Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمۃ اللہ کا فتوٰی


جو لوگ ایمان و اسلام کا اظہار کرتے ہیں، اور نماز، روزہ وغیرہ کے پابند ہیں مگر اسلام کے کسی قطعی اور یقینی حکم میں تاویلاتِ باطلہ کر کے تصریحات کتاب وسنت اور اجماع امت کے خلاف اس کا مفہوم بدلتے ہیں، ان کو کافر و مرتد قرار دینے پر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کلمہ گو اہلِ قبلہ ہیں اور کلمہ گو اہلِ قبلہ کی تکفیر باجماع امت ممنوع ہے۔۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس جگہ اہلِ قبلہ کے مفہوم کو واضح کیا جائے ۔ اصل اس باب میں حضور اکرمﷺ کی دو حدیثیں ہیں۔ ایک وہ جو بخاری و مسلم وغیرہ میں اطاعت امراء کے بارے میں سیدنا انسؓ سے منقول ہے، اس کے الفاظ یہ ہیں من شهدان لا اله الا الله واستقبل قبلتنا وصلى صلوتنا وأكل ذبيحتنا فهو مسلم الاان ترواكفر أبواهحا عندكم من الله فيه برهان۔

 ترجمہ: جو شخص لا اله الا اللہ کی شہادت دے، اور ہمارے قبلہ کی استقبال کرے، اور ہماری نماز پڑھے، اور ہمارا ذبیحہ کھائے تو یہی مسلمان ہے مگر یہ کہ دیکھو تم کفر صریح تمہارے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس میں دلیل ہو ۔ 

اور دوسری روایت ابو داؤد کتاب الجہاد میں ہے۔ جس کا متن یہ ہے ۔ عن انس قال قال رسول الله ثلاث من أصل الإيمان الكف عمى قال لا اله الا الله ولا تنظر بذنب ولا تخرجه من الاسلام يعمل۔

ترجمہ: سیدنا انسؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ تین چیزیں اصل ایمان ہیں، رکنا اس شخص سے جو لا الہ الا اللہ کہے اور یہ تکفیر کرو اس کی کسی گناہ کے سبب ،اور نہ اسے خارج از اسلام قرار دو کسی عمل کے سبب ۔

اس میں سے پہلی حدیث میں تو ختم کلام پر خود ہی تصریح کر دی گئی ہے کہ کلمہ گو کو اس وقت تک کافر نہ کہا جائے گا جب تک اس سے کوئی قول یا فعل موجبِ کفر صریح اور ناقابلِ تاویل یقینی طور پر ثابت نہ ہو جائے ۔

اور دوسری حدیث شریف کے الفاظ میں اس کی تصریح ہے کہ کسی گناہ یا عمل کی وجہ سے خواہ وہ کتنا ہی سخت ہو، کافر نہ کہا جائے گا لیکن بااتفاق علمائے امت گناہ سے مراد اس جگہ کفر کے سوا دوسرے گناہ ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ عملی خرابیاں فسق و فجور کتنا ہی زیادہ ہوں ان کی وجہ سے اہلِ قبلہ کو کافر نہ کہا جائے گا۔ نہ یہ کہ وہ تعلیمات اسلام کے خلاف عقائد کا اظہار بھی کرتا رہے تب بھی اس کو کافر نہ سمجھا جائے۔ 

مانعین زکوٰۃ اور مدعی نبوت مسیلمہ،کذاب اور اس کی جماعت کافر و مرتد قرار دے کر ان سے جہاد کرنے پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اجماع اس کی کھلی ہوئی شہادت ہے کہ اہلِ قبلہ جن کی تکفیر ممنوع ہے۔ اس کا مفہوم یہ نہیں کہ جو قبلہ کی طرف منہ کر لے یا نماز پڑھ لے۔ اس کو کسی عقیدہ باطلہ کی وجہ سے بھی کافر نہ کہا جائے ۔ بلکہ معلوم ہو اس کلمہ گو یا اہلِ قبلہ یہ دو اصطلاحی لفظ ہیں ان کے مفہوم میں صرف وہ مسلمان داخل ہیں جو شعائر اسلام نماز وغیرہ کے پابند ہونے کے ساتھ ساتھ موجبات کفر اور عقائد باطلہ سے پاک ہوں ۔ اہلِ قبلہ کا یہ مفہوم تمام علمائے امت کی کتابوں میں بصراحت و وضاحت موجود ہے۔ ذیل میں چند اقوال ائمہ اسلام کے پیش کئے جاتے ہیں۔ جن سے دو چیزوں کی شہادت پیش کرنا مقصود ہے۔

