Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھائیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھائیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے: ’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اٹھائیسویں دلیل امام احمد بن حنبل صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ روایت ہے جو انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کی ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں بھی:﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا﴾ 

’’اے ایمان والو ‘‘ آیا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے رئیس و امیر ہیں ۔ اللہتعالیٰ نے قرآن کریم میں اصحاب رسول کو معتوب کیا ہے‘‘ مگر علی رضی اللہ عنہ کا ذکر ہمیشہ مدحیہ انداز میں کیا۔ اس سے معلوم ہوا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سب سے افضل ہیں ۔ لہٰذا آپ ہی امام ہوئے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔

[جواب]:ہم شیعہ سے زیر تبصرہ روایت کی صحت ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ، یہ روایت امام احمد نے نقل نہیں کی ، اور اگر بالفرض امام صاحب نے ’’الفضائل‘‘ وغیرہ میں نقل بھی کی ہو تو صرف نقل کرنے سے روایت کی صحت و صداقت ثابت نہیں ہوتی؛ توپھر کیسے کوئی بات کہہ سکتے ہیں جب کہ آپ نے یہ روایت نہ ہی مسند میں نقل کی ہے اور نہ ہی الفضائل میں ۔ بلکہ یہ روایت ’’فضائل صحابہ ‘‘ میں القطیعی کے اضافات میں سے ہے۔اس کی سند یہ ہے : 

((عن ابراہیم عن شریک الکوفی؛ حدثنا ذکریا بن یحی الکسائی حدثنا عیسی عن علی بن بذیمہ عن عکرمہ عن ابن عباس۔))

اہل علم کا اتفاق ہے کہ ایسی سند قابل حجت نہیں ہوسکتی۔[ دراصل یہ ابن عباس پر افتراء ہے]۔ اس روایت کی سند میں زکریابن یحی الکسائی نامی راوی ہے۔اس کے متعلق یحی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’انتہائی برا آدمی تھا ؛ اپنی طرف سے حدیثیں گھڑا کرتا تھا ؛ اس بات کا مستحق تھا کہ اس کے لیے کنواں کھود کر اس میں گرا دیا جائے ۔‘‘

امام دار قطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’متروک الحدیث ہے ۔ ‘‘

ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’صحابہ کرام پر طعنہ زنی کے لیے روایات گھڑا کرتا تھا۔ ‘‘

دوسری بات:....یہ بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر جھوٹ گھڑی گئی ہے ۔ بخلاف ازیں ابن عباس سے بتواتر منقول ہے کہ آپ شیخین کو حضرت علی رضی اللہ عنہ سے افضل قرار دیتے تھے۔ ابن عباس نے کئی دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو معتوب کیا اور ان کی مخالفت کی۔کئی امور میں آپ پر تنقید کیا کرتے تھے۔ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان زنادقہ کو نذر آتش کیا تھا جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو رب ماننا شروع کردیا تھا؛ توحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: اگر علی رضی اللہ عنہ کی جگہ میں ہوتا تو زنادقہ کو جلانے کی بجائے ان کو قتل کردیتا،کیوں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ:’’ کسی کو عذاب الٰہی میں مبتلا نہ کرو۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب استتابۃ المرتدین، باب حکم المرتد(حدیث:۶۹۲۲)۔]

نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے : ’’ جوکوئی اپنے دین کو بدل ڈالے ؛ اسے قتل کردو۔‘‘ [صحیح بخاری]

جب اس بات کی خبر حضرت علی رضی اللہ عنہ تک پہنچی تو آپ نے فرمایا : ’’ ابن عباس رضی اللہ عنہ کی ماں کے لیے افسوس ہے ۔‘‘

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ثابت ہے کہ آپ کتاب اللہ کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے ؛ جب آپ کے پاس کتاب و سنت سے دلیل موجود نہ ہوتی تو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے قول کے مطابق فتوی دیا کرتے تھے۔ یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی جناب ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اتباع اورحضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخالفت کی ایک مثال ہے۔

کئی ایک علماء ؛- جن میں زبیر ابن بکار رحمہ اللہ بھی شامل ہیں -نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے نام آپ کے جواب کا بھی ذکر کیا ہے کہ؛ جب آپ بصرہ کا مال لے گئے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انہیں سخت قسم کا خط لکھا۔تو آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جو جواب دیا ؛ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ : ’’جو کچھ میں نے کیا ہے ؛ وہ اس سے بہت کم ہے جو تم نے کیا ہے؛ تم نے اپنی امارت میں مسلمانوں کا خون ناحق بہایا ہے ۔‘‘

