Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بائیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بائیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی بائیسویں دلیل یہ آیت ہے:

﴿وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ (الزمر:۳۳)

’’اور جو سچے دین کو لائے اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ پارسا ہیں ۔‘‘

ابو نعیم مجاہد سے روایت کرتے ہیں کہ﴿وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ ﴾ اس سے مرادحضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ‘ اور﴿وَ صَدَّقَ بِہٖ ﴾ سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔اور فقیہ شافعی نے مجاہد سے نقل کیا ہے کہ: ﴿ وَالَّذِیْ جَآئَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ بِہٖ﴾سچائی لانے والے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور سچائی کی تصدیق کرنے والے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظیم خصوصیت ہے لہٰذا آپ امام و خلیفہ ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]

[جواب]:ہم اس کا جواب کئی طرح سے دے سکتے ہیں : 

پہلی بات :....یہ تفسیر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اس ضمن میں صرف اکیلے حضرت مجاہد کا قول اگر ثابت ہو جائے تو بھی ایسی حجت نہیں کہ تمام مسلمانوں پر اس کی اتباع واجب ہو۔ حالانکہ مجاہد سے یہ روایت ثابت ہی نہیں بلکہ اس کے خلاف ثابت ہے۔اس لیے کہ مجاہد سے نقل کردہ روایات میں جھوٹ کی کثرت ہے ۔ [آپ سے نقل کرنے والا جھوٹ بولتا ہے]۔

مجاہد سے اس کی تفسیر اس کے برعکس ثابت ہے۔ مجاہد کا قول ہے کہ صدق سے قرآن مراد ہے۔ اور ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد وہ مؤمن ہے جو اس پر عمل کرے۔اس لحاظ سے یہ حکم عام ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ اور دوسرے مفسرین نے حضرت مجاہد رحمہ اللہ سے روایت کیا ہے آپ فرماتے ہیں : اس سے مراد وہ اہل قرآن ہیں جنہیں قیامت کے دن پیش کیا جائے گا۔اوروہ[اللہ تعالیٰ سے قرآن کے بارے میں ] کہیں گے : یہی وہ چیز ہے جو آپ نے ہمیں دی تھی اور ہم اس پر عمل کرتے رہے ۔ 

ابو سعید الاشج نے روایت کیا ہے ؛ فرمایا: ہم سے ادریس نے بیان کیا ؛ وہ لیث اور وہ مجاہد - رحمہم اللہ - سے یہی تفسیر روایت کرتے ہیں ۔ نیز [دوسری سند سے اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں ] ہم سے محاربی نے بیان کیا ؛ وہ جویبر سے وہ ضحاک سے نقل کرتے ہیں : آپ فرماتے ہیں : ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد تمام مؤمن ہیں ۔ 

مفسر ابن ابی حاتم رحمہ اللہ اپنی سند سے روایت کرتے ہیں : مجھ سے میرے والد نے بیان کیا؛ ان سے ابو صالح نے بیان کیا ؛ ان سے معاویہ بن صالح نے؛ وہ علی بن طلحہ سے اوروہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرتے ہیں ‘ وہ فرماتے ہیں : ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ 

دوسری بات:....شیعہ کا قول جمہور مفسرین کے ہاں مشہور تفسیرکے خلاف ہے جو کہتے ہیں کہ: اس آیت میں : ’’جَائَ بِالصدق ‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔ مفسرین کی ایک جماعت نے یہی تفسیر بیان کی ہے۔ 

ابن جریر طبری،اور دیگر مفسرین نے اپنی اسناد سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے یہ تفسیر نقل کی ہے آپ فرماتے ہیں :

’’جَائَ بِالصدق‘‘ سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور ’’صَدَّقَ بِہٖ‘‘ سے مراد حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں ۔

یہ بات بعض مفسرین نے ابوبکربن عبد العزیز بن جعفر الفقیہ؛ جو کہ حضرت ابو بکر الخلال رحمہ اللہ کے غلام ہیں ؛ سے نقل کی ہے؛ان سے اس آیت کی بابت دریافت کیا گیا تو انھوں نے فرمایا:’’ یہ آیت حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی۔

معترض نے کہا: یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ یہ سن کر ابوبکر الفقیہ نے کہا:’’ اس آیت سے آگے تلاوت کیجیے، :﴿اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾سے لے کر آگے تک : ﴿فَکَفَّرَ اللّٰہُ اَسْوَأَ الَّذِیْ عَمِلُوْا﴾ (الزمر۳۵) ’’تاکہ اللہ تعالیٰ ان سے ان کے برے عملوں کو دور کر دے۔‘‘ 

[اس نے جب یہ آیت پڑھی تو ابوبکرالفقیہ نے کہا:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمہارے نزدیک معصوم ہیں ، پھر ان سے کون سے گناہ دور کیے جائیں گے]۔ معترض لاجواب ہو گیا۔

