Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا شاہ عبد العزیز محدث دہلویؒ کا فرمان


عمال في شرح العقائد والجمع بين قولهم لا يكفر احد من اهل القبلة وقولهم من قال بخلق القرآن أو استحالة الرؤية أو سبّ الشيخينؓ أو لعنهما او امثال ذلک مشکل انتهى۔

ترجمہ: یعنیٰ شرح عقائد میں لکھا ہے کہ علماء کے ان دونوں قول میں مطابقت مشکل ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ ایسے کسی شخص کو کافر نہ کہنا چاہئے کہ جو اہلِ قبلہ سے ہو۔ اور دوسرا قول یہ ہے کہ اُس شخص کو کافر کہنا چاہئے جس نے یہ کہا کہ قرآن شریف مخلوق ہے یا یہ کہا کہ اللہ تعالیٰ کی رؤیت محال ہے یا اس نے شیخینؓ کو برا کہا یا شیخینؓ پر لعنت کی نعوذ بالله من ذلک اور ایسا ہی جو لوگ اس کے مانند ہوں ان کو بھی کافر کہنا چاہئے ۔ مضمون شرح عقائد کی عبارت مذکور ہے۔

وقال المدوق شمس الدين الخیالي في حاشية وقوله ومن قواعد اهل السنة أن لا يكفر في المسائل الاجتهادية اذلا نزاع في تكفير من انكر ضروريات الدين ثم أن هذه القاعدة للشيخ الأشعري وبعض متابعيه واما البعض الآخر فلم يوافقوهم وهم الذين كفروا المعتزلة والشيعة في بعض المسائل فلا احتياج الى الجمع لعدم اتحاد القائل انتهى۔

ترجمہ: یعنی علامہ شمس الدین خیالی نے اس قول کے ومن قواعد اهل السنة ان لایکفر کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ معنیٰ اس قاعدہ کا یہ ہے کہ کافر نہ کہا جائے مسائل اجتہادیہ میں اس واسطے کہ اس امر میں نزاع نہیں کی اس شخص کو کافر کہنا چاہیئے جس شخص نے انکار کیا ضروریاتِ دین سے، اور اس مقام میں یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ قائدہ شیخ اشعریؒ اور ان کے بعض تابعین کے نزدیک ہے لیکن دوسرے بعض علماء کرام کے نزدیک یہ قاعدہ ثابت نہیں، اور وہ علم وہ وہیں کہ جن کا قول یہ ہے کہ معتزلہ اور شیعہ اپنے بعض مسائل کے سبب سے کافر ہیں۔ اس لئے اب ان دونوں اقوال میں مسابقت کرنے کی ضرورت نہیں، اس واسطے کہ یہ دونوں اقوال ایک ہی شخص کے قول نہیں ہیں۔

ولا يخفى ان الجواب الأول تخصيص وتقييد الكلام بلا دليل في الجواب الثاني مبني على اختلاف القائلين بالقولين وهو خلاف الواقع بل القائلون بتلك القاعدة هم الذين يكفرون يخلق القرآن وسبت الشيخينؓ وقدم العالم ونفى العلم بالجزئيات الى غیر ذلک۔

ترجمہ: یعنی ظاہر ہے کہ جواب اول میں تخصیص و تقیید ہے کلام کی بغیر دلیل کے اور دوسرے جواب کی بنا ۔ اس پر ہے کہ دونوں اقوال کے قائل دو شخص ہیں حالانکہ یہ بھی خلاف واقع ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ اس قاعدہ کے قائل وہی لوگ ہیں جن لوگوں نے کہا ہے کہ وہ شخص کافر ہے جو یہ کہے کہ قرآن شریف مخلوق ہے یا وہ شیخینؓ کو برا کہے یا وہ شخص اس امر کا قائل ہو کہ عالم قدیم ہے یاوہ شخص علم بالجزئیات کی نفی کرے یا اس طرح کا اس کا کوئی اور عقیدہ فاسد ہو۔

قال السيد فى شرح المواقف اعلم أن عدم التكفير اهل القبلة موافق الكلام الشيخ الاشعرى والفقها، كما مر لكنا اذا فتشنا عقاٸدفرق الاسلاميين وجدنا منها ما يوجب الكفر قطعا كالعقائد المراجعة الى وجود الله غير الله سبحانه اوالى حلوله في بعض اشخاص الناس اوالی انکار نبوة محمدﷺ او الى ذمه او استخفافه اوالى استباحة المحرمات واسقاط الواجبات الشرعية انتهى۔

ترجمہ: یعنٰی کہا سید نے شرح مواقف میں کہ جاننا چاہئے کہ عدم تکفیر اہلِ قبلہ کی اس قول کے موافق ہے جو شیخ اشعریؒ اور فقہاء کا ہے، جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا لیکن ہم نے جب تفشیش کی کہ اہلِ اسلام کے فرقوں کے عقائد کس کس طرح کے ہیں تو ہم نے ایسا پایا کہ من جملہ ان عقائد کے بعض عقائد سے قطعاً کفر لازم آتا ہے، مثلاً: یہ عقیدہ کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی دوسرا خدا بھی ہے یا یہ کہ اللہ تعالیٰ نے بعض لوگوں میں حلول کیا ہے یا حضور اکرمﷺ کی نبوت کا انکار یا ایسا عقیدہ کہ جس سے حضور اکرمﷺ کی مذمت یا توہین ہوتی ہو یا یہ عقیدہ کہ جس سے محرمات کو مباح جانتا اور واجبات شرعیہ کو ساقط کر دینا ثابت ہوتا ہے، یعنی ان جیسے عقائد سے ضرور کفر لازم آتا ہے۔

بل التحقيق أن المراد بأهل القبلة هم الذين لا ينكرون. ضروريات الدين لا من يوجه وجهه إلى القبلة في الصلوة قال الله تعالي "ليس البران تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البرمن أمن بالله واليوم الآخر الخ. فمن انکر ضرو ريات الدين لم يبق من أهل القبلة لأن ضروريات الدين منحصرة عندهم في ثلاثة مدلول الكتاب بشرط ان يكون نصاً صريحاً لا يكن تأويله كتحريم الخمر والميسر واثبات العلم والقدرة والإرادة والكلام له تعالى وكون السابقين الأولين من المهاجرين والانصار مرضيين عند الله تعالى وانه لا يجوز امانتهم والاستخفاف بهم مدلول السنة المتواترة لفظاً او معناً سواء كان من اعتقاديات او من العمليات وسواء كان فرضاً او نقلا کوجوب محبة أهل البيتؓ من الأزواجؓ والبناتؓ والجمعة والعيدين والمجمع عليه اجماعا قطعياً لخلافة الصديقؓ والفاروقؓ ونحو ذلك ولا شبهة أن من انكر امثال هذه الأمور لم يصح ايمانه بالكتاب والنبيين اذفى تخطيه الاجماع القطعي تضليل تجميع الأمة فيكون انكساراً بقوله تعالیٰ کنتم خير امة اخرجت للناس وقوله تعالى ومن يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين وبقوله عليه السلام لا يجتمع امتى على الضلالة وهو متواتر معنوی فلايكون منكر هذه الأمور من اهل القبلة۔

ترجمہ: یعنی بلکہ تحقیق یہ ہے کہ مراد اہلِ قبلہ سے وہ لوگ ہیں جو ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور اہلِ قبلہ سے وہ لوگ مراد ہیں جو محض نماز میں قبلہ رو کھڑے ہوتے ہیں، چنانچہ فرمایا اللہ تعالیٰ نے کہ یہ نیکی نہیں کہ پھیرو تم اپنا منہ پورب اور پچھم کی طرف بلکہ نیکی اس شخص نے کی جو ایمان لایا اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر، الخ