  1. اہلِ قبلہ کا صحیح مفہوم۔
  2.  اصل موضوع بحث پر شہادت کہ اسلام کے قطعی اور یقینی احکام میں قرآن وسنت اور اجماعِ امت سے ثابت شدہ مفہوم کے خلاف کوئی مفہوم قرار دینا بھی تکذیب رسولﷺ کے حکم میں ہے۔ اور ایسی تکذیب کو زندقه والحاد کہا جاتا ہے۔ 

محقق ابن امیر الحاجؒ جو حافظ ابن حجرؒ اور شیخ ابن ہمامؒ کے شاگرد اور محقق ہیں۔ شرح تحریر الاصول میں اہلِ قبلہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

هو المرافق على ماهو من ضروريات الاسلام كحدوث العالم وحشر الاجساد من غير ان يصدر عنه شيء من موجبات الكفر قطعا من اعتقاد راجع الى وجود الله غير الله تعالى او حلوله في۔

بعض اشخاص الناس او انكار نبوة محمدﷺ او ذمه او استخفافہ وغیر ذٰلک المخالف فى الأصول صراحا (الی ان قال) وقد ظهر من هذا ان عدم تكفير أهل القبلة بذنب ليس على عمومه الاان يحمل الذنب على ماليس بكفر فيخرج الكفر به كما اشار اليه السبكيؒ

ترجمہ: اہلِ قبلہ وہ ہے جو موافق ہو تمام ضروریاتِ اسلام کے۔ جیسے عالم کا حدوث ، اور حشر اجساد، اس طرح ہے کہ اس سے کوئی چیز موجبات کفر میں سے صادر نہ ہو مثلاً ایسا اعتقاد جو مفضی ہو حق تعالیٰ کے ساتھ دوسرے خدا کے ماننے کو اور خدا تعالیٰ کے کسی شخص میں حلول کرنے کو یا نبوة محمدﷺ کے انکار کو یا آپﷺ کی مذمت یا آپﷺ کے استخفاف کو۔ اور اسی طرح کی اور باتیں (یہاں تک کہ) مصنف فرماتے ہیں کہ اس سے ظاہر ہو گیا کہ اہلِ قبلہ کی کسی گناہ کی وجہ سے تکفیر نہ کرنے کی حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے۔ ہاں اگر گناہ سے مراد کفر کے علاوہ لیا جاے۔ جیسا کہ علامہ سبکیؒ نے اس طرف اشارہ فرمایا ہے تو عموم مراد ہو سکتا ہے۔

نیز شرح مقاصد میں عدم تکفیر اہلِ قبلہ کی توضیح کرتے ہوئے لکھا ہے قال المبحث السابع في حكم مخالف الحق من أهل القبلة ليس بكافر مالم يخالف ماهو من ضروريات الدين کحدوث العالم وحشر الاجساد قال الشارح: ومعناه ان الذين اتفقوا على ماهو من ضروريات الاسلام كحدوث العالم وحشر الاجساد و ما يشبهه ذلك واختلفوا في أصول سواها كمسئلة الصفات وخلق الافعال وعموم الإرادة وقدم الكلام وجواز الرؤية ونحو ذلك مما لا نزاع فيه ان المحقق فيه واحد هل يكفر المخالف للحق بذلك الاعتقاد و بالقول به ام لا ، فلا نزاع في كفر اهل القبلة المواظب طول العمر على الطاعات باعتقاد قدم المعالم ونفى الحشر ونفي العلم بالجزئيات ونحو ذلك و كذا بصدورشی ، من موجبات الكفر عنه۔

ترجمہ: ساتواں مبحث اس شخص کے حکم میں جو مخالف حق ہو، اہلِ قبلہ میں سے کہ وہ کافر نہیں، جب ایک مخالفت نہ کرے کسی چیز کی ضروریاتِ دین میں سے جیسے عالم کا حادث ہونا اور حشر و نشر۔