تیسری بات:....جہاں تک آیت کے الفاظ کا تعلق ہے وہ عام اور مطلق ہیں ان میں نہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی کوئی تخصیص ہے اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی؛بلکہ جو بھی اس کے عموم میں شامل ہوں وہ اس حکم میں داخل ہوسکتے ہیں ۔اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان و علی رضی اللہ عنہم اس امت میں سے اس آیت کے حکم میں داخل ہونے کے سب سے زیادہ حق دار ہیں ؛ لیکن پھر بھی یہ آیت ان کے ساتھ خاص نہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلٰی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِِذْ جَائَہُ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِلْکٰفِرِیْنَ o وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ ﴾ [الزمر ۳۲۔۳۳]

’’پھر اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جس نے اللہ پر جھوٹ باندھا اور جب سچائی اس کے سامنے آئی تو اسے جھٹلا دیا ۔ کیا ایسے لوگوں کے لیے جہنم میں ٹھکانا نہیں ہے؟ اور جو شخص سچائی لے کر آیا اور جنہوں نے اس کو سچ مانا ، وہی عذاب سے بچنے والے ہیں ۔‘‘

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اللہ پر جھوٹ بولنے والوں اور حق بات جھٹلانے والوں کی مذمت کی ہے ۔ اور یہ ایک عام حکم ہے ۔ رافضی سب سے بڑے اہل بدعت ہیں جو اس مذموم وصف میں داخل ہیں ۔اس لیے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ پر سب سے زیادہ بہتان گھڑنے والے ہیں ۔اور جب سچ بات ان تک پہنچتی ہے تو اسے سب سے زیادہ جھٹلانے والے ہوتے ہیں ۔ اور سچائی کی تصدیق کرنے میں سب سے زیادہ دور رہنے والوں میں سے ہیں ۔

خالص اہل سنت اس آیت کے مصداق ہونے کے سب سے بڑے حق دار ہیں ۔اس لیے کہ وہ سچ بولتے ہیں ؛ اور جب کہیں سے بھی حق بات انہیں مل جاتی ہے تواس کی تصدیق کرتے ہیں ۔ ان کی تمام تر خواہشات حق کے ساتھ ہوتی ہیں ۔

اللہ تعالیٰ نے سچائی کا پیغام لانے والے اور اس کی تصدیق کرنے والے کی مدح و توصیف بیان کی ہے۔یہ تعریف نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بھی ہے اور آپ پر ایمان لانے والے ہر انسان کے لیے۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا:

وہ جو کہ سچ کا پیغام لے کر آیا اور وہ خاص کہ جس نے اس کی تصدیق کی ۔ اللہ تعالیٰ نے یہ دو علیحدہ علیحدہ اقسام نہیں بنائیں ۔ بلکہ ان دونوں کو ایک ہی قسم بتایا ہے۔اس لیے کہ اس سے مراد سچائی کی تعریف کرنا ہے ‘ بھلے وہ پیغام لانے کے اعتبار سے ہو یا اس کی تصدیق کرنے کے اعتبار سے ۔ یہ دونوں اوصاف کے اعتبار سے قابل تعریف ہے۔

(جَاءَ بِالصِّدْقِ)اسم جنس ہے۔جو کہ ہر قسم کی سچائی کو شامل ہے۔قرآن اس سچائی میں داخل ہونے میں پہلے درجہ پر ہے ۔اسی لیے فرمایاکہ : اور اس جنس ِسچائی کی تصدیق کی۔اس لیے کہ کبھی ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ تصدیق کرنے والا ایسی چیز کی تصدیق کرتا ہے جو اصل میں سچائی نہیں ہوتی۔جیسا کہ کہا جاتا ہے : فلاں انسان حق بات کہتا ہے ‘ اور حق بات سنتا ہے ‘اور اسے قبول کرتا ہے؛ عدل و انصاف کا حکم دیتا ہے اور اس پر عمل کرتا ہے۔یعنی وہ دوسروں کے لیے حق کہنے اور دوسروں سے حق بات قبول کرنے کے ساتھ موصوف ہے۔ اوراس میں دو وصف پائے جاتے ہیں عدل کرنے کا حکم دیتا ہے او رخود اس پر عمل کرتا ہے۔ اگرچہ بہت سارا عدل جس کا وہ حکم دیتا ہے ؛ وہ حقیقت میں وہ چیز نہیں ہوتی جس پر وہ عمل کرتا ہے۔ 

