Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام
زبان تبدیل کریں:

امامت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھارھویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھارھویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے منصب خلافت پر فائز ہونے کی اٹھارھویں دلیل یہ آیت ہے :

﴿اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوَاکُمْ صَدَقَۃً﴾ (المجادلۃ:۱۲)

’’جب تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کرنا چاہو تو اپنی سرگوشی سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو ۔‘‘

حافظ ابو نعیم نے اپنی سند سے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کیا ہے آ پ فرماتے ہیں :’’اللہ تعالیٰ نے صدقہ کرنے سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گفتگو کرنے کو حرام قرار دیا تھا۔ باقی صحابہ آپ سے کلام کرنے سے قبل صدقہ کرنے میں بخل سے کام لیا کرتے تھے۔ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ صدقہ دیتے تھے۔‘‘مسلمانوں میں سے کسی اور کو یہ سعادت حاصل نہیں ہوئی۔ تفسیر ثعلبی میں حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تین اوصاف کے حامل تھے اگر مجھ میں ان تین باتوں میں سے ایک بھی ہوتی تو مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ عزیز تھا:

۱....سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ شادی۔

۲....غزوۂ خیبر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا عطا کرنا۔

۳....آیت نجویٰ۔

’’رزین بن معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی کتاب ’’ الجمع بین الصحاح الستۃ‘‘ میں روایت کیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:’’ اس آیت پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا اور میری وجہ سے اللہ تعالیٰ نے امت کا بوجھ ہلکا کردیا۔‘‘مذکورہ صدر اقوال سے باقی صحابہ پر علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے، لہٰذا آپ احق بالامامت ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔

جواب:ہم کہتے ہیں کہ ’’ صحیح بات جو ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس آیت پر عمل کیا اور پھریہ جلد ہی کسی دوسرے کے عمل کرنے سے پہلے منسوخ ہو گئی۔ [یعنی دیگر صحابہ کو اس پر عمل کرنے کا شرف حاصل ہونے کا موقع ہی نہ مل سکا]۔ علاوہ ازیں اس آیت میں صدقہ کو واجب قرار نہیں دیا گیا۔ بلکہ یہ حکم دیا گیا تھا کہ جب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے راز دارانہ طور پر کوئی بات کرنا چاہیں تو صدقہ ادا کریں ۔ جو شخص ایسی بات نہ کرنا چاہتا ہو اس کے لیے صدقہ ادا کرنا ضروری نہیں تھا۔ چونکہ سرگوشی واجب نہ تھی لہٰذا غیر واجب چیز کو ترک کرنے میں کسی پر کوئی حرج نہیں یا ملامت نہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ جو شخص صدقہ ادا کرنے پر قادر نہ ہو اور اس کی نیت یہ ہو کہ بشرط قدرت وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بات چیت کرے گا اور صدقہ دے گا تو اسے اس کی نیت کا اجر و ثواب مل جائے گا۔ جس شخص کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی خفیہ بات کرنے کی ضرورت لاحق نہ ہو تو اسے ناقص قرارنہیں دیا جائے گا۔ البتہ جس شخص کو ایسی ضرورت لاحق ہوئی ہو مگر اس نے بخل سے کام لے کر آپ سے خفیہ بات نہ کی ہو؛ تو اس نے ایک مستحب فعل کو ترک کیا۔ خلفاء کے بارے میں ہر گز یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ بخیل تھے۔ اور یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ اصحاب ثلاثہ اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے۔ بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ بعض ان میں سے موجود نہ ہوں ۔یا اپنی ضرویات میں مشغول ہوں ؛ یا انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ راز دارانہ بات کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ہو ۔