شارح فرماتے ہیں اور معنیٰ اس کے یہ ہیں کہ جو لوگ ضروریاتِ اسلام پر تو متفق ہیں، جیسے حدوث عالم اور حشر وغیرہ، اور ان کے سوا دوسرے اصول میں اختلاف کرتے ہیں۔ جیسے مسئلہ صفات اور خلق افعال، اور عموم ارادہ اور کلام اللہ کا قدیم ہونا ، اور روئیۃ اللہ کا جواز وغیرہ جس میں کوئی نزاع اس امر میں نہیں ہے کہ اس میں حق ایک ہی ہے۔ تو کیا اس اعتقاد اور اس کا قائل ہونے کی وجہ سے اس مخالفِ حق کی تکفیر کی جائے گی یا نہیں؟ سو کوئی اختلاف نہیں ہے ایسے اہلِ قبلہ کی تکفیر میں جو تمام عمر طاعات پر مداومت کرنے کے ساتھ قدم عالم اور نفی حشر اور علم بالجزئیات وغیرہ کا قائل ہو، اور اسی طرح موجباتِ کفر میں سے کسی چیز کے صدور سے اس کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ۔

اور حضرت ملا علی قاریؒ کی شرح فقہ اکبر میں ہے اعلم ان المراد باهل القبلة الذين اتفقوا على ما هو من ضروريات الدين كحدوث العالم وحشر الاجساد و علم الله تعالى بالجزئيات وما اشبه ذلك من المسائل المهمات فمن واظب طول عمره على الطاعات والعبادات مع اعتقاد قدم العالم ونفى الحشر أو على علمه سبحانه وتعالى بالجزئيات لا يكون من أهل القبلة وان المراد باهل القبلة عند اهل السنة انه لا يكفر مالم يوجد شي ، من امارات الكفر ولم يصدر عنه شي ، من موجباته۔

ترجمہ: جاننا چاہٸے کہ اہلِ قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین پر متفق ہیں، جیسے حدوث عالم اور حشر و نشر اور علم اللہ تعالیٰ بالجزئیات وغیرہ۔ پس جو شخص تمام عمر طاعات و عبادات کا پابند ہونے کے باوجود قدم عالم اور نفی حشر یا نفی علم اللہ تعالیٰ بالجزئیات کا معتقد ہوں، وہ اہلِ قبلہ نہیں ہے۔ اور مراد اہلِ قبلہ سے اہل سنت کے نزدیک یہ ہے کہ اس کی تکفیر اس وقت تک نہ کی جائے گی، جب تک علامات کفر میں سے کوئی چیز اس میں نہ پائی جائے۔ اور جب تک اس سے موجباتِ کفر میں سے کوئی بات سر زد نہ ہو۔

اور فخر الاسلام بزدویؒ کی کشف الاصول حساب الاجماع جلد، 3 صفحہ، 238 میں، نیز امام سیف الدین آمدی کی کتاب الاحكام في أصول الاحكام میں اور غاية التحقيق شرح اصول اسامی میں ہے۔ ان غلا فیه (اي في هواه) حتى وجب اكفاره به لا يعتبر خلافه ووفاقه ايضاً لعدم دخوله في مسمى الأمة المشهود لها بالعصمة وان صلى الى القبلة واعتقد نفسه مسلما لان الأمة ليست عبارة عن المصلين إلى القبلة بل عن المؤمنين وهو كافر وان كان لا يدرى انه كافر۔

ترجمہ: اگر غلو کیا اپنی خواہشات نفسانیہ میں حتیٰ کہ واجب ہو گئی اس کی تکفیر اس کی وجہ سے اجتماع میں اس کے خلاف یا مخالفت کا اعتبار نہ ہوگا ، اوراگرچہ وہ قبلہ کی طرف نماز پڑ ھتا ہو، اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو ۔ کیونکہ اُمت قبلہ کی طرف نماز پڑھنے والوں کا نام نہیں ہے، بلکہ مؤمنین کا نام ہے۔ اور وہ کافر ہے، اگرچہ اس کو اپنے کافر ہونے کا علم نہ ہو۔

