کیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟
شفیق الرحمن ضیاء اللہ مدنیکیا مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں؟
جب اسلام بتوں کی پوجا کے خلاف ہے تو مسلمان اپنی نمازوں میں کعبہ کے آگے کیوں جھکتے ہیں اور اس کی عبادت کیوں کرتے ہیں؟
کعبہ ہمارا قبلہ ہے، یعنی وہ سمت جس کی طرف منہ کر کے مسلمان نماز پڑھتے ہیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اگرچہ مسلمان نمازوں میں کعبہ کی طرف رُخ کرتے ہیں لیکن وہ کعبہ کو پوجتے ہیں نہ اس کی عبادت کرتے ہیں بلکہ مسلمان صرف اللہ کے آگے جھکتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔
اس کا ذکر سورۂ بقرۃ میں ہے:
قَدۡ نَرٰى تَقَلُّبَ وَجۡهِكَ فِى السَّمَآءِ فَلَـنُوَلِّيَنَّكَ قِبۡلَةً تَرۡضٰٮهَا فَوَلِّ وَجۡهَكَ شَطۡرَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَـرَامِ الخ۔
(سورۃ البقرة: آیت، 144)
ترجمہ: اے نبی! ہم آپ کے چہرے کا بار بار آسمان کی طرف اُٹھنا دیکھ رہے ہیں، لہٰذا ہم ضرور آپ کو اس قبلے کی طرف پھیر دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں۔ سو آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں۔
قبلہ اتحاد و اتفاق کا ذریعہ ہے:
اسلام وحدت کا دین ہے، چنانچہ مسلمانوں میں اتحاد اور اتفاق پیدا کرنے کے لیے اسلام نے ان کا ایک قبلہ متعین کیا ہے اور ان کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ جہاں کہیں بھی ہوں، نماز کے وقت کعبے کی طرف رُخ کریں۔ جو مسلمان کعبے کے مغرب کی طرف رہتے ہوں، وہ اپنا رُخ مشرق کی طرف کریں گے اور جو مشرق کی طرف رہتے ہوں، وہ اپنا رُخ مغرب کی طرف کریں گے۔
کعبہ نقشہ عالم کے وسط میں ہے:
یہ مسلمان ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے دنیا کا نقشہ بنایا۔ ان کے نقشوں میں جنوب اوپر کی طرف تھا اور شمال نیچے کی طرف اور کعبہ درمیان میں تھا۔ بعد میں مغربی نقشہ نگاروں نے جو نقشے بنائے ان میں شمال اوپر اور جنوب نیچے کی طرف دکھایا گیا جیسا کہ آج کل دنیا کے نقشے بنائے جاتے ہیں۔ بہر حال الحمدللہ کعبہ دنیا کے نقشے کے تقریباً وسط میں ہے۔
طوافِ کعبہ:
جب مسلمان مکہ کی مسجدِ حرام میں جاتے ہیں، وہ کعبے کے گرد چکر لگا کر طواف کرتے ہیں۔ ان کا یہ عمل واحد سچے معبود پر ایمان اور اس کی عبادت کی علامت ہے۔ جیسے ہر دائرے کا ایک ہی مرکز ہوتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی ایک ہے جو عبادت کے لائق ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں عقیدہ توحید:
جہاں تک سیاہ پتھر، یعنی حجرِ اسود کی حرمت کا تعلق ہے، حضرت عمرؓ کی ایک حدیث سے واضح ہے۔ سیدنا عمرر ضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا اور کہا:
إِنِّی أَعْلَمُ أَ نَّکَ حَجَرٌ لاَّ تَضُرُّ تَنْفَعُ، وَلَوْلَا أَنِّی رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِﷺ وَسلمیُقَبِّلُکُ مَا قَبَّلْتُکَ۔
ترجمہ: میں یقیناً جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ تو کوئی فائدہ پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریمﷺ کو تجھے چومتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی نہ چومتا۔
(صحیح البخاری، الحج، باب ماذکر فی الحجر الأسود، حدیث :1597)
کعبے کی چھت پر اذان:
نبی کریمﷺ کے دور میں لوگ کعبہ کی چھت کے اُوپر کھڑے ہو کر اذان دیتے تھے۔
(تجلیات نبوت: صفحہ، 226)
اب جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمان کعبہ کو پوجتے ہیں تو بھلا کون سا بتوں کو پوجنے والا اس بُت کے اُوپر کھڑا ہوتا ہے جس کی وہ پوجا کرتا ہے؟ اسلام میں پوجنے اور عبادت کرنے کا تصور صرف ذاتِ باری تعالیٰ کے لیے ہے۔ حجر، شجر، شخصیات یا استہان کی پوجا کا تصور اسلام میں نہیں پایا جاتا۔ اسلام نے تو ایسی جگہ پر بھی عبادت سے روک دیا ہے جہاں اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا شبہ پیدا ہو سکتا ہو، مثلاً قبرستان میں نماز ادا کرنا، یا ایسی جگہ عبادت کرنا جہاں غیراللہ کی عبادت کی جاتی ہو، ممنوع ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ کسی دور میں کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ مسلمانوں نے کسی مکان یا عمارت کی عبادت کی ہو۔ اسلام میں اگر اللہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت کا تصور ہوتا تو محمدﷺ اس لائق تھے کہ آپﷺ کی قبر کو قبلہ بنایا جاتا اور اس کی عبادت کی جاتی۔ لیکن آپﷺ نے اس سے سختی سے منع کر دیا، اسی طرح آپﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو سجدہ جائز ہوتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے، پھر یہ بات بھی ہے کہ بتوں کے پجاری تو بت خانے میں جا کر عبادت کرتے ہیں یا ان بتوں کے ماڈل بنا کر سامنے رکھتے ہیں جب کہ مسلمان قبولیت عبادت کے لیے خانہ کعبہ جانے کو شرط قرار دیتے ہیں نہ اس کا ماڈل اپنے سامنے رکھنا جائز سمجھتے ہیں۔ وہ تو جہتِ کعبہ کو سامنے رکھ کہ کعبہ کے بجائے ربِ کعبہ کی عبادت کرتے ہیں۔ (عثمان منیب)