یہ حکم زیادہ دیر تک باقی نہیں رہا جس سے یہ معلوم ہوسکے کہ اتنے لمبے عرصہ میں لازمی طور پر لوگوں کو سر گوشی کرنے کی ضرورت پیش آئی ہو۔ اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اصحاب ثلاثہ رضی اللہ عنہم نے ایک مستحب فعل کو ترک کردیاتھا؛ تو ہم اس سے پہلے کئی بار بیان کرچکے ہیں کہ مستحب پر عمل کرنے والا علی الاطلاق دوسروں سے افضل نہیں ہوسکتا۔[یہ حکم صرف چند یوم یا صرف ایک ساعت جاری رہا اس کے بعد منسوخ ہوگیا۔علامہ نسفی کہتے ہیں : قیل کان ذلک عشر لیال ثم نسخ وقیل ماکان الا ساع من نہار ثم نسخ[مدارک ج 4 ص 178 ۔] اس دوران میں صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کو اس آیت پر عمل کرنے کا موقع ملا۔ قبل اس کے کہ کوئی دوسرا آدمی اس پر عمل کرے اس آیت کا حکم منسوخ ہوگیا (ابن کثیر، مدارک وغیرہما) حضرت شیخ قدس سرہ فرماتے ہیں کہ حکم صدقہ کے بعد منافقین، آنحضرت( صلی اللہ علیہ وسلم )کے ساتھ بے مقصد سرگوشیاں کرنے سے رک گئے تھے اس لیے مسلمانوں پر آسانی کے لیے اس حکم کو اٹھا لیا۔ کیونکہ اب منافقین، حسب سابق سرگوشیاں کرنے سے شرماتے تھے کہ حکم صدقہ کے دوران مشورے نہیں کرتے تھے، لہٰذا اب بھی نہ کریں ۔ ابن ابی حاتم کی روایت ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا : جب یہ آیت نازل ہوئی تو بہت لوگ رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بات کرنے سے رک گئے اور (مسائل) دریافت کرنے سے باز رہے۔ بغوی نے لکھا ہے لوگ حضور اقدس( صلی اللہ علیہ وسلم )سے گفتگو سے رک گئے تنگدست تو اپنی ناداری کی وجہ سے حضور( صلی اللہ علیہ وسلم )سے گفتگو کرنے سے معذور ہوگئے اور مالدار لوگ اپنی کنجوسی کی وجہ سے محروم ہوگئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ پر یہ محرومی بڑاں گراں گزری اس کے بعد (بغیر کچھ خیرات کیے) رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے مسائل پوچھنے کی اجازت ہوگئی۔ مجاہد نے کہا : جب رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے بات کرنے سے پہلے کچھ خیرات کرنے کا حکم نازل ہوا تو سوائے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کسی نے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے کوئی سوال نہیں کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے ہی سب سے پہلے ایک دینار خیرات کر کے حضور( صلی اللہ علیہ وسلم )والا سے بات کی۔ پھر آیت اجازت نازل ہوئی اسی بنیاد پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا تھا کہ کتاب اللہ میں ایک ایسی آیت ہے کہ اس پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل نہیں کیا اور نہ میرے بعد کوئی کرے گا یہ آیت مناجات :﴿ إِذَا نَاجَيْتُمُ الرَّسُولَ﴾ ہے۔ ابن ابی شیبہ نے مصنف میں اور حاکم نے مستدرک میں بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : کتاب الہی میں ایک آیت ایسی ہے کہ اس پر میرے سوا کسی نے عمل نہیں کیا۔ میرے پاس ایک دینار تھا اس کو بھنایا(یعنی ایک دینار کے چھوٹے سکے لیے) جب میں رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وسلم )سے کوئی کلام کرتا تو(پہلے) ایک درہم خیرات کردیا کرتا تھا۔]

صحیح حدیث میں آیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:

’’ تم میں سے آج کون روزہ سے ہے؟‘‘ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:میں ہوں ۔

فرمایا کہ ’’ تم میں سے کسی نے جنازہ کو الوداع کہا ہے؟‘‘

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:’’ یا رسول اللہ! میں نے جنازہ پڑھا ہے۔‘‘

پھر آپ نے دریافت کیا :’’کیا تم میں سے کسی نے صدقہ دیا ہے؟‘‘

ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا:اے اللہ کے رسول! میں نے صدقہ دیا ہے۔

آپ نے فرمایا:’’ جس شخص میں یہ سب باتیں جمع ہوجائیں وہ جنتی شخص ہے۔‘‘[صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ ،باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۱۲؍۱۰۲۸)۔]

