Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گیارھویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گیارھویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گیارہویں دلیل یہ آیت کریمہ ہے:

﴿اِنِّیْ جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ اِمَامًا قَالَ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِیْ﴾ (البقرۃ:۱۲۴)

’’بیشک میں آپ کو پیشوا بنانے والا ہوں ‘ فرمایا: اور میری اولاد میں سے ۔‘‘

فقیہ ابن المغازلی شافعی حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یہ دعا مجھ پر اور علی پر پہنچ کر ختم ہو گئی، ہم میں سے کسی نے بھی بت کو سجدہ نہیں کیا ۔ چنانچہ اللہ نے مجھے نبی اورعلی کو وصی بنایا۔‘‘ یہ دلیل اس بات میں نص کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔

[جواب]: اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے : 

پہلی وجہ:....ہم اس حدیث کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

دوسری وجہ:....یہ حدیث بالاتفاق اہل علم محدثین جھوٹی ہے۔[وانظر: زاد المسیر 139 _141، الدر المنثور للسیوطی 1 118۔۔ علامہ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کو امام بنادیا تو آپ نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ:’’آپ کے بعد آپ کی اولاد میں سے بھی یہ ائمہ ہوں ۔‘‘ پس آپ کی دعا قبول ہوئی۔ یہاں یہ بھی خبر دی گئی ہے کہ آپ کی اولاد میں ظلم کرنے والے بھی ہوں گی، ظالم سے مرد بعض نے مشرک بھی لی ہے عہد سے مراد امر ہے ابن عباس فرماتے ہیں ظالم کو کسی چیز کا والی اور بڑا نہ بنانا چاہئے گو وہ اولاد ابراہیم میں سے ہو، حضرت خلیل کی دعا ان کی نیک اولاد کے حق میں قبول ہوئی ہے۔‘‘]

تیسری وجہ:....رافضی کا یہ قول کہ :’’یہ دعا ہم تک پہنچ کر ختم ہوگئی‘‘ ایسا کلام ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرناجائز نہیں ۔اس لیے کہ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ دعا اس سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے کسی کو نہیں پہنچی تو ایسا کہنا غلط ہے۔ اس لیے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السلام گزر ے ہیں وہ اس دعا میں داخل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَوَہَبْنَا لَہٗٓ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ نَافِلَۃً وَ کُلًّا جَعَلْنَا صٰلِحِیْنَoوَ جَعَلْنٰہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا وَ اَوْحَیْنَآ اِلَیْہِمْ فِعْلَ الْخَیْرٰتِ وَ اِقَامَ الصَّلٰوۃِ وَ اِیْتَآئَ الزَّکٰوۃِ﴾ [الأنبیاء۷۲۔۷۳]

’’اور ہم نے اسے اسحاق ویعقوب مزید عطاکیے اور سبھی کو ہم نے صالح بنایا۔اور ہم نے انہیں پیشوا بنایا ہمارے حکم سے لوگوں کی رہبری کرتے؛ اور ہم نے انہیں نیکی کرنے اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ اداکرنے کی وحی کی۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ جَعَلْنٰہُ ہُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ ﴾ [الإسراء ۲]

’’ہم نے موسیٰ کو کتاب دی اور اسے بنی اسرئیل کے لیے ہدایت بنا دیا ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ جَعَلْنَا مِنْہُمْ اَئِمَّۃً یَّہْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا وَ کَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ ﴾ [السجدۃ۲۴]

’’اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَہُمْ اَئِمَّۃً وَّ نَجْعَلَہُمُ الْوٰرِثِیْنَoوَ نُمَکِّنَ لَہُمْ فِی الْاَرْضِ﴾ [القصص۵۔۶]

’’پھر ہماری چاہت ہوئی کہ ہم ان پر کرم فرمائیں جنہیں زمین میں بے حد کمزور کر دیا گیا تھا، اور ہم انہیں کو پیشوا اور ( زمین)کا وارث بنائیں ۔‘‘

قرآن کریم میں کئی ایک نصوص ہیں جن سے واضح ہوتاہے کہ ہم سے پہلے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں کئی امتیں گزر چکی ہیں ۔

اگر اس سے مراد یہ ہے کہ یہ دعا ’’ یہ دعوت ہم پر ختم ہوگئی ہے ‘‘ہمارے بعد کسی کو نہیں پہنچے گی تو اس سے لازم آیا کہ حسن و حسین رضی اللہ عنہما اور ان کے بعدباقی اماموں کی امامت درست نہ ہو گی۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بت کو سجدہ نہیں کیا تو ان کے بعد امت کے سارے لوگوں میں بھی یہ علت موجود ہیں ۔

چوتھی وجہ:....کسی شخص کا بتوں کو سجدہ نہ کرنا ایسی فضیلت ہے جس میں وہ تمام لوگ شریک ہیں جو اسلام کے بعد پیدا ہوئے ۔ حالانکہ سابقین اولین ان لوگوں سے بدرجہا افضل ہیں ۔توپھر فاضل کو چھوڑ کر مفضول کو یہ درجہ کیوں دیا جارہا ہے ؟

