امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تئیسویں دلیل:
امام ابنِ تیمیہؒامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تئیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے امام ہونے کی تئیسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الأنفال:۶۲)
’’اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے تیری تائید کی ہے۔‘‘
ابو نعیم حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ عرش پر لکھا ہے:’’اللہ کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ‘ وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ۔ محمد میرے بندے اور رسول ہیں ۔ میں نے علی سے ان کی تائید کی۔‘‘یہی اس آیت کا مطلب ہے ۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی عظیم فضیلت ہے جوکہ آپ کے علاوہ کسی دوسرے صحابی کو حاصل نہیں ہوسکی ۔ لہٰذا آپ ہی امام تھے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔
[جواب]:اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا جاسکتا ہے:
پہلی بات: ....ہم اس روایت کی صحیح سند پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ؟ کسی روایت کے صرف ابو نعیم کی طرف منسوب کر لینے وہ قابل حجت نہیں ٹھہرتی؛ اس پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے۔ ابو نعیم کی مشہور کتاب’’ فضائل الصحابہ ‘‘ ہے ۔ اس میں سے کچھ چیزیں اس نے اپنی کتاب ’’الحلیہ‘‘ کے شروع میں بیان کی ہیں ۔ اگر شیعہ ان کتابوں کی ہر روایت کو قابل حجت سمجھتے ہیں تو پھر ان میں حضرت ابو بکر و عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کے فضائل میں ایسی روایات بیان کی گئی ہیں جن سے شیعیت کی پوری عمارت زمین بوس ہوسکتی ہے ؛ اور ارکان شیعیت منہدم ہوسکتے ہیں ۔ اور اگر اس کی ہر روایت کو حجت نہیں سمجھتے تو اس کامطلب یہ ہے کہ اس کی روایات ان کے ہاں ناقابل اعتماد ہیں ۔جب کہ ہم اہل سنت روایات کے مسئلہ میں -خواہ وہ ابو نعیم کی روایت ہو یا پھر کسی دوسرے کی - اہل علم کی طرف رجوع کرتے ہیں ۔اور ان اسناد کی جانچ پرکھ کرتے ہیں جن کے راویوں کے احوال کی معرفت سے روایت کا سچ یا جھوٹ واضح ہوسکے۔ کیا اس کے سارے راوی ثقہ ہیں یا نہیں ؟پھر ہم حدیث کے دوسرے شواہد تلاش کرتے ہیں ؛ اور دیکھتے ہیں کہ روایات کس چیز پردلالت کرتی ہیں ۔ہمارے ہاں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا کسی دوسرے کے فضائل میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جو چیز ثابت ہوتی ہے ہم اس کی تصدیق کرتے ہیں ‘ اور جوجھوٹ ہوتی ہے ؛ ہم اسے رد کردیتے ہیں ۔ہم سچ بات لے کر آتے ہیں او رسچائی کی تصدیق کرتے ہیں ۔نہ ہی جھوٹ بولتے ہیں اور نہ ہی سچے کو جھوٹا کہتے ہیں ۔ ائمہ اہل سنت کے ہاں یہ قاعدہ معروف ہے ۔
پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر جھوٹے بہتان گھڑے ؛ اور حق بات کو جھٹلائے؛ تو ہم پر واجب ہوتا ہے کہ ہم اسے جھٹلائیں ؛ اور اس کی حق بات کی نفی کو رد کریں ۔جیسا کہ ہم مسیلمہ کذاب اور دوسرے جھوٹے لوگوں او رانبیاء کرام کی تکذیب کرنے والوں کو جھٹلاتے ہیں ؛ اور رسولوں پر ایمان لانے والوں اور ان کی تصدیق کرنے والوں کی تصدیق کرتے ہیں ۔
دوسری بات:....محدثین اور اہل علم کا شیعہ مصنف کی پیش کردہ -اس روایت کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے۔مذکورہ بالا روایت اور اس کے علاوہ دیگر جن روایات کے بارے میں ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ روایات موضوع ہیں ؛ ان کے بارے میں ہمارا دوٹوک مؤقف یہی ہے کہ یہ روایات من گھڑت ہیں ۔