یعنی اور نیکی کی اس شخص نے جس نے وہ کام کیا جس کی تفصیل اس آیت میں آخر تک مذکور ہے۔ تو جو شخص ضروریاتِ دین سے منکر ہو گیا وہ اہلِ قبلہ سے باقی نہ رہا۔ اس واسطے کی ضروریاتِ دین علماء کرام کے نزدیک تین امور میں منحصر ہیں۔ ایک امر یہ ہے کہ مدلول کتاب یعنیٰ صریح معنیٰ کسی آیت قرآن شریف کا بشرطیکہ وہ نص صریح ہو، اس کی تاویل ممکن نہ ہو مثلاً حرام جاننا ماں اور بیٹی کو اور حرام جانتا شراب اور جوا کو، اور یہ ثابت کرنا کہ اللہ تعالیٰ میں صفت علم اور قدرت اور ارادہ اور کلام کی ہے اور یہ جاننا کہ سابقين الأولين مهاجرين والانصار الله تعالىٰ کے نزدیک پسندیدہ ہیں اور یہ عقیدہ رکھنا کہ ان صاحبوں کی اہانت جائز نہیں، اور ان صاحبوں کی شان میں کوئی کلمہ خفیف کہنا جائز نہیں۔ یعنیٰ یہ امور ضروریاتِ دین میں سے ہیں، اس واسطے کہ یہ امور نص صریح قرآن شریف سے ثابت ہیں۔ اور دوسرا امر من جملہ ان تین امور کے یہ ہے کہ مدلول سنت یعنیٰ جو امر حدیث متواتر سے صراحتا مفہوم ہو، وہ حدیث متواتر باعتبار لفظ کے ہو یا صرف باعتبار معنیٰ کے متواتر ہو خواه وہ امر متعلق اعتقاد یا متعلق عمل کے ہو اور خواہ وہ امر فرض ہو یا نقل ہو، اس کی مثال یہ ہے واجب ہو نا محبت اہلٰ بیت کی یعنیٰ حضور اکرمﷺ کی بیبیوں کی اور صاحبزادیوں کی اور واجب ہونا جمعہ اور عیدین کا۔ اور تیسرا امر من جملہ ان تین امور کے اجتماع قطعی ہے، مثلاً خلافت سیدنا ابو بکر صدیقؓ اور خلافت سیدنا عمر فاروق اعظمؓ کی اور ایسے ہی اور جو امور ہیں۔

اس میں شبہ نہیں کہ جو شخص ایسے امور کا منکر ہو اس کا ایمان قرآن شریف اور پیغمبروں پر صیح نہیں، اس واسطے کہ جب اس کا عقیدہ یہ ہے کہ ایسا امر جس پر امت کا اجماع قطعی ہوا ہے خطا ہے تو وہ شخص اپنے خیال میں اس امت کے تمام لوگوں کو گمراہ سجھتا ہے تو اس سے لازم آتا ہے کہ اس کو انکار ہے اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے کنتم خیر أمة أخرجت للناس معنیٰ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے بارے میں فرمایا کہ جس قدر کہ امت ہوئی اُن میں سے تم لوگ بہترین امت ہو تو اللہ تعالیٰ نے اس امت کو بہترین امت فرمایا اور اس کے خلاف اس شخص کا خیال ہے کہ اس امت کے لوگ گمراہ ہوئے کہ غلط امر کو ان لوگوں نے صحیح سمجھ لیا ہے اور یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس شخص کو اللہ تعالیٰ کے اس کلام سے بھی انکار ہے و من يشاقق الرسول من بعد ما تبين له الهدى ويتبع غير سبيل المؤمنين الخ یعنیٰ اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے بارے میں عتاب فرمایا جس شخص کو سیدھی راہ معلوم ہو جائے اور پھر وہ شخص حضور اکرمﷺ کی مخالفت کرے اور مسلمانوں کی راہ کے سوا کوئی دوسری راہ اختیار کرے اور یہ بھی لازم آتا ہے کہ اس شخص کو حضور اکرمﷺ کی اس حدیث شریف سے انکار ہے۔ لا تجتمع امتى على الضلالة یعنی میری امت کے لوگوں کا اجتماع گمراہی پر نہ ہوگا۔ تو جو شخص ان امور کا منکر ہو وہ اہلِ قبلہ سے نہیں سمجھا جائے گا۔

وقد عرف بعضهم ضروريات الدين بأنها امور يشترك فيمعرفتها المتدين بدين الاسلام وغير المتدين به۔

 ترجمہ: یعنیٰ بعض علماء کرام نے ضروریاتِ دین کی تعریف کی ہے کہ ضروریاتِ دین وہ امور ہیں جن کو وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو پابند دین اسلام ہیں اور وہ لوگ بھی جانتے ہیں جو دین اسلام کے پابند نہیں۔

وبالجملة قبولهم لا تكفر احدا من أهل القبلة كلام مجمل باق على عمومه لكن له تفصيل طويل والشان في معرفة من هو من أهل القبلة ومن ليس منهم فلم بعض الفقهاء قد بالغوا في۔

