Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

کیا شیعہ اہل قبلہ ہیں؟ حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ کا فرمان:


مسئلہ تکفیر اور اہلِ قبلہ کی وضاحت اکابرینؒ اور اسلافؒ کے اقوال کی روشنی میں

حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانیؒ کا فرمان:

سوال: شیعہ کی تکفیر کے سلسلے میں بعض لوگوں کی طرف سے یہ بات کہی جاتی ہے کہ بہرحال وہ اہلِ قبلہ میں سے ہیں، اور امام ابوحنیفہؒ اور دوسرے ائمہ کا یہ ارشاد مشہور و معروف ہے کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کی جائے۔ قادیانیوں کی تکفیر سے اختلاف کرنے والے بعض حضرات بھی یہ کہا اور لکھا کرتے تھے؟

جواب: کاش یہ حضرات اس پر غور کرتے کہ جن ائمہ کرام یا جن مصنفین نے یہ بات فرمائی یا لکھی ہے کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کی جائے۔ ان کی مراد اہلِ قبلہ کے لفظ سے کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ لفظی اور لغوی معنیٰ کے لحاظ سے تو ہر دو شخص اہلِ قبلہ ہے جو مکہ مکرمہ میں واقع کعبہ کو بیت اللہ اور قبلہ مانتا ہو. تو اگر اس لفظ کا یہی مطلب ہو تو ابوجہل و ابولہب وغیرہ سارے مشرکینِ عرب "اہلِ قبلہ" تھے۔

عربوں کی تاریخ اور ان کے حالات سے واقفیت رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ سارے مشرکینِ عرب کعبہ کو بیت اللہ اور قبلہ مانتے تھے، اس کا طواف کرتے تھے، اپنے طریقے پر حج و عمر بھی کرتے تھے۔ تو اگر اہلِ قبلہ کا مطلب یہی ہو تو پھر ان مشرکینِ عرب کو بھی کافر ماننے کی گنجائش نہ ہوگی۔

میرے محترم دوستو!

دراصل اہلِ قبلہ ایک خاص دینی اور علمی اصطلاح ہے، عقائد اور فقہ کی کتابوں میں تکفیر کی بحث میں یہ لفظ "اہلِ قبلہ" عام طور سے استعمال ہوا ہے، اور انہی کتابوں میں یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام کو بطور دین قبول کر چکے ہو، توحید و رسالت قیامت وغیرہ ایمانیات پر یقین رکھتے ہوں، اور کسی ایسی دینی حقیقت کے منکر نہ ہوں جو حضور اکرمﷺ سے ایسے قطعی اور یقینی طریقے سے ثابت ہو جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ ہو۔ پس اگر کوئی شخص کسی ایسی ایک بات کا بھی منکر ہو تو وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں ہے اور اس کی تکفیر ہی کی جائے گی۔

حضرت ملا علی قاریؒ کی شرح "فقہ اکبر" کے صفحہ 187 پر سیدنا ابو حنیفہؒ کی اس ہدایت کا ذکر کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی اسی مقام پر اہلِ قبلہ کی تشریح کے طور پر لکھا گیا ہے:

"اور تمہیں یہ بات جان لینی چاہئے کہ اہلِ قبلہ سے وہی لوگ مراد ہیں جو تمام ضروریات سے متفق ہوں۔ یہی بات فقہ اور عقائد کی دوسری کتابوں میں بھی صراحت کے ساتھ لکھی گئی ہے۔"

پس جو لوگ قادیانیوں اور شیعہ کے بارے میں اس طرح کی بات کرتے ہیں کہ وہ اہلِ قبلہ ہیں، وہ لوگ اس دینی و علمی اصطلاح کی مراد اور حقیقت سے نا واقف ہیں اور شیعہ کے بارے میں آپ کو معلوم ہو چکا ہے کہ وہ ایسی دینی حقیقتوں کے مکذب اور منکر ہیں جو حضور اکرمﷺ سے ایسی قطعیت کے ساتھ ثابت ہیں جس میں ذرہ برابر شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے اور قطعیات و ضروریات دین میں سے ہیں۔

یہ اہلِ قبلہ کے لفظ سے غلط فہمی تو ایسی تھی جس کی کچھ بنیاد تھی اگرچہ کیسی ہی غلط تھی۔ ہمارے زمانے کے تو بہت سے پڑھے لکھے مسلمانوں کا بھی یہ خیال ہے کہ جو شخص اپنے کو مسلمان کہتا ہے (خواہ اس کا عقیدہ کچھ بھی ہو) بس وہ مسلمان ہے، ان لوگوں کے نزدیک اسلام بھی ہندو دھرم کی طرح کا ایک مذہب ہے جس میں کسی خاص عقیدے کی ضرورت اور اہمیت نہیں۔

یہ لوگ جو ہر اس شخص کو جو اپنے کو مسلمان کہے مسلمان مانتے اور ماننے پر اصرار کرتے تھے، قادیانیوں کی تکفیر کے بارے میں بھی علماء کرام پر تنگ نظری وغیرہ کے الزامات لگاتے تھے خمینی اور فرقہ اثناء عشریہ کی تکفیر کے بارے میں بھی ان کا یہی رویہ ہونا قدرتی بات ہے۔ ایسے حضرات سے دردمندی کے ساتھ صرف یہ عرض کرنا ہے کہ وہ اسلام کی حقیقت کو جاننے کی کوشش کریں۔