اور رد المحتار باب الاسامة میں علامہ شامیؒ نے بحوالہ شرح تحریر الاصول ابن ہمامؒ لکھا ہے لا خلاف في كفر المخالف في ضروريات الاسلام وان كان من اهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات كمافی شرح التحرير۔

ترجمہ: جو شخص ضروریاتِ اسلام کا مخالف ہو، اس کے کفر میں کوئی اختلاف نہیں ، اگرچہ اہلِ قبلہ میں سے ہو، اور تمام عمر طاعات پر پابند رہے ۔

اور البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے والحاصل ان المذهب عدم تكفير احد من المخالفين فيماليس من الأصول المعلومة من الدين ضرورة۔

ترجمہ: اور حاصل یہ ہے کہ مذہب یہ ہے کہ منافقین میں سے کسی کی تکفیر نہ کی جائے ، جو اصول دین کے سوا کسی چیز میں مخالف ہیں۔

اور شرح عقائد نسف کی شرح نبراس میں ہے

 اهل القبلة في اصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين أي الأمور التي علم ثبوتهما في الشرع واشتهر فمن اذكر شيئا من الضروريات كحدوث العلم وحشر الاجساد وعلم الله سبحانه و تعالي بالجزئيات وفرضية الصلوة والصوم لم يكن من أهل القبلة ولو كان مجاهداً بالطاعات وكذلك من باشر شيئاً من امارات التكذيب كسجود المصنم والاهانة بامر شرعي والاستهزاء عليه فليس من أهل القبلة ومعنى عدم تكفير اهل القبلة ان لا يكفر بارتكاب المعاصي ولا بانكار الأمور الخيفة غير المشهورة۔

ترجمہ: اہلِ قبلہ متکلمین کی اصطلاح میں وہ ہے، جو تمام ضروریاتِ دین کی تصدیق کرتا ہو، یعنی ان امور کی جن کا ثبوت شریعت میں معلوم و مشہور ہے۔ پس جو انکار کرے کسی چیز کا ضروریاتِ دین میں سے جیسے حدوث عالم اور حشر اور علم اللہ تعالیٰ یا جزئیات اور فرضیت نماز و روزہ تو وہ اہلِ قبلہ سے نہ ہوگا، اگرچہ وہ طاعات کا پابند ہو۔ اور اسی طرح وہ شخص بھی اہلِ قبلہ میں سے نہ ہو گا جو کسی ایسے فعل کا ارتکاب کرے جو کہ تکذیب کی کھلی علامت ہے، جیسے بت کو سجدہ کرنا یا کسی ایسے امر کا ارتکاب کرے کہ جس سے امر شرعی کا استہزا اور اہانت ہو، وہ اہلِ قبلہ نہیں ہے۔ اور اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ارتکاب معاصی سے اس کی تکفیر نہ کی جائے یا امور خفیہ غیر مشہورہ کے انکار سے اس کی تکفیر نہ کی جائے۔ اور علم عقائد کی معروف و مستند کتاب مواقف میں ہے:

لا یکفر اهل القبلة الأفيما فيه انكار ما علم مجينه به بالضرورة او اجمع عليه کاستحلال المحرمات۔

ترجمہ: اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کی جائے گی مگر اس صورت میں کہ اس میں ضروریاتِ دین کا انکار یا ایسی چیز کا انکار لازم آئے جس پر اجماع ہو چکا ہے۔ جیسے حرام اشیاء کو حلال سمجھنا۔

اور شرح فقہ اکبر میں ہے ولا يخفى ان المراد بقول علمائنا لا يجوز تكفير اهل القبلة بذنب ليس مجرد التوجه إلى القبلة فان الغلاءة من الروافض الذين يدعون أن جبرئيل عليه السلام غلط في الموحى فان الله تعالى ارسله الى علىؓ وبعضهم قالوانه الٰه وان صلوا الى القبلة ليسوا بمؤمنين وهذا هو المراد بقوله صلى الل عليه وسلم من صلى صلوتنا وأكل ذبيحتنا فذلك مسلم۔

ترجمہ: یہ بات مخفی نہیں ہے کہ ہمارے علماء کے اس قول کی مراد کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر کسی گناہ کے سبب جائز نہیں محض قبلہ کی طرف رخ کر لینے کی نہیں ۔ کیونکہ بعض متشدد روافض ایسے ہیں جو مدعی ہیں کہ حضرت جبرائیلؑ نے وحی لانے میں غلطی کی۔

