امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پندرھویں دلیل:
امام ابنِ تیمیہؒامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پندرھویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پندرھویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ﴾ ( محمد:۳۰)
’’اور یقیناً آپ انہیں ان کی بات کے ڈھب سے پہچان لیں گے۔‘‘
ابو نعیم اپنی سند سے حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَلَتَعْرِفَنَّہُمْ فِیْ لَحْنِ الْقَوْلِ﴾ سے بغض علی مراد ہے۔ یہ خصوصیت دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم میں نہیں پائی جاتی۔ لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وجہ سے ان سے افضل ٹھہرے؛ توپھر آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔
جواب:پہلی بات :....ہم اس روایت کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔
دوسری بات:....ہم کہتے ہیں کہ اہل علم محدثین جانتے ہیں کہ یہ حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ پر افتراء ہے۔
تیسری بات:....اگریہ بات ثابت بھی ہوجائے کہ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا؛ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے صرف کسی ایک صحابی کا قول ؛جب کہ باقی صحابہ اس کی مخالفت کررہے ہوں تو حجت نہیں ہوسکتا۔ اس پر اہل علم کا اتفاق ہے۔ حالانکہ بہت سارے صحابہ کرام کے متعلق یہ بھی معلوم ہے کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تنقید کیا کرتے تھے۔ان پربھی حجت صرف صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کے قول سے قائم نہیں ہوسکتی بلکہ کتاب و سنت سے ہوتی ہے۔
چوتھی بات:....ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ[یہ آیت منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہے ؛اور] عام منافقین حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عداوت میں مبتلا نہ تھے۔پھر اس آیت کی ان الفاظ میں تفسیر کرنا ایک کھلا ہوا جھوٹ ہے۔
پانچویں بات:....پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کفرکی دشمنی میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ فاروق سے زیادہ نہ تھے ۔ بلکہ کفار و منافقین حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے شدید عداوت رکھتے تھے۔اور جتنی تکلیف حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کافروں کو پہنچتی تھی ایسی تکلیف کسی دوسرے سے نہیں پہنچتی تھی۔بلکہ ہمیں کسی ایک کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہوسکا جس سے کفار اتنی تکلیف پاتے ہوں اور اس سے بغض رکھتے ہوں ۔
چھٹی بات:....صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ منافق کی علامت انصار سے بغض ہے اورمؤمن کی علامت انصار سے محبت ہے۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب مناقب الانصار۔ باب حب الانصار، من الایمان، (حدیث: ۳۷۸۳، ۳۷۸۴)، صحیح مسلم۔ کتاب الإیمان۔ باب الدلیل علی ان حب الانصار....‘‘ (حدیث:۷۴،۷۵)۔ ]
اور ایک روایت میں یہ بھی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
’’ایسا آدمی انصار سے بغض نہیں رکھے گا جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب الإیمان باب الدلیل علی ان حب الانصار و علی رضی اللّٰہ عنہم ....(حدیث:۷۸)۔]
منافقین کو انصار کے بغض کی وجہ سے اپنے کلام میں کجی کی بناپر پہچان لیے جا نے کی تفسیر زیادہ اولیٰ ہوسکتی ہے ۔
اس باب میں سب سے صحیح روایت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے عہد کیا تھا کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور مجھ سے بغض منافق ہی رکھے گا۔‘‘ [صحیح مسلم:ج ا:ح۲۴۲]
یہ حدیث روایت کرنے میں امام مسلم رحمہ اللہ منفرد ہیں ؛ آپ نے یہ روایت عدی بن ثابت سے نقل کی ہے؛ وہ زربن حبیش سے وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں ۔امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث سے اعراض کیا ہے۔ بخلاف انصار کے فضائل کی احادیث کے۔ان احادیث پر تمام اہل صحاح کا اتفاق ہے۔ اور اہل علم جانتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یقینی طور پر یہ ارشاد فرمایا ہے ؛ کیونکہ بعض لوگوں کو ان روایات میں شک گزرا ہے۔
ساتویں بات : ....نفاق کی بہت سی علامات ہیں ۔ جیسا کہ صحیحین میں ثابت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں جب گفتگو کرے تو جھوٹ بولے جب امانت دی جائے تو اس میں خیانت کرے اور جب وعدہ کرے تو اس کے خلاف کرے۔‘‘[صحیح بخاری:ج ا:ح۲۵۲۳]
یہ نشانیاں صاف ظاہر ہیں ۔ اس سے معلوم ہوا کہ منافقت کی نشانیاں کسی شخص یا کسی گروہ کی محبت ونفرت کے ساتھ خاص نہیں ہیں ۔ اگرچہ یہ بھی ان نشانیوں میں سے ہی ہے۔
ہم کہتے ہیں کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اللہ کی رضا کی خاطر محبت کرتا ہو ؛ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کا مستحق ٹھہرتا ہے؛ اور یہ محبت اس کے ایمان کی نشانی ہے۔یا جو انسان نصرت ِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بنا پر انصار کو چاہتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی علامات ہے۔ بخلاف ازیں جو شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ و انصار کو انہی اوصاف[یعنی اللہ اور اس کے رسول پر ایمان اور جہاد فی سبیل اللہ ]اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید و نصرت کے جرم میں نفرت و حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے وہ منافق ہے۔
علاوہ ازیں جو شخص کسی طبعی امر مثلاً رشتہ داری یا کسی دنیوی امر کی بنا پر ان سے محبت رکھتا ہے تو یہ اسی قسم کی محبت ہے جیسے ابوطالب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھی۔ایسی محبت اللہ کے ہاں کچھ بھی کام نہ آئے گی۔ اور ایسے ہی جو شخص انصار ؛ یا حضرت مسیح علیہ السلام یا حضرت موسیٰ علیہ السلام و علی رضی اللہ عنہ یا کسی بھی نبی کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہوئے محبت کرتا ؛اوران کے بارے میں ان کے مرتبہ سے بالا تر اعتقاد رکھتا ہے؛[ اور ان کے بارے میں مبالغہ آمیزی کرنے والے کو بنظر استحسان دیکھتا ہے تو یہ شخص مبالغہ آمیزی و غلو کا ارتکاب کرتا ہے]حقیقت میں یہ کوئی محبت نہیں کررہا۔اس لیے کہ اس کی محبت ایسی چیزوں سے ہے جن کا کوئی وجود ہی نہیں ۔ جس طرح حضرت مسیح علیہ السلام کی شان میں نصاریٰ نے مبالغہ آمیزی سے کام لیا تھا۔حالانکہ حضرت عیسی علیہ السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل تھے۔ تاہم یہ محبت نصاریٰ کے لیے مفید ثابت نہ ہوئی۔ محبت وہی سود مند ہے جو اللہ کے لیے ہو، نہ کہ وہ جس میں کسی کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرایا جائے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّتَّخِذُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنْدَادًا یُّحِبُّوْنَہُمْ کَحُبِّ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾ [البقرۃ ۱۶۵]
’’بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں ۔‘‘
جس کسی کے بارے میں یہ فرض کرلیا جائے کہ اس نے بعض انصار سے کوئی ایسی چیز سنی تھی؛ جو ان سے بغض کو واجب کرتی تھی؛ تو وہ اس وجہ سے انصار سے بغض کرنے لگ گیا؛ تو وہ اپنے اس فعل میں گمراہ اور خطا کار تھا۔ مگر اس کا شمار منافقین میں نہ ہوگا۔یہی حال اس انسان کا بھی ہے جو بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے متعلق کوئی ایسا اعتقاد رکھے جو کہ حقائق کے مطابق نہ ہو؛ اور اس کے متعلق یہ گمان کرے کہ وہ کافر یا فاسق تھا؛ اس وجہ سے اس سے بغض رکھے تو وہ ظالم اور جاہل شمار ہوگا مگر منافق نہیں ہوگا۔
اس اصول کی بنا پر ان روایات کا جھوٹ ہونا ظاہر ہوتا ہے جو کہ بعض صحابہ سے روایت کی گئی ہیں ؛ جیسا کہ حضرت جابر ۔کہ آپ فرمایا کرتے تھے:
(( ما کنا نعرِف المنافِقِین علی عہدِ النبِیِ صلي اللّٰه عليه وسلم إلا بِبغضِہِم علِی بن أبِی طالِب۔))
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں منافقین کو صرف ان کے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کی وجہ سے پہچانتے تھے۔‘‘
اس نفی اور انکار کا جھوٹ ہونا انتہائی واضح اورصاف ہے۔ اور اس کا باطل ہونا عوام الناس میں سے بھی کسی ایک پر مخفی نہیں ہے۔ چہ جائے کہ ایسی بات حضرت جابر رضی اللہ عنہ اور ان جیسے عظیم لوگوں پر مخفی رہ جائے۔
بیشک اللہ تعالیٰ نے سورت توبہ میں اور دوسرے مقامات پر منافقین کی نشانیاں اور ان کے اوصاف میں متعدد امور ذکر کیے ہیں ؛ ان میں بغض علی رضی اللہ عنہ نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ مثلا:اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ ائْذَنْ لِّیْ وَلَا تِفْتِنِّیْ اَلَا فِی الْفِتْنَۃِ سَقَطُوْا﴾ [التوبۃ: 49 ]
’’اور ان میں سے کوئی کہتا ہے مجھے اجازت دیں ؛اور فتنے میں نہ ڈال۔ سن لو! وہ فتنہ میں تو پڑے ہوئے ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ یَّلْمِزُکَ فِی الصَّدَقٰتِ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْہَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْہَآ اِذَا ہُمْ یَسْخَطُوْنَ ﴾ [التوبۃ: 58]
’’ اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو تجھ پر صدقات کے بارے میں طعن کرتے ہیں ، پھر اگر انھیں ان میں سے دے دیا جائے تو خوش ہو جاتے ہیں اور اگر انھیں ان میں سے نہ دیا جائے تو اسی وقت وہ ناراض ہو جاتے ہیں ۔‘‘
﴿وَ مِنْہُمُ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ النَّبِیَّ وَ یَقُوْلُوْنَ ہُوَ اُذُنٌ قُلْ اُذُنُ خَیْرٍلَّکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ ﴾
[التوبۃ: 61]
’’اور ان میں سے کچھ وہ ہیں جو نبی کو ایذا دیتے ہیں اور کہتے ہیں وہ (تو) ایک کان ہے۔ کہہ دے تمھارے لیے بھلائی کا کان ہے، اللہ پر یقین رکھتا ہے۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مِنْہُمْ مَّنْ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنْ اٰتٰنَا مِنْ فَضْلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیْنَo....وَ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْنَ﴾ [التوبۃ75-77]
’’اور ان میں سے بعض وہ ہیں جنھوں نے اللہ سے عہد کیا کہ یقیناً اگر اس نے ہمیں اپنے فضل سے کچھ عطا فرمایا تو ہم ضرور ہی صدقہ کریں گے اور ضرور ہی نیک لوگوں سے ہو جائیں گے۔ ....اور اس لیے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے۔‘‘
اس طرح کی دیگر صفات بھی ہیں جن سے منافقین کو موصوف بتایا گیا ہے۔ اورپھر ان کی نشانیاں بیان کی ہیں ۔ اور ان اسباب کا ذکر کیا ہے جو کہ نفاق کا موجب بنتے ہیں ۔
ہر وہ چیز جو کہ نفاق کا موجب ہو؛ وہ نفاق پر اور اس کی نشانی بھی ہوتی ہے۔ پس اب کسی عاقل کے لیے کیسے جائز ہو سکتا ہے کہ وہ یوں کہے کہ:منافقین کو پہچاننے کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کے علاوہ کوئی دوسری نشانی ہی نہیں تھی؟
حالانکہ منافقین کی ایک نشانی با جماعت نماز سے پیچھے رہنا بھی تھی۔صحیح مسلم میں ہے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے؛ فرماتے ہیں :
’’اے لوگو!ان پانچ نمازوں کی حفاظت کرو جہاں سے بھی ان کے لیے پکارا جائے۔بیشک یہ ہدایت کی سنتیں [راستے]ہیں ۔اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہدایت کے طریقے متعین کر دئیے ہیں ۔ اور اگر تم اپنے گھروں میں نماز پڑھو جیسا کہ یہ پیچھے رہنے والا اپنے گھر میں پڑھتا ہے؛ تو تم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دوگے۔ اور اگر تم اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو چھوڑ دو گے تو گمراہ ہوجاؤ گے۔ ....اور ہم دیکھتے ہیں کہ منافق کے سوا کوئی بھی نماز سے پیچھے نہیں رہتا تھا کہ جس کا نفاق ظاہر ہوجاتا اور ایک آدمی جسے دو آدمیوں کے سہارے لایا جاتا تھا یہاں تک کہ اسے صف میں کھڑا کردیا جاتا۔‘‘ [صحیح مسلم:ج 1:ح 1483۔والأثر فِی: سننِ أبِی داود1؍255۔کتاب الصلاِۃ، باب فِی التشدِیدِ فِی ترکِ الجماعۃِ؛ سننِ النسائِیِ2؍ 84ِکتاب الإِمامۃِ، باب المحافظۃِ عل الصلواتِ حیث ینادی بِہِن، سنن ابن ماجہ1؍ 255 ؛ کتاب المساجِدِ والجماعاتِ، باب المشیِ ِإلی الصلاۃِ ، المسندِ ط الحلبِیِ1؍ 382۔]
