حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ کا فرمان
حضرت مولانا مفتی رشید احمدؒ کا فرمان
سوال: عقائد کی کتابوں میں ہے کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر جائز نہیں ہے؟
جواب: اس سے ملحدین یہ فریب دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب تک کوئی شخص بیت اللہ کو اپنا قبلہ تسلیم کرتا رہے اس کی تکفیر جائز نہیں۔ محض تلبیس ابلیس ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ متکلمین کی اصطلاح میں اہل اسلام کو اہلِ قبلہ کہا جاتا ہے اور یہ دونوں لقب مترادف ہیں۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ جب تک کوئی مسلمان ضروریاتِ دین میں سے کسی کا انکار نہ کرے اس وقت تک اس کی تکفیر جائز نہیں۔
اهل القبلة في اصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين (الى قوله) فمن انكر شيئا من الضروريات (الى قوليه) لم يكن من أهل القبلة ولوكان مجاهداً بالطاعات وكذلك من باشر شيئاً من امارات التكذيب كسجود الصنم والاهانة بامرشرعي والاستهزاء عليه فليس من اهل القبلة۔
(نبراس:صفحہ:572)
وقال الملاعلى القاري رحمه الله تعالى اعلم ان المراد باهل القبلة الذين اتفقوا على ما هو من ضروريات الدين كحدوث العالم وحشر الاجساد وعلم الله تعالى بالكليات والجزئيات وما اشبه ذلك من المسائل المهمات فمن واظب طول عمره على الطاعات والعبادات مع اعتقاد قدم العالم ونفى الحشر أونفى علمه سبحانه وتعالى بالجزئيات لا يكون من أهل القبلة وان المراد بعدم تكفير احد من أهل القبلة عند اهل السنة انه لا يكفر احد مالم يوجد شيء من امارات الكفر وعلاماته ولم يصدر منه شي.من موجباته۔
(شرح الفقه الأكبر)
وفي شرح المقاصد فلا نزاع في كفر اهل القبلة المواظب طول العمر على الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفى الحشر ونفي المعلم بالجزئيات ونحو ذلك وكذلك بصدورشی ، من موجبات الكفر عنه۔
(شرح المقاصد المبحث السابع)
وقال العلاء رحمه الله تعالى كل من كان قبلتنا (إلى قوله) او ان انكر بعض ما علم من الدين ضرورة كفر و قال العلامة ابن عابدین رحمه الله تعالى لاخلاف في کفر المخالف في ضروريات الإسلام من حدوث العالم وحشر الاجساد و نفى العلم بالجزئيات وان كان من أهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات كما في شرح التحرير.
(ردالمحتار:جلد:1:صفحہ:524)
متکلمین کے ہاں یہ مسئلہ اس طرح پیدا ہوا کہ معتزلہ و خوارج مر تکب کبیرہ کو دائره اسلام سے خارج قرار دیتے ہیں، ان کی تردید میں حضرات متکلمین فرماتے ہیں کہ اہلِ قبلہ یعنی اہل اسلام کی تکفیر ، کبیرہ کے ارتکاب کی وجہ سے جائز نہیں جب تک وہ ضروریاتِ دین سے انکار نہ کریں۔
نقل فی شرح التحرير عن ابي حنيفہ رحمه الله تعالى لا نکفر اهل القبلة بذنب۔
(شرح التحرير:صفحہ:318)
وقال في النبراس ومعنى عدم تكفير اهل القبلة ان لا يكفر بار تكتاب المعاصي ولا بانكار الأمور الخلية غير المشهورة هذا ما حققه المحققون۔
(نبراس:صفحہ:572)
وقال ابن تيمية في كتاب الإيمان ونحن اذا قلنا أهل السنة متفقون على ان لا يكفر بالذنب فانما تريد به المعاصی کالزنا والشراب اه. واوضحه القونوي في شرح العقيدة الطحاوية۔
منتظمین کے اس قول کا ماخذ یہ حدیث شریف ہے۔
عن انس بن مالك قال قال رسول الله ثلاثة من اصل الايمان الكف عمن قال لا اله الا الله ولا تكفره يذنب ولا تخرجه من الاسلام بعمل الحدث۔
(ابوداؤد:جلد:1:صفحہ:252)
چونکہ متکلمین و فقہاء کرام کے ہاں اہلِ قبلہ بمعنی اہل اسلام کی اصطلاح اور عدم تکفیر اہلِ قبلہ کا مطلب یہ ہے کہ ارتکاب کبیرہ موجب کفر نہیں بہت مشہور اور عام معروف ہے اس لئے بعض دفعہ صرف اتنا لکھ دیتے ہیں کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر جائز نہیں اور اعتماداً مخاطب کا فہم اس کی تشریح کی ضرورت نہیں سمجھتے ۔
خلاصۂ بحث:
خلاصہ یہ کہ اللہ تعالیٰ کے تمام تر احکام کی تصدیق کرنے والا مسلمان ہے اور کسی ایک حکم کا انکار کرنے والا کافر ہے۔ اس کی مشہور تعریف یہ ہے کہ تمام ضروریاتِ دین کی تصدیق کا نام اسلام ہے اور ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے۔
(احسن الفتاوٰى:جلد:1:صفحہ:71)