اور اس نے کس قدر بعید از عقل بات بیان کی ہے۔ اس کی سند میں اندھیرا ہی اندھیرا (کذاب راوی) ہے۔ مثلاً ابو صالح نیز کلبی اور محمد بن مروان سدّی، کلبی متہم بالکذب ہے۔ ابو حاتم بن حبان لکھتے ہیں :
’’کلبی ان لوگوں میں سے تھا جو کہتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ فوت نہیں ہوئے اور وہ لوٹ کر دنیا میں آئیں گے۔ جب بادل کو دیکھتا تو کہتا اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ اس کی روایت سے احتجاج کرنا حلال نہیں ہے۔‘‘
حیرانی کی بات ہے اس حدیث کو وضع کرنے والے نے یہ بھی نہ سوچا کہ یہ عقل کے منافی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ستارہ کسی جگہ گرے اور وہ اتنی دیر وہاں موجود رہے کہ دوسرا شخص اسے دیکھ سکے۔ اس کی حماقت کا اندازہ لگائیے کہ اس نے اس روایت کو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کیا ہے، حالانکہ ابن عباس کی عمر رضی اللہ عنہ اس وقت دو سال تھی۔ پھر ابن عباس رضی اللہ عنہ اس واقعہ کے عینی شاہد کیسے ہو سکتے تھے اور یہ روایت کیسے نقل کرسکتے تھے؟‘‘
’’ میں کہتا ہوں چونکہ یہ روایت کلبی کی معروف تفسیر میں نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حدیث اس کے بعد وضع کی گئی ہے۔ اقرب الی الصحت یہی بات ہے۔ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
’’ بعض لوگوں نے اس حدیث کے الفاظ چرا لیے، اس کی اسناد تبدیل کردی اور ایک غریب سند کیساتھ اسے ابو بکر العطار سے ؛اس نے سلیمان بن احمد المصری سے ابو قضاعۃ ربیعہ بن محمد کی سند سے نقل کیا ہے‘ وہ کہتے ہیں :ہم سے ثوبان بن ابراہیم نے بیان کیا؛ وہ کہتا ہے ہم سے مالک بن غسان النہشلی نے بیان کیا اس نے حضرت انس سے روایت کیا ہے :
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں ایک ستارہ ٹوٹا توآپ نے فرمایا :’’جس کے گھر میں یہ ستارہ گرے گا وہ میرے بعد میرا خلیفہ ہوگا؟ چنانچہ وہ ستارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر میں گرا۔ اہل مکہ کہنے لگے محمد گمراہ ہو گئے اپنے اہل بیت کی محبت میں گمراہ ہو گئے اور اپنے چچا زاد بھائی کی طرف جھک گئے۔ تب یہ آیت اتری:
﴿وَالنجم اِذَا ہَوٰیoمَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوٰی﴾
ابو الفرج ابن الجوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یہ حدیث حقیقت میں وہ پہلے والی حدیث ہے۔ بعض لوگوں نے اس حدیث کے الفاظ چرا لیے، اس کی اسناد تبدیل کردی۔ اس کی غفلت کی انتہاء یہ ہے کہ اس نے یہ روایت حضرت انس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کی ہے ۔ حالانکہ معراج کے زمانہ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ مکہ میں موجود ہی نہیں تھے۔ او رنہ ہی اس سورت کے نزول کے وقت موجود تھے۔ معراج کا واقعہ ہجرت مدینہ سے ایک سال پہلے پیش آیا۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ طیبہ میں آمد کے بعد پہچانا ہے۔ اس کی سند میں اندھیرا ہی اندھیرا (کذاب راوی) ہے۔ مالک النہشلی کے بارے میں ابو حاتم بن حبان لکھتے ہیں :
’’ یہ ایسی روایات ثقات کے سر تھوپتا ہے جو کہ اصل میں جھوٹ ہوتی ہیں ۔‘‘
