امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چودھویں دلیل:
امام ابنِ تیمیہؒامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چودھویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چودھویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿ وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَسْؤلُوْنَ ﴾ (الصافات: ۲۴)
’’انہیں ٹھہراؤ؛بیشک ان سے سوال کیا جائے گا۔‘‘
ابو نعیم بطریق شعبی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرکے اس آیت:﴿ وَقِفُوْہُمْ اِنَّہُمْ مَسْؤلُوْنَ﴾ کا یہ معنی بیان کرتے ہیں کہ :’’ لوگوں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ولایت و امارت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
اسی طرح کتاب الفردوس میں حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ :’’بروز قیامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔‘‘
جب آپ کی ولایت کے بارے میں سوال کیا جانا ہے تو اس سے واجب ہوتا ہے کہ آپ کی ولایت و امامت حقیقت میں بھی ثابت ہو۔ یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کے لیے ثابت نہیں ہے ۔ تومعلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی امام ہوں گے۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا ]
جواب:اس کا جواب کئی پہلؤوں سے دیا جاسکتاہے:
پہلی بات:....ہم اس روایت کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔محض دیلمی یا ابو نعیم کی طرف منسوب کرلینے سے روایت قابل حجت نہیں ہوجاتی۔ اس بات پر علماء کا اجماع ہے ۔
دوسری بات:....اس روایت کے من گھڑت اور جھوٹ ہونے پر علمائے کرام رحمہم اللہ کا اتفاق ہے۔
تیسری بات:....شیعہ کا یہ جھوٹ آیت ہذا کے سیاق سے معلوم ہوجاتا ہے؛ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿بَلْ عَجِبْتَ وَیَسْخَرُوْنَ (12) وَاِِذَا ذُکِّرُوْا لَا یَذْکُرُوْنَ (13) وَاِِذَا رَاَوْا اٰیَۃً یَّسْتَسْخِرُوْنَ ( 14) وَقَالُوْا اِِنْ ہٰذَا اِِلَّا سِحْرٌ مُّبِیْنٌ ( 15)اَئِذَا مِتْنَا وَکُنَّا تُرَابًا وَعِظَامًا اَئِنَّا لَمَبْعُوْثُوْنَ ( 16) اَوَآبَاؤُنَا الْاَوَّلُوْنَ( 17) قُلْ نَعَمْ وَاَنْتُمْ دَاخِرُوْنَ ( 18) فَاِِنَّمَا ہِیَ زَجْرَۃٌ وَّاحِدَۃٌ فَاِِذَا ہُمْ یَنظُرُوْنَ(19) وَقَالُوْا یٰوَیْلَنَا ہٰذَا یَوْمُ الدِّیْنِ(20) ہٰذَا یَوْمُ الْفَصْلِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِہٖ تُکَذِّبُوْنَ (21) احْشُرُوْا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا وَاَزْوَاجَہُمْ وَمَا کَانُوْا یَعْبُدُوْنَ (22)مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاہْدُوْہُمْ اِِلٰی صِرَاطِ الْجَحِیْمِ (23)وَقِفُوہُمْ اِِنَّہُمْ مَسْؤُلُوْنَ (24) مَا لَکُمْ لَا یَتَنَاصَرُوْنَ (25) بَلْ ہُمُ الْیَوْمَ مُسْتَسْلِمُوْنَ (26) وَاَقْبَلَ بَعْضُہُمْ عَلٰی بَعْضٍ یَتَسَائَ لُوْنَ (27) قَالُوْا اِِنَّکُمْ کُنْتُمْ تَاْتُوْنَنَا عَنِ الْیَمِیْنِ (28) قَالُوْا بَلْ لَمْ تَکُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ (29) وَمَا کَانَ لَنَا عَلَیْکُمْ مِّنْ سُلْطَانٍ بَلْ کُنْتُمْ قَوْمًا طَاغِینَ (30) فَحَقَّ عَلَیْنَا قَوْلُ رَبِّنَا اِِنَّا لَذَائِقُوْنَ (31)فَاَغْوَیْنَاکُمْ اِِنَّا کُنَّا غَاوِینَ (32)فَاِِنَّہُمْ یَوْمَئِذٍ فِی الْعَذَابِ مُشْتَرِکُوْنَ (33)اِِنَّا کَذٰلِکَ نَفْعَلُ بِالْمُجْرِمِیْنَ (34) اِِنَّہُمْ کَانُوْا اِِذَا قِیْلَ لَہُمْ لَآ اِِلٰـہَ اِِلَّا اللّٰہُ یَسْتَکْبِرُوْنَ (35) وَیَقُوْلُوْنَ اَئِنَّا لَتَارِکُوْا آلِہَتِنَا لِشَاعِرٍ مَّجْنُوْنٍ (36)بَلْ جَائَ بِالْحَقِّ وَصَدَّقَ الْمُرْسَلِیْنَ (37)﴾ [الصافات]
