Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت علی رضی اللہ عنہ کی پانچویں دلیل:

  امام ابن تیمیہ

امامت علی رضی اللہ عنہ کی پانچویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’پانچویں دلیل قرآن کریم کی یہ آیت ہے:

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا﴾ [الأحزاب۳۳]

’’ اے اہل بیت !اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔‘‘

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے اپنی مسند میں واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ:’’ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے گھر میں تلاش کیا۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گئے ہیں ۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ دونوں آئے۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا بھی وہاں پہنچ گئیں ، آپ نے علی رضی اللہ عنہ کو بائیں جانب اور فاطمہ رضی اللہ عنہا کو دائیں طرف اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو اپنے سامنے بٹھایا پھر ان پر اپنی چادر تان لی اور فرمایا:

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا

’’ اے اہل بیت نبی اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔‘‘

اور پھر فرمایا: ’’اے اللہ ! یہ میرے سچے اہل بیت ہیں ۔‘‘

حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کا قول ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت میرے گھر میں تشریف فرما تھے ۔توحضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا پتھر کی ایک ہانڈی لیکر آئیں جس میں حریرہ تھا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے شوہر اور دونوں بیٹوں کو بلا لاؤ۔تو آپ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بلا لائیں ۔یہ سب لوگوں گھر میں داخل ہوئے اور گھر میں بیٹھ کر حریرہ کھانے لگے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ایک خیبری چادرپر بیٹھے ہوئے تھے۔اور میں اپنے حجرہ میں کھڑی نماز پڑھ رہی تھی۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی:

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا

[دراوی کہتا ہے : حضرت علی رضی اللہ عنہ اس سورت کے نزول کے وقت بہت کم عمر تھے؛ اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں پرورش پارہے تھے ۔ آپ کا علیحدہ سے کوئی گھر نہیں تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں آپ کے دوسرے لے پاک جو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی اولاد تھے وہ بھی رہا کرتے تھے ؛ اور آپ کا آزاد کردہ غلام حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ بھی ہوا کرتے تھے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ ستارہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد ابو طالب کے گھر پر گرا تو پھر ان کے دوسرے بھائی بھی مسلمان تھے ؛ جو آپ سے بڑے بھی تھے ؛ تو ان میں سے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ اور امام ہونے کے لیے کیسے چنا گیا ؟ اور اگر یہ ستارہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہی گھر پر گرا تھا تو حضرت زید بن حارثہ ؛ حضرت ہالہ اور دوسرے لوگوں کو چھوڑ کر آپ کومتعین امام اور وصی مقرر کرنے کے لیے کوئی خاص دلیل ہونی چاہیے ؛ وگرنہ یہ تمام لوگوں کے لیے عام ہے ؛ کوئی بھی دوسرا اس کا مستحق ہوسکتا ہے ۔ لیکن کیا کریں رافضی بیچارے عقل و علم سے بالکل کورے ہوتے ہیں ؛ ان کو تو ڈھنگ سے جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا۔ [دراوی؛ کشمیری]]

آپ فرماتی ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کو اپنی چادر کے باقی حصہ میں داخل کرلیا؛ اور پھر اپنے ہاتھ باہر نکال کر آسمان کی طرف بلند کیے اور یہ دعا فرمائی :

’’یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان سے گناہ کی نجاست دور کر دے اور انکو بخوبی پاک کر دے۔‘‘

آپ نے کئی بار ایسے فرمایا ۔حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : میں نے اپنا سر اندر داخل کیا ؛اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بھی ان کیساتھ ہوں (یعنی چادر میں آنے کا ارادہ کیا)۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی جگہ رہو تم خیر پر ہو۔‘‘

مذکورہ صدر آیت میں ان کے معصوم ہونے کی دلیل ہے۔اور ﴿اِنَّمَا﴾ کے بعد اس کی خبر پر’’لام‘‘ داخل کیا گیا ہے یہ لفظ بتاکید اس خطاب میں اہل بیت کے اختصاص پر دلالت کرتا ہے۔ اور پھر ﴿ يُطَهِّرَكُمْ ﴾ کے لفظ سے اس مضمون کو دھرایا گیا ہے ‘ اور﴿ تَطْهِيرًا ﴾ کے لفظ سے اس کی تاکید کی گئی ہے۔ اس سے بھی تاکید کا مفہوم نکل رہا ہے، اس آیت سے مستفاد ہوا کہ اہل بیت کے سوا کوئی بھی معصوم نہیں ۔ لہٰذا امام صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انھوں نے متعدد اقوال میں اس کا دعویٰ کیا ہے، جیسے آپ کا یہ قول:

’’ ابن ابی قحافہ نے یہ لباس اوڑھا(منصب خلافت پر فائز ہوئے) حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ مجھے وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک چکی میں درمیانی سیخ کو حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘ علاوہ ازیں آپ سے نجاست کی نفی بھی کردی گئی ہے، لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی خلیفہ صادق ہوں گے۔‘‘[انتہیٰ کلام الرافضی]

[آیت تطہیر سے شیعہ کا استدلال]:

ہم کہتے ہیں :اجمالی طور پر یہ حدیث صحیح ہے،یہ ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا حسن رضی اللہ عنہ اور حسین رضی اللہ عنہ کو بلوایا اور ان سب پر ایک چادر ڈال دی۔پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا کی :

’’یا اللہ یہ میرے اہل بیت ہیں ، ان سے گناہ کی نجاست دور کر دے اور ان کو بخوبی پاک کر دے۔‘‘

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم صبح کے وقت اس حال میں نکلے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اوپر ایک ایسی چادر اوڑھے ہوئے تھے کہ جس کے کناروں پر ہانڈیوں کے نقش سیاہ بالوں سے بنے ہوئے تھے۔ اسی دوران میں حضرت حسن رضی اللہ عنہ آ گئے تو آپ نے ان کو اپنی اس چادر کے اندر کر لیا پھر حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی آ گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اپنی چادر کے اندر کر لیا پھر حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اپنی چادر میں کر لیا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بھی اپنی چادر میں کر لیا پھر آپ نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی:

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا

’’ اے اہل بیت نبی اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی کو دور کرکے اچھی طرح پاک صاف بنا دے۔‘‘[صحیح مسلم۔ کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل اہل بیت النبی رضی اللّٰہ عنہم (حدیث:۲۴۲۴)]

سنن میں سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے یہ روایت زیادہ مشہور ہے۔[سنن ترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب ما جاء فی فضل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہا (حدیث: ۳۸۷۱)۔]مگر اس میں عصمت و امامت کا کوئی ذکر نہیں پایا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کا مضمون دو جگہ پر پایا جاتا ہے:

پہلا مقام : اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًا

یہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی طرح ہے :

﴿ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ

’’اللہ تعالیٰ تمہیں کسی حرج میں مبتلا نہیں کرنا چاہتے ۔‘‘

مندرجہ ذیل آیات بھی اسی قبیل سے ہیں :

۱....﴿ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ﴾ (البقرۃ:۱۸۵)

’’اللہ تعالیٰ تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے اور وہ تمہارے ساتھ کوئی تنگی نہیں کرنا چاہتا ۔‘‘

۲....﴿یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُبَیِّنَ لَکُمْ وَ یَہْدِیَکُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ یَتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ﴾ (النساء:۲۶)

’’اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے واسطے خوب کھول کر بیان کرے اور تمہیں تم سے پہلے کے (نیک) لوگوں کی راہ پر چلائے اور تمہاری توبہ قبول کرے اور اللہ تعالیٰ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘

۳....﴿وَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یَّتُوْبَ عَلَیْکُمْ وَ یُرِیْدُ الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الشَّہَوٰتِ اَنْ تَمِیْلُوْا مَیْلًا عَظِیْمًا ﴾ (النساء:۲۷)

’’اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری توبہ قبول کرے اور جو لوگ خواہشات کے پیرو ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم اس سے بہت دور ہٹ جاؤ ۔‘‘

ان آیات میں ارادہ سے مراد محبت و رضا ہے۔اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لیے ایسا مشروع کیا ہے ‘ اور انہیں ایسا کرنے کا حکم دیا ہے۔اس میں کہیں بھی یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کچھ پیدا کردیاہے اور یہ مطلب بھی نہیں کہ اس نے یہ بات مقدر کردی ہے یا اسے ایجاد کردیا ہے۔اورنہ ہی یہ مقصد ہے کہ ہر حال میں ایسا ہوکر ہی رہے گا۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے اللہ یہ میرے گھر والے ہیں تو ان سے نجاست کو دور کردے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے دربار میں یہ التجا کی ہے کہ ان سے نجاست کو دور کردے اورانہیں ہر طرح سے پاک کردے۔ اگر آیت کا مطلب ہوتا کہ اہل بیت کو پاک کیا جا چکا ہے تو دعا کی حاجت نہ تھی۔

[اراداہ الٰہی کی اقسام]:

فرقہ قدریہ ( منکرین تقدیر) کے قول کے مطابق یہ بات اور بھی واضح ہے۔ اس لیے کہ قدریہ کے نزدیک اللہ کے ارادہ کے لیے وجود مراد ضروری نہیں ۔ بلکہ بعض اوقات وہ ارادہ کرتا ہے اور وہ چیز وقوع میں نہیں آتی اور بعض دفعہ وہ چیز ظہور پذیر ہوتی ہے جس کا وہ ارادہ نہیں کرتا۔

یہ رافضی اور اس کے امثال قدریہ وہ اس آیت :﴿اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ ﴾ سے کیسے اپنی مراد کے واقع ہونے پر پر استدلال کرتے ہیں ؟ کیا شیعہ اپنافاسد قانون بھی بھول گئے؟

ان کے نزدیک اللہ تعالیٰ نے ارادہ کیا تھا کہ تمام اہل زمین ایمان لے آئیں ‘ مگر اللہ کا ارادہ پورا نہ ہوسکا۔

تقدیر کا اثبات کرنے والے [اہل سنت] کی رائے میں کتاب اللہ میں ارادہ کی دو قسمیں ہیں :

۱۔ ارادہ شرعیہ دینیہ: جو اللہ تعالیٰ کی محبت و رضا کو متضمن ہے جیسا کہ مذکورہ صدر آیات ہیں :

۲۔ ارادہ کونیہ قدریہ: یہ اللہ تعالیٰ کی خلق و تقدیر کو شامل ہے۔

ارادہ کی پہلی اقسام کی مثالیں جیسا کہ سابقہ آیات گزر چکیں ۔

دوسری قسم کی مثالیں :اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

﴿فَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ اَنْ یَّہْدِیَہٗ یَشْرَحْ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ وَ مَنْ یُّرِدْ اَنْ یُّضِلَّہٗ یَجْعَلْ صَدْرَہٗ ضَیِّقًا حَرَجًا کَاَنَّمَا یَصَّعَّدُ فِی السَّمَآئِ ﴾ (الانعام:۱۲۵)

’’سو جس شخص کو اللہ تعالیٰ راستہ پر ڈالنا چاہے اس کے سینہ کو اسلام کے لیے کشادہ کر دیتا ہے جس کو گمراہ رکھنا چاہے اس کے سینے کو بہت تنگ کر دیتا ہے جیسے کوئی آسمان پر چڑھتا ہے۔‘‘

اورنوح علیہ السلام کا اپنی قوم سے فرمان ہے:

﴿وَ لَا یَنْفَعُکُمْ نُصْحِیْٓ اِنْ اَرَدْتُّ اَنْ اَنْصَحَ لَکُمْ اِنْ کَانَ اللّٰہُ یُرِیْدُ اَنْ یُّغْوِیَکُمْ ﴾ [ھود۳۴]

’’تمہیں میری خیر خواہی کچھ بھی نفع نہیں دے سکتی، گو میں کتنی ہی تمہاری خیر خواہی کیوں نہ چاہوں ، بشرطیکہ اللہ کا ارادہ تمہیں گمراہ کرنے کا ہو ۔‘‘

بہت سارے مشبّہ اور قدریہ ارادہ کی صرف ایک ہی قسم شمار کرتے ہیں ۔جیسا کہ ارادہ اور محبت کو بھی ایک ہی چیز کہتے ہیں ۔ پھر قدریہ آیات تقدیر میں واضح ارادہ [بمعنی تقدیر ] کی نفی کرتے ہیں اور دوسرا گروہ ایک ارادہ بمعنی تشریع کی نفی کرتا ہے۔ ان کے نزدیک ہر وہ چیز جس کے بارے میں کہا جاسکتا ہو کہ یہ مراد ہے تو اس مراد کا پورا ہونا ہر حال میں ضروری ہے۔

جب کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ وہ مؤمنین کی توبہ قبول کرنا اور انہیں پاک کرنا چاہتا ہے ۔ لیکن لوگوں میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو توبہ کرتے ہیں [تو اللہ تعالیٰ ان کی توبہ قبول کرتے ہیں ] اور کچھ لوگ توبہ نہیں کرتے۔ ان میں کچھ ایسے ہوتے ہیں جو پاک و صاف ہوجاتے ہیں اور کچھ پاک نہیں ہوتے۔

جب آیت دلالت کرتی ہے کہ ان[اہل بیت] کو پاک کرنے کا اور ان سے نجاست دور کرنے کا اللہ تعالیٰ کے ارادہ کا وقوع ہوا ہے ؛ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا [انہیں فی الفور پاک کر بھی دیا گیا ہو] جیسا کہ مصنف کا دعوی ہے۔

اس کی مزید وضاحت اس سے ہوتی کہ زیر نظر آیت کے آغاز میں ازواج النبی صلی اللہ علیہ وسلم کاذکر کیا گیا ہے۔ اور یہ کلام ان ہی کی طہارت کے واجب ہونے کے بارے میں ہے‘اور جو کوئی ایسا کرے گااس کے لیے اس فعل پر ثواب کا وعدہ ہے؛اوراس کے ترک پر سزا کا بیان ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًاo وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِہَآ اَجْرَہَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَہَا رِزْقًا کَرِیْمًاo یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًاo وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْہِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَہْلَ الْبَیْتِ وَیُطَہِّرَکُمْ تَطْہِیْرًاo﴾ [الأحزاب۳۰۔۳۳]