تیسری بات :....علاوہ ازیں صرف ﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾میں مدح کا کوئی پہلو موجود نہیں ۔کیونکہ کئی ایک مواقع پر اللہ تعالیٰ یہی الفاظ استعمال کرتے ہوئے اہل ایمان کو معتوب کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَoکَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ

’’اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو۔تم جو کرتے نہیں اس کا کہنا اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے۔‘ ‘

اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ اس آیت کے رئیس و امیر ہیں تو آپ اس عتاب میں بھی داخل ہیں جس پر اللہ تعالیٰ نے انکار و مذمت کی ہے۔[ لہٰذا اس سے تمہاری وہ روایت غلط ٹھہری کہ علی کا ذکر ہمیشہ مدحیہ انداز میں کیا ہے]۔

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿ ٰٓیاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِِلَیْہِمْ بِالْمَوَدَّۃ

(الممتحنۃ:۱)

’’اے مؤمنو! میرے اور اپنے دشمنوں کو دوست نہ بناؤ؛ تم دوستی سے ان کی طرف پیغام بھیجتے ہو۔‘‘

یہ صحاح ستہ میں ثابت شدہ بات ہے کہ یہ آیت حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں اس وقت نازل ہوئی۔جب آپ نے مشرکین مکہ کو خط لکھا۔[صحیح بخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح(حدیث:۴۲۷۴)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل حاطب بن ابی بلتعۃ رضی اللّٰہ عنہ (حدیث: ۲۴۹۴)۔]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور حضرت زبیر رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ اس عورت کو پکڑ لائیں جس کے پاس یہ خط موجود ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت حاطب رضی اللہ عنہ کی غلطی سے بری ہیں ۔توپھر آپ اس میں مخاطب ان لوگوں کا سردار کیسے کہا جاسکتا ہے جن کی غلطی پر اللہ تعالیٰ نے انہیں ملامت کی تھی۔

نیز اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا

’’اے ایمان والو! جب تم اللہ کی راہ میں جا رہے ہو تو تحقیق کر لیا کرو اور جو تم سے سلام علیک کرے تم اسے یہ نہ کہہ دو کہ تو ایمان والا نہیں ؛تم دنیاوی زندگی کے اسباب کی تلاش میں ہو....‘‘

یہ آیت ان لوگوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہوں نے مال غنیمت کے ساتھ ایک آدمی کوپایا؛ اس نے کہا : میں مسلمان ہوں ؛ ان لوگوں نے اس کی بات کو سچا نہ مانا؛ اور اس سے مال غنیمت چھین لیا۔تو اللہ تعالیٰ نے انہیں حکم دیا کہ بات کو واضح اور ثابت ہوجانے دیا کریں ۔اور انہیں دنیاوی مال کی وجہ سے کسی بھی اسلام کے مدعی کی تکذیب کرنے سے منع کیا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں کی غلطی سے بری ہیں ۔تو پھر کیسے کہاجاسکتا ہے کہ آپ ان کے سردار ہیں ۔ اس کے امثال و نظائر بہت ہیں ۔

چوتھی بات:....اس قسم کے الفاظ میں سب اہل ایمان شامل ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی اس خطاب کا سبب ہوسکتا ہے۔ تو اس میں کوئی شک نہیں کہ لفظ اسکو بھی ایسے ہی شامل ہوتا ہے جیسے اس کے علاوہ دوسرے لوگوں کوشامل ہوتا ہے۔اس آیت کے الفاظ میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر اہل ایمان کے مابین فرق کیا جاسکے۔

پانچویں بات :....بعض لوگوں کا بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بارے میں یہ کہنا کہ : آپ اس آیت کے سردار ہے ؛ یا اس آیت کے امیر ہیں یا اس طرح کے دیگر کلمات کہنا؛ اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اگر اس سے مراد یہ ہو کہ وہ صحابی اس آیت کا پہلا مخاطب ہے تو پھر یہ ایک دوسری بات ہے۔اس لیے کہ آیت میں خطاب تمام مخاطبین کو یکساں طور پر شامل ہوتا ہے۔ان میں سے بعض کو بعض پر شمول خطاب کی وجہ سے ترجیح نہیں دی جاسکتی۔

اگر یہ کہا جائے کہ : آپ [یعنی حضرت علی] نے سب سے پہلے اس آیت پر عمل کیا ہے ۔ تو پھر بھی معاملہ ایسے نہیں ہے۔ بعض آیات ایسی ہیں جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے پہلے دوسرے لوگوں نے عمل کیا اور بعض ایسی بھی ہیں جن پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو عمل کرنے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔

اگر یہ کہا جائے کہ اس آیت کا دوسرے لوگوں کو شامل ہونا ؛ یا کسی دوسرے کا اس پر عمل کرنا آپ کے ساتھ مشروط ہے ۔جیسا کہ جمعہ میں امام ہوتا ہے ۔ تو پھر بھی بات ایسے نہیں ہے۔اس لیے کہ خطاب کے بعض افراد کو شامل ہونے میں دوسرے لوگوں کو شامل ہونے کی شرط نہیں ہوتی ۔اور نہ ہی لوگوں پر آیت کے مطابق عمل کرنا کا وجوب دوسرے لوگوں پر واجب ہونے کے ساتھ مشروط ہوتا ہے۔

اگر یہ کہا جائے کہ آپ ان لوگوں میں سب سے افضل ہیں جو آیت سے مراد ہیں ۔اگر آپ کا افضل ہونا ثابت ہوجائے تو پھر اس آیت سے استدلال کرنے کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ اور اگر ایسا کچھ ثابت نہ ہو ؛ تو پھر اس آیت سے استدلال کرنا جائز نہیں رہتا۔ پس دونوں لحاظ سے اس آیت سے استدلال کرنا باطل ٹھہرا۔

آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما حضرت علی رضی اللہ عنہ کو افضل سمجھتے تھے ؛ حالانکہ یہ بات بھی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما پر جھوٹ ہے ؛ اور آپ سے معلوم شدہ باتوں کے خلاف ہے۔ پھر اگر مان لیا جائے کہ آپ نے ایسا کچھ کہا تھا تو پھر بھی جب جمہور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس کی مخالفت کررہے ہیں تو پھر کسی ایک صحابی کاقول حجت نہیں ہوسکتا ۔

چھٹی بات :....شیعہ کا یہ قول کہ: اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صحابہ کو معتوب کیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمیشہ مدح فرمائی‘‘ صریح کذب ہے۔اس لیے کہ قرآن کریم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو کہیں بھی معتوب نہیں کیا گیا؛ اور نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوکبھی کوئی تکلیف پہنچی۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ میں فرمایا تھا: ارے لوگو! ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق پہچانو، اس نے مجھے کبھی تکلیف نہیں پہنچائی۔‘‘ [مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر(۶؍۱۲۹)۔ ]

احادیث میں یہ بھی ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کی نصرت فرمایا کرتے تھے۔ اور لوگوں کے آپ کے ساتھ تعارض اوراختلاف کرنے سے باز رکھا کرتے تھے۔او ریہ بات کسی نے بھی نقل نہیں کی کہ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کوئی تکلیف پہنچائی ہو۔جیسا کہ بعض دوسرے لوگوں کے بارے میں نقل کیا گیا ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خطبہ آپ کے اس خطبہ کے بالکل برعکس ہے جو آپ نے اس وقت دیا جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابوجہل کی بیٹی کے ساتھ نکاح کرنے کا ارادہ کیا تھا۔[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ۔ باب ذکر اصہار النبی رضی اللّٰہ عنہم (ح:۳۷۲۹،۵۲۳۰)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل فاطمۃ رضی اللّٰہ عنہ (ح: ۲۴۴۹)۔] ایساخطبہ آپ نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں کبھی نہیں دیا تھا۔

یہ امر بھی قابل غور ہے کہ جس طرح حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بڑے بڑے عام کاموں میں حصہ لیا کرتے تھے،جیسے ولایت ؛ جنگ اوربخشیش کے سلسلہ میں مشاورت وغیرہ اور دیگر امور۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایسے کاموں میں مداخلت نہیں کیا کرتے تھے۔ یہ دونوں بزرگ آپ کے وزیر کی حیثیت رکھتے تھے[ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے بچوں کی طرح صغیر السن تھے]۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بدر کے قیدیوں کے بارے میں مشورہ کیا ؛ بنی تمیم کے بارے میں مشورہ کیا کہ ان پر کس کو متولی بنایا جائے؟اور ان کے علاوہ دیگر امور جن میں مشاورت کی ضر ورت ہوتی تھی ؛ آپ ان سے بطور خاص مشورہ کیا کرتے تھے۔

