امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چوبیسویں دلیل:
امام ابنِ تیمیہؒامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چوبیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی چوبیسویں دلیل یہ آیت قرآنی ہے:
﴿یٰٓاَیُّہَا النَّبِیُّ حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الأنفال:۶۴)
’’اے نبی! آپ کو اللہ کافی ہے اور ان مومنوں کو جو تیری پیروی کر رہے ہیں۔‘‘
ابو نعیم کا قول ہے کہ: یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی؛ یہ فضیلت صحابہ میں سے کسی اور کو حاصل نہیں ہوئی لہٰذا وہی امام برحق ہوں گے۔‘‘ [شیعہ کا بیان ختم ہوا]
جواب:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :
پہلی بات:....یہ روایت صحیح نہیں ہے۔
دوسری بات :....بیشک یہ قول حجت نہیں ہے ۔
تیسری بات : ....یہ کلام اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت بڑا بہتان ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے :
﴿حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾ (الأنفال:۶۴)
اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے کافی ہے ‘ اور ان اہل ایمان کے لیے بھی کافی ہے جو آپ پر ایمان لائے ہیں ۔وہ اکیلا اللہ ہی آپ کے لیے بھی کافی ہے اور آپ کے ماننے والے اہل ایمان کے لیے بھی کافی ہے ۔ عرب اپنے کلام میں ایسے ہی جملے استعمال کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر کہا جاتا ہے : فَحَسْبُکَ وَزَیداً درھمٌ ۔
آپ کے لیے اور زید کے لیے ایک درہم ہی کافی ہے ۔ اور جیسے شاعر کا قول ہے:
فَحَسْبُکَ وَالضُّحَّاکَ سَیْفٌ مُّہَنَّدٌ
’’تمہارے اورضحاک کے لیے صرف شمشیر برآں کافی ہے۔‘‘
اس کی وجہ یہ ہے کہ ’’حَسْبُ‘‘ مصدر ہے۔مضاف ہونے کی صورت میں مستحسن اور زیادہ فصیح یہ ہے کہ اعادہ جار کے ساتھ اس پر عطف ڈالا جائے ۔ اعادہ جار کے بغیر اگرچہ صحیح قول کے مطابق جائز ہے؛ مگر شاذونادر ہی اس پر عطف ڈالا جاتا ہے۔ اعادہ جار افصح و احسن ہے۔ اس طرح معنی پر عطف ہوتا ہے۔ اور مضاف منصوب واقع ہوتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے: ’’حسبک والضحاک۔‘‘یعنی آپ کے لیے اور ضحاک کے لیے کافی ہے۔
مصدر فعل والا عمل کرتا ہے۔ لیکن جب اسے مضاف کردیا جائے تو اس کا غیر مضاف الیہ پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اسے فاعل کی طرف مضاف کیا جائے تو مفعول کو نصب دیتا ہے۔اور اگر اسے مفعول کی طرف مضاف کیا جائے تو فاعل کو رفع دیتا ہے۔ مثلاً آپ یوں کہیں : ((أعجبنِی دقُ القصارِ الثوبَ))
یہ بھی اس کلام کی ایک توجیہ ہے۔ اورآپ یوں کہیں : ((: أعجبنِی دقُ الثوبِ القصارُ۔))
نحویوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے کہ اس کے اعمال کا نکرہ ہونا اس کے مضاف الیہ ہونے سے زیادہ بہتر اور اچھا ہے۔ اس لیے کہ اضافت کی وجہ سے اس کی مشابہت اسماء کے ساتھ زیادہ قوی ہوجاتی ہے۔ اور حق اور سچ بات یہ ہے کہ مصدر کا کسی ایک کی طرف مضاف ہونا ؛ اور دوسرے پر اس کا عمل صرف اس کے نکرہ ہونے اس نکرہ پر عمل سے زیادہ بہتر ہے۔ پس کسی کا یوں کہنا کہ: ((أعجبنِی دقُ القصارِ الثوبَ)) یہ اس سے بہتر ہے کہ پ یوں کہیں : ((: أعجبنِی دقُ الثوبِ القصارُ۔))
اس لیے کہ تنکیر بھی اسم کے خصائص میں سے ہے۔اور اضافہ اس سے خفیف ہوتا ہے؛ کیونکہ وہ اسم ہے۔اور اس میں اصل یہ ہے کہ مضاف توکیا جائے مگر عمل نہ کرے۔ لیکن جب فاعل اور مفعول دونوں کی طرف اس کی اضافت متعذر ہو توپھر فاعل یا مفعول دو میں سے کسی ایک کی طرف اسے مضاف کیا جائے گا جب کہ دوسرے پر اس کا عمل ہوگا۔
یہی حال معطوفات میں بھی ہوتا ہے۔ اگر ممکن ہو تو ان سب کی طرف اس کی اضافت کی جائے جیسا کہ اسم ظاہر کی طرف اضافت میں ہوتا ہے۔جیسا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان گرامی ہے:
((إِن اللہ حرم بیع الخمرِ والمیتۃِ والدمِ والخِنزِیرِ والأصنامِ ))۔
ان کا یہ قول ہے کہ : ((نہی عن بیعِ الملاقِیحِ والمضامِینِ وحبلِ الحبلۃِ۔))
اور اگر ایسا کرنا متعذر ہو تو پھراسے مستحسن نہیں سمجھا جاتا ۔ جیسا کہ یہ کہا جاتا ہے:
(( حسبک وزیداً دِرہمٌ ۔))تو اس کا عطف معانی پر ہوتا ہے۔
اس کے متشابہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿وَ جَعَلَ الَّیْلَ سَکَنًا وَّ الشمس وَ الْقَمَرَ حُسْبَانًا﴾ [الانعام: 96]
’’ اور اس نے رات کو آرام اور سورج اور چاند کو حساب کا ذریعہ بنایا۔‘‘
اس موقع پر اسے اللیل مجرورکے محل پر واقع ہونے کے باوجود نصب دیا گیا ہے؛
سو بلاشک اسم فاعل مصدر کی طرح ہوتا ہے۔ کبھی اسے مضاف کیا جاتا ہے اور کبھی یہ عمل کرتا ہے۔
بعض لوگوں نے غلط فہم کی بنیاد پر اس آیت کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اے نبی! اللہتعالیٰ اور مومن آپ کے لیے کافی ہیں ۔‘‘ اس صورت میں ﴿مَنِ اتَّبَعَکَ﴾رفعی حالت میں ہوگا اور اس کا عطف لفظ اللہ پر ہو گا۔‘‘یہ اتنی بڑی غلطی ہے کہ اس سے کفر لازم آتا ہے ۔ اس لیے کہ صرف اللہ تعالیٰ ساری مخلوقات کے لیے کافی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ﴾ (آل عمران:۱۷۳)
’’وہ لوگ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے میں لشکر جمع کر لیے ہیں ۔ تم ان سے خوف کھا تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے ۔‘‘
یعنی صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہم سب کے لیے کافی ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ‘آپ فرماتے ہیں : ’’ یہ کلمہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس وقت کہا جب انہیں آگ میں ڈالا گیا ‘ اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت کہا جب لوگ آپ کو [ڈرانے کے لیے ] کہنے لگے : بیشک لشکر تمہارے لیے جمع ہوگئے ہیں ‘ ان سے ڈرو ؛ تو ان کا ایمان مزید بڑھ گیا ‘اورکہنے لگے : ’’ حسبنا اللّٰہ و نعم الوکیل ۔ ‘‘ ہمیں اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے ‘ اور وہ بہترین کار ساز ہے۔‘‘
تمام انبیائے کرام علیہم السلام یہی کہتے گئے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی ہمارے لیے کافی ہے ۔ اور ان میں سے کسی نے بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا کہ کوئی اور بھی اللہ کے علاوہ ان کے لیے کفایت کرتا ۔ جب یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ اور اس کا رسول مؤمنین کے لیے کفایت کرجائیں تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اور مؤمنین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کفایت کر جائیں ؟
اسی سے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان بھی ہے :
﴿اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہُ ﴾[الزمرِ: 36]
’’ کیا اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہیں ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ لَوْ اَنَّہُمْ رَضُوْا مَآ اٰتٰہُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ سَیُؤْتِیْنَا اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَ رَسُوْلُہٗٓ﴾ [ التوبۃ : 59]
’’اور کاش کہ واقعی وہ اس پر راضی ہو جاتے جو انھیں اللہ اور اس کے رسول نے دیا اور کہتے ہمیں اللہ کافی ہے، جلد ہی اللہ ہمیں اپنے فضل سے دے گا اور اس کا رسول بھی۔‘‘
