Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیرھویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیرھویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:

’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیرھویں دلیل یہ آیت ہے:

﴿اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ﴾ ( الرعد:۷)

’’ بیشک آپ تو صرف آگاہ کرنے والے ہیں اور ہر قوم کے لیے ہادی ہے۔‘‘

’’کتاب الفردوس میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:’’ میں منذر[ڈرانے والا] ہوں اور علی رضی اللہ عنہ ہادی( رہنما وپیشوا)ہے ۔ اے علی! ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پاتے ہیں ۔‘‘ ابو نعیم نے بھی اسی طرح روایت کیا ہے یہ حدیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام اور خلیفہ ہونے کی صریح دلیل ہے۔[انتہی کلام الرافضی]

جواب:اس کا جواب کئی پہلؤوں سے دیا جاسکتاہے:

پہلی بات :....شیعہ نے اس روایت کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل پیش نہیں کی؛ لہٰذا اس سے احتجاج جائز نہیں ۔دیلمی کی کتاب الفردوس موضوعات کا پلندہ ہے۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے کہ کسی روایت کے کسی کتاب میں مندرج ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ صحیح بھی ہے۔ایسے ہی ابو نعیم کا کسی روایت کو نقل کرلینا اس کے صحیح ہونے پر دلالت نہیں کرتا۔

دوسری بات :....باتفاق محدثین و اہل علم یہ روایت جھوٹی اور من گھڑت ہے۔اس کو جھٹلانا اور رد کرنا واجب ہے۔

تیسری بات :....یہ ان قبیح ترین روایات میں سے ہے جن کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرنا بھی جائز نہیں ۔

اس روایت میں یہ قول کہ : آپ نے فرمایا:’’ میں منذر[ڈرانے والا] ہوں اور علی ہاد( رہنما وپیشوا)ہے ۔ اے علی! ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پاتے ہیں ۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہادی قرار دینے کا مطلب یہ ہے کہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے ان سے ہدایت پاتے ہیں ۔یہ ایسی بات ہے کہ کوئی مسلمان اسے زبان پر لانے کے لیے تیار نہیں ۔اس روایت کے ظاہر سے لگتا ہے کہ ڈرانے کا اور ہدایت دینے کا کام ان دونوں حضرات کے مابین تقسیم کردیاگیا ہے ۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صرف ڈرانے والے ہیں ؛ ان سے ہدایت نہیں مل سکتی ۔ او رحضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہدایت ملتی ہے۔ ایسی بات کوئی بھی مسلمان اپنی زبان سے نہیں کہہ سکتا ۔

چوتھی وجہ:.... اللہ تعالیٰ نے نص قرآنی کی بنا پر صرف سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کو ہادی بنا کر بھیجا تھا۔فرمان الٰہی ہے :

﴿وَ اِنَّکَ لَتَہْدِیْ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍoصِرَاطِ اللّٰہِ﴾ (الشورٰی:۵۲)

’’بلاشبہ آپ سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتے ہیں ۔جو کہ اللہ کی راہ ہے۔‘‘ 

پھر جس کی یہ صفت اللہ نے بیان کی ہو؛ اسے چھوڑ کر کسی ایسے کو ہادی کیوں مانا جاسکتا ہے جس میں یہ وصف موجود نہ ہو؟

پانچویں وجہ:....شیعہ کا قول کہ ’’ ہدایت یافتہ لوگ آپ ( حضرت علی) سے راہ پاتے ہیں ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں سے جس مسلمان نے بھی ہدایت پائی اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ذریعہ ہی پائی۔ یہ واضح جھوٹ ہے اس لیے کہ لا تعداد لوگ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم سے ہدایت پاکر جنت کے وارث بنے ؛اور انھوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک لفظ تک نہیں سنا۔ اکثر لوگ جو ایمان لائے تھے ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کچھ بھی کردار نہیں ۔جب بیرونی بلاد و امصار فتح ہوئے تو وہاں کے لوگوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیا اور ان سے فیض ہدایت حاصل کیا۔[انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صورت تک بھی نہیں دیکھی؛ اس لیے کہ آپ ان دنوں مدینہ میں بود و باش رکھتے تھے]۔جمہور اہل اسلام نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کچھ بھی نہیں سنا؛تو پھر شیعہ کا دعویٰ کیوں کر درست ہو سکتا ہے کہ ہدایت پانے والے آپ سے پاتے ہیں ؟

