امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بارھویں دلیل:
امام ابنِ تیمیہؒامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بارھویں دلیل:
[اشکال]: شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے کی بارہویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا﴾ (مریم:۹۶)
’’بیشک جو ایمان لائے اورنیک اعمال کیے ان کے لیے اللہ رحمن محبت پیدا کر دے گا ۔‘‘
حافظ ابو نعیم الاصفہانی رحمہ اللہ اپنی سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی: ’’ وُدًّا ‘‘سے وہ الفت و محبت مراد ہے جو مومنوں کے دلوں میں موجود ہو۔تفسیرثعلبی حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’ اے علی! آپ کہہ دیں کہ اے اللہ! میرے لیے اپنے پاس عہد مقرر کردے اور مومنوں کے دلوں میں میری محبت پیدا کردے۔‘‘ تب یہ آیت نازل ہوئی:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ سَیَجْعَلُ لَہُمُ الرَّحْمٰنُ وُدًّا﴾
چونکہ یہ خصوصیت کسی اورمیں نہیں پائی جاتی‘ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی امام ہونگے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
جواب:اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی وجہ:....ہم کہتے ہیں بیان کردہ روایت کی صحت نقل ثابت کرنے کے لیے دلیل کی ضرورت ہے ،ورنہ مقدمات کو ثابت کیے بغیر استدلال کرنا باطل اور قول بلا برہان ہے۔اور انسان کو اس بات کے کہنے سے یا استدلال کرنے سے روکا گیا ہے جس کا اسے کوئی علم نہ ہو۔باتفاق شیعہ و اہل سنت مذکورہ بالا نسبت روایت کے ثابت ہونے کا فائدہ نہیں دیتی ۔
دوسری وجہ:....مزید براں شیعہ مصنف کی پیش کردہ دونوں روایتیں باتفاق محدثین و اہل علم موضوع ہے۔
تیسری وجہ : نیز یہ کہ آیت زیر نظر:﴿اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوْا الصَّالِحَاتِ﴾کے الفاظ تمام اہل ایمان کے لیے عام ہیں ۔ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بھی شامل ہے اور دیگر صحابہ کو بھی۔ لہٰذا اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر محدود و مقصور کرنا درست نہیں ۔ بلکہ شیعہ جن کی تعظیم کرتے ہیں یہ آیت ان کو بھی یعنی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ور حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بھی شامل ہے۔ لہٰذا اس سے معلوم ہوکہ اہل سنت و شیعہ کا اجماع ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص نہیں ہے۔
شیعہ مصنف کا یہ کہنا کہ : ’’ چونکہ یہ خصوصیت کسی اور میں نہیں پائی جاتی۔‘‘
ایسا کہنا بالکل غلط ہے ۔ جیسا کہ ہم اس سے پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ۔بیشک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خیر القرون کے لوگ ہیں ۔ ان ادوار میں جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال کیے وہ باقی تمام زمانوں میں ایمان لانے والوں سے افضل ہیں ۔ اوروہ اس اعتبار سے ہر دور کے لوگوں سے اکثر و افضل ہیں ۔
چوتھی وجہ:....اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں ان کے لیے اللہ رحمن محبت پیدا کر دے گا۔یہ اللہ تعالیٰ کا سچا وعدہ ہے ۔[اللہ تعالیٰ چونکہ اپنے وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتا اس لیے اس نے قلوب مومنین میں محبت پیدا کرنے کے وعدہ کو پورا کردیا ہے] چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کے دلوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم عموماً اور خلفاء راشدین کی محبت اور ان میں سے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی محبت و الفت بطور خاص پیدا کردی۔ عام صحابہ....جن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پیش پیش تھے....اور تابعین حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ سے محبت و الفت رکھتے تھے۔یہ خیر القرون کے لوگ تھے۔[ کوئی صحابی ایسا نہ تھا جو ان دونوں حضرات کو برا بھلا کہتا ہو]۔