انہیں دعوت دی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے پر ایسے راضی ہوجائیں حتی کہ وہ خود کہیں : حسبنا اللہ ۔ اور یہ نہ کہیں حسبنا اللہ و رسولہ ۔ اس لیے کہ دیا جانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے ممکن نہیں تھا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَمَا آتَاکُمْ الرَّسُوْلُ فَخُذُوہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا ﴾[الحشر ۷]
’’اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ ۔‘‘
جب کہ رغبت اللہ کی طرف ہی ہوتی ہے؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاِِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ () وَاِِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ ()﴾[ألم نشرح]
’’جب فراغت ہو تو کھڑے ہوجاؤ اور اپنے رب ہی کی طرف پس رغبت کرو۔‘‘
یہی حال تحسب (کفایت سمجھنے ) کا ہے جو کہ حقیقت میں صرف اللہ وحدہ لاشریک پر توکل کا نام ہے۔ یہی وجہ کہ انہیں حکم دیا گیا کہ صرف یوں کہا کریں :(حسبنا اللہ)۔ اور اس کے ساتھ ملاکریوں نہ کہا کریں : (ورسولہ)۔
جب یہ جائز نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم مومنین کے لیے کفایت ہوں [کیونکہ یہ کفایت صرف اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوسکتی ہے ] تو پھر یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے کہ مؤمنین اللہ کے ساتھ مل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کفایت ہوں ۔
مؤمنین اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے محتاج ہیں ۔ پس ان کے لیے کفایت کا ہونا ضروری ہے۔ یہ جائز نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت مؤمنین سے ہو ‘اور مؤمنین کی قوت وکفایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہو ۔اس لیے کہ اس سے دور لازم آتا ہے ۔ بلکہ تمام تر قوتیں اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے ‘وہی اللہ وحدہ لاشریک ہی جوتمام تر قوتوں کا پیدا کرنے والا ہے وہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوت کا بھی پیدا کرنے والا ہے ۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے:
﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَیَّدَکَ بِنَصْرِہٖ وَ بِالْمُؤْمِنِیْنَo وَ اَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِہِمْ﴾[الأنفال:62-63]
’’وہی جس نے تجھے اپنی مدد اور مومنوں کے ساتھ قوت بخشی۔اور ان کے دلوں میں الفت ڈال دی۔‘‘
بلاشک و شبہ صرف ایک اللہ تعالیٰ ہی اپنے رسول کی تائیددو چیزوں سے کرنے والے ہیں :
۱۔ وہ نصرت جس سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نوازا تھا۔
۲۔ اہل ایمان جوکہ آپ کی اطاعت گزاری میں داخل ہوگئے تھے۔
یہاں پر یہ کہا ہے کہ: حسبک اللہ۔ اور یہ نہیں فرمایا: نصر اللہ ِ ۔پس اللہ تعالیٰ کی نصرت بھی اسی کی طرف سے ہوتی ہے۔ جیسا کہ مؤمنین بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں سے ہیں ۔پس یہاں پر جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا؛ اسے اس پر عطف کیا گیا ہے جوکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تھا۔کیونکہ حقیقت میں یہ دونوں ہی چیزیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں ۔جبکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ساتھ ان میں سے کسی ایک چیز کے بھی پیدا کرنے میں کوئی ایک بھی نہیں تھا۔ بلکہ صرف اللہ تعالیٰ اکیلے ہی ان تمام چیزوں کے خالق و مالک ہیں ؛ اور وہ ان میں سے کسی ایک چیز کے لیے بھی کسی دوسرے کے محتاج نہیں ۔
جب یہ بات واضح ہوگئی تو پتہ چلا کہ رافضی جہالت پر جہالت مرتب کرتے چلے جاتے ہیں ۔ پھر ایسے اندھیروں کا شکار ہوگئے کہ یہ اندھیرے آپس میں اوپر نیچے ہورہے تھے ۔اس طرح وہ گمان کرنے لگے کہ :اللہ تعالیٰ کا فرمان : ﴿حَسْبُکَ اللّٰہُ وَ مَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ﴾اس کامعنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور آپ کی اتباع کرنے والے مؤمنین آپ کے لیے کافی ہیں اور پھر آپ کے متبعین مؤمنین میں سے صرف ایک حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہی مؤمن مانتے ہیں ۔ان کی یہ جہالت پہلی جہالت سے بھی زیادہ بڑھ کر اور واضح ہے ۔ اس لیے کہ پہلی جہالت تو بعض لوگوں پر مشتبہ ہوسکتی ہے ؛ مگر یہ جہالت کسی بھی عاقل پر مخفی نہیں رہ سکتی۔
[[اگر ہم فرض بھی کرلیں کہ ﴿مَنِ اتَّبَعَکَ﴾ فاعل ہے اور لفظ اللہ پر معطوف ہے تو بھی یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مختص نہیں ہوسکتا۔ اس لیے کہ نزول آیت کے وقت آپ کی پیروی کرنے والے بے شمار مومن موجود تھے۔ کوئی دانش مند آدمی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جہاد کفار میں نبی کریم کے لیے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کافی تھے]]
اس لیے کہ بیشک تمام مخلوق میں سے حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے کافی نہیں تھے۔ خدانخواستہ آپ کی اعانت کے لیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا اگر دیگر صحابہ موجود نہ ہوتے تو اسلام کا بول بالا نہ ہوتا۔ [[مکہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ چند صحابہ موجود تھے۔ تاہم دین کا بول بالا نہ ہو سکا، بلکہ دین کو غلبہ اسی وقت حاصل ہوا جب آپ نے مدینہ میں ہجرت فرمائی]]
غور کیجیے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امداد کے لیے لشکر جرار موجود تھا۔ تاہم آپ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے شام کا ملک چھین نہ سکے۔بلکہ معاویہ رضی اللہ عنہ کو ہی غلبہ حاصل رہا ۔بھلے یہ غلبہ قوت و قتال کے لحاظ سے ہو یا تدابیر اور چالوں کے لحاظ سے ۔ اس لیے کہ جنگ دھوکہ دہی کا نام ہے ۔ شاعر کہتا ہے:
’’ بہادروں کی بہادری سے پہلے رائے کا وقت ہوتا ہے۔ اس لیے کہ رائے کا موقعہ پہلے ہے اور شجاعت و بہادری دیکھانے کا موقعہ دوسرا ہے ۔‘‘
جب یہ دونوں چیزیں کسی انسان میں جمع ہوجاتی ہیں تو وہ بلندیوں کی انتہاء پر پہنچ جاتا ہے۔
جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اسلام کے غالب آنے کے بعد اور اپنے پیروکاروں کی اکثریت کی باوجود خود اپنی ذات کے کام نہ آسکے ؛ تو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس وقت میں کیسے کام آسکتے تھے جب تمام دنیا والے آپ کے دشمن تھے۔
اگر یہ کہا جائے کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ پر اس لیے غالب نہیں آئے کہ آپ کا لشکر آپ کی اتباع نہیں کرتا تھا ‘بلکہ وہ ہمیشہ آپس میں اختلاف کا شکار رہتے تھے۔
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : جب آپ کے ساتھ مسلمان ہونے کے باوجود آپ کی اطاعت نہیں کررہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کافر لوگ آپ کی اطاعت کریں حالانکہ نہ ہی وہ آپ کو مانتے ہیں اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ۔
شیعہ کی جہالت اور ظلم کا اندازہ لگائیے کہ یہ دو متضاد باتوں کو جمع کردیتے ہیں ۔ ایک جانب توحضرت علی رضی اللہ عنہ کو قدرت و شجاعت کے اعتبار سے اکمل البشر قرار دیتے اور کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے محتاج تھے۔ دین اسلام کی توسیع و اشاعت بھی روافض کے خیال میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رہین منت تھی۔ایسا کفر کہتے ہیں کہ آپ کودین محمدی کے قائم کرنے میں اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔ تو دوسری جانب یہ کہتے ہیں کہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ ظہور اسلام کے بعد عجز و نیاز کا زندہ پیکر بن گئے تھے۔ اور آپ نے تقیہ کر رکھاتھا ۔یہ بات کس قدر عجوبہ روزگار ہے کہ جو شخص اسلام کی کمزوری اور قلت افراد کے زمانہ میں مشرکین بلکہ جن و انس سب پر غالب تھا؛جب لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہوچکے تھے تو وہ ایک باغی گروہ کے مقابلہ میں کیوں کر عاجز آگئے اور اس کو زیر نہ کر سکے۔[ اس سے یہ بات واضح ہوئی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تنہا مشرکین کو زیر نہیں کر سکتے تھے ؛ جب تک کہ آپ کے ساتھ دوسرے صحابہ کرام موجود نہ ہوتے ]۔
یہ بات یقینی طور پر سبھی لوگ جانتے ہیں کہ لوگ اسلام میں داخل ہونے کے بعد حق کے سب سے بڑے اتباع کار تھے ۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے اللہ کا نازل کردہ دین محمد صلی اللہ علیہ وسلم قائم کرنے میں اپنا کردار ادا کیا ۔ یہاں تک کہ کفار کو مغلوب کیا ؛ اور لوگ مسلمان ہوئے۔ تو پھر یہ ایک چھوٹے سے گروہ کو مغلوب کیوں نہ کرسکے جنہوں نے سرکشی اور بغاوت کی تھی۔حالانکہ ان کی تعداد بھی بعثت محمد ی کے وقت موجود کفار کی تعداد سے بہت کم تھی۔ان کی شان و شوکت بھی بہت کم تھی؛ اور ان کی نسبت یہ لوگ حق کے بھی زیادہ قریب تھے؟
جب اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا تو اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ سے جھگڑاکرنے والے کفار تعداد میں بہت زیادہ اور حق سے بہت ہی دور تھے۔اس وقت میں اہل حجاز ‘ اہل شام ‘ اہل یمن ؛ اہل مصر اہل عراق ؛ اہل خراسان او راہل مغرب تمام کے تمام کفار تھے۔ ان میں مشرکین بھی تھے ‘ اہل کتاب بھی ؛ مجوسی بھی تھے اور صابی بھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت جزیرہ عرب پر اسلام غالب ہوچکا تھا۔ اور جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو قتل کیے جانے کا واقعہ پیش آیا اس وقت تک اسلام مصر ؛ شام ؛ عراق ؛ خراسان اور مغرب تک غالب آچکا تھا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت دشمنان تعداد میں بہت کم اور قوت کے لحاظ سے بہت کمزور رہ گئے تھے ۔اور دشمنی بھی اس وقت کی نسبت بہت کم تھی جس وقت میں آپ کو مبعوث کیا گیا تھا۔ ایسے ہی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت یہ لوگ بالکل ہی کم اور کمزور ہوگئے تھے ۔ اور پہلے کی نسبت دشمنی میں بھی کمی آگئی تھی۔ وہ حق جس کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ بر سر پیکار تھے ؛ وہ اس حق کا ایک جزء تھا جس کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قتال و جہادکر تے تھے۔ پس جو کوئی اس حق کو جھٹلائے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم لیکر آئے ہیں ‘اور اس پر قتال کرے ؛ یقیناً وہ انسان اس حق کو بھی جھٹلانے والا ہے جس پر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتال کیا تھا۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ اس حالت میں حق کی نصرت اور باطل سے دفاع میں عاجز آگئے تھے ؛ توپھر جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تھے تو اس وقت آپ کا کیا حال ہوگا؟ اس وقت تو آپ بالکل ہی عاجز اور کمزور ہوں گے ۔کیونکہ اس وقت دشمنان بھی تعداد میں بہت زیادہ دشمنی میں سخت اور قوت و شوکت سے لیس تھے۔
روافض کے اس فعل کی نظیر نصاریٰ کا یہ طرز عمل ہے کہ وہ ایک طرف حضرت عیسیٰ کو اِلٰہ قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں آپ ہر چیز کے رب ہیں اور ہر چیز پر قادر ہیں ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ یہ عقیدہ بھی رکھتے ہیں کہ ان کے دشمنوں نے ان کی تذلیل کی ان کے سر پر کانٹے رکھے اور انھیں سولی پر چڑھایا۔ حضرت مسیح واویلا کرتے رہے، مگر انھوں نے ایک نہ سنی۔نہ ہی وہ حضرت مسیح کے لیے قدرت قاہرہ کے ثابت کرنے میں کامیاب ہوسکے اورنہ ہی اس کمزوری کے ثابت کرنے میں ۔
