Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ستائیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ستائیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف رقم طراز ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ستائیسویں دلیل درج ذیل آیت ہے:

﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی اللیل وَالنَّہَارِ سِرًّاوَّ عَلَانِیَۃً﴾ (البقرہ:۲۷۴)

’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن میں چھپ کر اورکھلے عام خرچ کرتے ہیں ۔‘‘

ابو نعیم حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ:’’ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کے پاس چار درہم تھے۔ ایک درہم رات کے وقت خرچ کیا ایک دن کے وقت ایک خفیہ اور ایک علانیہ۔ ایسی روایت ثعلبی نے بھی ذکر کی ہے ۔چونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس فضیلت میں منفرد ہیں ، لہٰذا امام بھی وہی ہیں ۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔

[جواب]:اس کے جواب میں کئی باتیں ہیں :

پہلی بات :....ہم اس نقل کا ثبوت طلب کرتے ہیں ؛ اس لیے کہ ثعلبی اور ابونعیم کی روایات اس [واقعہ ]کے صحیح ہونے پر دلالت نہیں کرتیں ۔

دوسری بات:....ہم دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ روایت صریح کذب ہے۔اس کی کوئی بھی صحیح سند ثابت نہیں ۔

تیسری بات:....یہ آیت ہر خرچ کرنے والے کے بارے میں عام ہے جو رات اور دن کو؛ اوراعلانیہ اور چپکے سے خرچ کریں ۔جو بھی اس پر عمل کرے ؛ وہ اس کے حکم میں داخل ہوگا؛ خواہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں یا پھر کوئی دوسرا ۔یہ بات ممتنع ہے کہ اس میں شخص واحد کے علاوہ کوئی دوسرا انسان داخل نہ ہوسکتا ہو۔

چوتھی بات : ....مصنف نے جودلیل ذکر کی ہے ؛ وہ آیت کے مدلول سے متناقض ہے۔اس لیے کہ آیت ان دو زمانوں میں خرچ کرنے کا بیان کررہی ہے جن سے کوئی بھی وقت خالی نہیں ہوسکتا؛ اور ان دو حالتوں کا بیان کررہے ہیں کہ کوئی بھی فعل ان دو حالتوں سے خالی نہیں ہوسکتا ۔کسی بھی کام کے کرنے کے لیے کوئی زمانہ ہونا چاہیے؛ اورزمانہ یاتو رات ہے ؛ اوریا پھر دن ہے ۔جب کوئی انسان رات کو خرچ کرتا ہے؛تو یقیناً وہ خفیہ طور پر خرچ کرنے والا ہے؛اور جب دن کو خرچ کرتا ہے تو اعلانیہ خرچ کرنے والا ہے؛ اس لیے کہ سراً و علانیۃ ً خرچ کرنے اور شب و روزخرچ کرنے میں تضاد نہیں پایا جاتا بلکہ جو شخص ظاہرو پوشیدہ خرچ کرتا ہے وہ شب و روز بھی خرچ کرتا ہے۔ اور جو شب و روز بھی خرچ کرتا ہے وہ سراً و علانیۃً بھی خرچ کرتا ہے۔ پس جس نے یہ کہا کہ اس سے مراد ایک درہم خفیہ طور پر اور ایک درھم اعلانیہ طور پر اور ایک درھم رات کو اورایک درھم دن کو خرچ کرنا مراد ہے ؛ وہ بڑا جاہل انسان ہے۔اس لیے کہ خرچ کرنے والا کبھی رات کو بھی اعلانیہ خرچ کرسکتا ہے ‘ اور کبھی دن کو بھی چھپا کر خرچ کرسکتا ہے۔نیز یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک درہم کو دو نصف درہم میں بھی تقسیم کرسکتے ہیں ۔اور ایک درہم کے دواوصاف بھی ہوسکتے ہیں ۔اس سے یہ واجب نہیں ہوتا کہ اس سے مراد چار ہوں ۔

[یہاں سے ]

لیکن اس قسم کی باطل تفاسیر بہت سے جہلاء سے منقول ہیں ۔ جیسا کہ وہ [اس آیت کی تفسیر میں ]کہتے ہیں :

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ سے مراد (أبو بکر) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے مراد (عمر) رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ سے مراد(عثمان) تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا سے مراد (علِی) مراد ہیں۔ 

پس یہ صفات جو کہ کئی متعدد موصوفین کے لیے ہیں ؛ انہیں صرف ان چار حضرات کی صفات تک محدود کردیتے ہیں ۔ جب کہ آیت واضح طور پر دونوں قسم کی غلط تفاسیر اور نظریات پر رد کرتی ہے۔ اور آیت میں صراحت ہے کہ یہ تمام صفات ایک پوری قسم کی صفات ہیں جن میں یہ تمام باتیں پائی جاتی ہیں ۔ اور ان موصوفین کی ایک کثیر تعدادہے؛ کوئی فرد واحد نہیں ۔ ہاں اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ چار حضرات ان باقی تمام لوگوں سے افضل ہیں ۔ اور ان چاروں میں سے ہر ایک میں یہ تمام صفات پائی جاتی ہیں ۔اگرچہ ان میں سے بعض صفات ان حضرات میں سے کسی ایک میں دوسری کی نسبت زیادہ اور نمایاں طور پر پائی جاتی ہیں ۔

