حضرت مولانا علامہ خالد محمود رحمۃ اللہ کا فرمان
سوال: اگر کہا جائے کہ یہ حضرات اگرچہ دین کے بعض ضروری مسائل کا انکار کرتے ہیں لیکن جبکہ کلمہ پڑھتے ہیں اور اہلِ قبلہ میں سے ہیں تو مرتد کیسے ہو گئے؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ مسلمان ہونے کیلئے تو یہ ضروری ہے کہ تمام امورِ دینیہ پر ایمان ہو لیکن کافر ہونے کیلئے یہ ضروری نہیں کہ تمام امورِ دینیہ کا ہی انکار ہو بلکہ ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار کر دینے سے بھی انسان مرتد ہو جاتا ہے۔
موجبه کلیه کی نقیض سالبه جزنيه آتی ہے، ایمان میں جمیع کی قید ہے اور کفر میں یہ قید نہیں۔
شامی میں مرتد کی تعریف یہ ہے الراجع عن دين الاسلام وركنها اجراء كلمة الكفر على اللسان بعد الايمان
ترجمہ: دین سے ہٹ جانے والا مرتد ہے، اور اس کی بنیاد مسلمان ہونے کے بعد کسی ایک کفریہ کلمہ کو اپنی زبان پر لانا ہے۔
سیدنا صدیق اکبرؓ کے زمانہ میں کچھ لوگوں نے اسلام کے صرف ایک رکن (زکوٰة) سے انکار کیا تھا نمازوں اور روزوں کو وہ بدستور مانتے تھے مگر بایں ہمہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے انہیں مرتد قرار دیا ہے ۔امام بخاریؒ نے مانعین زکوٰة اور قتال ابی بکرؓ کے واقعہ پر مندرجه ذیل باب باندھا ہے باب قتل من ابی قبول الفرائض وما نسبوا إلى الردة یہاں صریح طور پر ردت اور ارتداد کے الفاظ موجود ہیں۔
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ لکھتے ہیں: السلف قد سمعو مانعی الزكوة مرتدين مع كونهم يصومون ويصلون۔
ترجمہ: سلف نے زکوٰۃ روکنے والوں کا نام مرتد رکھا ہے، حالانکہ وہ روزے بھی رکھتے تھے اور نمازیں بھی پڑھتے تھے۔
امام الائمه امام محمدؒ جن پر فقه حنفی کا مدار ہے، لکھتے ہیں:
من انکر شیا من شرائع الإسلام فقد ابطل قول لا اله الا الله۔
ترجمہ: جو شخص اسلام کی شرائع میں سے کسی ایک بات کا بھی انکار کرے اس نے اپنا کلمہ پڑھنے کو باطل کر لیا۔
امام ابن حزمؒ لکھتے ہیں: وصح الاجتماع ان كل من جحد شيأصح عندنا بالاجماع ان رسول اللهﷺ واتی به فقد کفر و صح بالنص أن كمل من استهزأ بالله تعالى او بملك من الملائكة أو بنبي من الانبياء أو باية من القرآن أو بفريضة من فرائض الذين فهمي كلها أيات الله بعد بلوغ الحجة الية فهو كافر ومن قال نبي بعد النبي عليه الصلوة والصلوة اوجحد شیأ صح بأن النبيﷺ قاله فهو كافر
ترجمہ: اس بات پر اجماع درست ہو چکا ہے کہ جو شخص کسی ایسی بات کا انکار کرے جو اجماعی طور پر حضوت اکرمﷺ کی ہی تعلیم ہو وہ کافر ہے، اور یہ امر نص کے ساتھ ثابت ہے کو جو شخص اللہ تعالیٰ کے ساتھ مذاق کرے یا اس کے فرشتے کے ساتھ یا قرآن پاک کی کسی آیت کے ساتھ یا نبیوں میں سے کسی نبی کے ساتھ یا دین کے فرائض میں سے کسی فریضہ کے ساتھ استہزاء کرے اس کے بعد کہ اس تک حجت شرح پہنچ چکی ہو تو وہ کافر ہو جاتا ہے۔ اور جو شخص حضور اکرمﷺ کے بعد کسی اور نبی کے پیدا ہونے کا قائل ہو یا ایسی بات کا انکار کرے جو اس کے ہاں حضور اکرمﷺ کی تعلیم ہو تو وہ کافر ہے۔ ایسے لوگوں کا ہمارے قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑ ھنا انہیں اہلِ قبلہ میں داخل نہیں کر دیتا، جب تک کہ تمام ضروریاتِ دین پر ایمان نہ لے آئیں ۔ امام المتکلمین حضرت ملا علی قاریؒ فرماتے ہیں: اعلم ان المراد من أهل القبلة الذين اتفقوا على ماہر من ضروريات الدين۔
ترجمہ: اہلِ قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ساری ضروریاتِ دین پر ایمان رکھتے ہیں۔
امام ابن حزمؒ ذرا تفصیل فرماتے ہیں: اهل القبلة فی اصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين أي الأمور التي علم ثبوتها في الشرع واشتهر فمن انكر شيئا من الضروريات كحدوث التعلم وحشر الأجساد وعلم الله سبحانه وتعالى بالجزئيات وفرضية الصلوة والصوم لم يكن من أهل القبلة ولوكان مجاهداًبالطاعات۔
ترجمہ: متکلمین اسلام کی اصطلاح میں اور قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ساری ضروریاتِ دین کو سچ مانیں اور ضروریاتِ دین سے وہ امور مراد ہیں جن کا ثبوت شرع میں اس طرح ہو کہ انہیں اسلام میں شہرت کا درجہ حاصل ہو۔ پس جو کوئی ایسے ضروری مسئلوں سے انکار کرے جیسے دنیا کا حادث ہونا، قیامت کو تمام جسموں کا اکٹھا ہونا، خداتعالیٰ کے علم کا محیط ہونا ، نمازوں اور روزوں کا فرض ہونا تو ایسے مسائل کا منکر اہلِ قبلہ میں سے نہیں ہو سکتا، اگرچہ عبادات میں وہ کسی قدر مجاہد ہی کیوں نہ ہو۔
(عبقات: جلد، 1 صفحہ، 303)