صحیحین میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شہادت پائی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے اور فرمایا:’’مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کیساتھ اٹھائیں گے۔ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اکثر سنا کرتا تھاکہ: میں اور ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما داخل ہوئے۔میں اور ابوبکر و عمرنکلے، میں اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما گئے ۔‘ ‘[سبق تخریجہ] 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ذاتی امور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا کرتے تھے ۔ واقعہ افک کے بارے میں آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا۔حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے ان کی رائے پوچھی۔ اور حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے بھی آپ نے مشورہ کیا۔ یہ آپ کے ذاتی امور تھے۔اس لیے کہ جب آپ کو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسی خبر پہنچی جس کی وجہ سے آپ شک میں مبتلا ہوگئے کہ کیا آپ کو طلاق دیدیں یا اپنے نکاح میں باقی رکھیں ؟تو کبھی آپ حضرت بریرہ رضی اللہ عنہا سے سوال کرتے تاکہ اندر کی کوئی خبر مل سکے ۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مشورہ لیا کہ کیا انہیں روکے رکھیں یا طلاق دے دیں ؟

تو انھوں نے کہا:‘‘ آپ پر کوئی تنگی نہیں ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سوا عورتیں اور بھی بہت ہیں ۔لونڈی سے پوچھیے وہ آپ کی تصدیق کرے گی۔‘‘[نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس ضمن میں حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے مشورہ لیا تو انھوں نے کہا: ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پ کی بیوی ہیں ہمیں ان کے متعلق بھلائی ہی کا علم ہے]۔ [سبق تخریجہ]

چنانچہ قرآن کریم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی براء ت نازل ہوئی اور آپ کو حکم د یا گیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو اپنے گھر میں آباد رکھیں جیسا کہ محبوب رسول حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا تھا۔اس واقعہ میں علی رضی اللہ عنہ کے مشورہ کے بجائے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے مشورہ کو صحیح قرار دیا گیا ہے۔[حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مرتبہ حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ سے یقیناً بڑا ہے]۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ بھی مشورہ میں شریک ہوا کرتے تھے‘او رآپ کی ازواج مطہرات سے بات چیت کرتے ۔ یہاں تک کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ اے عمر ! تم نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم او رآپ کی بیویوں کے مابین ہر چیز میں دخل دینا شروع کردیا ہے ۔‘‘

وہ کلی اورعام امور جو تمام مسلمانوں کو شامل ہوا کرتے تھے ؛ جب ان کے بارے میں کوئی خاص وحی نہ ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے مشورہ لیا کرتے ؛ اگرچہ ان کے علاوہ دوسرے لوگ بھی اس مشورہ میں شامل ہواکرتے تھے۔ مگر شوری میں اصل کردار ان دوحضرات کا ہوا کرتا تھا۔اور بیشتر اوقات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی موافقت میں قرآن نازل ہوا کرتا؛ اور کبھی آپ کے خلاف حق واضح ہوتا تو آپ اپنی رائے رجوع کرلیتے۔

جب کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں یہ علم نہیں ہوسکا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی کسی بات پر انکار کیا ہو۔ اور نہ ہی آپ پر کسی دوسری چیز کو متقدم رکھا کرتے۔سوائے اس کے بنی تمیم پر متولی مقرر کرنے کے مسئلہ ان دونوں حضرات میں اختلاف ہوا ؛ حتی کہ دونوں کی آوازیں بلند ہوگئیں ۔تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ

[الحجرات۲]

’’اے مؤمنو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو۔‘‘

اس واقعہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا والے واقعہ سے بڑھ کر اذیت نہیں ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتے ہیں : ﴿ وَ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ ﴾ [الأحزاب۵۳]

’’اور تمہارے لیے ہر گزیہ مناسب نہیں کہ تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی تکلیف دو۔‘‘

جب کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

﴿یٰٓأَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ﴾ [النساء ۴۳]

’’اے ایمان والو! جب تم نشے میں مست ہو نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ اپنی بات کو سمجھنے نہ لگو۔‘‘

یہ اس وقت ہوا جب نشہ کی حالت میں نمازپڑھی اور اس کی قرأت میں خلط ملط ہوگیا تھا۔

ایک مرتبہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دروازہ پر دستک دے کر دریافت فرمایا:

’’ کیا تم نماز (تہجد) نہیں پڑھ رہے؟‘‘

حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا، ہماری جانیں اللہ کے قبضہ میں ہیں جب چاہتا ہے جگا دیتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ سن کر افسوس کے عالم میں اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے چل دئیے، زبان مبارک پر بے ساختہ یہ الفاظ جاری تھے:

﴿ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًا

’’انسان جھگڑا کرنے میں سب چیزوں سے بڑھا ہوا ہے۔‘‘[اس کی تخریج گزرچکی ہے ]