اس طرح کی روایت و فضیلت حضرت علی رضی اللہ عنہ یا کسی دوسرے کے حق منقول نہیں ہے۔

صحیحین میں ثابت ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ:

’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی راہ میں ایک قسم کی دو چیزیں دے اس کو جنت کے دروازوں سے پکارا جائے گا:اللہ کے بندے ! خیر یہاں ہے۔ پس جو شخص نمازیوں میں سے ہوگا وہ نماز کے دروازے سے پکارا جائے گا۔ اور جو جہاد کرنے والوں سے ہوگا وہ جہاد کے دروازے سے بلایا جائے گا۔ اور جو شخص صدقہ کرنے والوں میں سے ہوگا اس کو صدقہ کے دروازہ سے بلایا جائے گا۔ اور جو شخص روزہ داروں میں سے ہوگا اس کو روزے کے دروازہ باب الریان سے پکارا جائے گا۔‘‘

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اور جو شخص ان سب دروازوں سے بلایا جائے گا اس کو پھر کوئی اندیشہ نہ ہوگا۔ اور دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا کوئی شخص ان سب دروازوں سے پکارا جائے گا؟

آپ نے فرمایا:’’ اور میں امید رکھتا ہوں کہ اے ابوبکر تم ان ہی میں سے ہو۔‘‘[البخاری:ج دوم:ح۸۸۳]

یہ فضیلت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کے لیے ثابت نہیں ہے۔

بخاری ومسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ایک شخص ایک بیل کو ہانکے لیے جا رہا تھا اور اس پر بوجھ لاد رکھا تھا۔ بیل اس کی طرف متوجہ ہوا اور کہا:’’ مجھے اس لیے نہیں پیدا کیا گیا۔ بلکہ میں کھیتی باڑی کے لیے پیدا کیا گیا ہوں ۔‘‘

لوگوں نے گھبرا کر کہا:سبحان اللہ ! حیرت ہے کہ بیل کس طرح بات چیت کرنے لگ گیا۔‘‘

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس بات کو تسلیم کرتے ہیں ۔‘‘

حالانکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما وہاں موجود نہ تھے۔

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :

’’ ایک چرواہا اپنی بکریوں میں تھا کہ ایک بھیڑیئے نے اس پر حملہ کیا اور ایک بکری کو اٹھا کر لے گیا چرواہے نے اس بکری کو بھیڑیئے سے چھڑا لیا تو بھیڑیئے نے اس کی طرف متوجہ ہو کر کہا:’’ درندہ مسلط ہونے کے دن بکری کا کون محافظ ہوگا؟ جس دن کہ میرے سوا بکری چرانے والا کوئی نظر نہ آئے گا؟ لوگوں نے یہ واقعہ سن کر سبحان اللہ کہا تو رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ میں اور ابوبکر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما اس پر ایمان لائے ہیں ۔‘‘[صحیح بخاری:ج:۲:ح۸۸۰]

حالانکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما اس وقت وہاں پر موجود نہ تھے۔

سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے مجھے جس قدر فائدہ پہنچا دوسرے کسی کے مال سے نہیں پہنچا۔‘‘[سنن ترمذی، کتاب المناقب۔ (ح:۳۶۶۱)، سنن ابن ماجۃ۔ باب فضل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۹۴)]

یہ روایت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خصائص میں انتہائی واضح اور صریح ہے ۔ اس میں کوئی بھی دوسرا آپ کا شریک نہیں ؛ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی کوئی دوسرا ۔

بخاری و مسلم میں روایت کیا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ صحبت ورفاقت اور انفاق مال کے اعتبار سے ابوبکر رضی اللہ عنہ میرے سب سے بڑے محسن ہیں اور اگر میں کسی کو گہرا دوست بنانے ولا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔ البتہ اسلامی اخوت و مودّت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ مسجد نبوی کی طرف کھلنے والی سب کھڑکیاں بند کردی جائیں مگر ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کھڑکی کھلی رہے۔‘‘[البخاری، کتاب مناقب الانصار(ح:۳۹۰۴)مسلم۔ باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲)]