’’اے نبی کی بیویو!تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی(کا ارتکاب)کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گااور اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بہت ہی سہل(سی بات)ہے۔اور تم میں سے جو کوئی اللہ کی اور اسکے رسول کی فرماں برداری کرے گی اور نیک کام کرے گی ہم اسے اجر(بھی)دوہرا دیں گے اور اس کے لیے ہم نے بہترین روزی تیار کر رکھی ہے۔ اے نبی کی بیویو!تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو؛اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدہ کے مطابق کلام کرو۔اور اپنے گھروں میں قرار سے رہواور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بنا ؤکا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ چاہتا ہے :نبی کی گھر والیو!کہ وہ تم سے گندگی کو دور کر دے اور تمہیں خوب پاک کر دے۔‘‘

یہ پورا خطاب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات سے ہے۔اس میں امر و نہی وعد ووعید سب چیزیں موجود ہیں ۔لیکن جب اس خطاب کے فائدہ [اورعموم حکم ] کی بات ہے تو یہ اہل بیت اور غیر اہل بیت تمام عورتوں کو شامل ہے۔اس لیے یہ خطاب ان الفاظ میں وارد ہوا ہے۔ بنا بریں یہ خطاب ازواج سے ہے۔ نجاست دور کرنے کا ارادہ اور تطہیر اہل بیت صرف ازواج ہی کے ساتھ مختص نہیں بلکہ سب اہل بیت اس میں شامل ہیں ۔ بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ و حسن و حسین رضی اللہ عنہما باقی اہل بیت کی نسبت اخص ہیں یہی وجہ ہے کہ دعا میں خصوصیت سے ان کاذکر کیا۔

یہ خطاب اللہ تعالیٰ کے اس قول کی مانندہے :

﴿ لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ﴾ [التوبہ۱۰۸]

’’یقیناً وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے تقوی پر رکھی گئی ۔‘‘

یہ آیت مسجد قباء کے بارے میں نازل ہوئی؛ مگر اس کا حکم مسجد قباء کے لیے بھی اور اس مسجد کے لیے بھی جو اس سے زیادہ اس حکم کی حق دار ہے یعنی مسجد نبوی شریف۔یہ توجیہ خودنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی حدیث مبارک میں ثابت ہے ۔ آپ سے پوچھا گیا کہ: ’’ وہ مسجد کون سی ہے جو تقوی کی بنیاد پر تعمیر کی گئی ہے ؟ توآپ نے فرمایا: ’’ میری یہ مسجد۔‘‘[ترمذي ۴؍۳۴۴ ؛کِتاب تفسِیرِ القرآنِ، سورۃ التوبۃ حدیث رقم 5097۔ ؛ قال التِرمِذِی: ہذا حدیث حسن صحِیح، وقد روِی ہذا عن أبِی سعِید الخدرِی مِن غیرِ ہذا الوجہِ۔ والحدیث فِی سنن النسائِیِ 2؍30 ِکتاب المساجِدِ، باب ذکِرِ المسجِدِ الذِی أسِس علی التقوی، المسند 3؍8، 5؍116 ۔ ]

احادیث مبارکہ میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کو پیدل یا سوار ہوکر مسجد قباء آیا کرتے تھے ۔ جمعہ اپنی مسجد میں پڑھایا کرتے تھے[اور وہاں قیام کرتے ]۔ اور ہفتہ کو مسجد قباء میں تشریف لاتے۔ [البخاری 2؍61؛ کتاب فضلِ الصلاِۃ فِی مسجِدِ مکۃ والمدِینِۃ، باب من أتی مسجِد قباء کل سبت، وجاء ذلِک ضِمن حدیث فِی البابِ الذِی قبلہ ؛ باب مسجِدِ قباء، 2؍60 والحدیث فِی مسلِم 2؍1017؛ ِکتاب الحج ، باب فضلِ مسجِدِ قباء۔]

ان دونوں مساجد کی بنیاد تقوی پر رکھی گئی ۔ ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات؛ حضرت علی؛ حضرت فاطمہ او رحضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہم یہ تمام لوگ اہل بیت میں سے ہیں ۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دعا میں حضرت علی؛ حضرت فاطمہ او رحضرات حسن و حسین رضی اللہ عنہم ازواج کی نسبت زیادہ خاص ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ دعا میں بطور خاص ان کا ذکر کیا ہے۔

علماء کرام رحمہم اللہ کے مابین اختلاف ہے کہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کون لوگ مراد ہیں ؟ ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہے؛یہ امام مالک اور امام احمد رحمہما اللہ کاایک قول ہے۔

دوسرا قول : اس سے مراد امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے متقی لوگ مراد ہیں ۔اس کی تائید میں وہ یہ روایت پیش کرتے ہیں :

’’ہر متقی مؤمن آل محمد ہے ۔‘‘ [رواہ الخلال وتمّام فی ’’ الفوائد ‘‘]

امام احمد کے اصحاب میں سے ایک گروہ نے اس حدیث سے استدلال کیاہے۔ یہ حدیث موضوع ہے۔ اس روایت کو صوفیاء کی ایک جماعت نے اپنے نظریات وعقیدہ کی بنیاد بنایاہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ : آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے مراد خاص اولیاء ہیں ۔ حکیم ترمذی نے ایسے ہی ذکر کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ آل محمد سے مراد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت ہیں ۔ یہ قول امام شافعی رحمہ اللہ اورامام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے اور سید ابو جعفر رحمہ اللہ نے اسے ہی اختیار کیا ہے۔لیکن کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات آپ کے اہل بیت میں سے ہیں ؟ اس بارے میں دو قول ہیں ؛ اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی دو روایتیں منقول ہیں ۔

پہلا قول: ازواج مطہرات اہل بیت میں سے نہیں ہیں ۔ زید بن ارقم سے ایسے ہی روایت کیاگیا ہے ۔

دوسرا قول: أزواج مطہرات رضی اللہ عنہن اہل بیت میں سے ہیں ۔ یہی صحیح قول ہے۔ اس لیے کہ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو یہ دعا سکھائی:

(( اَللّٰہُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّا َزْوَاجِہٖ وَ ذُرِّیَاتِہٖ۔))

’’اے اللہ ! رحمتیں نازل فرما محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کی ازواج پر اور آپ کی اولاد پر ۔‘‘

اس لیے بھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بیوی کا شمار آپ کے اہل بیت میں سے کیاگیا ہے ؛ حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا شمار آپ کی آل اور اہل بیت میں سے کیاگیا ہے۔اس پر قرآن کی واضح دلالت موجود ہے ۔تو پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا شمار آپ کی آل اور اہل بیت میں کیوں نہیں ہوسکتا؟

آیت یہ بھی دلالت کرتی ہے کہ ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کا شمار آپ کے اہل بیت میں سے ہوتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر یہ سارا کلام بے معنی ہو کر رہ جاتا ۔ جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کے متقی بھی آپ کے اولیاء [دوست] ہیں ۔جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:

’’ بیشک بنی فلاں میرے دوست نہیں ہیں ؛ بیشک میرا دوست اللہ تعالیٰ ہے او رنیکو کار اہل ایمان ہیں ۔‘‘[مسلم ۱؍۱۹۷] البخاری 8 ؛ ِکتاب الأدبِ، باب یبل الرحِم بِبِلاہا، و....عنہ عمرو بن عباس’’بِبیاض ـ لیسوا بأِولِیائِی، ِإنما ولِیِی اللہ وصالِح المؤمِنِین ۔‘‘ والحدیث فِی: مسلِم 1؍197؛ ِکتاب الإِیمانِ، باب موالاِۃ المؤمِنِین ومقاطعِۃ غیرِہِم۔۔المسند 4؍203۔]

اس حدیث میں آپ نے بیان کردیا ہے کہ آپ کے اولیاء اور دوست صالح و نیکو کار اہل ایمان ہیں ۔ ایسے ہی ایک دوسری حدیث میں آتاہے ؛آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ بیشک میرے دوست متقی لوگ ہیں و ہ جہاں بھی ہوں او رجیسے بھی ہوں ۔‘‘ [المسند۵؍۲۳۵] 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ﴾ [التحریم۴]

’’اور اگر تم نبی کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو گی پس یقیناً اس کا کار ساز اللہ ہے اور جبرائیل ہیں اور نیک ایماندار ۔‘‘

صحاح ستہ میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ مجھے یہ بات پسند تھی کہ میں اپنے بھائیوں کو دیکھ لیتا ۔

’’ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں ؟

آپ نے فرمایا: نہیں تم میرے اصحاب ہو‘ میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو میرے بعد آئیں گے اور مجھ پر ایمان لائیں گے حالانکہ انہوں نے مجھے دیکھا نہیں ہوگا۔‘‘[صحیح مسلم میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان تشریف لائے اور فرمایا سلامتی ہو تم پر مومنوں کے گھر، ہم بھی ان شا اللہ تم سے ملنے والے ہیں میں پسند کرتا ہوں کہ ہم اپنے دینی بھائیوں کو دیکھیں ، صحابہ کرام نے عرض کیا: یارسول اللہ! کیا ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھائی نہیں ہیں آپ نے فرمایا: تم تو میرے صحابہ ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت کے ان لوگوں کو اے اللہ کے رسول!کیسے پہچانیں گے جو ابھی تک نہیں آئے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا تم دیکھو اگر کسی شخص کی سفید پیشانی والے سفید پاؤں والے گھوڑے سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو ان میں سے پہچان نہ لے گا صحابہ کرام نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ لوگ جب آئیں گے تو وضو کے اثر کی وجہ سے ان کے چہرے ہاتھ اور پاؤں چمکدار اور روشن ہوں گے اور میں ان سے پہلے حوض پر موجود ہوں گا اور سنو بعض لوگ میرے حوض سے اس طرح دور کیے جائیں گے جس طرح بھٹکا ہوا اونٹ دور کر دیا جاتا ہے میں ان کو پکارونگا ادھر آؤ‘ تو حکم ہوگا کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد دین کو بدل دیا تھا‘ تب میں کہوں گا دور ہو جاؤ دور ہو جاؤ۔‘‘صحیح مسلم:ح: 584۔یہ صحاح ستہ کی روایت ہے۔ [الدراوی۔مزید حوالہ کے لیے دیکھیں :]مسلِم 1؍218 ِکتاب الطہارۃِ باب استِحبابِ إِطالۃِ الغرۃِ والتحجِیلِ فِی الوضوئِ۔ والحدیث فِی سننِ النسائِیِ 1؍79؛ ِکتابِ الطہارۃِ، بابِ حِلیۃِ الوضوء، سنن ابن ماجہ 2؍1439؛ ِکتابِ الزہدِ، بابِ ذِکرِ الحوضِ؛ الموطأ 1؍28 ؛ کتابِ الطہارۃِ، بابِ جامِعِ الوضوئِ، المسندِ۔ ط۔ المعارِفِ 15؍152، 18؍56 وجاء الحدیث فِی صحِیحِ الجامِعِ الصغِیرِ 6؍107 وقال السیوطِی ِإن الحدیث فِی مسندِ أحمد عن أنس رضِی اللّٰہ عنہ۔]

جب مسئلہ ایسے ہی ہے تو اللہ تعالیٰ کے متقی اولیاء کے مابین ایمان و تقوی اورقرابت دین کا تعلق ہوتاہے ۔ اور دینی قرابت بدنی قرابت کے نزدیک بہت ہی زیادہ عظیم تر ہوتاہے۔ قلوب اور ارواح کے مابین کی قربت بدنی قرابت سے زیادہ عظیم تر ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء اللہ المتقین تمام مخلوق سے افضل تھے۔ جب کہ ان اقارب میں سے کچھ لوگ مؤمن بھی ہوتے تھے اور کچھ کافر بھی ہوتے؛ نیک اور صالح بھی ہوتے اور بدکار اور فاجر بھی ۔ اگرچہ ان میں ایسے فاضل بھی تھے جیسے حضرت علی بن ابی طالب؛ حضرت جعفر؛ حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہم بھی تھے۔ ان کی فضیلت ان کے ایمان اور تقوی کی وجہ سے ہے۔اور ان کی ولایت اسی اعتبار سے ہے؛ صرف مجرد نسب کی وجہ سے نہیں ۔پس آپ کے اولیاء کا درجہ آپ کی آل سے زیادہ ہے۔اور جب ان آل پر آپ کی اتباع میں درود پڑھا جائے تو اس کا تقاضا ہر گز یہ نہیں ہے کہ آل ان اولیاء سے افضل ہوگئے ہیں جن پر درود نہیں پڑھا جاتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اصل اولیاء تو انبیاء و مرسلین ہیں ۔ جو کہ آپ کے اہل بیت سے بہت زیادہ افضل ہیں ۔ اگرچہ وہ اس درودھ پڑہنے میں تبعاً داخل نہیں ہوتے۔پس کچھ معاملات مفضول کے ساتھ خاص ہوتے ہیں ۔ ان سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ فاضل سے افضل ہے۔ اور اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ کی ازواج مطہرات ان حضرات میں سے ہیں جن پر درود پڑھا جاتا ہے؛ جیساکہ صحیحین میں ثابت ہے؛ اور یہ بات تمام لوگوں کے اتفاق و اجماع سے ثابت ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام ان تمام ازواج مطہرات سے افضل ہیں ۔

آیت تطہیر اور شیعی دعویٰ کی حقیقت:

اگرشیعہ کہیں کہ فرض کیجیے قرآن کریم سے اہل بیت کی طہارت اور پاکیزگی ثابت نہیں ہوتی، مگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے معلوم ہوتا ہے کہ فی الواقع ان سے نجاست کا ازالہ کردیا گیا ہے۔اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا مستجاب ہوتی ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارا مقصد یہ بتانا ہے کہ صرف قرآن کریم سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اہل بیت سے نجاست کو دور کردیا گیا ہے۔ باقی رہی عصمت و امامت تو قرآن میں اس کا کوئی ذکر ہی نہیں پایا جاتا۔جب کہ حدیث سے استدلال کا ایک علیحدہ مقام ہے۔

پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں : بالفرض اگر قرآن سے ان کی طہارت اوران سے نجاست کا دور ہونا ثابت ہو بھی جائے؛ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاء مستجاب ہوتی ہے ؛ ایساہونا ہر حال میں لازمی ہے کہ اس کے ساتھ ہی وہ طہارت بھی حاصل ہو جائے جس کے لیے دعاء کی جارہی ہے اور ان سے ناپاکی اور پلیدی دور ہوجائے ؛تو اس میں خطاء سے عصمت کہاں سے لازم آئے گی؟

نیز اس کی دلیل کیا ہو گی کہ اہل بیت اور ازواج مطہرات کو جو احکام اس آیت میں دیے گئے ہیں ؛ ان میں ان میں سے کسی ایک سے سہو و خطا کا صدور نہیں ہوسکتا۔ ان سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ ان سے غلطی سرزد نہیں ہو گی۔بلکہ ان سے خطاء ہوسکتی ہے؛ لیکن ان کی اور دیگر کی خطاؤوں کو اللہ تعالیٰ نے پہلے سے ہی معاف کردیا ہے۔

آیت کے سیاق سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہتعالیٰ ان سے خبث و فواحش کو دور کرنا چاہتا ہے۔اور ان کو فواحش و منکرات اور دیگر گناہوں سے پاک کرنا چاہتا ہے۔

گناہوں سے پاکیزگی دوطرح سے ہوتی ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَثِیَابَکَ فَطَہِّرْ ﴾ [المدثر ۴]

’’اور اپنے کپڑے پاک رکھیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ اِنَّہُمْ اُنَاسٌ یَّتَطَھَّرُوْنَ﴾ [ الأعراف۸۲]

’’ بیشک یہ لوگ بڑے پاک صاف رہنا چاہتے ہیں ۔‘‘

اورازواج مطہرات رضی اللہ عنہن کے بارے میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ﴾ [الأحزاب۳۰]

’’اے نبی کی بیویو! تم میں سے جو بھی کھلی بے حیائی کرے گی اسے دوہرا دوہرا عذاب دیا جائے گا۔‘‘

گناہوں سے پاکیزگی دوطرح سے ہوسکتی ہے:

اول: ....یا تو انسان کسی گناہ کے کام کا ارتکاب ہی نہ کرے۔

دوم: ....یا پھر گناہ کے بعد اس سے توبہ کرلے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا ﴾ [التوبۃ ۱۰۳]

’’آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کر دیں ۔‘‘

لیکن جس چیزکا اللہ تعالیٰ نے ارادہ کرتے ہوئے ابتداء میں حکم دیا ہے؛ وہ فحاشی اور بے حیائی کے امور سے نہی و ممانعت کو شامل ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ فی الحال ایسے واقع ہوچکا ہے۔بلکہ اللہ تعالیٰ ان امور سے منع کررہے ہیں ؛ اور جن سے کوئی حرکت سرزد ہوگئی ہے ؛ انہیں توبہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں ۔

جیساکہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے:

((اَللّٰہُمَّ بَاعِدْ بَیْنِیْ وَ بَیْنَ خَطَایَایَ کَمَا بَاعَدْتَّ بَیْنَ الْمَشْرِقِ وَ الْمَغْرِبِ ط اَللّٰہُمَّ نَقِّنِیْ مِنْ خَطَایَایَ کَمَا یُنَقَّی الثَّوْبُ الْاَبْیَضُ مِن الدَّنَسط اَللّٰہُمَّ اغْسِلْنِیْ مِنْ خَطَایَایَ بِالْمَآئِ وَالثَّلْجِ وَالْبَرَدِ)) (متفق علیہ)

’’اے اللہ دوری کردے درمیان میرے اور گناہوں کے جیسے دوری پیدا فرمائی تو نے مشرق اور مغرب کے درمیان ۔ اے اللہ ! مجھے صاف کردے میرے گناہوں سے جس طرح صاف کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو میل کچیل سے ۔اے اللہ ! مجھے دھو دے میرے گناہوں سے برف اورپانی او ر اولوں سے ۔‘‘ [البخاری کتاب احادیث الانبیاء(ح:۳۳۶۹)،مسلم،کتاب الصلاۃ باب الصلاۃ علی النبی بعد التشہد (ح: ۴۰۷ )۔ِ وکتاب مواضِعِ الصلاِۃ، باب ما یقال بین تکبِیرۃِ الإِحرامِ والقِراِۃ، سننِ أبِی داود 1؍288 ؛ِکتاب الصلاِۃ، باب السنۃِ عِند الِافتِتاحِ، سننِ النسائِیِ 1؍45 ِکتاب الطہارۃِ، باب الوضوئِ بِالثلجِ، والحدیث فِی سنن ابن ماجہ والدارِمِیِ ومسندِ أحمد۔]

صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے واقعہ افک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابھی آپ کی برأت کا علم نہیں ہوا تھا؛اوراس معاملہ میں سخت بے چینی کا شکار تھے ؛ تو آپ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا:

’’اے عائشہ مجھے تیرے بارے میں ایسی ایسی خبر پہنچی ہے پس اگر تو پاک دامن ہے تو عنقریب اللہ تیری پاکدامنی واضح کر دیگا اور اگر تم گناہ میں ملوث ہو چکی ہو تو اللہ سے مغفرت طلب کرو اور اس کی طرف رجوع کرو پس بے شک بندہ جب گناہ کا اعتراف کر لیتا ہے پھر توبہ کرتا ہے تو اللہ بھی اس پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرماتا ہے۔‘‘[مسلم:ح2521]

خلاصہ کلام ! لفظ ’’رجس ‘‘ اصل میں ناپاکی کے لیے بولا جاتا ہے اور اس سے مراد شرک ہوتاہے ؛ فر مان الٰہی ہے:

﴿ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ ﴾ [الحج ۳۰]

’’ پس تمہیں بتوں کی گندگی سے بچتے رہنا چاہیے ۔‘‘

اس سے کھانے پینے کی وہ گندی چیزیں بھی مراد لی جاتی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرام ٹھہرایا ہے ۔ فرمان الٰہی ہے:

﴿قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ﴾ [الانعام۱۴۵]

’’ فرما دیجئے جو وحی میرے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا جسے کھانے والا کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ﴾

[المائدۃ ۹۰]

’’اے ایمان والو!بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور تھان اور فال نکالنے کے پانسے سب گندی باتیں ، شیطانی کام ہیں ۔‘‘

اس قسم کی ناپاکی کو ختم کرنے سے مراد[ اپنے جنس کی] تمام ناپاکی کو ختم کرنا ہے ۔ ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ان اکابر اہل بیت کو اللہتعالیٰ نے شرک و خبائث کو دور کرکے ان کو فواحش و منکرات اور دیگر گناہوں سے پاک کر دیا تھا۔

’’رجس ‘‘ کا لفظ عام ہے ؛ جو تمام قسم کی ناپاکی کو شامل ہے؛ اور اس کا تقاضا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سے ہر قسم کی ناپاکی دور کردی ہو ؛ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ایسی ہی دعا فرمائی تھی۔ 

جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان: ’’وتطہّرہم تطہیراً۔‘‘ اور انہیں ہر طرح سے پاک و صاف کردے ۔ یہ مطلق طور پر سوال ہے[ ہر اس چیز کو شامل جس کے لیے ]طہارت کا لفظ استعمال کیا جاتا ہو۔بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ لفظ مطلق ہے ؛ طہارت کا کوئی ایک عنصر بھی پایا جانے سے مقصود حاصل ہوجاتا ہے۔ ایسے قیاس و عبرت کے لیے بولا جاتا ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

﴿فَاعْتَبِرُوْا یَااُولِی الْاَبْصَارِ ﴾ [الحشر۲]

’’پس اے آنکھوں والو!عبرت حاصل کرو۔‘‘

حاصل کلام ! طہارت کا اعتبار اس کے اطلاق کے لحاظ سے ہوگا۔ جیسا کہ اگر کسی سے کہا جائے کہ :’’ أکرم ھذا‘‘ اس کا اکرام کرو۔تو اس سے مراد یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کرو جسے عرف میں اکرام کہا جاتا ہے ۔

ایسے ہی ’’ طاہر‘‘کا لفظ بھی ’’ طیب‘‘کی طرح ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

﴿وَالطَّیِّبَاتُ لِلطَّیِّبِیْنَ وَالطَّیِّبُوْنَ لِلطَّیِّبَاتِ﴾ [النور ۲۶]

’’ اور پاک عورتیں پاک مردوں کے لائق ہیں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لائق ہیں ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿الْخَبِیْثَاتُ لِلْخَبِیْثِیْنَ وَالْخَبِیْثُوْنَ لِلْخَبِیْثَاتِ﴾ [النور ۲۶]

’’خبیث عورتیں خبیث مرد کے لائق ہیں اور خبیث مرد خبیث عورتوں کے لائق ہیں ۔‘‘

ایسے روایت کیا گیا ہے کہ [ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے اجازت طلب کی] نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ان کو اجازت دو ؛ خوش آمدید پاکیزہ فطرت شخص کے لیے۔‘‘[سنن ابن ماجہ:ج: ۱ : ح ۱۴۶؛ المقدِمۃ، باب فِی فضائِلِ أصحابِ رسولِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہِ وسلم، فضل عمارِ بنِ یاسِر، المستدرک لِلحاِکمِ، 3؍188 وقال:’’ ہذا حدیث صحِیح الِإسنادِ، ولم یخرِجاہ‘‘ وقال الذہبِی: ’’ صحِیح ۔‘‘ والحدیث أیضاً فِی: مصنفِ ابنِ أبِی شیبۃ 12؍118۔]

یہ لفظ بھی’’ المتقی‘‘ اور لفظ ’’ المزکی‘‘کی طرح ہے۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: 

﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰہَا oوَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰہَا﴾ [الشمس ۹۔۱۰]

’’جس نے اسے پاک کیا وہ کامیاب ہوا ۔ اور جس نے اسے خاک میں ملا دیا وہ ناکام ہوگا۔‘‘

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿خُذْ مِنْ اَمْوَالِہِمْ صَدَقَۃً تُطَہِّرُہُمْ وَ تُزَکِّیْہِمْ بِہَا﴾ (التوبۃ:۱۰۳)

’’ ان کے مالوں سے صدقہ لے کر اس سے ان کو پاک کیجیے اور ان کا تزکیہ فرمائیے۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿قَدْ اَفْلَحَ مَنْ تَزَکّٰی ﴾ [الأعلی ۱۴]

’’ وہ انسان کامیاب ہوگیاجس نے تزکیہ نفس کیا ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَلَوْلَا فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکَی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّی مَنْ یَّشَآئُ ﴾

’’ اگر اللہ تعالیٰ کا فضل و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی بھی کبھی بھی پاک صاف نہ ہوتا۔ لیکن اللہ تعالیٰ جسے پاک کرنا چاہے، کر دیتا ہے۔‘‘

مگر متقی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ اس سے صغیرہ گناہ بھی صادر نہ ہو۔اور نہ ہی اس کے لیے خطاء اور گناہوں سے پاک ہونا شرط ہے۔ اگر متقی کے لیے یہ بات شرط ہوتی تو پوری امت میں ایک بھی متقی نہ ہوتا۔حالانکہ ایسا نہیں ہے جو بھی گناہوں سے توبہ کرلے اس کا شمار متقین میں سے ہوگا؛ اور ایسے ہی جو شخص بھی نیک اعمال سے اپنے گناہوں کو زائل کرے وہ متقی ہو گا۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنْ تَحْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْہَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا﴾ [النساء۳۱]

’’اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جس سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ان حضرات کو پاک کرنے کے لیے دعا ایسے ہی جیسے آپ دعافرئیں کہ : ان کا تزکیہ نفس ہوجائے؛ اور انہیں پاک کردیا جائے؛ اور انہیں نیک و متقی بنادیا جائے۔ اور یہ بات معلوم ہے کہ جس بارے میں پاک و صاف ہونا ثابت ہوجائے وہ اس حکم میں شامل ہے۔[اہل بیت کے لیے کی گئی ]یہ دعاء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذات کے لیے کی گئی دعا سے بڑھ کر نہیں ہے ؛آپ نے یوں دعا فرمائی تھی:

’’اے اللہ ! مجھے صاف کردے میرے گناہوں سے جس طرح صاف کیا جاتا ہے سفید کپڑے کو میل کچیل سے ۔اے اللہ ! مجھے دھو دے میرے گناہوں سے برف اورٹھنڈے پانی او ر اولوں سے ۔‘‘

پس جس کسی سے اگر گناہ سر زد ہوجائے ‘ یا تووہ مغفرت کے لائق ہوتا ہے ‘ یا پھر اللہ تعالیٰ کسی چیز کو اس کا کفارہ بناکر اسے بالکل پاک کردیتے ہیں ۔ لیکن جو کوئی اپنی گناہوں میں لت پت مر گیاوہ اپنی اس زندگی میں ان گناہوں سے پاک نہیں ہوسکا ۔اور کبھی اللہ تعالیٰ انہیں صدقات کی وجہ سے گناہوں سے بالکل پاک کردیتے ہیں ۔صدقہ لوگوں کی میل کچیل ہوتی ہے۔پس جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی دعا فرماتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اس کے موقع محل اور استعداد و اہلیت کے مطابق اسے قبولیت سے نوازتے ہیں ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان خواتین و حضرات کے لیے استغفار کرتے ہیں تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اہل ایمان میں کوئی گنہگار ہی نہیں پایا جائے۔ اگر حقیقت حال میں واقعی ایسا ہوتا تو کسی اہل ایمان کودنیا یا آخرت میں کوئی عذاب نہ دیا جاتا۔ بلکہ بعض افراد کی توبہ و استغفار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کردیتے ہیں ؛ او ربعض لوگوں کی نیکیاں ان کے گناہوں کو مٹا کر رکھ دیتی ہیں ۔اور کسی کے بہت سارے گناہ اللہ تعالیٰ دیگر کسی وجہ سے معاف کردیتے ہیں ۔