چھٹی وجہ :....یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ قول:’’ بیشک آپ ڈرانے والے ہیں ؛ اور ہر قوم کو ہدایت دینے والا ہوتا ہے ‘‘اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں ۔ یہ قول انتہائی ضعیف ہے۔ اور ایسے ہی جن لوگوں نے یہ تفسیر کی ہے : آپ ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کو ہدایت دینے والے ہیں ۔یہ بھی ضعیف قول ہے۔اس کا صحیح معنی یہ ہے کہ : بیشک آپ ڈرانے والے ہیں ؛ جیسا کہ آپ سے پہلے ڈرانے والے بھیجے گئے تھے۔ اور ہر امت میں ڈرانے والا ہوتا ہے جو انہیں ہدایت کی راہ دکھاتا ہے ؛ یعنی خیر کی طرف بلاتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ اِنْ مِّنْ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیْہَا نَذِیْرٌo﴾ [فاطر۲۴]۔

’’اور کوئی امت ایسی نہیں ہوئی جس میں کوئی ڈر سنانے والا نہ گزرا ہو۔‘‘

مفسرین کرام رحمہم اللہ کی ایک جماعت جیسے حضرت قتادہ؛ عکرمہ ؛ ابو الضحی؛ اور عبدالرحمن بن زید کا یہی قول ہے۔ابن جریر الطبری کہتے ہیں :

(( حدثنا بِشر، حدثنا یزِید، حدثنا سعِید، عن قتادۃ، وحدثنا أبو کریب حدثنا وکِیع، حدثنا سفیان، عنِ السدِیِ، عن عِکرِمۃ ومنصور عن أبِی الضحیٰ: ﴿اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ﴾ ﴿وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ﴾ قالا: ’’محمد ہو المنذِر وہو الہادِی۔))

ابو ضحی سے روایت ہے ؛ وہ کہتے ہیں :﴿اِنَّمَا اَنْتَ مُنْذِرٌ﴾ ﴿وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ﴾ : 

’’ محمد صلی اللہ علیہ وسلم وہی منذر ہیں اور وہی ہادی ہیں ۔‘‘[تفسیر ابن کثیر میں ہے: ایک نہایت ہی منکر واہی روایت میں ہے کہ اس آیت کے اترنے پر آپ نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا منذر تو میں ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھے کی طرف اشارہ کر کے فرمایا اے علی تو ہادی ہے، میرے بعد ہدایات پانے والے (]

ابن جریر الطبرِی کہتے ہیں :

حدثنا یونس، حدثنا ابن وہب، قال: قال ابن زید:

ہر قوم کے لیے ایک نبی ہوتا ہے جو انہیں راہ ہدایت دکھائے؛ اوروہی انہیں ڈرانے والا بھی ہوتاہے ۔پھر آپ نے یہ آیت پڑھی :

﴿وَإِنْ مِنْ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِيهَا نَذِيرٌ ﴾ [فاطر: 24]

’’ اور کوئی امت ایسی نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے والا نہ آیا ہو۔‘‘

اور اس کے ساتھ یہ آیت بھی پڑھی :

﴿نَذِيرٌ مِنَ النُّذُرِ الْأُولَى﴾ [النجمِ: 56] 

’’یہ پہلے ڈرانے والوں میں ایک ڈرانے والاہے ‘‘

اس کی تفسیر میں فرمایا:’’ یعنی انبیاء میں سے ایک نبی ۔‘‘

حدثنا بشار، حدثنا أبو عاصِم، حدثنا سفیان، عن لیث، عن مجاہِد: ’’المنذِر: محمد

مجاہد فرماتے ہیں : ’’منذر سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔‘‘اور

﴿وَّ لِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ﴾ سے مراد نبی ہیں ۔ 

فرمایا:اللہ تعالیٰ کا فرمان :