جب اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کی مذمت بیان کی جو ان دو میں سے کسی ایک وصف سے متصف ہوں : اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ؛ اور حق کو جھٹلانا۔ کیونکہ ان دو میں سے ہر ایک وصف مذمت کا مستحق ہے۔ توان کے برعکس ان لوگوں کی تعریف بیان کی ؛ جو ان دو مذموم اوصاف سے خالی ہوں ۔ اس طرح سے کہ کوئی سچی بات لے کر آتا ہو؛ جھوٹ نہ لاتا ہو۔ اوراس کے ساتھ ہی وہ حق بات کی تصدیق کرنے والا ہو؛ اسے جھٹلانے والا نہ ہو۔ اور اس کا اپنا ذاتی کلام نہ ہو۔ کہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا وہی بات کہے تو یہ اس کی تصدیق نہ کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لوگوں میں سے بہت سارے ایسے بھی ہیں جو سچ ہی بولتے ہیں جھوٹ نہیں بولتے۔ لیکن انہیں حسد اور منافست کی وجہ سے یہ بات بھی ناگوار گزرتی ہے کہ کوئی دوسرا ان کے قائم مقام ہو۔پس وہ دوسرے کی سچائی کو بھی جھٹلاتا ہے؛ یا اس کی تصدیق نہیں کرتا؛ بلکہ اس سے روگردانی اور ارعراض کرلیتا ہے۔ اور ان میں ایسا بھی کوئی انسان ہوتا ہے جو کسی دوسرے گروہ کی بات کی صداقت یا جھوٹ جاننے سے پہلے ان کی تصدیق کرلیتا ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ جو کچھ کہتا ہے ان کی تصدیق نہیں کرتا؛ بھلے وہ سچا ہی ہو۔ جبکہ چاہیے تو یہ تھا کہ یا تو ان کی تصدیق کرے ؛ یا پھر اس سے منہ موڑ لے۔ یہ بات اکثر ہوئے نفس کے پجاری فرقوں میں پائی جاتی ہے۔ آپ انہیں دیکھیں گے کہ وہ اپنی بات نقل کرنے میں سچے ہوتے ہیں ۔ لیکن اس کے طائفہ یا گروہ سے متعلق جو کچھ نقل کیا جاتا ہے اس سے اعراض کرتے ہیں ۔ پس وہ بھی اس مدح میں داخل نہیں ہوتے؛ بلکہ مذمت میں داخل ہوتے ہیں ۔ کیونکہ وہ اس حق کی تصدیق نہیں کرتے جو ان تک پہنچا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے جھوٹے اور حق بات کو جھٹلانے والے دونوں کی مذمت کی ہے۔ اور ایسا کئی آیات میں آیا ہے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہٗ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکٰفِرِیْنَ ﴾[العنکبوت: 68]

’’اور ا س سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے، یا حق کو جھٹلا دے جب وہ اس کے پاس آئے۔

کیا ان کافروں کے لیے جہنم میں کوئی رہنے کی جگہ نہیں ہے؟‘‘

اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِاٰیٰتِہٖ اِنَّہٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ﴾[[الانعام: 21]

’’اور اس سے زیادہ ظالم کون ہے جس نے اللہ پر کوئی جھوٹ باندھا، یا اس کی آیات کو جھٹلایا، بے شک حقیقت یہ ہے کہ ظالم لوگ فلاح نہیں پاتے۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے انبیائے کرام علیہم السلام کے اوصاف بیان کیے؛ جو کہ تمام لوگوں سے بڑھ کر ان صفات کے حق دار تھے؛ اس لیے کہ ان میں ہر ایک سچا پیغام لے کر آتا ہے اور جھوٹ نہیں بولتا؛اور ان میں ہر ایک اپنی ذات میں سچا اور اپنے علاوہ دوسرے لوگوں کی تصدیق کرنے والا ہوتا ہے۔

جب اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان اصناف میں سے ایک صنف کے متعلق تھا؛ جس میں مقصود کوئی فرد واحد بعینہ نہیں ہوتا؛ تواس کی ضمیر کا اعادہ جمع کے صیغہ کے ساتھ کیا؛ اور ارشاد فرمایا :

﴿وَالَّذِیْ جَائَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِہٖ اُوْلٰٓئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُوْنَ﴾ [الزمرِ: 33]

’’اور وہ شخص جو سچ لے کر آیا اور جس نے اس کی تصدیق کی یہی لوگ بچنے والے ہیں ۔‘‘

آپ بہت سارے علم اور دین کی طرف منسوب لوگوں کو ایسا پائیں گے جو اپنی بات کرنے میں جھوٹ نہیں بولتے ؛ بلکہ وہ سچ بات کے علاوہ کچھ بولتے ہی نہیں ۔ لیکن اگر کوئی دوسرا انہیں کسی سچ کی خبر دے تو اس کی تصدیق نہیں کرے۔ ان کی ہویٰ پرستی اور جہالت انہیں اپنے علاوہ دوسروں کی تکذیب پر ابھارتی ہے؛ بھلے وہ سچا ہی کیوں نہ ہو ۔ یا تو وہ اپنے ہم مثل کی تکذیب کرتا ہے ؛ یا پھر ان لوگوں کی تکذیب کرتا ہے جن کا تعلق اس کے گروہ اور فرقہ سے نہ ہو۔