ہم اس اللہ کی قسم أٹھاتے ہیں جس کے علاوہ کوئی معبود برحق نہیں ! ہم یقینی طور پر بغیر کسی شک و شبہ کے یہ جانتے ہیں اور ہمارے پاس اس کا واضح علم موجود ہے جس کو ہمارے دلوں سے زائل نہیں کیاجا سکتا۔اور ہم جانتے ہیں کہ روایت جھوٹ ہے؛ یہ حضرت ابوہرہ رضی اللہ عنہ پر بہتان باندھا گیا ہے، آپ نے ایسی کوئی روایت بیان نہیں کی۔ یہی حال اس طرح کی ان دوسری روایات کا بھی ہے جن کے متعلق ہم کہتے ہیں کہ یہ موضوع ہیں ۔اور جو بھی انسان علم الحدیث اور دین اسلام سے معمولی سا شغف رکھتا ہو وہ ہماری بات کو جان پرکھ سکتا ہے۔اور جو شخص علم الآثار سے بے گانہ ہے وہ ہمارے زمرہ میں داخل نہیں ۔ ہم ضعیف اقوال و آثار کو اسی طرح پہچان لیتے ہیں جس طرح ایک ماہر نقاد قسم اٹھا کر یہ کہہ سکتاہے کہ یہ سکہ کھوٹا ہے۔ اور جس کسی کو سکوں کی کوئی پہچان نہ ہو وہ ایسا نہیں کرسکتا کہ کھرے اور کھوٹے میں تمیز کرسکے۔
تیسری بات:.... اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَoوَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ لَوْ اَنْفَقْتَ مَا فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا مَّآ اَلَّفْتَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ وَ لٰکِنَّ اللّٰہَ اَلَّفَ بَیْنَہُمْ ﴾ [الأنفال ۶۲۔۶۳]
’’وہی اللہ ہے ؛اسی نے اپنی مدد سے اور مومنوں سے آپ کی تائید کی ۔ان کے دلوں میں باہمی الفت ڈال دی۔ زمین میں جو کچھ ہے اگرآپ سارے کا سارا بھی خرچ کر ڈالتے تو بھی ان کے دل آپس میں نہ ملا سکتے۔ یہ تو اللہ ہی نے ان میں الفت ڈال دی ہے ۔‘‘
یہ آیت اس بات پر نص قاطع کی حیثیت رکھتی ہے کہ اہل ایمان کے دلوں میں الفت ڈال دی گئی تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ان اہل ایمان میں سے ایک تھے۔ آپ کے بہت سارے دل نہیں تھے کہ ان میں الفت ڈالی گئی ہوتی۔ مؤمنون مؤمن کی کی جمع ہے۔یہ صریح نص ہے ؛ اس میں یہ احتمال تک نہیں ہے کہ اس سے مراد کوئی ایک متعین شخص ہوگا۔تو پھر یہ کہنا کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ اس سے مراد صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ؟
چوتھی بات:....شیعہ سے کہا جائے گا کہ: یہ ایک بدیہی بات تواتر کے ساتھ معلوم ہے کہ دین اسلام کا قیام صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اعانت کا رہین منت نہ تھا۔ بیشک حضرت علی رضی اللہ عنہ شروع میں اسلام لائے؛ اس وقت اسلام بہت کمزور تھا۔ اگر لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہدایت اور ہجرت و نصرت نہ ہوتی توصرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تائیدسے کچھ بھی نہ بنتا۔ لوگ نہ تو صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر اسلام لائے تھے؛ اور نہ ہی آپ کی وجہ سے ہجرت و نصرت کی تھی ۔ اور نہ ہی مکہ یا مدینہ میں دعوتِ اسلامی کی نشرو اشاعت کی کوئی ایسی ذمہ داری حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر تھی جیسی ذمہ داری حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے کندھوں پر تھی۔اور نہ ہی کسی نے یہ نقل کیا ہے کہ سابقین اولین میں سے کسی ایک نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر اسلام قبول کیاہو؛نہ ہی مہاجرین میں سے اور نہ ہی انصار میں سے ۔ بلکہ صحابہ کرام سے کسی بھی [قابل ذکر] انسان نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول نہیں کیا۔لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو یمن میں مبعوث کیا تو پھر جن لوگوں کے مقدر میں ہدایت تھی انہوں نے آپ کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا۔ وہاں پر جن لوگوں نے بھی اسلام قبول کیا؛ وہ صحابہ نہیں ہیں ۔جب کہ بڑے بڑے اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پر اسلام لائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نہ ہی مشرکین کو دعوت دیتے تھے اورنہ ہی ان سے مناظرہ کرتے تھے؛ جیسا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ انہیں دعوت دیتے اور ان سے مناظرے کرتے ۔اور مشرکین آپ سے ایسے نہیں ڈرتے تھے جیسے ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما سے ڈرتے تھے۔
بلکہ حدیث کی تمام کتب ؛صحاح ؛ مسانید؛ اور مغازی میں ثابت ہے ؛ اور لوگوں کااس پر اتفاق ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر جب مسلمان منہ پھیر کر بھاگ گئے تو اس وقت ؛ توابوسفیان نے ایک بلند جگہ پر چڑھ کر پکارا:
’’ اے مسلمانو!کیا محمد زندہ ہیں ؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خاموش رہو؛ جواب نہ دو۔
پھر کہنے لگا :اچھا ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر زندہ ہیں ؟ آپ نے فرمایا: چپ رہو جواب مت دو۔
پھر کہا :اچھا خطاب کے بیٹے عمر زندہ ہیں ؟پھر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سب مارے گئے؛ اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا؛ اور کہنے لگے: او دشمن خدا!تو جھوٹا ہے اللہ نے تجھے ذلیل کرنے کے لیے ان کو قائم رکھا ہے۔ ابوسفیان نے نعرہ لگایا: اے ہبل! تو بلند اور اونچا ہے؛ ہماری مدد کر۔
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم بھی جواب دو؛ پوچھا :کیا جواب دیں ؟ فرمایا :کہو اللہ بلند و بالا اور بزرگ ہے۔‘‘
ابوسفیان نے کہا :ہماری مدد گار عزی ہے اور تمہارے پاس کوئی عزی نہیں ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اس کو جواب دو۔‘‘
پوچھا :کیا جواب دیں ؟ فرمایا :کہو :’’اللہ ہمارا مددگار ہے، تمہارا مددگار کوئی نہیں ۔‘‘
ابوسفیان نے کہا: بدر کا بدلہ ہوگیا لڑائی ڈول کی طرح ہے ہار جیت رہتی ہے۔ کہا: تم کو میدان میں بہت سی لاشیں ملیں گی جن کے ناک کان کٹے ہوں گے میں نے یہ حکم نہیں دیا تھا اور نہ مجھے اس کا افسوس ہے۔
[البخاری:ج: دوم:ح۱۲۳۶]
یہ اس وقت میں مشرکین کے لشکرکاقائد ہے ؛ یہ صرف نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے بارے میں پوچھ رہا ہے ۔اگران لوگوں کو ان تین حضرات کے علاوہ کسی اور کا خوف ہوتا ؛ جیسے حضرت عثمان و علی اور طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم ؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید ان لوگوں سے ہوئی ہوتی جیسے ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے ہوئی ہے ؛ تو پھر ضرور ان کے بارے میں بھی ایسے ہی سوال کرتے جیسے ان حضرات کے بارے میں سوال کیا تھا ۔کیونکہ سوال کرنے کا مقتضی اپنی جگہ پر باقی ہوتا ۔اور سوال کرنے میں کوئی مانع بھی موجود نہیں تھا۔اس لیے کہ قدرت اور داعی کی موجود گی میں جب صارف بھی منتفی ہو تو پھر فعل کا بجالانا واجب ہوجاتا ہے۔
پانچویں وجہ:....اسلام کی نشرواشاعت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا انفرادی طور پر کوئی خاطر خواہ اثر نہیں تھا۔جتنا اثر آپ کا تھا اتنا ہی آپ جیسے دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا بھی اثر و کردار تھا۔ جبکہ بعض صحابہ کے اثرات حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثرات سے بہت زیادہ اوربلیغ تھے۔جن لوگوں کو صحیح تاریخ وسیرت سے معرفت ہے ؛ وہ اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں ۔