جب کہ ثوبان کے بارے میں کہا ہے : ’’یہ ذوالنون مصری کا بھائی ہے۔ حدیث میں بہت ہی کمزور ہے۔
ابو قضاعہ منکر الحدیث ہے اس کی روایت قبول نہیں کی جاتی ۔
ابو بکر العطار اور سلیمان بن احمد دونوں مجہول ہیں ۔
تیسری بات:....جس چیز سے اس روایت کا جھوٹ ظاہر ہوتا ہے وہ راوی کا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے متعلق کہنا ہے کہ سورت نجم کے نزول کے وقت جب ستارہ ٹوٹ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر پر گرا تو اس وقت موجود تھے۔ سورت نجم پر لوگوں کا اتفاق ہے کہ مکہ میں نازل ہونے والی ابتدائی سورتوں میں سے ہے۔اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت بھی نوخیز لڑکے تھے ؛ ابھی بلوغت کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے۔ بخاری و مسلم میں یہ بات ثابت ہے۔
تو اس اعتبار سے ان آیات کے نزول کے وقت یا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ؛ اور اگر پیدا ہو بھی گئے تھے تو ابھی نا سمجھ بچے تھے۔ اس لیے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت کی اس وقت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی عمرتقریباً زیادہ سے زیادہ پانچ سال ہوگی۔ حق بات یہ ہے کہ اس سورت کے نزول کے وقت ابن عباس پیدا ہی نہیں ہوئے تھے ؛ اس لیے کہ سورت نجم قرآن کی انتہائی ابتدائی سورتوں میں سے ایک ہے۔
چوتھی بات :....مزید براں ستارہ ٹوٹنے کا واقعہ صحیح نہیں ۔ مکہ و مدینہ بلکہ کسی جگہ بھی یہ واقعہ پیش نہیں آیا۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے اس وقت بکثرت انگارے آسمان سے پھینکے جانے لگے۔مگر کوئی ستارہ زمیں پر نہیں اترا۔یہ واقعہ ان خارق عادت امور میں سے نہیں جنہیں دنیا جانتی ہو؛ بلکہ ان امور میں سے جن کے بارے میں کسی کو کچھ بھی علم نہیں ۔
بایں ہمہ ایسی من گھڑت روایت بیان کرنا بڑے جرأت مند ڈھیٹ اوردینداری کے لحاظ سے انتہائی بے حیاء آدمی کا کام ہے۔ اور ایسے واقعات کو صرف ایسے لوگوں میں ہی پذیرائی حاصل ہوسکتی ہے جو لوگوں میں سب سے جاہل اور احمق ہوں ‘ اور علم ومعرفت کے لحاظ سے بالکل تہی دامن ۔
پانچویں بات: سورت نجم اسلام کے ابتدائی دور میں ناز ل ہوئی تھی۔ اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ بالکل بچے تھے ۔ بلوغت کی عمر کو بھی نہیں پہنچے تھے؛ اور نہ ہی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے شادی ہوئی تھی؛ اس وقت نماز بھی فرض نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی زکوٰۃ اور حج اور رمضان کے روزے فرض ہوئے تھے۔ اورنہ ہی اسلام کے عام قواعد مستحکم ہوئے تھے۔
اگر ان لوگوں کے دعوی کے مطابق امامت کے لیے وصیت کا واقعہ غدیر خُمّ کے موقع پر پیش آیا تو پھر اس سورت کے نزول کے وقت وصیت کرنے کی کیا حقیقت باقی رہ جاتی ہے؟ [شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کلام بالکل درست ہے ۔ اعلان نبوت کے پانچویں سال بیت اللہ میں تلاوت قرآن کا واقعہ پیش آیا ؛ اور آپ نے سورت نجم کی آیات تلاوت کیں ؛قرآن کی اثر آفرینی کا یہ عالم تھاکہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس آیت پر پہنچے :﴿ فَاسْجُدُوا لِلَّهِ وَاعْبُدُوا ﴾ اب اللہ کے سامنے سجدے کرو اور (اسی کی)عبادت کرو ۔