ان کو حق تعالیٰ نے ان کو سیدنا علیؓ کے پاس بھیجا تھا۔ اور بعض روافض کہتے ہیں کہ سیدنا علیؓ معبود ہے۔ یہ لوگ اگرچہ قبلہ کی طرف نما ز پڑھتے رہیں مگر مؤمن نہیں۔ اور یہی مراد ہے نبی کریمﷺ کے فرمان کی کہ جو ہماری نماز پڑھے اور ہمارا ذبیحہ کھائے۔ تو یہی مسلم ہے۔

اور کلیات ابوالبقاء میں ہے فلا تكفر اهل القبلة مالم يأت بما يوجب الكفر وهذا من قبيل قوله تعالى ان الله يغفر الذنوب جميعاً مع ان الكفر غير مغفور ومختار جمهور اهل السنة من الفقهاء والمتكلمين عدم اكفار اهل القبلة من المبتدعة المأولة في غير الضرورية لكون التاويل شبهة كما في خزانة الجرجاني والمحيط البرهاني و احكام الرازي واصول البزدوي ورواه الكرخي والحاكم الشهيد عن الامام ابي حنيفة والجرجاني عن الحسن بن زياد وشارح المواقف والمقاصد والأمدى عن الشافعي والأشعري لا مطلقات۔

ترجمہ: پس ہم اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کریں گے، جب تک ان سے موجبات کفر کا صدور نہ ہو۔ اور یہ اس طرح ہے جیسے حق تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو بخش دیتا ہے باوجود اس کے کی کفر غیر مغفور ہے۔ اور مذہب جمہور اہلِ سنت کا فقها و متکلمین میں سے جو بدعتی تاویلات کرتے ہیں غیر ضروریاتِ دین میں ان کے متعلق یہ ہے کہ ان کی تکفیر نہ کی جائے ، جیسے کہ خزانہ جرجانی اور محیط برھانی، اورا حکام رازی، اور اصول بزدوی میں ہے۔ اور یہی روایت کیا ہے کرخی اور حاکم شہید نے امام ابو حنیفہؒ صاحب سے اور جر جانی نے حسن بن زیاد سے اور شارح مواقف اور المقاصد اور آمدیؒ نے شافعیؒ سے اور اشعریؒ ہے ۔

اور فتح المغيث شرح الفية الحديث میں ہے:

اذلا یکفر احدا من أهل القبلة الابانكار قطعي من الشريعة۔

ترجمہ: ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کرتے، مگر بسبب انکار کے کسی قطعی حکم شرع کا۔

اور امام ربانی مجد والف ثانیؒ نے اپنے مکتوبات میں تحریر فرمایا ہے وچوں ابی فرقة مبتدعه اهل قبله اند در تکفیر آنها جرأت نیاید نمود تا زمانی که انکار ضروریات دینیه نمانید ودر متواترات احکام شرعیه نکنند و قبول ما علم مجينه من الدين بالضرورة نكنند۔

ترجمہ: اور چونکہ یہ فرقہ مبتدعہ اہلِ قبلہ ہیں ، اس لئے ان کی تکفیر میں جرأت نہیں کرنی چاہئے، جب تک کہ یہ ضروریاتِ دین کا انکار اور متواترات احکام شرعیہ کا رد نہ کریں ، اور ضروریاتِ دین کو قبول نہ کریں ۔

عقائد عضدیہ میں ہے: لا نكفر احدا من أهل القبلة الابمافيه نفى الصانع المختار او بمافيه شرك او انكار النبوة وانكار ما علم من الدين بالضرورة او انكار مجمع عليه واما غير ذلك فالقائل مبتدع وليس كافر۔

ترجمہ: ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی کی تکفیر نہیں کریں گے مگر اس سبب سے کہ اس میں حق تعالیٰ کے وجود کی نفی ہو، اور یا جس میں شرک ہو یا انکار نبوت ہو یا ضروریاتِ دین کا انکار ہو، یا کسی مجمع علیہ امر کا انکار ہو۔ اور اس کے سوا پس اس کا قائل مبتدع ہے کافر نہیں۔

(جواہر الفقه: جلد، 1 صفحہ، 87)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