اسلام مخصوص عقائد ایمانیات اور زندگی کا ایک متعین ضابطۂ حیات ہے جو حضور اکرمﷺ کے ذریعہ آیا اور قرآنِ مجید میں محفوظ ہے، جو شخص اس کو قبول کرے وہ مؤمن و مسلم ہے اور جو اس کو نہ مانے اگرچہ خود حضورا کرمﷺ ہی کا قریب ترین عزیز ہو وہ کافر ہے۔ قادیانیوں کی تکفیر کی مخالفت کرنے والوں کا جو ایک حربہ تھا، شیعہ کی تکفیر سے اختلاف کرنے والے بھی اسی حربہ کو استعمال کرتے ہیں۔ وہ حربہ یہ ہے کہ ماضی کی تکفیر کے بعض غلط فتوؤں کا حوالہ دے کر علماء کرام کے تکفیر کے فتوؤں کو عوام کی نظروں میں ناقابلِ اعتبار ثابت کرنے کی کوشش کی جائے۔

(خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ: صفحہ، 22)

سوال: ایک صاحب نے امام غزالیؒ کی کتاب "التفرقہ"کے حوالہ سے ان کی عبارت نقل فرمائی ہے جس میں انہوں نے اہلِ قبلہ کی تکفیر سے زبان کو روکنے کی خاص طور سے وصیت فرمائی ہے۔ اور اسی کتاب میں امام غزالیؒ نے مسئلہ امامت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں شیعوں کے غلط خیالات و نظریات کی بنا پر ان کو صرف مبتدع قرار دیا ہے؟

جواب: حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانیؒ فرماتے ہیں کہ جن حضرات کو یہ غلط فہمی ہو کہ راقم سطور کے استفتاء کے جواب میں حضرات علماء کرام و اصحاب فتویٰ نے شیعہ اثناء عشریہ اور ان کے موجودہ دور کے خمینی کی جو تکفیر کی ہے اور ان کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دیا ہے، امام غزالیؒ کا موقف اس کے خلاف ہے۔ ان سے گذارش ہے کہ وہ راقم سطور کا محولہ بالہ مضمون ( قادیانی کیوں مسلمان نہیں) نامی کتاب میں ملاحظہ فرما لیں۔ اس میں تاخیر کے بارے میں امام غزالیؒ کے نقطۂ نظر پر ان کی کتاب "التفرقه" ہی کے حوالوں سے پوری تفصیل سے کلام کیا گیا ہے اور مسئلہ امامت اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے احوال کے بارے میں شیعوں کے جن عقائد ونظریات کی بنا پر امام غزالیؒ نے ان کو صرف مبتدع قرار دیا ہے اس سے امام غزالیؒ کی مراد امامت کے بارے میں شیعوں کے بعض فرقوں (زیدیہ وغیرہ) کا یہ عقیدہ و نظریہ ہے کہ امامت (یعنی خلافتِ نبوت) دراصل سیدنا علیؓ کا حق تھا اور حضوراکرمﷺ نے ان کے بارے میں وصیت بھی فرمائی تھی لیکن شیخینؓ نے حضور اکرمﷺ کی وفات کے بعد سیدنا علیؓ کو خلافت سے محروم کر دیا اور خود خلیفہ بن گئے۔ اس طرح انہوں نے حضور اکرمﷺ کی نافرمانی کی اور ایک بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے لیکن وہ اس کی بنیاد پر حضرات شیخین کو کافر و مرتد، ایمان سے محروم اور مخلد فی النار نہیں کہتے۔ الغرض امام غزالیؒ نے ایسے ہی لوگوں کو صرف مبتدع قرار دیا ہے۔

لیکن شیعہ اثنا عشریہ حضرات شیخینؓ کے کافر و منافق، ایمان سے محروم اور مخلد في النار ہونے کا عقید ہ رکھتے ہیں، اور خلافت کے مسئلہ میں ان کا ساتھ دینے والے عام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو بھی مرتد قرار دیتے ہیں (معاذ اللہ)۔

اور ایسا عقیدہ رکھنے والے بلاشبہ ایک ایسی حقیقت کی تکذیب اور انکار کرتے ہیں جو حضور اکرمﷺ سے تواتر اور قطعیت کے ساتھ ثابت ہے۔ اور امام غزالیؒ نے اسی بحث کے آخر میں خاتمہ کلام کے طور پر تحریر فرمایا ہے کہ:

قائدہ کلیہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایسی بات کہے جس سے حضور اکرمﷺ کی فرمائی ہوئی کسی بات کی تکذیب ہوتی ہو تو اس کی تکفیر واجب ہوگی، اگرچہ وہ مسئلہ فروعات میں سے ہو۔ 

(خمینی اور اثناء عشریہ کے بارے میں علماء کرام کا متفقہ فیصلہ: صفحہ، 27)