حاصل بحث یہ ہے کہ آیت میں جس تطہیر کا ذکر کیا گیا ہے اور آپ نے جو دعا فرمائی تھی اس سے بالاتفاق اہل بیت کا معصوم ہونا مراد نہیں ۔جہاں تک اہل سنت کے نقطہ نظر کا تعلق ہے، وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عصمت کا اثبات کرتے ہیں ۔ شیعہ نبی کے علاوہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ائمہ کو بھی معصوم قرار دیتے ہیں ۔ پس شیعہ اور اہل سنت کا اتفاق ہے کہ عصمت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے [اور شیعہ کے نزدیک] امام بھی معصوم ہوتا ہے۔ بنا بریں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج و بنات اور دیگر عورتیں عصمت کے حکم میں داخل نہ ہوں گی۔

جب یہ بات ہے تو جن چار اکابر کے حق میں تطہیر کی دعا کی گئی ہے وہ اس عصمت کو شامل نہ ہو گی جو نبی اور[شیعہ کے ہاں ] امام کیساتھ مخصوص ہے۔تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے ان کے لیے یہ عصمت حاصل نہ ہوگی؛ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے اور نہ ہی کسی دوسرے کے لیے۔اس لیے کہ آپ نے چاروں کے لیے مشترکہ دعا کی ہے ان میں سے کسی ایک کو خاص نہیں کیا۔

علاوہ ازیں گناہوں سے معصوم ہونے اور تطہیر کی دعا قدریہ کے قاعدہ کے مطابق ممتنع ہے(شیعہ بھی قدریہ یعنی منکرین تقدیر میں داخل ہیں ) اس لیے کہ افعال اختیاریہ یعنی واجبات کا بجا لانا اور منکرات کا ترک کرنا قدریہ کے نزدیک اللہ کی قدرت میں داخل نہیں ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کو پاکیزہ و اطاعت گزار بنا سکتا ہے نہ ہی نافرمان۔نہ ہی گناہوں سے پاک بنا سکتا ہے اور نہ ہی ناپاک ۔ لہٰذا اس اصل کی بنا پر فعل خیرات اور ترک منکرات کی دعا کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

قدریہ کے نزدیک اللہ کی عطا کردہ قدرت نیک و بد دونوں قسم کے افعال کی صلاحیت رکھتی ہے۔ جس طرح تلوار سے مسلمان کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور کافر کو بھی۔ یا مال کو اطاعت میں بھی خرچ کر سکتے ہیں اور معصیت کے کاموں میں بھی۔ اسی طرح بندہ اللہکی عطا کردہ قدرت سے اچھے کام بھی انجام دیتا ہے اور برے بھی۔

شیعہ کی پیش کردہ حدیث ان کے خلاف حجت ہے جس سے ان کے بنیادی اصولوں پر وار ہوتی ہے ؛کیوں کہ اس حدیث میں آپ نے اہل بیت کے لیے تطہیر کی دعا فرمائی ہے۔

اگر شیعہ کہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہتعالیٰ اہل بیت کی مغفرت فرمائے گا اوروہ بروز آخرت ماخوذ نہیں ہوں گے۔

تو اس سے عصمت کے اثبات پر استدلال کرنا بالکل ہی غلط ہو گا۔تو واضح ہوا کہ اس حدیث میں عصمت کے اثبات پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی۔اور مطلق طور پر عصمت [یعنی فعل مامور کا بجالانا اور حرام کا ترک کرنا ] شیعہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی قدرت میں نہیں ہے۔یعنی اللہتعالیٰ انسان کو پاکیزہ و اطاعت گزار بنا سکتا ہے نہ ہی نافرمان؛نہ ہی نبی کواور نہ ہی کسی دوسرے کو۔

شیعہ کے ہاں جو کوئی اپنی زندگی میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت گزاری کو اختیار کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی توفیق و ہدایت سے اس اسے اختیارنہیں کرتا۔[ شیعہ کے نزدیک گناہوں سے معصوم رہنے کی دعاء بھی ممنوع ہے]۔اس سے شیعہ مذہب کاعصمت کے مسئلہ میں تناقض واضح ہوتا ہے ۔بفرض محال اگر عصمت ثابت بھی ہو جائے تاہم ہمارے نزدیک یہ امامت کے لیے مشروط نہیں ہے ؛اور نہ ہی ائمہ کے علاوہ کسی دوسرے سے عصمت کی نفی پر کوئی اجماع ہے۔ پس اس صورت میں ہر لحاظ سے ان کی حجت باطل ہوجاتی ہے ۔

[حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دعویٰ امامت ؟]:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ امامت کے مدعی تھے اور نجاست کا ازالہ بھی ثابت ہو چکا ہے۔ لہٰذا آپ ہی امام صادق ہوں گے۔‘‘

[جواب]:اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے :

اوّل :....ہم اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی اس قسم کا دعوی کیا ہو۔بلکہ ہم علم یقینی اور قطعی کے طور پر جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے شہادت عثمان رضی اللہ عنہ تک نے اپنی امامت کاکوئی دعویٰ نہیں کیا۔یہ کہا گیا ہے کہ : بیشک آپ دل سے امامت کے خواہاں تھے، مگر آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں امام یا معصوم ہوں ۔ نہ یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد مجھے امام بنایا ہے اور میری اطاعت لوگوں پر واجب ٹھہرائی ہے۔ اور نہ اس قسم کے دیگر الفاظ ارشاد فرمائے۔

بخلاف ازیں ہم اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جس شخص نے آپ کی نسبت سے اس قسم کے الفاظ نقل کیے ہیں وہ کاذب ہے۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ صحیح معنی میں متقی تھے اور ایسے صریح کذب کا دعویٰ نہیں کر سکتے تھے جس کا کذب ہونا سب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر عیاں ہو۔

شیعہ مصنف نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ:’’ ابن ابی قحافہ نے یہ لباس اوڑھا(منصب خلافت پر فائز ہوئے) حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ مجھے وہی مرتبہ حاصل ہے جو ایک چکی میں درمیانی سیخ کو حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘

ہم اس کے جواب میں کہتے ہیں : پہلی بات :اس قول کی سند کہاں ہے ؟جس میں ثقہ لوگوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ تک اس قول کو ثقات سے نقل کیا ہو۔ ایسا ہر گز اس روایت میں کچھ بھی نہیں پایا جاتا ۔

[یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول نہیں ہے]۔ البتہ یہ قول نہج البلاغہ اور اس جیسی بعض دوسری کتابوں میں موجود ہے۔ اہل علم سے یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ نہج البلاغہ کے اکثر خطبات خود ساختہ اور جھوٹے گھڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تھوپ دیئے گئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ کسی قدیم کتاب میں درج نہیں ۔[اس کی حد یہ ہے کہ کتب ادب جن میں سند مذکور نہیں ہوتی ان میں بھی یہ الفاظ مذکور نہیں ہیں ۔ مثلاً جاحظ کی ’’البیان و التبیین‘‘ میں سیدنا علی کا یہ خطبہ صرف چند سطروں تک محدودہے۔ اگر اس خطبہ کا تقابل نہج البلاغہ میں ذکر کردہ خطبہ کے ساتھ کیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ نہج البلاغہ میں اس خطبہ کو بہت بڑھا چڑھا کر بیان کیا گیا ہے اور وہ اضافہ کیا گیا ہے جو جاحظ کے زمانہ تک موجود نہ تھا۔ مشہور شیعہ عالم رضی اور ان کے بھائی مرتضیٰ نے نہج البلاغہ میں جس جعل سازی سے کام لیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک ثابت شدہ چیز پر بے بنیاد باتوں کا اضافہ کرتے ہیں ۔‘‘ ’’لقد تقمصا‘‘ کا جملہ بھی اسی میں شامل ہے ۔بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ نہج البلاغہ میں ذکر کردہ اقوال سیدنا علی کے معروف ارشادات کی نقیض ہوتے ہیں اور ان کی کوئی سندہوتی ہے نہ دلیل۔ روافض کی ستم ظریفی ملاحظہ فرمائیے کہ اس طرح انھوں نے سیدنا علی کے اقوال میں تناقض ثابت کردیا جس سے ان کا دامن پاک تھا۔] اور نہ ان کی کوئی سند معروف ہے۔توپھر ناقل نے کہاں سے نقل کیا ہے ؟