سنن ابی داؤد میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:

’’ اے ابوبکر!آپ میری امت میں سے سب سے پہلے جنت میں جائیں گے۔‘‘[سنن ابی داود۔ کتاب السنۃ، باب فی الخلفاء (حدیث:۴۶۵۲)، و سندہ ضعیف۔]

ترمذی و ابوداؤد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ میرے پاس ان دنوں مال تھا۔ میں نے کہا آج میں ابوبکر رضی اللہ عنہ سے سبقت لے جاؤں گا۔ چنانچہ میں گھر میں گیا اور آدھا مال لا کر آپ کی خدمت میں پیش کردیا۔ نبی کریم نے دریافت کیا:

’’ بال بچوں کے لیے کیا باقی چھوڑا؟ میں نے کہا :اس کے برابر۔

ابوبکر رضی اللہ عنہ گھر کا تمام اثاثہ لے آئے۔ آپ نے فرمایا:’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ ! گھر میں کیا باقی چھوڑا۔‘‘

عرض کیا: ’’ اللہ اور اس کے رسول کو باقی چھوڑ آیا ہوں ۔‘‘

[پروانے کو چراغ ہے بلبل کو پھول بس

صدیق کے لیے ہے اللہ و رسول بس]

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’ میں نے کہا آج کے بعد میں کبھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مقابلہ نہیں کروں گا۔‘‘ [سنن ابی داؤد۔ کتاب الزکاۃ(ح:۱۶۷۸)، سنن ترمذی کتاب المناقب، باب(۱۶؍۴۳)، (ح:۳۶۷۵)]

صحیح بخاری میں حضرت ابوالدرداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ:

’’ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی چادر کا کنارہ اٹھائے ہوئے آئے ان کا گھٹنا کھل گیا تھا؛ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تمہارے یہ دوست لڑ کر آ رہے ہیں ۔‘‘

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آکر سلام کیا اور کہا :’’ میرے اور ابن خطاب کے درمیان کچھ جھگڑا ہو گیا؛ میں نے بے ساختہ انہیں کچھ کہہ دیا؛ اس کے بعد میں شرمندہ ہوا اور میں نے ان سے معاف کر دینے کی درخواست کی؛ لیکن انہوں نے معافی دینے سے انکار کر دیا۔ لہٰذا میں آپ کے پاس التجا لایا ہوں ۔

آپ نے تین مرتبہ فرمایا :’’اے ابوبکر رضی اللہ عنہ !اللہ تمہیں معاف کر دے ۔‘‘

پھرحضرت عمر رضی اللہ عنہ شرمندہ ہوئے؛ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مکان پر گئے؛ اور دریافت کیا :ابوبکر رضی اللہ عنہ یہاں ہیں ؟ لوگوں نے کہا :وہ موجود نہیں ۔پھر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے؛آپ کو سلام کیا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ متغیر ہونے لگا؛ حتی کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ڈر گئے؛ اور گھٹنوں کے بل ہو کر عرض کیا :’’ میں نے ہی ظلم کیا تھا۔‘‘

تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف بھیجا ؛تو تم لوگوں نے کہا جھوٹا ہے۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : آپ سچ فرماتے ہیں ۔ اور انہوں نے اپنے مال و جان سے میری خدمت کی۔ پس کیا تم میرے لیے میرے دوست کو چھوڑ دو گے یا نہیں دو مرتبہ(یہی فرمایا)۔ اس کے بعد ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کسی نے نہیں ستایا۔‘‘ [سنن ابی داؤد۔ کتاب الزکاۃ(ح:۱۶۷۸)، سنن ترمذی کتاب المناقب، باب(۱۶؍۴۳)، (ح:۳۶۷۵) ]

اور ایک دوسری روایت میں ہے: ’’ میں نے کہا: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اللہ تعالیٰ کا بھیجا ہوا رسول ہوں ‘‘ تو تم نے کہا: تم جھوٹ بولتے ہو؛ اور ابوبکر نے کہا: ’’آپ سچ فرماتے ہیں ۔‘‘

ترمذی میں مرفوعاً روایت کیا گیا ہے کہ:

جس قوم میں ابوبکر رضی اللہ عنہ موجود ہوں ان کو چاہیے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے سوا اور کسی کو امام مقرر نہ کریں ۔[الترمذی ، کتاب المناقب (ح:۳۶۷۳)، و سندہ ضعیف اس کی سند میں عیسیٰ بن میمون راوی ضعیف ہے۔ ]

حضرت عثمان کا ایک ہزار اونٹ کو جنگ کے لیے تیار کرنا۔[صحیح بخاری ۔کتاب مناقب الانصار۔ باب قول اللہ عزوجل﴿ وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ ....﴾(ح :۳۷۹۸) صحیح مسلم، کتاب الأشربۃ۔ باب اکرام الضیف (حدیث: ۲۰۵۴)۔]سرگوشی کے صدقہ سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔اس لیے کہ جہاد میں خرچ کرنا فرض تھا۔ جب کہ اس کے برعکس سرگوشی کرنے کی وجہ سے صدقہ صرف ان لوگوں پر فرض تھا جو سرگوشی یا راز دارانہ بات کرنا چاہتے ہوں ۔ اور جو ایسی کوئی بات نہ کرنا چاہتا ہو اس کے لیے صدقہ کرنا ضروری نہیں تھا۔

اللہ تعالیٰ نے کچھ انصار کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی ہے:

﴿وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾(حشر:۵۹)

’’وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود سخت ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

بخاری و مسلم میں حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ:

’’ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا؛ اور بھوک اور تنگی کی شکایت کی۔ آپ نے اپنی ازواج مطہرات کے پاس آدمی بھیجا؛ مگر جواب ملا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! گھر میں ہمارے پاس پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔‘‘

پھر دوسری کے پاس آدمی بھیجا تو وہاں سے بھی یہی جواب ملا۔ حتی کہ تمام ازواج مطہرات سے یہی جواب ملا کہ: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! گھر میں ہمارے پاس پانی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔‘‘

آپ نے اعلان فرمایا: ’’ آج رات جو اس کی ضیافت کرے گا اللہ تعالیٰ اس پر رحم فرمائیں گے۔‘‘

یہ سن کر ایک انصاری اٹھ کرعرض گزار ہوا: اے اللہ کے رسول!اس خدمت کے لیے میں حاضر ہوں ۔‘‘

وہ اس مہمان کو لیکر اپنے گھر چلا گیا۔ اور اپنی بیوی سے کہا: کیا گھر میں کچھ کھانے کے لیے ہے؟ تو اس نے جواب دیا :گھر میں صرف بچوں کے لیے کھانا ہے۔ اس نے کہا: بچوں کو بھلا پھسلا کر سلادو۔ اور جب مہمان گھر میں داخل ہوجائے تو چراغ گل کر دو ؛ [اور جو کچھ ہے مہمان کو پیش کردو]اور اس کو یوں باور کراؤ کہ ہم اس کے ساتھ کھا رہے ہیں ۔پس جب مہمان کھانے کی طرف جھکا تو اس نے چراغ گل کردیا۔اور خود بیٹھ گئے۔مہمان نے خوب سیر ہو کر کھانا کھایا۔جب صبح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا: ’’ بیشک اللہ تعالیٰ کو آج رات آپ کا آپ کے مہمان کے ساتھ یہ سلوک بہت بھلا لگا ہے ۔‘‘ ایک روایت میں ہے: تب یہ آیت نازل ہوئی:

﴿وَ یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَ لَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ﴾(حشر:۵۹) [صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر۸۷۸۔]

’’وہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ خود سخت ضرورت ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

[یہ سرگوشی کی نسبت بہت بڑا کام ہے]۔

خلاصہ کلام ! انفاق فی سبیل اللہ ؛ اوردوسرے ابواب میں بہت سارے مہاجرین و انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ایسے فضائل ثابت ہیں جوکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حصہ میں نہیں آئے۔اس لیے کہ عہد رسالت مآب میں آپ کے پاس کوئی مال نہیں تھا جسے خرچ کرکے یہ مقام حاصل کرتے ۔