Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا عبدالرشید نعمانی رحمۃ اللہ کا فرمان


اہل قبلہ کی تکفیر میں علمائے حق غایت درجہ کی احتیاط سے کام لیتے ہیں لیکن اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے جو فرقہ بھی ضروریاتِ دین کا منکر ہو وہ قطعی کافر ہے، خواہ وہ اپنے ایمان و اسلام کا کتنا ہی زور و شور سے دعویٰ کرتا رہے۔  

فرقہ امامیہ اثناء عشریہ کے عقائد کے بارے میں فاضل علامہ حضرت مستفتی مولانا محمد منظور نعمانیؒ نے جس تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے اور ان کی مستند کتابوں کے جس کثرت سے حوالے پیش کئے ہیں ان کے مطالعہ کے بعد خواص تو کیا عوام کو بھی اس فرقہ ضالہ کے خارج از اسلام ہونے میں شک نہیں ہو سکتا۔

بھلا جو فرقہ ختمِ نبوت کا قائل نہ ہو، اپنے ائمہ کو نبی کا درجہ دے، انہیں معصوم سمجھے، ان کی اطاعت کو تمام انسانوں پر فرض قرار دے اور ان کے بارے میں یہ عقیدہ رکھے کہ ان پر وحی باطنی ہوتی ہے، اور وہ اولوالعزم انبیاء کرام علیہم السلام سے بھی افضل ہیں، قرآنِ کریم کو محرف و مبدل کہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین جو بہ نص قرآن خیر امت ہیں اور جن کی جاں فشانی و جاں فروشی سے اسلام برپا ہوا اور دین اب تک باقی رہا ان ہی حضرات کو (معاذ اللہ) مرتد اور کافر کہے اور ان پر سب و شتم اور تبرا کو نہ صرف حلال بلکہ کارِ ثواب سمجھے۔ ایسا فرقہ لاکھ اپنے آپ کو مسلمان کہتار ہے، اس کو اسلام و ایمان اور قرآن کریم اور نبی کریمﷺ سے کیا تعلق؟ بقول شاعر:

دشنام بمذہبے کہ طاعت باشد

مذہب معلوم و اہلِ مذہب معلوم

یاد رہے کہ تقیہ کے دبیز پردے اور اس فرقہ کی کتابوں کی اشاعت نہ ہونے کے باعث عام طور پر ہمارے علماء کرام گذشتہ دور میں ان کے معتقدات سے بے خبر رہے لیکن اب جبکہ ان کی مستند کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں، ان کا کفر واضح ہو چکا ہے۔ پہلے بھی جبکہ اس فرقہ کی تصانیف علمائے حق کی دسترس سے باہر تھیں، جن اکابر نے ان کے افکار و نظریات پر کام کیا ہے انہوں ان کے کفر و زندقہ کی تصریح کی ہے۔

ہندوستان کے اکابر علماء میں حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے اپنی متعدد تصانیف میں فرقہ امامیہ اثناء عشریہ کے کفر و زندقہ سے پردہ اٹھایا ہے۔ چنانچہ وہ اپنے وصیت نامہ میں فرماتے ہیں:

ایس فقیر از روح پر فتوح آنحضرتﷺ کو سوال کرد که حضرت می فرمایند در باب شیعه که مدعی محبت اهل بیتؓ اند و صحابه کرامؓ را بد می گویند؟ آنحضرتﷺ کے بنوعے از کلام روحانی القافر مودند که مذهب ایشان باطل است و بطلان مذهب ایشان از لفظ امام معلوم می شود. چون از آن حالت افاقت دست داد در لفظ امام تامل کردم معلوم شد که امام باصطلاح ایشان معصوم مفترض الطاعة منصوب للخلق است و هی باطنی در حق امام تجویز می نمایند. پس درحقیقت ختم نبوت را منکر اند گوبزبان آنحضرت را خاتم الانبیاﷺ می گفته باشند۔

 اور اپنی دوسری گراں قدر تصنیف قرة العينين في تفضيل الشيخينؓ میں ارقام فرما ہیں: واحیاء او که حب ایشان از حد اعتدال بیرون رفت بسیار اند. الآن سه قوم برونی کاراند "اسماعیلیه" که زندیق صرف اند "امامیه" که به حقیقت منکر ختم نبوت اند. "وزیدیه" که فتنه مقاتلات بين المسلمین را ایشان منشانی شده اند. بازایس فرق منشعب شده اند بفرقهانی بسیار که تعداد ایشان عسر وارد و حضرت مرتضیؓ بری است از لوث ایشان و این معنی از خطب او ظاهر است. والله اعلم

