Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بیسویں دلیل یہ آیت کریمہ ہے:
﴿وَ تَعِیَہَا اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ﴾ (الحاقۃ:۱۲) ’’ تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔‘‘ 
’’ثعلبی کی تفسیر میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اے علی! میں نے اللہسے یہ دعا کی تھی کہ وہ تیرے کانوں کو ایسا بنا دے۔ اسی طرح ثعلبی نے بطریق ابونعیم ذکر کیا ہے :اے علی !اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہارے قریب ہوجاؤں اور تمہیں علم سیکھاؤں ۔ تاکہ تم اسے یاد رکھواور مجھ پر یہ آیت نازل ہوئی ہے : ﴿وَ تَعِیَہَا اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ﴾ (الحاقۃ:۱۲) ’’تاکہ یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔‘‘پس تم ہی یاد رکھنے والے کان ہو۔‘‘یہ ایک ایسی فضیلت ہے جس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ منفرد تھے۔ لہٰذا وہی امام ہوں گے۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔
[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیاجاسکتا ہے : 
٭ اول:....ہم اس روایت کی صحت کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ ابو نعیم اور ثعلبی ایسی روایات بھی نقل کرتے ہیں جن سے استدلال کرنا بالاجماع جائز نہیں ۔
٭ دوم :....یہ روایت موضوع ہے۔ اس پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے ۔
٭ سوم :....اللہ تعالیٰ کافرمان :
﴿اِِنَّا لَمَّا طَغٰی الْمَآئُ حَمَلْنٰکُمْ فِی الْجَارِیَۃِ oلِنَجْعَلَہَا لَکُمْ تَذْکِرَۃً وَّتَعِیَہَآ اُذُنٌ وَّاعِیَۃٌ
[الحاقہ ۱۱۔۱۲]
’’جب پانی میں طغیانی آگئی تو اس وقت ہم نے تمہیں کشتی میں چڑھا لیا ۔تاکہ اسے تمہارے لیے نصیحت اور یادگار بنا دیں اور(تاکہ)یاد رکھنے والے کان اسے یاد رکھیں ۔‘‘
جہاں تک زیر نظر آیت کا تعلق ہے ؛ تویہاں پر ایک کان مراد نہیں ہے؛ اس میں جملہ بنی آدم سے خطاب کیا گیا ہے[ ایک شخص سے خطاب نہیں ہے]۔ اس لیے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی قوم کو کشتی میں سوار کرنا عظیم ترین نشانی ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَاٰیَۃٌ لَہُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَہُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِoوَخَلَقْنَا لَہُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ﴾ [یس]
’’ان کے لیے ایک نشانی (یہ بھی)ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا ۔اور ان کے لیے اسی جیسی اور چیزیں پیدا کیں جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔‘‘
نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اَلَمْ تَرَ اَنَّ الْفُلْکَ تَجْرِیْ فِی الْبَحْرِ بِنِعْمَتِ اللّٰہِ لِیُرِیَکُمْ مِّنْ اٰیٰتِہٖ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّکُلِّ صَبَّارٍ شَکُوْرٍ﴾ [لقمان ۳۱]
’’کیا تم اس پر غور نہیں کرتے کہ سمندر میں کشتیاں اللہ کے فضل سے چل رہی ہیں تا کہ وہ تمہیں اپنی نشانیاں دکھا دے، یقیناً اس میں ہر ایک صبر و شکر کرنے والے کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں ۔‘‘
بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گوش حق نیوش حضرت ابوبکر و عمراور عثمان رضی اللہ عنہم اور امت کے باقی لوگوں کے کانوں کی مانند تھے۔تو اس صورت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خاص خصوصیت نہ ہوئی۔یہ بات اضطراری طور پر معلوم ہے کہ صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کان ہی حق سننے والے نہیں ہیں ۔ اس بات کو کون تسلیم کرسکتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حسن و حسین اور عمار و ابو ذر؛ سلیمان الفارسی ؛ اور مقداد اور سہل بن حنیف رضی اللہ عنہم جن کی فضیلت پر شیعہ ہمارے موافق ہیں ‘ کیا ان کے کان آواز حق کو سننے والے نہ تھے؟ اگر یہی سننے اور یاد رکھنے والے کان دوسرے لوگوں کے بھی تھے تو پھر یہ کہنا جائز نہ ہوا کہ یہ فضیلت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے کو حاصل نہ ہوسکی تھی؟ بتائیے اب تفرد و افضلیت کی کونسی بات رہی؟
اس میں کوئی شک و شبہ والی بات نہیں کہ ظالم و جاہل شیعہ کے بیان کردہ مقدمات اسی طرح بے بنیادہوتے ہیں ۔ اہل بدعت میں سے کسی ایسے گروہ کے متعلق علم نہیں ہوسکتا جن کے دلائل رافضیوں کے دلائل سے بڑھ کر بودے اور کمزور ہوں ۔ بخلاف معتزلہ اور دوسرے لوگوں کے ۔ اس لیے کہ ان کے پاس ایسے دلائل و براہین ہیں ؛ جن کی وجہ سے بڑے بڑے اہل علم و عقل بعض اوقات شبہ میں پڑجاتے ہیں ۔ جب کہ شیعہ کے براہین ودلائل بے حقیقت اور بودے ہوتے ہیں ۔ایسے دلائل کو وہی شخص تسلیم کرسکے گا جو ظالم اور جاہل ہو یا پھرجو ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر چکا ہو یا صاحب بدعت و عصبیت ہو؛ اور جو چیز بھی اس کی خواہشات کے موافق ہو اسے قبول کرتا ہو خواہ وہ حق ہو یا باطل ۔ اسی لیے یہ مقولہ زبان زد خاص و عام ہے کہ شیعہ عقل و نقل اور دین و مذہب سے بے گانہ اور حکومت و سلطنت سے عاری ہیں ۔
اسی لیے علمائے کرام رحمہم اللہ کے ایک گروہ کا کہنا ہے کہ : اگر جہالت کے حکم کو لوگوں کے ساتھ معلق کردیا جائے تو یہ رافضہ کو مکمل طور پر اپنے اندر گھیر لے گا۔ مثلاً اگر کوئی یہ قسم اٹھائے کہ میں لوگوں میں سب سے جاہل انسان سے بغض و نفرت رکھتا ہوں ؛ یا اس طرح کی دیگر کوئی قسم اٹھائے؛[تو یہ قسم رافضیوں پر صادق آئے گی]۔ اور ایسے ہی اگر سب سے جاہل حق کے میں کچھ وصیت کردے ؛ تو پھر را فضیوں کے حق میں ٹھیک نہ ہوگی۔ اس لیے کہ وصیت کو پورا کرنا اطاعت اور قربت الٰہی کا کام ہے۔اوراس کے برعکس اگر ایسی قوم کے متعلق وصیت کرے جس میں کافر اور جاہل سبھی موجود ہوں تو جائز ہے۔ بخلاف اس کے کہ اگر وہ کفر اور جہالت دونوں کی شرط لگائے۔
پھر رافضیوں کی علمی تہی دامنی کا یہ عالم ہے کہ کسی چیز کے متعلق حضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت ہونے کا دعوی کرتے ہیں ؛ حالانکہ وہ ایسا ہوتا نہیں ۔پھر یہ دعوی کرتے ہیں کہ یہ فضیلت کسی اورکو حاصل نہیں ہوسکی۔حالانکہ بسا اوقات وہ صحابہ کرام کے مشترکہ فضائل میں سے ہوتی ہے ۔ اس لیے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے ثابت شدہ فضائل عام ہیں جن میں دوسرے صحابہ بھی آپ کے ساتھ شریک ہیں ۔ بخلاف حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے ۔ ان دونوں حضرات کے ایسے فضائل اور خصوصیات ہیں جن میں کوئی دوسرا ان کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ پھر دوسرا دعوی کرتا ہے کہ اس فضیلت کی وجہ سے آپ کی امامت واجب ہوتی ہے ۔ یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ کسی چیز میں جزوی فضیلت سے نہ ہی مطلق فضیلت لازم آتی ہے اور نہ ہی امامت اور نہ ہی ایسی فضیلتیں امام کے لیے خاص ہوتی ہیں ۔بلکہ امام اور دوسرے لوگوں کے لیے بھی ایسے فضائل ثابت ہوتے ہیں ۔فاضل مطلق کے لیے بھی اور دوسروں کے لیے بھی۔
اس رافضی نے اپنے دعوی کو تین مقدمات پر قائم کیا تھا۔ یہ تینوں باطل ہوئے ؛ پھر چوتھا دعوی کیا ؛ اس میں بھی نزاع ہے ۔ لیکن ہم اس میں ان سے کوئی اختلاف نہیں کرتے۔بلکہ ہم تسلیم کرتے ہیں کہ جو افضل ہو وہی امامت کا مستحق ہے ۔ لیکن اس مسئلہ میں رافضی کے پاس کوئی حجت نہیں ہے۔