تكفير من ینكر بعض المسائل الاجتهادية الشهيرة عند قوم دون قوم كحرمة لیس المعصفر ونحو ذلك وهو مذهب ركيك جدا و اما من فرق بين الأصول والفروع فكفر فى أحداهما دون الأخرى فان اراد نفس الاعمال فنعم و مرحبا وان اراد اعتقاد وجوبها وسنيتها فلا اذ لا شبهة في أن من انكر وجوب الزكوة أو وجوب الوفاء بالعهد او وجوب الصلوة الخمس أوكون الاذان مسنونا فقد كفر كما يدل عليه قتال مانع الزكوة في صدر الاسلام نعم في بعضها يكون كثرأنا ويلها لكن التاويل غير مسموع في امثال هذه الأمور الجلية كما لم يسمع تاويل مانع الزكوة متمسكين بقوله تعالى "ان صلوتک سكن لهم" وكما لم يسمع تاويل الحرورية في انكار العلم بالجزئيات على الوجه الجزني مع القول بثبوت العلم على وجه کلی فلا ينبغي الاقدام عليه الليس مخالف هذه الاحكام منصر ما نضا جلياً لافي الكتاب ولا في السنة والمتواترة هذا۔(والله تعالى اعلم)

ترجمہ: یعنیٰ حاصل یہ کہ علماء کرام کا قول ہے کہ اس کو کافر نہیں کہتے جو اہلِ قبلہ سے ہو یہ کلام مجمل ہے اپنے عموم پر باقی ہے لیکن اس کلام میں بڑی تفصیل ہے، بحث اس امر میں ہے کہ کون لوگ اہلِ قبلہ سے ہیں اور کون لوگ اہلِ قبلہ سے نہیں تو بعض فقہاء نے کیوں مبالغہ کیا کہ اس شخص کو کافر کہہ دیا جو منکر ہوا ان بعض مسائل اجتہادیہ کا جو بعض قوم کے نزدیک مشہور نہیں، مثلاً حرام ہونا پہننا، کسم کا رنگا ہوا اور مانند اس کے اور جو امور میں ان کا وہ منکر ہے، اور یہ مذہب نہایت رکیک ہے۔ لیکن جس نے تفریق کی درمیان اصول اور فروع کے پس کافر کہا ایک میں نہیں دوسرے میں تو اگر اس کی مراد کس اعمال ہیں تو یہ بہتر ہے اور اگر اس کی مراد اعتقاد وجوب اعمال و سنیت اعمال ہیں، تو اس میں اس کا خیال صحیح نہیں اس واسطے کہ اس میں شبہ نہیں کہ وہ شخص کافر ہے جو ان امور میں سے کسی امر کا منکر ہو، زکوٰة کا واجب ہونا اور عہد کا ایفا واجب ہونا اور پنج وقتی نماز کا واجب ہونا اور اذان کا مسنون ہونا، اس واسطے کہ مانعینِ زکوٰۃ سے شروع اسلام میں جہاد کیا گیا، البتہ من جملہ ان امور کے بعض امور کے انکار سے کفر تاویلی لازم آتا ہے لیکن ایسے ظاہر امور میں تاویل قابل سماعت نہیں ، جیسا کہ مانعینِ زکوٰة کی تاویل نہ سنی گئی کہ ان لوگوں نے اپنے مدعا کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ کا یہ کلام پیش کیا ان صلوتک سکن لهم تحقیق کہ آپ کی دعا تسکین کے واسطے ہے ان کے اور ضروریہ کی تاویل انکار حکم میں نہ سنی گئی کہ ان لوگوں نے اپنے دعا کے ثبوت میں اللہ تعالیٰ کا یہ کلام پیش کیا ان الحكم الالله یعنیٰ صرف اللہ تعالیٰ کے حکم کا اعتبار ہے لیکن جو شخص قرآن شریف کو مخلوق کہے یا اللہ تعالیٰ کی رؤیت کا انکار کرے یا انکار کرے علم بالجزئیات سے بطریق جزئی مگر وہ قائل ہو ثبوت علم کا بطریق کلی تو ایسے شخص کی تکفیر کی جرآت نہ کرنی چاہئے ۔ اس واسطے کہ ان احکام کی مخالفت کیلئے نص جلی میں کوئی صاف حکم نہیں، نہ بظاہر قرآن شریف میں ہے اور نہ حدیث متواترہ میں ہے، اس امر کو بغور سمجھنا چاہئے۔اور اللہ تعالیٰ زیادہ جاننے والا ہے۔ 