یہ خطبات اسی طرح ہیں جیسے کوئی شخص کہے کہ میں علوی یا عباسی ہوں ۔ حالانکہ ہمیں علم ہو کہ اس کے اسلاف میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا۔اور نہ ہی اس کے لیے ایسا کوئی دعوی [اس سے پہلے کیا گیا تھا]۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ دعوی بے بنیاد ہے۔ اس لیے کہ نسب اپنی اصل کے اعتبار سے جانا پہچانا ہوتا ہے اور اسی طرح وہ اپنی فرع سے مل جاتا ہے۔

ایسے ہی منقولات کے لیے ضروری ہے کہ صاحب قول سے لیکر ہم تک اس کی معروف سند ہونی چاہیے۔ اگر کوئی انسان کتاب لکھے ؛جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم کے بہت سارے خطبات جمع کردے ۔لیکن اس سے پہلے کسی بھی دوسرے فرد نے یہ خطبات کسی معروف سند سے نقل نہ کیے ہوں ؛ تو ہم یقینی طور پر اس کے جھوٹا ہونے کو جان لیتے ہیں ۔یہی حال نہج البلاغہ کے خطبات کا ہے ۔ ہمیں یقینی طور پر علم حاصل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کے برعکس فرمایا تھا۔ اس موقع پر ہمارامقصد اس کا جھوٹ واضح کرنا نہیں ‘ بلکہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ اس روایت کی کوئی صحیح سند پیش کی جائی ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق پر کسی ایسی چیز کی تصدیق کو واجب نہیں کیا جس کے سچا ہونے کی کوئی دلیل موجود نہ ہو۔

نہج البلاغہ کے خطبات میں بعض باتیں ایسی بھی ہیں جو کہ بالاتفاق ممتنع ہیں ۔اور خصوصاً جبکہ ’’ تکلیف ما لا یطاق‘‘کا قول بھی ممتنع ہو۔ بیشک یہ سب سے بڑی ’’تکلیف مالایطاق ‘‘ ہے ۔ پھر ہم چوتھی صدی ہجری میں جب ہر طرف جھوٹے لوگ بڑھ گئے تھے ؛ اس وقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دعوائے خلافت کو ان لوگوں کے اقوال کی بنا پر کیوں کر تسلیم کرسکتے ہیں جو متہم بالکذب تھے؟[چوتھی صدی ہجری میں ] ان شیعہ لوگوں کی حکومت عمل میں آچکی تھی ؛ جہاں پر یہ لوگ جس قسم کا بھی جھوٹ بولتے اسے پذیرائی حاصل ہوتی۔ ان کے ہاں اقوال کی سچائی کا مطالبہ کرنے والا کوئی بھی نہیں تھا۔اس مسئلہ میں ہمارا یہ بنیادی جواب ہے۔ یہ ہمارے اور اللہ کے مابین ہے۔

پھر ہم یہ بھی کہتے ہیں : فرض کیجیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایسا کہا تھا؛ تو تم نے یوں کیوں کہا کہ:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے امام منصوص ومعصوم ہونے کا دعویٰ کیا تھا۔ ممکن ہے کہ آپ یہ بتانا چاہتے ہوں کہ وہ دوسروں کی نسبت خلافت کے لیے موزوں تر ہیں ۔اس لیے کہ آپ کا اعتقاد تھا کہ وہ دوسروں سے افضل ہیں ؛ اور خلافت کے زیادہ حق دار ہیں ۔ لہٰذا اس کا یہ مطلب نہ ہوگا کہ آپ نے دانستہ جھوٹ کا ارتکاب کیا، بلکہ یہ بات آپ نے اپنے اجتہاد کی بنا پر کہی ہو گی۔اور مجتہد کے رائے مبنی بر صواب بھی ہوسکتی ہے اور خطاء بھی ہوسکتی ہے۔

اس بات پر اتفاق ہے کہ ناپاکی کی نفی کرنے سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ کوئی معصوم عن الخطاء بھی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مراد یہ نہیں تھی کہ وہ اہل بیت سے خطاء کو ختم بھی کردے ۔کیونکہ شیعہ کے نزدیک اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر قادر نہیں ہے۔ جب کہ خطاء قابل مغفرت ہوتی ہے ؛ اور اس کا وجود کوئی نقصان نہیں دیتا ۔

مزید بر آں یہ کہ خطاء میں عمومِ رجس (ناپاکی) شامل نہیں ۔

نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو خطاء سے معصوم ہو۔ شیعہ اپنے ائمہ کو بھی خطاء سے معصوم مانتے ہیں ۔ جب کہ ناپاکی کے دور کیے جانے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے اہل بیت بھی شریک ہیں ۔

ہم یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے بہت زیادہ ڈرنے والے تھے وہ اس بات سے بری ہیں کہ کوئی جھوٹ بولیں ۔جیساکہ حضرت ابوبکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اللہ کے متقی والے تھے اور اس بات سے بری تھے کہ جان بوجھ کر کوئی جھوٹ بولیں ۔

لیکن اس آیت سے استدلال کرنے والے رافضی سے پوچھا جائے گا کہ تم نے جھوٹ کے پلید ہونے پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی۔ جب اس پر کوئی دلیل نہیں ہے تو پھر اس سے کسی جھوٹ کو ختم کرنا لازم نہیں آتا۔اگر یہ بات مان لی جائے کہ ناپاکی کو ختم کردیا گیا ہے ؛ تو یہ کہنے والا کا شمار ان لوگوں میں ہوتا جو قرآن سے دلیل پیش کرتے ہیں ؛ قرآن میں اس ناپاکی کے دور ہوجانے پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ جھوٹ اور خطاء بھی ناپاکی میں شمار ہوتے ہیں ۔ اور نہ ہی اس بات کی کوئی دلیل ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کبھی کچھ ایسا فرمایا ہو۔ بہر کیف اگر ان میں سے کوئی بات ثابت ہو بھی جائے تو وہ قرآن سے ماخوذ نہ ہوگی؛ اس کی بنیاد ایسے مقدمات پر ہوگی جو قرآن سے نہیں ہوں گے۔ پھر شیعہ مصنف کے قرآنی دلائل کہاں ہیں جن کا وہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے؟ایسے جھوٹے دعوے تو صرف وہی انسان کرسکتا ہے جو اہل رسوائی و ندامت میں سے ہو۔