یہ بات عام طور پر مشہور ہے کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر جائز نہیں اور کتب فقہ و عقائد میں بھی اس کی تصریحات موجود ہیں نیز بعض احادیث سے بھی یہ مسلہء ثابت ہے۔

کمارواه أبو داود في الجهاد عن انس قال قال رسول اللهﷺ ثلاث من أصل الإيمان الكف عمن قال لا اله الا الله ولا تكفر بذنب ولا تخرجه من الإسلام يعمل۔

ترجمہ: سیدنا انسؓ فرماتے ہیں کہ حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ایمان کی اصل تین چیزیں ہیں ، ایک یہ کہ جو شخص کلمہ لا الہ الا اللہ کا قائل ہو اس کے قتل سے باز رہو، اور کسی گناہ کی وجہ سے اس کو کافر مت کہو اور کسی عمل بد کی وجہ سے اُس کو اسلام سے خارج نہ قرار دو۔

اس لئے مسئلہ زیر بحث میں شبہ پیدا ہو جاتا ہے کہ جو شخص نماز روزہ کا پابند ہے وہ اہلِ قبلہ میں داخل ہے، تو پھر بعض عقائد میں خلاف کرنے یا بعض احکام کے تسلیم نہ کرنے سے اس کو کیسے کافر کہا جا سکتا ہے؟ اور اسی شبہ کی بنیاد پر آج کل بہت سے مسلمان قسم ثانی کے مرتدین یعنی ملحدین و زنادقہ کو مرتد و کافر نہیں سمجھتے، اور یہ ایک بھاری غلطی ہے جس کا صدمہ براہِ راست اسلام کے اصول پر پڑتا ہے۔ کیونکہ میں اپنے کلام سابق میں عرض کر چکا ہوں کہ اگر قسم دوم کے ارتداد کو ارتداد نہ سمجھا جائے تو پھر شیطان کو بھی کافر نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے ضرورت ہوئی کہ اس شبہ کے منشاء کو بیان کر کے اس کا شافی جواب ذکر کیا جائے اصل اس کی یہ ہے کہ شرح فقہ اکبر وغیرہ میں امام اعظم حضرت امام ابوحنیفہؒ سے اور حواشی شرح عقائد میں شیخ ابو الحسن اشعریؒ سے اہلِ سنت والجماعت کا یہ مسلک نقل کیا گیا ہے:

ومن قواعد أهل السنة والجماعة أن لا يكفر احد من أهل القبلة كذا في شرح العقائد النسفية صفحہ، 121 وفي شرح التحرير (جلد:3:صفحہ:318)و سياقهما عن أبي حنيفة ولا نكفر اهل القبلة بذنب انتھيٰ فقیدہ بالذنب في عبارة الامام واصله في حديث ابي داٶد كما مراتها۔

ترجمہ: اہلِ سنت و الجماعت کے قوائد میں سے ہے کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کی تکفیر نہ کی جائے (شرح عقائد نسفی) اور شرح تحریر میں ہے کہ یہ مضمون امام اعظم امام ابوحنیفہؒ سے منقول ہے کہ ہم اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہیں کہتے ہیں اس میں بذنب کی قید موجود ہے اور غالباً یہ قید حدیث ابوداؤ کی بناء پر لگائی گئی ہے جو ابھی گذر چکی ہے۔ جس کا صحیح مطلب تو یہ ہے کہ کسی گناہ میں مبتلا ہو جانے کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر مت کہو خواہ کتنا ہی بڑا گناہ ہو (بشرطیکہ کفر و شرک نہ ہو) کیونکہ گناہ سے مراد اس جگہ پر وہی گناہ ہے جو حد کفر تک نہ پہنچا ہو ۔

کمافی كتاب الإيمان لابن تيميةؒ حيث قال ونحن اذا قلنا أهل السنة متفقون على أن لا يكفر بالذنب فانما نريد به المعاصی كالزنا والشراب انتهى وأوضحه القونوي في شرح العقيدة الطحاوية۔