اور ان سے بھی زیادہ ان جاہل مفسرین کا قول ہے جو کہتے ہیں :

﴿وَالتِّیْنِ وَالزَّیْتُوْنِ () وَطُوْرِ سِیْنِیْنَ () وَہٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ﴾ [التِینِ: 1۔3 ]

وہ کہتے ہیں : اس سے مراد چار لوگ ہیں ؛ جب کہ یہ تفسیر عقل و نقل کے خلاف ہے۔ اس کی صحیح تفسیر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُن تین مقامات کی قسم اٹھائی ہے جہاں پر اس نے اپنی تین کتابیں : تورات؛ انجیل اور قرآن نازل فرمائی ہیں ۔ اور ان علاقوں سے حضرت موسیٰ حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیہم السلام و صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہوا تھا۔ جیسا کہ تورات میں ہے :

’’ اللہ تعالیٰ سیناء سے آئے آ،اور ساعین میں تجلی فرمائی، اور فاران کی چوٹیوں سے ظاہر ہوئے۔‘‘

تین اور زیتون سے مراد وہ سر زمین ہے جہاں پر حضرت مسیح علیہ السلام مبعوث ہوئے۔ اکثر طور پر ایسے ہوتا ہے کہ جس زمین پر کوئی چیز زیادہ پیدا ہوتی ہو؛ اسے اسی کے نام سے موسوم کردیا جاتا ہے۔جیسا کہ کہا جاتا ہے: فلاں انسان زیتون کی زمین کی طرف گیا ہے؛ فلاں اناروں والی زمین کی طرف گیا ہے۔ اور اس طرح سے دیگر نام بھی دیے جاتے ہیں ۔اور اس سے مراد وہ سر زمین ہوتی ہے جہاں پر یہ چیزیں کثرت کے ساتھ ہوتی ہیں ۔ طورسنین [بیت ا لمقدس کے قریب]وہ سر زمین ہے جہاں پر اللہ تعالیٰ نے حضر ت موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تھا۔ اور بلد الامین سے مراد مکہ مکرمہ ام القری ہے جہاں پر رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور اور بعثت ہوئی۔

اس آیت کے معنی سے جاہل لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ جو درہم اعلانیہ خرچ کیا جاتا ہے جو کہ خفیہ خرچ کرنے کے علاوہ ہے۔ اور ایسے ہی رات کو خرچ کیا جانے والا دن کو خرچ کردہ درہم کے علاوہ ہے۔ اور پھر یہ دعوی کر بیٹھتا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے جو چاردرہم خرچ کریں ۔حقیقت یہ ہے کہ یہ ضروری نہیں کہ کسی کے پاس چار درہم ہوں ؛ خواہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہوں یا کوئی دوسرا ہو۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے :

﴿ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَہُمْ فِی اللیل وَالنَّہَارِ سِرًّاوَّ عَلَانِیَۃً﴾ (البقرہ:۲۷۴)

’’جو لوگ اپنے مالوں کو رات دن میں چھپ کر اورکھلے عام خرچ کرتے ہیں ۔‘‘

یہاں پر [والنہارسرا] میں حرف عطف واؤ نہیں لایا گیا ۔بلکہ یہ دونوں رات اور دن میں داخل ہیں ۔ اس آیت کے معانی سے جاہل انسان اس وہم کا شکار ہوگیا کہ جو خفیہ طور پر اور اعلانیہ خرچ کرتا ہے وہ اس آدمی کی طرح نہیں ہے جو دن و رات میں خرچ کرتا ہے ؛۔اس لیے وہ کہتا ہے کہ : یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جن کے پاس چار درھم ہوں ۔ بلکہ سرّ و اعلانیہ دونوں لیل و نہار(شب و روز) میں بھی داخل ہیں خواہ سراً و علانیہ مصدر ہونے کی بنا پر منصوب ہوں یا حال ہونے کی وجہ سے۔ اس سے معلوم ہوا کہ رافضی قرآنی اندازِ دلالت سے بالکل جاہل ہے ۔اور رافضیوں میں اس قسم کی جہالت کا پایا جانا کو ئی اچھوتی بات نہیں ہے۔

پانچویں بات:....اگر مان لیا جائے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی ؛اور آپ نے ایسا کیابھی تھا؛ تو کیا چار دراہم کے چار احوال میں خرچ کرنے کے علاوہ اللہ کی راہ میں کوئی خرچہ نہیں کیا جاسکتا۔یہ عمل تو ایسا ہے کہ ہر شخص کے لیے خرچ کرنے کا دروازہ کھلا ہے اور تاقیامت کوئی ممانعت نہیں ۔اور اس پر عمل کرنے والے بلکہ اس سے کئی گنابڑھ چڑھ کر خرچ کرنے والے اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا اعداد و شمار ممکن نہیں ؛اور ان میں سے ہر ایک میں خیر و بھلائی کا عنصر پایا جاتا ہے ۔اس میں نہ ہی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت ہے اور نہ ہی اس سے فضیلت اورامامت ثابت ہوتی ہے۔