Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ کا فرمان


حضور اکرمﷺ نے استقبالِ قبلہ کو اسلام کا خصوصی شعار قرار دے کر اس شخص کے جو ہمارے قبلہ کی جانب رخ کر کے نمازی پڑھتا ہو مسلمان ہونے کی علامت قرار دیا ہے حضوراکرمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص ہمارے جیسی نماز پڑھتا ہو، ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرتا ہوں، ہمارا ذبیحہ کھاتا ہو، پس یہ شخص مسلمان ہے جس کیلئے اللہ تعالیٰ کا اور اس کے رسول کا عہد ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کے عہد کو مت توڑو۔ ظاہر ہے کہ اس حدیث کا یہ منشاء نہیں کہ ایک شخص خدا تعالیٰ اور رسول کا منکر ہو قرآن کریم کے قطعی ارشادات کو جھٹلاتا ہو، اور مسلمانوں سے الگ عقائد رکھتا ہو تب بھی وہ ان کاموں کی وجہ سے مسلمان ہی شمار ہوگا ، بلکہ حدیث شریف کا منشاء یہ ہے کہ نماز، استقبالِ قبلہ اور ذبیحہ کا معروف طریقہ صرف مسلمانوں کا شعار اور ان کی مخصوص علامت ہے جو اس وقت کے مذاہب عالم سے ممتاز کر رکھی گئی تھی۔ پس کسی غیر مسلم کو یہ حق حاصل نہیں کہ کفریہ عقائد رکھنے کے باوجود ہمارے اس شعار کو اپنائے۔ چنانچہ حافظ بدرالدین معینیؒ اس حدیث شریف کی شرح میں لکھتے ہیں کہ اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرنا ہمارے ساتھ مخصوص ہے۔ اور شیخ ملا علی قاریؒ لکھتے ہیں کہ ہمارے قبلہ کی جانب منہ کرنا یہ صرف ہماری خصوصیت ہے۔

ان تشریحات سے واضح ہوا کہ استقبالِ قبلہ اسلام کا اہم ترین شعار ہے، اور مسلمانوں کی معروف ترین علامت سے اسی بنا پر اہلِ اسلام کا لقب اہلِ قبلہ قرار دیا گیا ہے۔ 

پس جو شخص اسلام کے قطعی متواتر اور مسلمہ عقائد کے خلاف کوئی عقیدہ رکھتا ہو وہ اہلِ قبلہ میں داخل نہیں، نہ اسے استقبالِ قبلہ کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

(الفتاوىٰ بينات: جلد، 3 صفحہ، 696)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اہلِ قبلہ کی اُس وقت تک تکفیر نہیں کی جاتی جب تک ضروریاتِ دین کا یا کسی ایسی چیز کا جس پر اجتماع منعقد ہو، انکار نہ کرے مثلاً حرام کو حلال سمجھنا۔ جو شخص تکذیب کرے یا کلیات شریعت میں سے کسی قائدہ سے انکار کرے یا جو نیز نبی کریمﷺ سے متواتر ثابت ہے اس سے انکار کرے اس کی تکفیر قطعی و یقینی ہے۔

(فتاوىٰ بينات: جلد، 1 صفحہ، 253)