اگر وہ کہیں کہ حضرت مسیح کو یہ تکلیف اللہکی مرضی سے دی جار ہی تھی۔
تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ اللہ تعالیٰ تو اس بات پر راضی ہوتا ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی نہ کی جائے۔اگر آپ کو قتل کرنااور پھانسی دینا یہ ایک طاعت و عبادت تھی تو پھر جو یہود یہ کام کررہے تھے وہ عبادت بجا لا رہے تھے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کررہے تھے ۔ بنا بریں وہ مدح و ستائش کے مستحق تھے نہ کہ مذمت کے ۔ یہ عظیم ترین کفر و جہالت ہے۔ عام شیعہ شیوخ اور فقراء بھی اسی قسم کے تضاد میں مبتلا ہیں ، ایک طرف وہ بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے اور دوسری طرف ضعف و عجز کا مظاہرہ بھی کرتے رہتے ہیں ۔ حدیث میں آیا ہے کہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ تین آدمی ایسے ہیں کہ جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہ بات کریں گے اور نہ ہی انہیں پاک و صاف کریں گے اور ابومعاویہ فرماتے ہیں کہ اور نہ ان کی طرف نظر رحمت سے دیکھیں گے اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ اور مفلس تکبر کرنے والا۔‘‘ایک روایت میں عیال دار متکبر کے الفاظ ہیں ۔‘‘ [سنن نسائی۔ کتاب الزکاۃ، باب الفقیر المختال(ح:۲۵۷۶) وصحیح مسلم، کتاب الایمان۔ باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار (ح: ۱۰۷)۔]
ایک مفلس و قلاش آدمی کے اظہار فخر و غرور کا طرز و انداز یہ ہے کہ جب وہ کبر وغرور پر اترے تو اپنے آپ کو اللہ کا جانشین قرار دے اور یہ کہے کہ میرے سوا کوئی رب ہے نہ رسول۔ اس کا انجام یہ ہو کہ وہ بھیک مانگنے پر اتر آئے اور لوگوں سے روٹی کے ٹکڑے طلب کرتا پھرے ؛یا ظالم کے ظلم سے نجات حاصل کرنے کے لیے اس کے خلاف مدد طلب کرتا پھرے ؛ اور ایک لقمہ تک کا محتاج ہو؛ ایک لفظ زبان پر لانے سے ڈرتا ہو۔ تو پھر کہاں یہ فقر و ذلت اور رسوائی اور کہاں وہ رب ہونے کا دعوی جوکہ عزت و غلبہ اور تونگری کو متضمن ہے۔یہ ان مشرکین کا حال ہوتا ہے جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَہْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ﴾ [الحج ۳۱]
’’ اور جو کوئی اللہ کے ساتھ شرک کرے تو گویا وہ آسمان سے گر گیا ، اب یا تو اسے پرندے اچک لے جائیں گے یا ہوا اس کو ایسی جگہ لے جا کر پھینک دے گی جہاں اس کے چیتھڑے اڑ جائیں گے ۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآئَ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا وَ اِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ﴾ (العنکبوت:۴۱)
’’جن لوگوں نے اللہکے سوا دوسروں کو اپنا کار ساز بنایا ان کی مثال ایک مکڑی جیسی ہے جس نے ایک گھر بنایا ہو اور سب سے کمزور ترین گھر مکڑی ہی کا ہوتا ہے، اے کاش !کہ انھیں معلوم ہوتا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿سَنُلْقِیْ فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ کَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَآ اَشْرَکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا﴾
[آل عمران۱۵۱]
’’عنقریب ہم منکرینِ حق کے دلوں میں رعب بٹھا دیں گے ، اس لیے کہ انہوں نے اللہ کے ساتھ ان کو خدائی میں شریک ٹھہرایا ہے جن کے شریک ہونے پر اللہ نے کوئی سند نازل نہیں کی ۔‘‘
عیسائیوں میں شرک واضح طور پر پایا جاتا ہے ؛ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَہُمْ وَ رُہْبَانَہُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰہًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ﴾ [التوبۃ ۳۱]