پانچویں وجہ:....اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے بتوں کو اس لیے سجدہ نہیں کیا کہ آپ بلوغ کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہی اسلام لے آئے تھے۔اور اسلام لانے کے بعد آپ نے بتوں کو سجدہ نہ کیا۔تو سب مسلمانوں کا یہی حال ہے ۔ بچے غیر مکلف ہوتے ہیں ۔اور اگریہ کہا جائے کہ آپ نے اسلام لانے سے قبل کبھی بھی بت کو سجدہ نہیں کیا۔توپھر یہ نفی غیر معلوم ہے۔اور نہ ہی اس کی خبر دینے والا کوئی ثقہ آدمی ہے۔

نیز[اس کے جو اب میں ] ان[شیعہ] سے یہ بھی کہاجائے گاکہ : ایسا نہیں ہے کہ ہر وہ انسان جس نے کفر نہ کیا ہو ‘ یا کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کیا ہو تو وہ اس انسان سے مطلقاً افضل ہوجائے گا جس نے کفر یا کبیرہ گناہ کے بعد اس سے توبہ کرلی ہو۔ بلکہ قرآنی دلائل کی روشنی میں بیشتر اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ گناہ یعنی کفر و فسق اور معاصی سے توبہ کرنے والا اس انسان سے افضل ہوتا ہے جس نے کفر یا گناہ کا ارتکاب ہی نہ کیا ہو۔اللہ تعالیٰ نے فتح سے پہلے اسلام لانے والوں ؛ جہاد کرنے والوں اور اس کی راہ میں خرچ کرنے والوں کو ان لوگوں پر بہت بڑی فضیلت دی ہے جنہوں نے فتح کے بعد اسلام قبول کیا اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا ؛ اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا۔یہ تمام لوگ کفر کے بعد اسلام لائے تھے۔اور ان بعد میں اسلام لانے والوں میں ایسے لوگ بھی تھے جن کی پیدائش اسلام پر ہوئی تھی۔

مزید برآں اللہ تعالیٰ نے سابقین اولین کو تابعین پر فضیلت دی ہے ۔ جب کہ تابعین وہ لوگ ہیں جو اکثر اسلام پر پیدا ہوئے اور سابقین اولین میں اکثر وہ لوگ ہیں جو کفر کے بعد اسلام لائے تھے۔ [تو کیا جنھوں نے کسی بت کو سجدہ نہیں کیا، تو کیا وہ سبھی امام ٹھہریں گے؟ بخلاف ازیں عام صحابہ جو بتوں کے پجاری رہ چکے تھے وہ اپنی اولاد سے بالاتفاق افضل ہیں ]۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ حضرت لوط علیہ السلام حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ایمان لائے تھے حالانکہ وہ نبوت سے سرفراز تھے۔[ایسے ہی] حضرت شعیب علیہ السلام نے فرمایا تھا:

﴿قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِکُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنْہَا وَ مَا یَکُوْنُ لَنَآ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْہَآ اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ رَبُّنَا﴾ (الأعراف:۸۹)

’’ ہم تو اللہ تعالیٰ پر بڑی جھوٹی تہمت لگانے والے ہوجائیں گے اگر ہم تمہارے دین میں آجائیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے ہم کو اس سے نجات دی اور ہم سے ممکن نہیں کہ تمہارے مذہب میں پھر آجائیں ، لیکن ہاں یہ کہ اللہ ہی نے جو ہمارا مالک ہے مقدر کیا ہو ۔‘‘

اور اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَ قَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِرُسُلِہِمْ لَنُخْرِجَنَّکُمْ مِّنْ اَرْضِنَآ اَوْ لَتَعُوْدُنَّ فِیْ مِلَّتِنَا﴾[ابرہیم ۱۳]

’’کافروں نے اپنے رسولوں سے کہا ہم تمہیں ملک بدر کر دیں گے یا تم پھر سے ہمارے مذہب میں لوٹ آؤ۔‘‘

اللہ تعالیٰ نے ہمیں قرآن میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں کے سلوک کے متعلق خبر دی ہے۔اور پھر ان کی توبہ کی خبر بھی دی ہے ۔یہی وہ بارہ گروہ تھے جن کے بارے میں ہمیں سورت بقرہ اور آل عمران میں حکم دیاگیا ہے کہ ان پر نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان لائیں ۔

ان میں سے کوئی ایک بعد میں نبی بھی ہوا ہوگا ۔اور یہ بات سب کو معلوم ہے کہ انبیائے کرام علیہم السلام دوسرے لوگوں کی نسبت افضل ہوا کرتے ہیں ۔

اس مسئلہ میں رافضہ کا دوسرے لوگوں کے ساتھ اختلاف ہے۔ان کا کہنا ہے کہ جس سے کسی گناہ کا صدور ہوا ہو تووہ نبی نہیں بن سکتا۔ اور جو لوگ اسلام لائے ہیں ان کے بارے میں بھی بہت بڑا اختلاف ہوا ہے۔لیکن معتبر وہی چیز ہوگی جس پر کتاب و سنت سے دلائل موجود ہونگے۔جو لوگ اس سے منع کرتے ہیں ان کے مذہب کی اساس اس عقیدہ پر ہے کہ گناہ سے توبہ کرنے والا ناقص اور مذموم ہوتا ہے اس لیے وہ نبوت کامستحق ہر گز نہیں ہو سکتا؛ بھلے وہ لوگوں میں سے سب سے بڑا عبادت گزار بن جائے۔یہ وہ بنیادی مسئلہ جس میں اختلاف واقع ہوا ہے ۔کتاب وسنت اور اجماع اس قول کے باطل ہونے پر متفق ہیں ۔