یہ خصوصیت حضرت علی رضی اللہ عنہ میں نہیں پائی جاتی؛ اس لیے کہ صحابہ کی ایک جماعت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نالاں اور شاکی رہتی اور انہوں نے حضرت کی شان میں سخت و سست الفاظ کہے تھے اور آپ سے بر سر ِپیکار رہتے تھے[یہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے مابین اس چپقلش کا ذکر ہورہا ہے جو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد ان مخصوص حالات کی وجہ سے پیدا ہوگئی تھی ۔ ورنہ حاشاء و کلاکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضرت علی سے لڑتے بھڑتے یا گالیاں دیتے ہوں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت و رفاقت کے لیے بہترین لوگوں کا انتخاب کیا تھا۔ اور انہیں اللہ تعالیٰ نے باہم شیر و شکر کردیا تھا۔ جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا ﴾ [آل عمران۱۰۳] ’’ اللہ کے اس احسان کو یاد رکھو جو اس نے تم پر کیا ہے۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے ، اس نے تمہارے دل جوڑ دیے اور اس کے فضل و کرم سے تم بھائی بھائی بن گئے ۔‘‘ اور سورت فتح کی آخری آیت میں اللہ تعالیٰ نے صحابہ کرام کے آپس میں شیر وشکر ہونے پر تعریف کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود ان کے مابین جو کچھ واقعات پیش آئے اصل میں وہ ان بلوائیوں کی سازش کا نتیجہ تھے جنہوں نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا تھا۔ لیکن ان تمام باتوں کے باوجود صحابہ کرام بشر تھے ؛ اور ان سے نفوس بشری کی تحت ہونے والی کوتاہیوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ لیکن اس کے باوجود ہم یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حضرات صحابہ کرام کے آپس میں سخت و درشت کلام اور باہمی جھگڑوں کو بھی ایک دوسرے کے گناہوں کا کفارہ بنا دیں گے اور یہ سب لوگ یقیناً جنتی ہیں ۔ ایسے واقعات کی وجہ سے کسی بھی صحابی کی شان میں تنقیص کرنا اور دوسرے کی محبت میں غلو کرنا مسلمان کو زیب نہیں دیتا ۔ [ دراوی؛ کشمیری]]۔ جبکہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھنے والے اور ان پر سبُّ و شتم کرنے والے صرف رافضہ؛نصیریہ اور غالیہ اسماعیلیہ ہیں اور یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ جو لوگ ان دو حضرات سے محبت رکھتے تھے وہ بغض رکھنے والوں کی نسبت افضل اور تعداد میں اکثر تھے۔
جو لوگ ان سے بغض رکھتے تھے وہ اسلام سے بہت زیادہ دور اور تعداد میں بہت ہی کم تھے۔ بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ جنہوں نے آپ سے جنگ کی اور آپ سے ناراض ہوگئے تھے ؛ وہ حضرت ابوبکر وعمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھنے والوں کی نسبت بہت ہی افضل تھے۔ بلکہ وہ شیعان عثمان رضی اللہ عنہ جو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں وہ بھی ظالم اور بدعتی ہونے کے باوجود ان سے افضل ہیں ۔
پس وہ شیعان علی رضی اللہ عنہ جو حضرت سے محبت رکھتے ہیں ‘ اورجناب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے بغض رکھتے ہیں ؛ وہ علم و دین میں کم تر اور ظلم و جہالت میں بڑھے ہوئے ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اہل ایمان کے دل میں اللہ تعالیٰ نے حضرت ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی جو محبت پیدا کردی تھی؛ دوسروں کو یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوسکا۔
اگر یہ کہا جائے کہ : ’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے رب اور نبی ہونے کا دعوی بھی کیا گیا ہے ۔‘‘
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ کو تمام خوارج کافر کہتے ہیں ؛ مروانیہ آپ سے بغض رکھتے ہیں ؛ حالانکہ یہ لوگ ان رافضیوں سے بہت بہتر و افضل ہیں جو حضرت ابو بکروعمر رضی اللہ عنہما سے بغض رکھتے ہیں ‘ اور انہیں گالیاں دیتے ہیں ؛ غالیہ کی توکوئی بات ہی نہیں ۔ [جس طرح خوارج کے کافر کہنے سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ایمان میں فرق نہیں پڑتا ؛ ایسے ہی غالیہ اور اسماعیلیہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب یا نبی ماننے سے بھی آپ کی صحابیت اور بشریت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔]