Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت علی رضی اللہ عنہ کی سترہویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت علی رضی اللہ عنہ کی سترہویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی سترہویں دلیل یہ آیت قرآنی ہے:

﴿اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَ اَنْفُسِہِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ﴾ (التوبۃ:۲۰)

’’جو لوگ ایمان لائے، ہجرت کی، اللہ کی راہ میں اپنے مال اور اپنی جان سے جہاد کیا وہ اللہ کے ہاں بہت بڑے مرتبہ والے ہیں ۔‘‘

’’رزین بن معاویہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’الجمع بین الصحاح الستۃ‘‘ میں روایت کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بابت نازل ہوئی جب آپ حضرت طلحہ بن شیبہ رضی اللہ عنہ کیساتھ ایک دوسرے پر اپنے فخر کا اظہار کررہے تھے۔یہ فضیلت آپ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کے لیے ثابت نہیں ہے۔پس آپ سب سے افضل ہوئے اور ساتھ ہی امام اور خلیفہ بھی ہوئے۔‘‘[شیعہ کا کلام ختم ہوا]۔

جواب:اس کے جواب میں کئی اہم باتیں ہیں :

پہلی بات:....ہم شیعہ مصنف سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اس روایت کی صحت ثابت کرے۔ محدث رزین [کی یہ عادت ہے کہ وہ اپنی جانب سے روایت میں بعض الفاظ بڑھا دیا کرتا ہے۔اور] اپنی کتاب میں ایسی روایات نقل کردیتا ہے جو صحاح میں نہیں ہوتی۔

دوسری بات:....رزین کی نقل کردہ روایت صحیح نہیں ہے ؛ بلکہ صحیح وہ حدیث ہے جس کے راوی حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ انھوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس بیٹھا تھا، ایک شخص نے کہا:

’’ میں اسلام لانے کے بعد صرف حاجیوں کو پانی پلاؤں گا اور کچھ نہیں کروں گا۔ دوسرے نے کہا: میں صرف خانہ کعبہ کو آباد کروں گا۔ دوسرا کوئی کام نہیں کروں گا۔ تیسر ے نے کہا: جو کچھ تم نے کہا ہے جہاد ان سب سے بہتر ہے ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں ڈانٹ کر کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے پاس آواز بلند نہ کرو۔ میں نماز جمعہ سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوں گا اور تمہارے اختلافی مسائل کا حل دریافت کروں گا۔ ‘‘ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی:

﴿اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَ عِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ جٰہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ﴾ (التوبہ:۱۹)

کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور خانہ کعبہ کے آباد کرنے والے کو اس شخص کی مانند قرار دیا ہے جو اللہتعالیٰ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا اور اللہکی راہ میں جہاد کرتا ہو۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضل الشھادۃ فی سبیل اللہ(حدیث:۱۸۷۹)۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے کہ :حضرت عباس نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ تم اگر اسلام و جہاد میں تھے تو ہم بھی اللہ کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی بیکار ہے۔ صحابہ نے جب ان سے پر لے دے شروع کی تو حضرت عباس نے کہا تھا کہ ہم مسجد حرام کے متولی تھے، ہم غلاموں کو آزاد کرتے تھے، ہم بیت اللہ کو غلاف چڑھاتے تھے، ہم حاجیوں کو پانی پلاتے تھے، اس پر یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ یہ گفتگو حضرت عباس رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں ہوئی تھی۔ مروی ہے کہ طلحہ بن شیبہ، عباس بن عبد المطلب، علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان کرنے لگے، عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا میں بیت اللہ کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں ۔ عباس رضی اللہ عنہ نے کہا میں زمزم کا پانی پلانے والا ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد میں ساری رات رہ سکتا ہوں ۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو ؟ میں لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں اور اس پر یہ آیت پوری اتری۔ عباس رضی اللہ عنہ نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی پلانے کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھلائی ہے۔ اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے۔ان تمام روایات کے مقابلہ میں ایک اورصحیح سند والی روایت بھی ہے؛ جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے حضرت نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا اسلام کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے کہ میں حاجیوں کو پانی پلاؤں دوسرے نے اسی طرح مسجد حرام کی آبادی کو کہا تیسرے نے اسی طرح راہ رب کے جہاد کو کہا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول اللہ کے پاس آوازیں بلند نہ کرو یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ) کے پاس حاضر ہوئے اور آپ سے پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں آپ جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کرلوں گا۔قاضی ثناء اللہ پانی پتی نے لکھا ہے کہ یہ واقعہ حضرت علی اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے مابین پیش آیا تھا۔]

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنھوں نے جہاد کو، حاجیوں کو پانی پلانے اور کعبہ کی حفاظت کی نسبت افضل قرار دیا تھا، حق بجانب تھے۔ ان کے مقابلہ میں اس شخص کا قول درست نہیں جس نے ان امور کو افضل تصور کیا تھا۔ اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ مسئلہ متنازعہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اپنے حریف کی نسبت حق و صداقت کا زیادہ علم تھا۔اور یہی صحیح بات ہے ۔ [جب کہ ایمان و ہجرت اور جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے فضیلت ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے حق میں ثابت ہے جو ایمان لائے ؛ پھر ہجرت اور جہاد کے شرف سے بہرہ ور ہوئے۔ یہاں پر کوئی ایسی فضیلت بیان نہیں کی گئی جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہو؛ جس کے بارے میں یہ کہنا ممکن ہو کہ یہ فضیلت کسی دوسرے کے لیے ثابت نہیں ہے۔]

حضرت فاروق رضی اللہ عنہ کی رائے متعدد امور میں حکم ربانی سے ہم آہنگ رہی تھی۔ آپ ایک بات فرماتے اور اس کی تائید میں قرآن کریم نازل ہو جاتا۔ایک مرتبہ آپ نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کاش!ہم مقام ابراہیم کو مصلی بنا تے۔ 

پس اس پر یہ آیت نازل ہوئی :

﴿ وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی ﴾ [البقرۃ ۱۲۵]

’’اور مقام ابراہیم کو جائے نماز بنالو۔‘‘

[آپ فرماتے ہیں ]: اور حجاب کی آیت بھی میری خواہش کے مطابق نازل ہوئی ۔کیونکہ میں نے عرض کیا :یا رسول اللہ! کاش آپ اپنی بیویوں کو پردہ کرنے کا حکم دیں ، اس لیے کہ ان سے ہر نیک وبد گفتگو کرتا ہے ۔ پس حجاب کی آیت نازل ہوئی۔ اور ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں آپ پر نسوانی جوش میں آکر جمع ہوئیں ، تو میں نے ان سے کہا کہ اگر تم باز نہ آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم تم کو طلاق دے دیں گے، تو عنقریب آپ کا رب تم سے اچھی بیویاں آپ کو بدلے میں دے گا، جو مسلمان ہوں گی، تب یہ آیت نازل ہوئی:

﴿عَسٰی رَبُّہٗ اِِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَہُ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمَاتٍ مُؤْمِنَاتٍ قَانِتَاتٍ تَائِبَاتٍ﴾ 

[التحریم۵] 

’’اگر وہ(پیغمبر)تمہیں طلاق دے دیں تو بہت جلد انہیں ان کا رب تمہارے بدلے تم سے بہتر بیویاں عنایت فرمائے گا جو اسلام والیاں توبہ کرنے والیاں ، عبادت بجا لانے والیاں ہوں گی۔‘‘

اس طرح کی دیگر بھی کئی آیات ہیں ۔ جو کہ تمام کی تمام صحاح ستہ میں موجود ہیں ۔ یہ کسی ایک مسئلہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصویب سے بہت بڑھ کر ہے ۔

ایمان ہجرت اور جہاد کی وجہ سے فضیلت بہت سارے صحابہ کرام کے لیے ثابت ہے جو کہ ایمان لائے اور انہوں نے ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا۔ یہاں پر کوئی ایسی فضیلت نہیں ہے جو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہوں ۔ تاکہ یہ کہنا ممکن ہوسکے کہ یہ فضیلت کسی دوسرے کے لیے ثابت نہیں ۔

تیسری بات:....اگر یہ تسلیم کرلیا جائے کہ یہ فضیلت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے تو اس سے ان کی امامت ثابت نہیں ہوتی اور نہ یہ کہ آپ امت میں سب سے افضل تھے۔ خضر علیہ السلام کو ایسے مسائل معلوم تھے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کو معلوم نہ تھے ، تو اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے افضل تھے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ ہُدہُد نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے کہا تھا :﴿اَحُطْتُّ بِمَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ﴾ [النمل ۲۲]

’’ جو بات مجھے معلوم ہے آپ نہیں جانتے۔‘‘

حالانکہ ہدہد حضرت سلیمان علیہ السلام سے بڑا عالم نہیں تھا۔

چوتھی بات :....ٹھیک ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ مسئلہ جانتے تھے ؛ تو پھر یہ کہاں سے ثابت ہوگیاکہ دوسرے صحابہ کرام کو اس کا کوئی علم نہیں تھا۔اس مسئلہ کا خصوصی طور پر آپ کو علم ہونے کا دعوی کرنا باطل ہے۔ اس وجہ سے آپ کی خصوصیت بھی باطل ہوئی ۔ بلکہ تواتر کے ساتھ یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ [بالاولیٰ اس آیت کے مصداق تھے؛ اس لیے ] آپ اپنے مال کیساتھ جہاد کرنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ پر فضیلت رکھتے تھے۔حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ مال دار انسان تھے اورجہاد بالمال اور جہاد بالنفس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا کرتے تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے کسی کے مال نے اتنا فائدہ نہیں دیا ؛ جتنا فائدہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے ‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ تنگ دست تھے، خرچ کرنے کے لیے ان کے پاس مال موجود ہی نہ تھا بخلاف ازیں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ غنی تھے اور انھوں نے اللہکی راہ میں کثیر مال صرف کیا تھا۔اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے ۔ ان شاء اللہ