ہاں جو لوگ جھوٹ بولنے کے عادی ہیں ‘ اور طرقیہ کے راستے پر چلتے ہیں تو [پھر ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ ] جھوٹ کا دروازہ کھلا ہے۔ یہ جھوٹ ایسے ہی ہوگا جیسے اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولنا ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہٗ ﴾ [العنکبوت۶۸]
’’اور اس سے بڑا ظالم کون ہوگا؟ جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھے یا جب حق اس کے پاس آجائے وہ اسے جھٹلائے۔‘‘
مجموعی طور پر وہ مغازی جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ قتال کی نوبت پیش آئی ان کی تعداد نو ہے ۔اور تمام غزوات کی مجموعی تعداد ستائیس ہے۔ جب کہ سرایا کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ ان کی تعدادستر(۷۰) تک پہنچتی ہے۔
اتنے غزوات اور سرایا میں مجموعی طور پر قتل کیے جانے والے کفار کی کل تعداد ایک ہزار سے کچھ کم و بیش بنتی ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا دسواں یا بیسواں حصہ کفار کو بھی قتل نہیں کیا۔جب کہ اکثر سرایا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نہیں جایا کرتے تھے۔ جب کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کی فتوحات میں بھی آپ نے بہت کم ہی حصہ لیا ہے۔ نہ آپ نہ عثمان ؛ نہ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم ؛ ہاں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ شام کی طرف نکلتے تو آپ بھی ان کے ساتھ نکلا کرتے تھے۔ البتہ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے مصر کی فتح میں حصہ لیا تھا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے قادسیہ کی فتح میں حصہ لیا تھا؛ اور حضرت ابو عبیدہ نے شام کا علاقہ فتح کیا تھا۔
تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تائید صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک شخص کے ساتھ کی گئی تھی ؛ جب کہ حقیقت حال یہ ہے ۔ تو پھر اہل ایمان سابقین اولین اور مہاجرین وانصار کے ذریعہ ملنے والی تائید کہاں گئی؟ اور وہ تائید کہاں گئی جن لوگوں نے ببول کے درخت کے نیچے آپ کے ہاتھوں پر بیعت رضوان کی تھی؟
بدر کے موقع پر مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی۔ جب کہ احد کے موقع پر سات سو کے قریب تھے۔خندق کے موقع پر ہزار سے زیادہ تھے ؛ بیعت رضوان کے دن چودہ سو کے لگ بھگ تھے ۔ یہی صحابہ کرام تھے جنہوں نے خیبر فتح کیا۔فتح مکہ کے موقع پر دس ہزار کے قریب صحابہ کرام تھے؛ غزوہ حنین میں بارہ ہزار تھے ؛ دس ہزار کا مدنی لشکر اور دوہزار آزاد کردہ اہل مکہ [طلقاء]۔جب کہ تبوک کے موقع پر یہ شمار ممکن نہ رہا ؛ کہا جاتا ہے کہ اس وقت تیس ہزار سے زیادہ صحابہ تھے۔ جب کہ حجۃ الوداع کے موقع پر ان کو شمار کرنا ممکن نہ رہا ۔آپ کے زمانے میں ہی بہت سارے لوگ ایسے تھے جو ایمان لائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیدار سے شرفیاب ہوئے ؛ اور ان کاشمار بھی صحابہ میں ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ان لوگوں کے ذریعہ یمن اور دوسری جگہوں میں آپ کی مدد فرمائی۔یہ تمام لوگ وہ اہل ایمان تھے جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی تائید کی۔بلکہ قیامت تک جو بھی ایمان لائے گااور اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا ‘ وہ اس حکم میں داخل شمار ہوگا۔