‘‘ مسلمانوں کے ساتھ کافر بھی بے اختیار سجدہ ریز ہوگئے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سورت میں سجدہ کیا اور آپ کے پیچھے جتنے لوگ بیٹھے تھے(خواہ مسلمان تھے یا مشرک)سب نے سجدہ کیا بجز ایک شخص امیہ بن خلف کے، اس نے مٹھی بھر مٹی لی (منہ سے قریب کی) پھر اس پر سجدہ کیا....الخ۔ (بخاری، کتاب التفسیر) اسی موقعہ سے متعلق مشہور ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں :﴿ أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّى () وَمَنَاةَ الثَّالِثَةَ الْأُخْرَى ﴾ تو شیطان نے آپ کی آواز جیسی آواز میں آگے یہ الفاظ پڑھ دئیے۔(تِلک الغرانِیق العلی وإن شفاعتھن لترتجی)’’یہ تینوں بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت متوقع ہے۔‘‘ اور بعض کے نزدیک یہ واقعہ یوں ہوا کہ جب قریشیوں نے بھی مسلمان کے ساتھ مل کر سجدہ کر لیا تو بعد میں انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا کہ ہم سے یہ کیا حماقت سرزد ہوگئی تب انہوں نے یہ الفاظ اپنی طرف سے گھڑے اور کہہ دیا: کہ ہم نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے یہ الفاظ سنے تھے اور سمجھے کہ اب وہ بھی ہمارے دین کی طرف مائل ہو رہے ہیں ۔ اس لیے ہم نے ان کے ساتھ مل کر سجدہ کیا تھا۔ یہ واقعہ جو کچھ بھی تھا، یہ خبر یا افواہ اتنی مشہور ہوئی کہ حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والوں نے، جنہوں نے رجب ۵ نبوی میں ہجرت کی تھی۔ جب ایسی صلح یا سمجھوتے کی خبر سنی تو شوال ۵ نبوی میں مکہ واپس آگئے۔ مگر مکہ مکرمہ آکر انہیں معلوم ہواکہ یہ تو سب کچھ ایک افسانہ تھا۔ چنانچہ وہ دوبارہ ہجرت کرکے حبشہ کی طرف واپس چلے گئے۔[دراوی ‘کشمیری]]
چھٹی بات :....مفسرین کرام رحمہم اللہ کا اس کے خلاف پر اتفاق ہے ۔ سورت نجم میں جن ستاروں کی قسم اٹھائی گئی ہے وہ یا تو آسمان کے ستارے ہیں یا پھر قرآن کے ستارے ۔ مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ مکہ میں کسی کے گھر میں ستارہ ٹوٹ کر گرا تھا۔
ساتویں بات:....جو کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کہے : ’’آپ گمراہ ہوگئے ‘‘ تو وہ کافر ہوجاتا ہے۔ اور کفار کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم شہادتین کے اقرار اور اسلام میں داخل ہونے سے پہلے فروعی احکام کا حکم نہیں دیا کرتے تھے۔
آٹھویں بات:....اگرستارے کا ٹوٹنا آسمان سے گرنے والی [بجلی] آگ تھی؛ تو پھر کسی کے گھر میں بجلی کا گرنا اس کی کرامت نہیں ہوتی۔اور اگر یہ ستارہ آسمانی ستاروں میں سے تھا تو یہ ستارے اپنے فلک سے باہر نہیں نکلتے۔اور اگریہ کوئی شہابیہ تھا تو شہابیے شیاطین کومارنے کے لیے چھوڑے جاتے ہیں ۔شہابیے زمین پر نازل نہیں ہوتے ۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ واقعی شیطان دوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر تک پہنچا تھا او رشہابیے نے اس کا پیچھا کر کے جلادیا تو اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پھر بھی کوئی کرامت نہیں ہے ۔ حالانکہ ایسا کوئی واقعہ پیش ہی نہیں آیا۔