Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

مولانا نواب محمد قطب الدین خان دہلوی رحمۃ اللہ کا فرمان


سوال: ہو سکتا ہے کہ کوئی رافضی یا رافضیوں کا ایجنٹ یہ اعتراض کرے کہ مشہور کتاب شرح عقائد نسفی میں اس بات کو آسان نہیں بتایا گیا ہے کہ شیخینؓ کو برا کہنے والے کو کافر قرار دے دیا جائے۔ نیز صاحب جامع الاصول اور صاحب مواقف نے شیعوں کو اسلامی فرقوں میں شمار کیا ہے، اسی طرح شیخ ابو الحسن اشعریؒ اور امام غزالیؒ نے بھی اس کو مناسب نہیں سمجھا ہے کہ اہلِ قبلہ کو کافر کہا جائے۔ لہٰذا جو لوگ شیعوں کو کافر کہتے ہیں ان کا قول سلف اہل سنتؒ کے موافق نہیں ہے؟

جواب نمبر 1: اس کا جواب یہ ہے کہ بلا شبہ ان بزرگان اُمت اور اساطین علم نے شیعوں کی تکفیر میں احتیاط کا دامن تھاما ہے اور اس فرقہ کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دینے میں تامل کیا ہے۔ لیکن اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ ان حضرات نے شیعوں کے تمام عقائد و نظریات اور ان کے احوال و معاملات کو پوری طرح جاننے کے باوجود ان کی تکفیر سے اعراض کیا ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ ان بزرگوں کے ذہن میں شیعیت کا مسئلہ پوری طرح واضح نہیں تھا اور شیعوں کے متعلق تمام چیزوں کی حقیقی اور واقعاتی حیثیت پورے بسط کے ساتھ ان کے علم میں نہیں تھی جس کی بنا پر انہوں نے شیعوں کے بارے میں اسی خیال و نظریہ کا اظہار کیا جو ان کے اُس وقت کے علم اور معلومات کے مطابق تھا۔ اور اس طرح کی بہت مثالیں ملتی ہیں کہ جلیل القدر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ایک کو بعض مسائل میں اشتباہ ہوا اور ان کا قول یا عمل ان کے مسائل کے حقیقی پہلو سے مختلف ظاہر ہوا ۔

مثال کے طور پر سیدنا عبداللہ ابن مسعودؓ کو نماز میں اطباق یدین کے مسئلہ میں اشتباہ کا ہونا یا سیدنا علیؓ کو بیع امهات اولاد کے اور زندیقوں کو آگ میں جلا دینے کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا یا سیدنا فاروق اعظمؓ کو جنبی کے تیمم کے مسئلہ میں اشتباہ ہونا ۔

پس مذکورہ بالا بزرگوں کی نظر محض اس بات پر گئی کہ شیعہ اہلِ قبلہ اور کلمہ گو ہیں اور اسی بنا پر انہوں نے ان کی تکفیر سے احتیاط برتی۔

اگر ان کے علم میں شیعوں کے وہ تمام عقائد اور حالات تفصیل کے ساتھ آجاتے جو ان کے اہلِ قبلہ اور کلمہ گو ہونے کے صریح منافی ہیں اور جو کسی بھی شخص کی تکفیر کیلئے واضح ثبوت اور دلیل کی حیثیت رکھتے ہیں تو یقیناً وہ بزرگ بھی ان کی تکفیر کے قائل ہوتے۔

جس طرح جب سیدنا صدیق اکبرؓ نے زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کرنے والوں کے خلاف تلوار اٹھانے کا فیصلہ کیا تو سیدنا فاروق اعظمؓ اور سیدنا علیؓ نے ان لوگوں کے کلمہ گو ہونے کی بنیاد پر سیدنا صدیق اکبرؓ کے سامنے ان کی سفارش کی اور کہا کہ ہم ان لوگوں کے خلاف جنگ و قتال کیسے کر سکتے ہیں جبکہ حضور اکرمﷺ کا ارشاد ہے امرت ان اقاتل الناس حتى يقولو الا اله الا اللہ مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہیں۔ اور یہ تو تمام اعمال اسلامی ادا کرتے ہیں صرف زکوٰۃ کا انکار کیا ہے۔

سیدنا صدیق اکبرؓ نے پورے عزم کے ساتھ جواب دیا کہ میں ہر اس شخص کے خلاف جنگ و قتال کروں گا جو نماز اور روزہ کے درمیان فرق کرے گا (اور اس کی کلمہ گوئی میرے ارادہ میں حاٸل نہیں ہوگی)

سیدنا فاروق اعظمؓ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھ لیا کہ اس مسئلہ میں اللہ تعالیٰ نے سیدنا صدیق اکبرؓ کو شرح صدر عطا فرما دیا ہے اور اب میں کہہ سکتا ہوں کہ حق وہی ہے جو سیدنا صدیق اکبرؓ کہہ رہے ہیں۔

جواب نمبر2: یہ بھی احتمال ہے کہ مذکورہ بالا بزرگوں نے اپنے ان اقوال و نظریات کا اظہار ان شیعوں کے بارے میں فرمایا ہو، جو اس زمانہ میں ایسے کرے اور فاسد عقائد و احوال نہیں رکھتے تھے جیسے بعد میں شیعوں اور رافضیوں نے اختیار کر لئے۔ اس کی تائید مرقاۃ میں ملا علی قاریؒ کے ان الفاظ سے بھی ہوتی ہے۔

فرمایا: میں کہتا ہو کہ یہ بات ہمارے زمانے کے رافضیوں اور خارجیوں کے حق میں صادق آتی ہے کیونکہ ان فرقوں کے لوگ اکابر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے اکثر کے کفر کا عقیدہ رکھتے ہیں،اور تمام اہلِ سنت والجماعت کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔ پس ان فرقوں کے کافر ہونے پر اجماع ہے،جس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

(مظاہر حق جديد: جلد، 5 صفحہ، 637)

میر سید شریفؒ شرح مواقف میں فرماتے ہیں:

ياد ركهو.....!

اہلِ قبلہ کو کافر نہ کہنا، یہ شیخ ابوالحسن اشعریؒ اور فقہاء کی تحقیق ہے لیکن ہم جب گمراہ فرقوں کے عقائد کی چھان بین کرتے ہیں تو ان میں بہت سے ایسے عقائد ملتے ہیں جو قطاً موجبِ کفر ہیں ۔ لہٰذا ہم شیخ اشعریؒ اور فقہاء کے اس اصول سے اتفاق نہیں کر سکتے بلکہ اگر کوئی مسلمان فرقہ موجبِ کفر عقائد واعمال واقوال اختیار کرے تو ہم اس کو ضرور کافر کہیں گئے، اگرچہ وہ قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتا اور خود کو مسلمان کہتا ہو۔ 

(اكفار الملحدين: صفحہ، 405)