Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا سعید احمد جلال پوری شہید رحمۃ اللہ کا فرمان


سوال: کلمہ گو اور اہلِ قبلہ کی شرعاً کیا تعریف ہے؟ قادیانی مرزائی و لاہوری مرزائی احمدی اہل قبلہ و کلمہ گو مسلمان ہیں یا نہیں؟ اگر نہیں تو کس وجہ سے؟

جواب: کلمہ گو اور اہلِ قبلہ ایک خاص اصطلاح ہے اسلام اور مسلمانوں کی جس کا یہ مطلب کسی کے نزدیک نہیں کہ جو کلمہ پڑھ لے، خواہ کسی طرح پڑھے ،وہ مسلمان ہے یا جو قبلے کی طرف منہ کرے وہ مسلمان ہے، بلکہ یہ لفظ اصطلاحی نام ہے اس شخص کا جو تمام احکامِ اسلامیہ کا پابند ہو۔ جیسے کہا جاتا ہے کہ فلاں شخص ایم اے پاس ہے۔ تو ایم اے ایک اصطلاحی نام ہے، ان تمام علوم کا جو اس درجے میں سکھائے جاتے ہیں، نہ یہ کہ جو ایم اے کے الفاظ میں پاس ہوتا ہو اور یا درکھتا ہو ۔ اس طرح اہلِ قبلہ کے معنیٰ بھی باتفاق امت یہی ہیں کہ جو تمام احکامِ اسلامیہ کا پابند ہو کما صرح به في عامة كتاب الكلام

(الفتاویٰ ختم نبوت: جلد، 1 صفحہ، 106) 

سوال: لا تکفر اهل قبلتك حدیث ہے یا نہیں؟ اور اس کا کیا مطلب ہے؟

جواب: حديث لا تکفر اهل قبلتک کے متعلق جواباّ عرض ہے کہ ان لفظوں کے ساتھ تو یہ جملہ کسی حدیث کی کتاب میں نظر سے نہیں گزرا لیکن اس مضمون کے جملے بعض احادیث میں وارد ہیں۔ مگر قادیانی مبلغ جو ان الفاظ کو ناتمام نقل کر کے اپنے کفر کو چھپانا چاہتا ہے۔

اور حقیقت یہ ہے کہ اس کی حیثیت اس سے زیادہ نہیں جیسے قرآن کریم سے کوئی شخص لا تقربوا الصلوہ نقل کرے۔ کیونکہ جن احادیث میں اس قسم کے الفاظ واقع ہیں ، ان کے ساتھ ایک قید بھی مذکور ہے، یعنیٰ بذنب او لعمل وغیرہ۔ جس کی غرض یہ ہے کہ کسی گناہ و معصیت کی وجہ سے کسی اہلِ قبلہ کو یعنیٰ مسلم مسلمان کو کافر مت کہو۔ چنانچہ بعض روایات میں اس کے بعد ہی یہ لفظ بھی منقول ہیں الا ان ترو اکفر ابوحا یعنیٰ جب تک کفر صریح نہ دیکھو، کافر مت کہو ۔ خواہ گناہ کتنا بھی سخت کرے۔

یه روایت ابو داؤد، کتاب الجهاد جلد، 1 صفحہ، 262 میں سیدنا انسؓ سے اس طرح مروی ہے ثلاث من اصل الایمان: الكف على قال لا اله الا الله ولا تكفر بذنب ولا تخرجه من الاسلام نیز بخاري شریف: جلد، 1 صفحہ، 57 میں سیدنا انسؓ سے روایت کیا ہے مرفوعا۔من شهدان لا اله الا الله واستقبل قبلتنا وصلى صلاتنا واكل ذبيحتنا فهو المسلم۔

اہلِ قبلہ سے مراد باجماع امت وہ لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین کو مانتے ہیں، نہ کہ یہ قبلے کی طرف نماز پڑھ لیں، چاہے ضروریاتِ اسلامیہ کا انکار کرتے رہیں۔

کمافي شرح المقاصد قال : المبحث السابع في حكم مخالف المحقق من اهل القبلة ليس بكافر مالم يخالف ما هو من ضروریات الى قوله فلا نزاع في كفر اهل القبلة المواظب طول العمر على الطاعات باعتقاد قدم العالم ونفى الحشر ونفى العلم بالجزئيات ونحو ذلک و کذا بصدور شٸ من موجبات الكفر عنه الأكبروان غلا فيه حتى وجب اكفاره به لا يعتبر خلافه ووفاقه ايضاً إلى قوله وان صلى إلى القبلة واعتقد نفسه مسلما لأن الأمة ليست عبارة عن المصلين إلى القبلة بل عن المؤمنين ونحوه في الكشف للبزدوی : جلد، 3 صفحہ 238 لا خلاف في كفره المخالف في ضروريات الاسلام وان كان من أهل القبلة المواظب طول عمره على الطاعات وقال الشامي أيضاً اهل القبلة في اصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين أى الأمور التي علم ثبوتها في الشرع واشتهر و من انكر شيئا من الضروريات الاسلام کحدوث العلم وحشر الاجسادو نفى المعلم بالجزئيات وفرضية الصلوة والصوم لم يكن من أهل القبلة ولو كان مجاهداً بالطاعات الى قوله و معنى عدم تغير اهل القبلة ان لا يكفر بارتكاب المعاصي ولا بانكار الأمور الخيفة غير المشهورة ، هذا ما حققه المحققون فاحفظه ومثله قال المحقق ابن امير الحاج في شرح التحرير لابن همام والنهي عن تكفير اهل القبلة هو الموافق على ما هو من ضروريات الاسلام۔

(فتاوٰى ختم نبوت: جلد، 1 صفحہ، 107)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اہلِ قبلہ کو کافر کہنا اس وقت تک درست نہیں جب تک اس میں کوئی وجہ کفر کی یقینی موجود نہ ہو مثلا اگر کوئی رافضی نماز روزے کا پابند ہو کر اصل پیغمبری سیدنا علیؓ کا حق گمان کرے تو اس کے کفر میں کسی کو کلام ہے۔

وفي رد المختار ان الرافضي ان كان ممن يعتقد الالوهية فی علمی اوان جبرئيل عليه السلام غلط في الوحي .... فهو كافر المخالفة القواطع المعلومة من الدين بالضرورة

(فتاویٰ ختم نبوت: جلد، 2 صفحہ، 22)