نفاق کی اکثرنشانیاں اور اسباب امت کے کسی بھی فرق میں اتنے زیادہ اورکھلے عام نہیں پائے جاتے جتنے زیادہ روافض میں ہیں ۔ حتی کہ ان میں نفاق مغلظ ایسے کھلے عام پایا جاتا ہے کہ دوسرے فرقوں میں اس کی مثال بھی نہیں ملتی۔ ان کے دین کا شعار[ظاہری علامت] تقیہ ہے؛ یعنی اپنی زبان سے وہ بات کہیں جو آپ کے دل میں نہیں ۔ یہ نفاق کی نشانی ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَآ اَصَابَکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ فَبِاِذْنِ اللّٰہِ وَ لِیَعْلَمَ الْمُؤْمِنِیْنَoوَ لِیَعْلَمَ الَّذِیْنَ نَافَقُوْا وَ قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوِ ادْفَعُوْا قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰکُمْ ہُمْ لِلْکُفْرِ یَوْمَئِذٍ اَقْرَبُ مِنْہُمْ لِلْاِیْمَانِ یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاہِہِمْ مَّا لَیْسَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِمَا یَکْتُمُوْنَ﴾ [آل عمران: 166۔167]
’’اور جو مصیبت تمھیں اس دن پہنچی جب دو جماعتیں بھڑیں تو وہ اللہ کے حکم سے تھی اور تاکہ وہ ایمان والوں کو جان لے۔ اور تا کہ وہ ان لوگوں کو جان لے جنھوں نے منافقت کی اور جن سے کہا گیا آؤ اللہ کے راستے میں لڑو، یا مدافعت کرو تو انھوں نے کہا اگر ہم کوئی لڑائی معلوم کرتے تو ضرور تمھارے ساتھ چلتے۔ وہ اس دن اپنے ایمان (کے قریب ہونے) کی بہ نسبت کفر کے زیادہ قریب تھے، اپنے مونہوں سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں اور اللہ زیادہ جاننے والا ہے جو وہ چھپاتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿یَحْلِفُوْنَ بِاللّٰہِ مَا قَالُوْا وَلَقَدْ قَالُوْا کَلِمَۃَ الْکُفْرِ وَ کَفَرُوْا بَعْدَ اِسْلَامِہِمْ وَ ہَمُّوْا بِمَا لَمْ یَنَالُوْا﴾ [التوبۃ: 74]
’’ وہ اللہ کی قسم کھاتے ہیں کہ انھوں نے بات نہیں کہی، حالانکہ بلاشبہ یقیناً انھوں نے کفر کی بات کہی اور اپنے اسلام کے بعد کفر کیا اور اس چیز کا ارادہ کیا جو انھوں نے نہیں پائی ۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فِیْ قُلُوْبِہِمْ مَّرَضٌ فَزادَہُمُ اللّٰہُ مَرَضًا وَ لَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْذِبُوْن ﴾ [البقرۃ:10]
’’ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے انھیں بیماری میں اور بڑھا دیا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے، اس وجہ سے کہ وہ جھوٹ کہتے تھے۔‘‘
اس میں دو قرأتیں ہیں : یَکْذِبُونَ، اوریُکَذِّبُونَ ۔
خلاصہ کلام! یہ ہے کہ نفاق کی نشانیاں جیسے : جھوٹ؛ خیانت؛ وعدہ خلافی؛ غدر وغیرہ تمام گروہوں سے بڑھ کر روافض میں پائی جاتی ہیں ۔ یہ ان کی بہت پرانی صفات ہیں ۔ حتی کہ یہ لوگ حضرت علی ؛ حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہم سے بھی غداری کرتے رہے ہیں ۔
صحیحین میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’ جس شخص میں یہ چاروں خصلتیں جمع ہو جائیں تو وہ خالص منافق ہے۔ اور جس میں ان میں سے کوئی ایک خصلت پائی جائے تو سمجھ لو کہ اس میں منافق کی ایک خصلت پیدا ہوگئی جب تک کہ اس کو چھوڑ نہ دے: جب بات کرے تو جھوٹ بولے ۔جب عہد کرے تو توڑ ڈالے ۔جب اسے امانت دی جائے تو خیانت کرے اور جب جھگڑا کرے تو آپے سے باہر ہو جائے۔‘‘ [صحیح مسلم:کتاب ایمان :باب منافق کی خصلتوں ....:ح۲۱۲]
اس موضوع کو تفصیل سے بیان کرنے کا یہ موقعہ نہیں ہے۔ [منافقت کی نشانیاں اور اسباب رافضیوں سے بڑھ کر امت کے کسی بھی گروہ میں نہیں پائی جاتی۔ یہاں تک کہ ان میں ایسا غلیظ اور کھلا ہوا نفاق پایا جاتا ہے کہ کسی بھی دوسرے میں اس قسم کا نفاق نہیں پایا جاتا۔ان کے دین کا شعار ہی ’’تقیہ ‘‘ ہے یعنی اپنی زبان سے وہ بات کہنا جو دل میں نہیں ہے ؛ اصل میں یہ منافقت کی بڑی نشانی ہے۔]
یہاں پر مقصود یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل محال ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض کے علاوہ منافقت کی کوئی نشانی نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک نے بھی ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ لیکن اتنا ضرور کہا جاسکتا ہے کہ آپ سے بغض رکھنا نفاق کی منجملہ نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’ مجھ سے بغض منافق ہی رکھے گا۔‘‘تو اس کی توجیہ یہ ہے کہ جس انسان کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خدمات جلیلہ اور آپ کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان اور جہاد فے سبیل اللہ کا علم ہو؛ اور پھر وہ آپ سے دشمنی رکھے ؛ ایسا انسان یقیناً منافق ہے۔
ایسے ہی نفاق کی نشانیوں میں سے انصار رضی اللہ عنہم کے ساتھ بغض رکھنا بھی ہے۔انصار بہت بڑا عظیم قبیلہ تھا ؛ اور مدینہ ان کا شہر تھا۔ یہی انصار وہ لوگ تھے جو ایمان لائے ؛ مہاجرین کوپناہ دی؛ ان کے پاس ہجرت کرکے آنے سے اسلام و ایمان کو عزت نصیب ہوئی ۔ اہل ایمان کو غلبہ حاصل ہوا۔ اور انہیں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نصرت و اکرام کا وہ اعزاز حاصل ہوا جو کسی دوسرے شہر والے کو اور نہ ہی اس قبیلہ کے علاوہ کسی دوسرے قبیلہ کو نصیب ہوسکا۔ پس ان سے منافق کے علاوہ کوئی انسان بغض رکھ ہی نہیں سکتا۔لیکن اس قدر و منزلت کے باوجود یہ لوگ مہاجرین سے افضل نہیں ہیں ؛ مہاجرین کو اللہ تعالیٰ نے ان پر فضیلت سے نوازا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کسی انسان سے بغض کے منافقت کی نشانی ہونے سے یہ لازم نہیں آجاتا کہ وہ دوسرے تمام لوگوں سے افضل ہے۔ او رجو کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے احوال اور سوانح جانتا ہے اسے علم ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کفار اور منافقین کے دشمن تھے۔ اورآپ اسلام کی عزت افزائی ؛ نصرت اور کفار کی رسوائی و ذلت پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر اثر انداز ہوئے تھے اور اللہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن کفار و منافقین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے دشمنی رکھتے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے والا وہ انسان تھا جو اسلام ؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی امت سے بغض رکھتا تھا۔اللہ اور اس کے رسول سے اور دین اسلام سے بغض رکھنے کی وجہ سے اس قاتل نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو قتل کیا ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کوقتل کرنے والا نمازی ؛ روزہ دار ؛ اور قرآن کی تلاوت کرنے والا انسان تھا؛ اور وہ آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے قتل کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے اپنی تئیں اسی محبت کی وجہ سے اس نے آپ کو قتل بھی کیا۔ حالانکہ وہ اپنے اس اعتقاد میں گمراہ اور بدعت پر تھا۔
مقصود یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض رکھنے کی نسبت زیادہ کھلا ہوا نفاق پایا جاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ رافضی اس امت میں سب سے بڑے منافق ہونے کی وجہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اس امت کا فرعون کہتے ہیں ۔اور آپ کے قاتل معلون ابو لؤلؤ فیروز مجوسی سے محبت کا دم بھرتے ہیں ؛ حالانکہ وہ بہت بڑا کافر اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا۔ [شیعہ اس مجوسی کو اپنا باپ تصور کرتے ہوئے اسے ’’بابا‘‘ کہہ کر پکارتے ہیں ]۔