فان قیل ما الدليل على أن المراد من أهل القبلة هم المصدقون بجميع ضروريات الدين اى دلالة بلفظ اهل القبلة قلنا الدليل عليه الكفر يتقابل الايمان تقابل العدم والملكة اذ الكفر عدم الايمان والمتقابلان بالعدم والملكة لا يكون بينهما واسطة بالنظر الى خصوص الموضوع وان امكن بينهما واسطة بالنظر الى المواقع كالعمى والبصر فان الذي من شانه البصر لا يخلو عن احدهما ولا شبهة ان الايمان مفهومه الشرعي المعتبر به في كتب الكلام العقائد التفسیر و الحديث في تصديق النبیﷺ فيما علم مجینه به ضرورتا عما من شانه ذلك ليخرج الصبي والمجنون والحيوانات والكفر عدم الايمان عما من شانه ذلك التصديق فمفهوم الكفر هو عدم تصديق النبىﷺ فيما علم مجينه به ضرور ت أو هو بعينه ما ذكرنا من أن من انكر واحداً من ضروريات الدين النصف بالكفر نعم عدم التصديق له مراتب اربع فيحصل للكفر ايضا اقسام اربعة الأول كفر الجهل وهو تكذيب النبي ﷺصريحاً فيما علم مجينه به مع العلم بكونه عليه السلام كاذباً في دعواه و هذا هو كفر ابي جهل و آمنوابه والثاني كفر الجحود و العناد وهو تكذيبه مع العلم يكونه صادقاً في دعواه و هو كفر اهل الكتاب كقوله تعالى الذين أتينهم الكتب يعرفونه كما يعرفون ابناء هم وقوله تعالى و جحدوا بها واستيقنتها انفسهم ظلما وعلوا و كفر ابليس من هذا القبيل: والثالث كفر الشف كما كان لاكثر المنافقين والرابع كفر التاويل و هوان يحمل كلام النبي على غير محليه أو على التقية والمراعاة والمصالح ونحو ذلك ولما كان التوجه إلى القبلة من خواص معنى الايمان سواء كان شاملة او غير شاملة عبروا عن الإيمان باهل القبلة كما ورد في الحديث نهيت عن قتل المصلين والمراد المؤمنين مع ان نص القرآن على ان اهل القبلة هم المصدقون بالنبي عو في جميع ما علم مجينه بهو هو قوله تعالي وصد عن سبيل الله وكفربه والمسجد الحرام واخراج أهله منه أكبر عند الله فليتأمل۔

ترجمہ: یعنیٰ اگر یہ شبہ ہو کہ کیا دلیل ہے اس امر پر کہ مراد اہلِ قبلہ سے وہی لوگ ہیں جو تصدیق کر لیں جمیع ضروریاتِ دین کی تو اہلِ قبلہ کے لفظ سے یہ کہاں سمجھا جاتا ہے۔ ہم اس شبہ کا جواب دیتے ہیں کہ اس امر پر دلیل یہ ہے کہ کفر اور ایمان میں تقابل و عدم ملکہ کا ہے، اس واسطے کہ کفر سے مراد عدم ایمان ہے اور جن دو چیزوں میں عدم تقابل کا ملکہ ہوتا ہے تو ان دونوں چیزوں میں کوئی واسطہ نہیں ہوتا باعتبار خصوص موضوع کے اور اگرچہ ممکن ہے کہ ان دونوں چیزوں میں واسطہ ہو باعتبار واقع کے مانند عمی اور بصر کے اس واسطے کہ جس کی شان میں بصر ہے ، وہ ضرور ہے اس میں یا عمی ہو یا بصر ہو۔ ان دونوں امر میں سے کسی ایک امر سے وہ خالی نہیں ہو سکتا اور اس امر میں کچھ نہیں کی کتب کلام و عقاٸد تفسیر وحدیث میں ایمان کی تعبیر یہ ہے کہ ایمان تصدیق ہے حضور اکرمﷺ کے ان امور میں بداہتاً معلوم ہو کہ حضور اکرمﷺ نے یہ حکم فرمایا ہے۔ اور یہ تصدیق اس شخص کی طرف سے ہو جس کی شان سے یہ ہو کہ وہ تصدیق کر سکتا ہے۔ تو مفہوم کفر کا یہ ہوا عدم تصدیق پیغمبر کی ان امور میں جو بداہتاّ معلوم ہوں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے۔ اور مفہوم کفر کا بعینہ وہ ہے جو ہم نے ذکر کیا کہ جو شخص ضروریاتِ دین سے کسی ایک امر کا بھی منکر ہو تو اس شخص میں کفر پایا جائے گا۔ البتہ عدم تصدیق کے چار مراتب ہیں ۔ اس اعتبار سے کفر کی بھی چار قسمیں ہیں:

  1.  پہلی قسم کفر کی جہل ہے۔ اور کافر جہل سے مراد تکذیب کرنا ہے۔ حضور اکرمﷺ کی صراحتاً ان امور میں جن کے بارے میں معلوم ہو کہ حضور اکرمﷺ نے یہ حکم فرمایا ہے اور یہ عقیدہ باطل ہو کہ حضور اکرمﷺ نے اپنے دعویٰ میں کا ذب تھے (نعوذ باللہ من ذلک) اسی طرح کا کفر ابوجہل کا کفر تھا اور جو کفار اس کے مانند ہوئے ان کا کفر بھی ایسا ہی تھا۔
  2. دوسری قسم کفر کی حجود و عناد ہے اور اس قسم کے کفر سے مراد تکذیب ہے۔حضوراکرمﷺ کے باوجود اس علم کے کہ حضور اکرمﷺ کے اپنے دعویٰ میں صادق ہوئے اور اس طرح کا کفر اہلِ کتاب کا کفر ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے کہ جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی یعنیٰ جو لوگ اہلِ کتاب سے ہیں وہ لوگ حضور اکرمﷺ کو ایسا پہچانتے ہیں جیسا وہ لوگ اپنے لڑکوں کو پہچانتے ہیں، اور یہ بھی اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ان کافروں نے انکار کیا اس امر کا، حالانکہ اس امر کا صحیح ہونا یہ لوگ یقیناً جانتے ہیں ۔ یہ انکار صرف بے انصافی اور تکبر سے ہے اور اسی طرح کا کفر ابلیس کا کفر بھی ہے۔ 
  3.  تیسری قسم کفر کی شک ہے جیسا کہ اکثر منافقین کا تھا۔
  4. چوتھی قسم کفر کی کفر تاویل ہے، اور کفر تاویل سے مراد یہ ہے کہ حضور اکرمﷺ کے کلام کو ایسے معنیٰ حمل کرنا جو فی الواقع اس کلام کا معنیٰ نہ ہوں، یا محمول کرنا اس کلام کو تقیہ اور رعایت مصلحت پر یا ایسا ہی کسی اور امر غلظ پر اس کو حمل کرنا اور چونکہ نماز میں قبلہ رو کھڑا ہونا ایمان کے خاصہ سے ہے خواہ شاملہ ہو یا خاصہ غیر شاملہ ہو۔ اس واسطے اہلِ شرع نے ایمان کی تعبیر اہلِ قبلہ کے لفظ کے ساتھ کی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں وارد ہے۔ کہ میں منع کیا گیا قتل سے نمازیوں کے:

اس حدیث شریف میں مراد نمازیوں سے مسلمان ہیں، حالانکہ نص قرآن شریف سے صراحتاً ثابت ہے کہ اہلِ قبلہ ہی لوگ ہیں جن لوگوں نے تصدیق کی حضور اکرمﷺ کی ان سب امور میں جن کے بارے میں معلوم ہو کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جنگ کرنا ماہ حرام میں بند کرنا ہے اللہ تعالیٰ کی راہ سے اور کفر کرنا ہے اس کی شان میں، اور کفر کرنا ہے مسجد حرام کی شان میں اور نکال دینا مسجد حرام کے لوگوں کو زیادہ برا ہے نزدیک اللہ تعالیٰ کے۔ یہ مسئلہ قابلِ غور ہے۔

(فتاویٰ عزیزی: صفحہ، 395)