ترجمہ: جیسا کہ حافظ ابن تیمیہؒ کی کتاب الایمان میں ہے کہ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ اہلِ سنت و الجماعت اس پر متفق ہیں کہ اہلِ قبلہ میں سے کسی شخص کو کسی گناہ کی وجہ سے کافر نہ کہیں تو اس جگہ گناہ سے ہماری مراد معاصی مثل زنا و شراب خوری و غیره ہوتے ہیں اور علامہ قونوی نے عقیدہ طحاوی کی شرح میں اس مضمون کو خوب واضح کر دیا ہے۔

ورنہ پھر اس عبارت کے کوئی معنیٰ نہیں رہتے اور لفظ بذنب: کے اضافہ کی (جیسا کہ فقہ اکبر اور شرح تحریر کے حوالہ سے اوپر نقل ہوا ہے) کوئی وجہ باقی نہیں رہتی۔

اب شبہات کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ بعض علماء کی عبارتوں میں اختصار کے مواقع میں بذنب کا لفظ بوجہ مشہور و معروف ہونے کے چھوڑ دیا گیا۔ اور مسلہ کا عنوان عدم تکفیر اہلِ قبلہ ہو گیا۔ حدیث وفقہ سے نا آشنا اور فرض متکلم سے نا واقف لوگ یہاں یہ سمجھ بیٹھے کہ جو شخص قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ لے اس کو کافر کہنا جائز نہیں خواہ کتنے ہی عقائد کفریہ رکھتے ہوں، اور اقوال کفریہ بکتا پھرے۔ اور یہ بھی خیال نہ کیا کہ اگر یہی لفظ پرستی ہے تو اہلِ قبلہ کے لفظوں سے تو یہ بھی نہیں ملتا کہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھے بلکہ ان لفظوں کا مفہوم تو اس سے زائد نہیں کہ صرف قبلہ کی طرف منہ کر لے خواہ نماز بھی پڑھے یا نہ پڑھے۔ اگر یہ معنیٰ مراد لئے جائیں تو پھر دنیا میں کوئی شخص کافر ہی نہیں رو سکتا، کیونکہ کبھی نہ کبھی ہر شخص کا منہ قبلہ کی طرف ہو ہی جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ لفظ اہلِ قبلہ کی مراد تمام اوقات واحوال کا استیعاب باستقبال قبلہ نہیں۔

خوب سمجھ لیجئے!

کہ لفظ اہلِ قبلہ ایک شرعی اصطلاح ہے، جس کے معنیٰ اہل اسلام کے ہیں، اور اسلام وہی ہے جس میں کوئی بات کفر کی نہ ہو۔ لہٰذا یہ لفظ اہلِ قبلہ صرف اُن لوگوں کے لئے بولا جاتا ہے جو تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کریں، اور حضور اکرمﷺ کے تمام احکام پر (بشرط ثبوت) ایمان لائیں، نہ ہر اس شخص کیلئے جو قبلہ کی طرف منہ کر لے۔ جیسے دنیا کی موجود عدالتوں میں اہل کار کا لفظ صرف اُن لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے جو باضابطہ ملازم اور قوانین ملازمت کا پابند ہو۔ اس کے مفہوم لغوی کے موافق ہر کام والے آدمی کو اہل کار نہیں کہا جاتا۔ اور یہ جو کچھ لکھا گیا علم فقہ و عقائد کی کتابیں تقریبا تمام اس پر شاہد ہیں جن میں سے بعض عبارات درج ذیل ہیں۔

حضرت ملا علی قاریؒ شرح فقہ اکبر میں فرماتے ہیں 

اعلم ان المراد باهل القبلةالذين اتفقوا على ما هو من ضروريات الدين لحدوث العالم وحشر الاجساد و علم الله تعالى بالجزئيات وما اشبه ذلك من المسائل المهمات فمن واظب طول عمره على الطاعات والعبادات مع اعتقاد قدم العالم ونفى الحشر أو نفي علمه سبحانه وتعالى بالجزئيات لا يكون من أهل القبلة وان المراد باهل القبلة عند اهل السنة انه لا يكفر مالم يوجد شيء من امارات الكفر ولم يصدر عنه شي ، من موجباته۔

ترجمہ: خوب سمجھ لو کہ اہلِ قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین پر متفق ہیں، جیسے حدوث عالم اور حشر و نشر اور علم اللہ تعالیٰ بالجزئیات وغیرہ۔

پس جو شخص تمام عمر طاعات و عبادات کا پابند ہونے کے باوجود قدم عالم اور نفی حشر یا نفی علم اللہ تعالیٰ بالجزئیات کا معتقد ہو، وہ اہلِ قبلہ نہیں ہے۔ اور مراد اہلِ قبلہ سے اہلِ سنت کے نزدیک یہ ہے کہ اس کی تکفیر اس وقت تک نہ کی جائے گی، جب تک علاماتِ کفر میں سے کوئی چیز اس میں نہ پائی جائے۔ اور جب تک اس سے موجباتِ کفر میں سے کوئی بات سر زد نہ ہو۔ اور شرح مقاصد مبحث سابع میں مذکورا الصدر مضمون کو مفصل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے 

فلا نزاع في كفر اهل القبلة المواظب طول العمر على الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفى الحشر وعلى العلم بالجزئيات و نحو ذلک و کذالک بصدورشی ، من موجبات الكفر عنه۔

ترجمہ: اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اہلِ قبلہ میں سے اس شخص کو کافر کہا جائے گا جو اگرچہ تمام عمر طاعات و عبادات پر گزارے مگر عالم کے قدیم ہونے کا اعتقاد رکھے یا قیامت حشر کا یا حق تعالیٰ کے عالم جزئیات ہونے کا انکار کرے، اسی طرح وہ شخص جس سے کوئی چیز موجبات کفر میں سے صادر ہو جائے۔ اور علامہ شامی نے رد المختار باب الامة جلد اول میں حواله تحرير الاصول نقل فرمایا ہے: لاخلاف في كفر المخالف من أهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات كما في شرح التحرير۔

ترجمہ: اس میں کسی کا خلاف نہیں کہ اہلِ قبلہ میں سے جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو وہ کافر ہے اگرچہ تمام طاعات و عبادات میں گزار دے۔ اور شرح عقائد نسفی کی شرح نبراس میں ہے: اهل القبلة في اصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين أي الأمور التي علم ثبوتها في الشرع واشتهر فمن انكر شيئا من الضروريات كحدوث العلم وحشر الاجساد وعلم الله سبحانه و تعالي بالجزئيات وفرضية الصلوة والصوم لم يكن من أهل القبلة ولو كان مجاهدا بالطاعات وكذلك من باشر شيئا من امارات التكذيب كسجود الصنم والاهانة بامر شرعي والاستهزاء عليه فليس من أهل القبلة ومعنى عدم تكفير اهل القبلة ان لا يكفر بارتكاب المعاصي ولا بانكار الأمور الخيفة غير المشهورة هذا ما حققه المحققون۔

 اہلِ قبلہ متکلمین کی اصطلاح میں وہ شخص ہے جو تمام ضروریاتِ دین کی تصدیق کرے، پس جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار کرے وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں اگرچہ عبادت و اطاعت میں مجاہدات کرنے والا ہو ۔ ایسے ہی وہ شخص جو علامات کفر و تکذیب میں سے کسی چیز کا مرتکب ہو جیسے بت کو سجدہ کرنا یا کسی امر شرعی کی اہانت و استہزا کرنا ، وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں۔ اور اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ معاصی کے ارتکاب کی وجہ سے اس کو کافر نہ کہیں اور نہ ایسے اُمور کے انکار کی وجہ سے کافر کہیں جو اسلام میں مشہور نہیں یعنی ضروریاتِ دین میں سے نہیں ۔(جواهر الفقه: جلد، 1 صفحہ، 30)

ایک جگہ فرماتے ہیں:

حدیث شریف میں جو اہلِ قبلہ کی تکفیر کو منع کیا گیا ہے۔ اس کا مفہوم یہ نہیں کہ قبلے کی طرف منہ کر لے وہ مسلمان ہے، بلکہ یہ شرع اسلام کا ایک اصطلاحی لفظ ہے جو صرف ان لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے جو اسلام کے عام شعائر نماز و غیرہ مسلمانوں کی طرح ادا کرتے ہوں، اور ان سے کوئی قول و فعل ایسا سرزد نہ ہو جس سے حضور اکرمﷺ کی تکذیب ہوتی ہو۔

(جواهر الفقه: جلد، 1 صفحہ، 122)