صرف سچے انسان کو جھٹلانا ؛ خود ہی ایک جھوٹ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایسے انسان کو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کے ساتھ ملایا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ گھڑتے ہیں ۔ اور ارشاد فرمایا:

﴿فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَذَبَ عَلٰی اللّٰہِ وَکَذَّبَ بِالصِّدْقِ اِِذْ جَائَہُ اَلَیْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِلْکٰفِرِیْنَ

’’(پھر اس سے زیادہ کون ظالم ہے جس نے اللہ پر جھوٹ بولا اور سچ کو جھٹلایا جب وہ اس کے پاس آیا، کیا ان کافروں کے لیے جہنم میں کوئی ٹھکانا نہیں ؟‘‘

پس یہ دونوں قسم کے لوگ جھوٹے ہیں ۔ پہلا اس لیے جھوٹا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جھوٹی خبریں دیتا ہے۔ اور یہ دوسرا مخبر عن اللہ کی طرف سے خبر دینے میں جھوٹا ہے۔

نصاری میں اللہ تعالیٰ جھوٹ گھڑنے والے بہت زیادہ ہیں ۔اور یہود میں حق بات کو جھٹلانے والے بہت زیادہ ہیں ۔ پس اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جب سچ بات کوجھٹلانے والے کا ذکر کیا ؛ تواس کی دوسری قسم بنائی۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کی تمام اقسام ذکر نہیں کیں ۔ بلکہ ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں ۔ جب آپ اس بات پر اچھی طرح سے تدبر و تفکر کریں گے تو معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا اور حق بات کو جھٹلانا ؛ ان دو میں سے ہر ایک خصلت مذموم ہے۔ مدح و ثناء کا مستحق صرف وہی ہوسکتا ہے جو سچ بات لانے والا ہو اور سچائی کی تصدیق کرنے والا ہو۔ تو آپ کو پتہ چل جائے گا کہ یہ انسان اللہ تعالیٰ کے ان بندوں میں سے ہے جن کو اس نے صراط مستقیم کی طرف ہدایت دی ہے۔

جب آپ اس مسئلہ میں تأمل کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ بہت سارا شر یا پھر شرو برائی کا اکثر حصہ ان دو میں سے کسی ایک وجہ سے ہوتا ہے۔ توآپ یہ بھی دیکھیں گے کہ دو گروہوں میں سے کوئی ایک ؛ لوگوں میں سے دو افراد میں کوئی ایک جو کچھ اپنے علم کے مطابق خبردے رہا ہے؛ اس میں وہ جھوٹ نہیں بولتا؛ جوکچھ دوسرا گروہ -یا دوسرا فرد- اس کے پاس حق بات لے کر آتا ہے وہ اس کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ اور بیشتر اوقات اس میں دونوں چیزیں جمع ہوتی ہیں اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا اور حق و سچ کی تکذیب کرنا۔

یہ بات اگرچہ کسی نہ کسی قدر ہر گروہ میں پائی جاتی ہے؛ لیکن روافض سے بڑھ کر کوئی گروہ اس کا رسیا اور دلدادہ نہیں ۔

رافضی اللہ تعالیٰ پر اس کے رسول پر اور صحابہ کرام اور ذوی القربی رضی اللہ عنہم پر سب سے زیادہ جھوٹ بولنے والے اور حق بات کو جھٹلانے والے ہیں ۔ وہ ایسے سچ کو جھٹلاتے ہیں جو منقول صحیح اور معقول صریح کی روشنی میں ثابت اور معلو م شدہ ہے۔ اس آیت کریمہ میں وارد ہونے والی مدح ان تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شامل ہے جن پر رافضی اپنی طرف سے بہتان گھڑتے اور ظلم کرتے ہیں ۔اس لیے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے پاس حق کا پیغام پہنچا؛ انہوں نے اس کی تصدیق کی۔ روئے زمین پر اس آیت کے سب سے بڑے مصداق صحابہ کرام ہیں ؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان ہی صحابہ میں سے ایک فرد ہیں ۔ اس میں رافضیوں کی مذمت ہے اور یہ آیت ہر دو لحاظ سے خود ان کے خلاف حجت ہے۔اس آیت میں خلفاء ثلاثہ کو چھوڑ کرصرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کسی خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ۔یہ آیت ہر حال میں رافضیوں کے خلاف حجت ہے ان کے حق میں حجت نہیں ۔