﴿یَوْمَ نَدْعُوا کُلَّ أُنَاسٍ بِإِمامِہِم﴾ [الإِسراِ: 71]

’’جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔‘‘

پس امام وہ ہوتا ہے جس کی اقتداء و اتباع کی جائے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں ؛ جو لوگوں کو ہدایت دیتے ہیں ۔ لیکن پہلا قول زیادہ صحیح ہے۔

نیز یہ کہ اس آیت کی تفسیر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کرنا ؛ محض باطل ہے۔ اس لیے کہ ارشاد ربانی ہے:﴿ وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ ﴾ [جملہ اقوام عالم کے بار ے میں فرمایا گیا ہے] اس کا تقاضا ہے کہ ان لوگوں کا کوئی ہادی ہو؛ بعد میں آنے والوں کے لیے کوئی ہادی ہو۔یعنی متعدد لوگ ہدایت کی راہ دکھانے والے ہوں ۔تو پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اوّلین وآخرین سب کے لیے ہادی کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ 

ساتویں وجہ:....یہ امر بھی قابل غور ہے کہ کسی سے ہدایت حاصل کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ وہ امام و خلیفہ بھی ہو۔جیسا کہ علمائے کرام رحمہم اللہ سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے۔جیسا کہ حدیث میں آتاہے :

((أصحابي کالنجوم فبأیہم اقتدیتم اہتدیتم)) [رواہ ابن عبد البر و الآجري في الشریعۃ؛ وہو ضعیف]

’’ میرے صحابہ کرام ستاروں کی مانند ہیں ؛ ان میں جس کی بھی اقتداء کروگے ؛ تم ہدایت پالوگے۔‘‘

اس میں کہیں بھی امامت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا شیعہ مصنف کا یہ دعویٰ باطل ہے۔

آٹھویں وجہ:....ارشاد ربانی:﴿وَلِکُلِّ قَوْمٍ ہَادٍ﴾میں لفظ ’’ہَادٍ‘‘ نکرہ لایا گیا ہے ۔یہ کسی متعین شخص پر دلالت نہیں کرتا ۔پس اس آیت سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کے اثبات کا دعوی کرنا باطل ٹھہرا۔ اور حدیث سے استدلال کرنا قرآن سے استدلال کی طرح نہیں ہے۔ حالانکہ اس ضمن میں پیش کی جانے والی احادیث بھی باطل ہیں ۔ 

نویں وجہ :....ارشاد ربانی :﴿وَلِکُلِّ قَوْمٍ﴾ میں عموم کا صیغہ ہے۔ اگر اس سے مراد یہ لی جائے کہ تمام لوگوں کے لیے ایک ہی ہدایت کی راہ دکھانے والا ہے تو سارے لوگ ہادی ہوئے۔اور یہ نہ کہا جاتا کہ ہر قوم کے لیے ہادی ہوتا ہے ۔اس لیے کہ اقوام [زمانہ و جگہ کے اعتبار سے ] مختلف ہوتی ہیں اور یہ بھی نہیں کہا گیا کہ تمام اقوام کے لیے ہادی ہیں ۔اور ایسا کہا بھی نہیں جاسکتا کہ تمام قوم کے لیے ایک ہادی و رہبر ہے۔ بلکہ لفظ ’’کل ‘‘کو نکرہ کی طرف مضاف کیا ہے ؛ معرفہ کی طرف نہیں کیا۔ جیسا کہ کہا جاتاہے : 

’’ تمام لوگ جانتے ہیں کہ وہاں پر کچھ اقوام ہیں ؛اور اقوام متعدد ہوتی ہیں ۔ اور ہر ایک قوم کو کوئی ایسا راہ دکھانے والا ہوتا ہے جو کہ دوسری قوم میں نہیں پایا جاتا ۔‘‘

اس سے ان لوگوں کا قول باطل ہوگیا جو کہتے ہیں کہ ہادی سے مراد اللہ تعالیٰ ہیں ۔ اور ایسے ہی ان لوگوں کے قول کا باطل ہونا بھی صاف ظاہر ہے کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