ایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ کی بدعت معاویہ نے پیدا کی۔ (موطا امام محمد،شرح الوقایہ التوضيح)
مولانا ابوالحسن ہزارویایک گواہ اور ایک قسم کے ساتھ فیصلہ کی بدعت معاویہ نے پیدا کی۔
(موطا امام محمد،شرح الوقایہ التوضيح)
الجواب اہلسنت
1:.إن کتابوں میں اول من قضی به معاویہ کا جملہ ابن شہاب زہری کا منفردانہ قول ہے اس کا کوئی موید نہیں۔ لہذا اس تفرد تابعی کی بنا پر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو مطعون کرنا سراسر خلاف انصاف و دیانت ہے۔
(المسبوط لسرخسی صفحہ 34 جلد 17 )
2:.کتاب الدعوی میں حضرت علیؓ کا مذہب منقول ہے کہ وہ شاہد کے ساتھ حلف بھی لیتے تھے ۔ معلوم ہوا کہ ایک گواہ اور ایک قسم کا مسلک اور عمل حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے قبل حضرت علیؓ کا تھا اگر اس عمل کو غلط قرار دیں تو ذرا غور کر لیں کہ یہ الزام کس سمت کو جاتا ہے۔
3:. اکابرصحابه کرام بھی اس عمل کو جائز قرار دیتے ہیں جیسے حضرت زیدؓ بن ثابت اور ابی بن کعبؓ وغیرہ۔ ان حضرات کی دلیل یہ روایت ہے۔ سیدنا معاویہ بھی مجتہد تھے لہذا ان کو گنجائش ہے کہ وہ ایسا کریں۔
أن رسول الله ما قضیی بیمین و شاهد۔
کہ بے شک رسول اللہ ایک گواہ اور قسم کے ساتھ (بھی) فیصلہ فرماتے تھے۔
(سنن الکبری للبیہقی صفہ 172، 173 جلد 10 باب القضا)
معلوم ہوا کہ یہ عمل نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع ہوا ہے۔ لہذا اس بنیاد پر اعتراض کرنا اللہ کے نبیﷺ پر سے اعتماد کو ختم کرنا ہے۔
4: تعجب کی بات ہے رافضی لوگوں کو ایک گواه مع الیمین کے ساتھ کیا جانے والا فیصلہ بدعت نظر آرہا ہے جبکہ خود ان کے اپنے مجہتدوں نے ایک گواہ اور قسم کے ساتھ فیصلہ کو درست مانا اور قبول کیا ہے چنانچہ ماضی قریب کے شیعہ کے رہبر نائب جناب خمینی نے اپنی کتاب تحریر الوسیلہ جلد 2 صفحه 4240 پر باقاعده باب باندھا ہے۔ ایک گواہ اور قسم کا بیان‘‘ مگر حیرت ہے کہ اپنے باوا جی فرما دیں تو سب درست ورنہ غلط۔