اور اسی کتاب میں دوسری جگہ تحریر فرماتے ہیں

و از ذریت حضرت مرتضىٰؓ سه فرقه ضاله برآمدند که ہیچ تقصیر نکر ند در برہم زده دین محمدی اگر حفظ او تعالی شامل حال این ملت نبودی ازان جمله "شیعه امامیه" که نزدیک ایشان قرآن بنقل ثقات ثابت نیست زيرا كه نقل صحابةؓ وقراء سبعه پیش ایشان حجت نیست و روایت از انسه ایشان منقطع و هم چنین احادیث مرفوعه روایت ندارند واستفاضة احادیث پیش ایشان متصور نیست و درختم نبوت زندقه پیش گرفته اند. 

زیدیه اکثر عقائد اسلامیه را که با حادیث ثابت شده منكرند، وسبب جنگها و جد لها شدند. 

"واسماعیلیه: خودا خبث اندز ہمه بحقیقت مذہب ایشان سست کردن اسلام است و بدعات بیشمار در عقیده و عمل ایل اسلام از بین سه فریق پیدا شده که تفصیل آن طولی تمام می طلبد. اگر چه حضرت مرتضیؓ از لوث ایشان بری است و وبال ایشان راجع نیست مگر بریشان"

اور اپنی بے نظیر کتاب "ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء" میں رقمطراز ہیں۔۔و آن جاہلان که می گویند خلافت را از مستحق آن غصب کرده شد و بغیر رسید مکذب خدا و مکذب رسول اویند.

اور اسی کتاب میں آگے چل کر حفاظتِ قرآن پر بحث کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: چوں تمام عالم بر مصاحف عثمانيه جمع شدند یقین کردیم که محفوظ هما نیست و غیر او مراد الحفظ نبود و اگر مراد الحفظ می بود. محونمی شود وایس را پیچ عاقلی حفظ نشمارد که نزدیک امام مرہوم الموجود مختفی المحال ادعا کنند که نهاده شده است. سبحنک هذا بهتان عظیم بادر رو ایتے عربی پر کتا بے نادرے بطريق تعجب آورده باشد که فلان چنین گفت و فلان چنین نوشت در وقمت اشکال یک جانب اصابت بر دو یک جانب خطأ المعذور، چون پرده از رونی کار برداشتند و حق مثل قلق صبح پدیدار گشت مجال خلاف نمانند ہركه الآن يمينا وشمالاً افتدزندیق است اورامی باید بقتل رسانید

 غرض یہی وہ عقائدِ باطلہ ہیں جن کی بنا پر حضرت محمدوح کے خلف ارشد مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ نے اپنے فتاویٰ میں تصریح کی ہے کہ

در مذهب حنفی موافق روایات مفتی به حکم فرقه شیعه امامیه حکم مرتدان است چنانچه در فتاوی عالمگری مرقوم است. 

(فتاویٰ عزیزی: جلد، 1 صفحہ، 2)

یہ بھی واضح رہے کہ مذہب امامیہ اثناء عشریہ کا سارا تصنیفی سرمایہ گیارہویں امام حسن عسکری المتوفی 261 ہجری کے بعد کاختہ پر داختہ ہے جس کو دشمنانِ دین نے اپنی طرف سے گھڑ کر ان حضرات ائمہ کے سرںمنڈھ دیا ہے۔ بارہویں امام کا و جود تو محض فرضی اور موہوم ہے، وہ ابھی عالم وجود میں ہی نہیں آئے۔ ان کا وجود تو محض امامیہ اثناء عشریہ کا ذہنی اختراع ہے۔ بقیہ تمام گیارہ آئمہ مذہب اہلِ سنت سے وابستہ تھے۔ ان کے زمانے میں اگر یہ خرافات قلمبند ہو کر ان کے علم میں آتی تو سب سے پہلے ان غلط عقائد پر نکیر کرنے والے اور ان گمراہوں کی تکفیر کرنے والے یہی حضرات ہوتے۔ جس طرح کہ سیدنا علیؓ نے سبائیوں کو نذر آتش کیا تھا اور جامع کوفہ کے منبر پر اعلان فرمایا تھا کہ جو شخص بھی مجھ کو سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا عمرؓ پر فضیلت دے گا اس مفتری کو 80 کوڑے حد لگا دی جائیں گی۔

(جواهر الفتاوى: جلد، 1 صفحہ، 355)