’’بلکہ تو نے تعجب کیا اور وہ مذاق اڑاتے ہیں ۔ اور جب انھیں نصیحت کی جائے وہ قبول نہیں کرتے۔ اور جب کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو خوب مذاق اڑاتے ہیں ۔ اور کہتے ہیں یہ صاف جادو کے سوا کچھ نہیں ۔ کیا جب ہم مر گئے اور مٹی اور ہڈیاں ہو چکے تو کیا واقعی ہم ضرور اٹھائے جانے والے ہیں ؟اور کیا ہمارے پہلے باپ دادا بھی؟ کہہ دے ہاں ! اور تم ذلیل ہوگے۔ سو وہ بس ایک ہی ڈانٹ ہوگی، تو یکایک وہ دیکھ رہے ہوں گے اور کہیں گے ہائے ہماری بربادی! یہ تو جزا کا دن ہے۔ یہی فیصلے کا دن ہے، جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔اکٹھا کرو ان لوگوں کو جنھوں نے ظلم کیا اور ان کے جوڑوں کو اور جن کی وہ عبادت کیا کرتے تھے۔ اللہ کے سوا، پھر انھیں جہنم کی راہ کی طرف لے چلو۔اور انھیں ٹھہراؤ، بے شک یہ سوال کیے جانے والے ہیں ۔کیا ہے تمھیں ، تم ایک دوسرے کی مدد نہیں کرتے؟بلکہ آج وہ بالکل فرماں بردار ہیں ۔اور ان کے بعض بعض کی طرف متوجہ ہوں گے، ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ کہیں گے بے شک تم ہمارے پاس قَسَم کی راہ سے آتے تھے۔وہ کہیں گے بلکہ تم ایمان والے نہ تھے۔ اور ہمارا تم پر کوئی غلبہ نہ تھا، بلکہ تم (خود) حد سے بڑھنے والے لوگ تھے۔ سو ہم پر ہمارے رب کی بات ثابت ہوگئی۔ بے شک ہم یقیناً چکھنے والے ہیں ۔ سو ہم نے تمھیں گمراہ کیا، بے شک ہم خود گمراہ تھے۔ پس بے شک وہ اس دن عذاب میں ایک دوسرے کے شریک ہوں گے۔ بے شک ہم مجرموں کے ساتھ ایسے ہی کیا کرتے ہیں ۔ بے شک وہ ایسے لوگ تھے کہ جب ان سے کہا جاتا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں تو تکبر کرتے تھے۔ اور کہتے تھے کیا واقعی ہم یقیناً اپنے معبودوں کو ایک دیوانے شاعر کی خاطر چھوڑ دینے والے ہیں ؟بلکہ وہ حق لے کر آیا ہے اور اس نے تمام رسولوں کی تصدیق کی ہے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں خطاب کفار ومشرکین سے متعلق ہے جو کہ آخرت کے دن کو جھٹلاتے تھے۔ ان سے اللہ تعالیٰ کی توحید اور رسولوں پر اور آخرت کے دن پر ایمان کے بارے میں دریافت کیا جائے گا۔اس میں ان سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کرنے کا کیا مطلب ہے؟کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ اگر وہ مشرک اور کافر ہوتے ہوئے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت رکھیں گے تو انھیں اس کا کوئی فائدہ پہنچے گا؟یا پھر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض ہے ؛ تو اس بغض کو حضرات انبیائے کرام علیہم السلام سے بغض اور کتاب اللہ اور دین الٰہی سے بغض کے ساتھ کیا نسبت ہے؟ اللہ کی پناہ ! کہ کتاب الٰہی کو ایسے غلط معنی پہنائے جائیں ۔یا کوئی یہ کہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تفسیر کی ہے ؛ ایسی بات تو صرف کوئی زندیق اور ملحد ہی کہہ سکتا ہے جس نے دین کو کھلواڑ بنالیا ہو اور وہ اسلام پر طعنہ زنی کرنا چاہتاہو۔یا پھر وہ انسان جو انتہائی سخت جہالت کا شکار ہو۔ اور اسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر حضرات صحابہ طلحہ و زبیر ؛ سعد و ابو بکر ؛ عمر و عثمان رضی اللہ عنہم کی محبت کے مابین آخر ایسا کون سا فرق پایا جاتاہے؟
اگر کوئی کہنے والا یہ کہے کہ : اس سے مراد یہ ہے کہ لوگوں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو اس کایہ قول ان لوگوں کے قول کی نسبت زیادہ غلط نہیں ہوگا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کیے جانے کے دعویدار ہیں ۔ نیز آیت میں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں ہے جس کی روشنی میں ان لوگوں کے قول کاراجح ہونا ظاہر ہو۔ بلکہ [اس تفسیر کی روشنی میں ] یہ آیت ان دونوں حضرات کے محبت کے ثبوت یا نفی پربرابر دلالت کرتی ہے ۔ جب کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے محبت واجب ہونے کے دلائل زیادہ قوی ہیں ۔
چوتھی بات :....[آیت کریمہ میں وارد لفظ ]’’مسؤلون ‘‘ مطلق ہے ؛ اس کی ضمیر کا صلہ کسی بھی چیز کیساتھ مختص نہیں ۔اور اس کے سیاق میں بھی کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت پر دلالت کرتی ہو۔ پس اس آیت کو لے کر مدعی کا دعوی کرنا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا یہ بہت بڑا جھوٹ و بہتان اور باطل کلام ہے۔
پانچویں بات :....اگر کوئی یہ دعوی کرے کہ لوگوں سے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کی محبت کے بارے میں سوال کیا جائے گا ؛ تو اس کا دعوی کسی طرح بھی باطل نہیں کیا جاسکتا ؛ مگر اس کے ساتھ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی محبت کے سوال کا دعوی بھی فی الفور ہی پوری قوت کے ساتھ باطل ہو جائے گا۔