’’انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔ اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی ۔ حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں ۔‘‘
یہی حال ان کی مشابہت اختیار کرنے والے نسّاک اور غالی شیعہ کا بھی ہے۔ان میں انتہائی درجہ کا شرک اور غلو پایا جاتا ہے ۔بالکل ویسے ہی جیسے نصاری میں شرک اور غلو پایا جاتا ہے ۔ جب کہ یہودیوں میں تکبر پایا جاتا ہے ۔ متکبر آخر کار ہمیشہ ذلت و رسوائی سے دو چار ہوتا ہے، اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الذِّلَّۃُ اَیْنَ مَا ثُقِفُوْٓا اِلَّا بِحَبْلٍ مِّنَ اللّہِ وَ حَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآئُ وْ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَتْ عَلَیْہِمُ الْمَسْکَنَۃُ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمْ کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقْتُلُوْنَ الْاَنْبِیَآئَ بِغَیْرِ حَقٍّ ذٰلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّ کَانُوْا یَعْتَدُوْنَ ﴾ (آل عمران:۱۱۲)
’’ ان پر ذلت چھا گئی تھی وہ جہاں بھی ہوں مگر یہ کہ وہ اللہ کی پناہ میں ہوں یا لوگوں کی پناہ میں آجائیں ۔ وہ مورد غضب الٰہی ہوئے اور ان پر مسکینی چھا گئی تھی۔اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ آیات الٰہی کے ساتھ کفر کرتے انبیاء کو بلاوجہ تہہ تیغ کرتے اللہکے نافرمان اور حد سے تجاوز کرنے والے تھے۔‘‘
پس روافض میں ایک وجہ سے یہود کی مشابہت پائی جاتی ہے اور ایک وجہ سے نصاری کی مشابہت پائی جاتی ہے ۔ ان لوگوں میں شرک ‘ غلو اور باطل کی تصدیق میں نصاری کی مشابہت پائی جاتی ہے ؛ جب کہ دوسری طرف بزدلی ؛ تکبر ؛ حسد اور حق کی تکذیب کرنے میں یہودیوں کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ یہی حال رافضیوں کے علاوہ دوسرے گمراہ اہل بدعت فرقوں کا ہے ۔ ان میں گمراہی بھی پائی جاتی ہے اور سرکشی و بغاوت بھی ‘ اور دوسری جانب شرک و تکبر بھی ان میں موجود ہوتا ہے ۔
لیکن رافضی اس میں سب سے آگے بڑھے ہوئے ہیں ۔ اسی وجہ سے آپ دیکھ سکتے ہیں کہ یہ لوگ سب سے بڑھ چڑھ کر اللہ کے گھروں کو ویران کرنے والے ہیں ۔ان کے ہاں مسجدوں میں نماز جمعہ اور باجماعت نماز کا اہتمام نہیں کیا جاتا ۔ حالانکہ باجماعت نماز کا اجتماع اللہ تعالیٰ کا محبوب ترین اجتماع ہوتا ہے۔ ایسے ہی رافضی کفار اور مشرکین اعداء دین سے جہاد بھی نہیں کرتے ۔بلکہ آپ اکثر دیکھ سکتے ہیں کہ یہ لوگ مسلمانوں کے خلاف کفار کی مدد کرتے ہیں ‘اور ان سے مدد لیتے ہیں ۔ اہل ایمان اولیاء اللہ سے دشمنی رکھتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں مشرکین اور اہل کتاب سے دوستیاں پالتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے سب سے بہتر لوگوں مہاجرین و انصار اور تابعین کرام رحمہم اللہ سے دشمنی و عداوت رکھتے ہیں ۔ اور مخلوق میں سب سے بڑے کفار اسماعیلیہ اور نصیریہ اور ملحدین سے محبت اور دوستی رکھتے ہیں ۔ اگرچہ انہیں کافر بھی کہتے ہیں ۔ مگر ان کے دل اور ان کے بدن مہاجرین و انصار اور تابعین کرام رحمہم اللہ جیسے سچے مسلمانوں اور جمہور اہل اسلام کی نسبت ان کافروں کی طرف زیادہ مائل رہتے ہیں ۔
اہل ہوی و اہل بدعت فرقوں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے؛ حتی کہ وہ لوگ جو اپنے آپ کو علم کلام ‘ فقہ ‘ حدیث اور تصوف کی طرف منسوب کرتے ہیں ؛ مگر ان میں اس کا ایک شعبہ پایا جاتا ہے ۔ جیسا کہ اس کا ایک شعبہ ان اہل اھوا میں پایا جاتا ہے جو کہ اہل قلم اور تجار میں سے بادشاہوں اور وزیروں کے دروں پر حاضری دینے والے ہوتے ہیں ۔ مگر رافضیوں میں تمام بدعتی فرقوں سے بڑھ کر گمراہی و سرکشی اور جہالت پائی جاتی ہے ۔