حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰنؒ کا فرمان
حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰنؒ کا فرمان
سوال: لا تکفر اهل قبلتك حدیث ہے یا نہیں؟ اور اس کا کیا مطلب ہے؟
جواب: حديث لا تكفر اهل قبلتک کے متعلق جواباّ عرض ہے کہ ان لفظوں کے ساتھ تو یہ جملہ کسی حدیث کی کتاب میں نظر سے نہیں گزرا لیکن اس مضمون کے جملے بعض احادیث میں وارد ہیں۔ مگر قادیانی مبلغ جو ان الفاظ کو ناتمام نقل کرکے اپنے کفر کو چھپانا چاہتا ہے۔
اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جیسے قرآن کریم سے کوئی شخص لا تقر بوالصلوة نقل کرے۔ کیونکہ جن احادیث میں اس قسم کے الفاظ واقع ہیں ان کے ساتھ ایک قید بھی مذکور ہے، یعنی بذنب اولعمل وغیرہ جس کی غرض یہ ہے کہ کسی گناہ و معصیت کی وجہ سے کسی اہلِ قبلہ کو یعنی مسلم مسلمان کو کافر مت کہو۔ چنانچہ بعض روایات میں اس کے بعد ہی یہ لفظ بھی منقول ہیں الا ان ترو اكفر أبوحا یعنٰی جب تک کفر صریح نہ دیکھو، کافرمت کہو۔ خواہ گناہ کتنا بھی سخت کرے۔
یہ روایت ابو داؤد، کتاب الجهاد جلد:1:صفحہ:252 میں سیدنا انسؓ سے اس طرح مروی ہے ثلاث من اصل الايمان الكف عمّن قال لا اله الا الله ولا تكفر بذنب ولا تخرجه من الاسلام نیز بخاری شریف جلد:1:صفحہ:57 میں سیدنا انسؓ سے روایت کیا ہے مرفوعا من شهدان لااله الا الله واستقبل قبلتنا وصلى صلاتناواكل ذبيحتنا فھو المسلم اہلِ قبلہ سے مراد باجماع امت وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین کو مانتے ہیں، نہ کہ یہ قبلے کی طرف نماز پڑھ لیں ،چاہے ضروریاتِ اسلامیہ کا انکار کرتے رہیں۔
کمافی شرح المقاصد قال: المبحث السابع في حكم مخالف الحق من اهل القبلة ليس بكافر مالم يخالف ما هو من ضروریات (الى قوله) فلا نزاع في كفر اهل القبلة المواظب طول العمر على الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفى الحشر و نفى العلم بالجزئيات ونحو ذلك و كذا بصدورشی ، من موجبات الكفر عنه وفی شرح الأكبر : وان غلا فيه حتى وجب اكفاره به لا يعتبر خلاقه ووفاقه ايضاً إلى قوله وان صلى إلى القبلة واعتقد نفسه مسلما لأن الأمة ليست عبارة عن المصلين إلى القبلة بل عن المؤمنين
(ونحوه في الكشف لليزدوى:جلد:3:صفحہ:238)
لا خلاف في كفره المخالف في ضروريات الاسلام وان كان من أهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات
وقال الشامي أيضاً أهل القبلة في اصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين أى الأمور التي علم ثبوتها في الشرع واشتهر و من انكر شيئا من الضروريات الاسلام لحدوث العلم وحشر الاجساد و نفى المعلم بالجزئيات وفرضية الصلوة والصوم لم يكن من أهل القبلة ولوكان مجاهدا بالطاعات (الى قوله) او معنى عدم تكفير اهل القبلة ان لا يكفر بارتكاب المعاصي ولا بانكار الأمور الخيفة غير المشهورة هذا ما حققه المحققون فاحفظه ومثله قال المحقق ابن امير الحاج في شرح التحرير لابن همام والنهي عن تكفير اهل القبلة هو الموافق على ما هو من ضروريات الاسلام (امداد المفتين:جلد:2:صفحہ:114)
سوال: کلمہ گو اور اہلِ قبلہ کی شرعاً کیا تعریف ہے؟ قادیانی مرزائی و لاہوری مرزائی احمدی اہلِ قبلہ کلمہ گو مسلمان ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو کسی وجہ سے؟
جواب: کلمہ گو اور اہلِ قبلہ ایک خاص اصطلاح ہے اسلام اور مسلمانوں کی جس کا یہ مطلب کسی کے نزدیک نہیں کہ جو کلمہ پڑھ لے، خواہ کسی طرح پڑھے وہ مسلمان ہے یا جو قبلے کی طرف منہ کرے وہ مسلمان ہے، بلکہ یہ لفظ اصطلاحی نام ہے اس شخص کا جو تمام احکامِ اسلامیہ کا پابند ہو۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص ایم اے پاس ہے۔ تو ایم اے ایک اصطلاحی نام ہے، ان تمام علوم کا جو اس درجے میں سکھائے جاتے ہیں، نہ یہ کہ جو ایم اے (MA) کے الفاظ میں پاس ہوتا ہو اور یاد رکھتا ہو ۔ اس طرح اہلِ قبلہ کے معنیٰ بھی باتفاق امت یہی ہیں کہ جو تمام احکامِ اسلامیہ کا پابند ہو۔
كما صرح به في عامة كتاب الكلام
(امداد المفتين:جلد:2:صفحہ:115)