Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تیسویں دلیل یہ آیت ہے :

﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِoبَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ (الرحمن:۱۹۔۲۰)

’’اس نے دو دریا جاری کر دیئے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ۔ان دونوں کے درمیان ایک پردہ ہے( جس سے ) وہ آگے نہیں بڑھتے۔‘‘

ثعلبی اور ابونعیم حضرت ابن عباس سے روایت کرتے ہیں کہ ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ﴾سے حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ مراد ہیں ۔﴿بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾ سے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔ یہ فضیلت صحابہ میں سے اور کسی کے حصہ میں نہیں آئی، لہٰذا حضرت علی رضی اللہ عنہ اولیٰ بالامامت ہوں گے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]

جواب:گزارش ہے کہ یہ بات اور اس طرح کی دیگر باتیں [اور باطل تفسیریں ] وہی بیان کرسکتا ہے جسے یہ بھی پتہ نہ ہو کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ یہ تفسیر قرآن نہیں بلکہ تحریف و ہذیان ہے جسے ملاحدہ اور باطنی قرامطہ نے وضع کیا ہے۔ بلکہ یہ قول بہت سے قرامطہ کے قول سے بھی بڑھ کر خطرناک اور شر پر مبنی قول ہے۔تفسیر کا یہ طریقہ ان ملحدین کا طریقہ ہے جو کہ قرآن پر طعنہ زنی کرنا چاہتے ہیں ۔بلکہ قرآن کے بارے میں ایسی باتیں کہنا سب سے بڑی قدح وتشنیع کا موجب ہیں ۔ حقیقت میں یہ رافضیوں کا الحاد ہے ۔[اہل ِ]سنت کی طرف منسوب جاہلوں کی ان چار میں اپنی ہی تفسیر ہے۔ اگرچہ یہ تفسیر بھی باطل ہے؛ تاہم شیعہ کی تفسیر سے قدرے بہتر ہے۔ وہ کہتے ہیں :

الصابِرِین: سے مراد محمد صلی اللہ علیہ وسلم ۔ الصادِقِین سے مراد: أبو بکر رضی اللہ عنہ 

القانِتِین سے مراد: عمر رضی اللہ عنہ ، المنفِقِین سے مراد: عثمان رضی اللہ عنہ 

المستغفِرِین بِالأسحارِ سے مراد: علِی رضی اللہ عنہ ۔ 

بالکل ویسے ہی جیسا کہ اس آیت کی تفسیر میں کرتے ہیں :

مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ:

وَالَّذِينَ مَعَهُ:سے مراد (أبو بکر رضی اللہ عنہ ) أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ سے مراد:(عمر رضی اللہ عنہ )۔

رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ سے مراد: (عثمان رضی اللہ عنہ )۔ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا:سے مراد(علِی رضی اللہ عنہ )ہیں 

اور جیسا کہ یہ کہتے ہیں کہ:

وَالتِّينِ سے مراد:حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ وَالزَّيْتُونِ سے مراد: حضرت عمر رضی اللہ عنہ 

وَطُورِ سِينِينَ سے مراد: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔ الْبَلَدِ الْأَمِينِ سے مراد:حضرت علِی رضی اللہ عنہ ہیں ۔

اور جیسا کہ یہ بھی کہتے ہیں کہ:

﴿وَالْعَصْرِ () إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ:

إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا: سے مراد حضرت أبو بکر رضی اللہ عنہ ۔

وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ:سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ 

وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ سے مراد: حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ۔

وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ سے مراد: حضرت علِی۔ رضی اللہ عنہ ہیں ۔ 

یہ تفسیر بھی اپنے سے پہلی تفاسیر کی جنس سے تعلق رکھتی ہے۔

جیسا کہ شیعہ کہتے ہیں :

۱۔﴿وَکُلَّ شَیْئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ﴾ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔

۲۔ ﴿وَاِِنَّہٗ فِیْٓ اُمِّ الْکِتٰبِ لَدَیْنَا لَعَلِیٌّ حَکِیْمٌ﴾ اس سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔

۳۔ ﴿اَلشَّجْرَۃُ الْمَلْعُوْنَۃُ﴾ اس سے مراد بنو امیہ ہیں ۔

اس طرح کی دیگر من گھڑت تفسیریں اور باتیں جو کوئی بھی ایسا انسان نہیں کہہ سکتا جسے اللہ تعالیٰ کے وقار کا کچھ ذرا بھر بھی خیال ہو اور نہ ہی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی انسان ایسی بات کہہ سکتا ہے ۔

یہی حال ان لوگوں کا بھی ہے جو کہتے ہیں کہ: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ﴾ (الرحمن:۱۹)

’’اس نے دو دریا جاری کر دیئے جو ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں ۔‘‘

اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ مراد ہیں ۔‘‘

﴿بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ اس سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؛ 

اور﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾لؤلؤ اور مرجان سے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔ [ذیل میں بلا تبصرہ شیعہ کے ہاں تحریف قرآن کی مثالیں پیش کررہے ہیں :[ابو عبداللہ نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا ہے : ] ﴿اَللّٰہُ نُوْرُ السَّمٰواتِ وَالْاَرْضِ مَثَلَ نُوْرِہِ کَمِشْکوٰۃٍ ﴾: سے مراد فاطمۃ ’’اللہ نور ہے آسمانوں کا اور زمین کا اس کے نور کی مثال مثل ایک طاق کے ہے۔ ‘‘ یعنی فاطمہ۔ ﴿ فِیْہَا مِصْبَاحٌ﴾ أیْ : الحسن ’’جس میں چراغ ہو۔‘‘ یعنی الحسن ﴿ اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَۃٍ ﴾: أَیْ الْحُسین ’’اور چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو۔‘‘ یعنی الحسین ﴿الزُّجَاجَۃُ کَاَنَّہَا کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ﴾: فَاطِمَۃُ کَوْکَبٌ دُرِّیٌّ بَیْنَ نِسَائِ أَہْلِ الدُّنْیَا ’’شیشہ مثل چمکتے ہوئے روشن ستارے کے ہو۔‘‘ یعنی فاطمہ اہل دنیا کی تمام خواتین کے درمیان چمکتا ہوا ستارہ ہے۔ ‘‘ ﴿ یَوْقَدُ مِنْ شَجَرَۃٍ مُّبٰرَکَۃٍ﴾: إبراہیم ’’ وہ چراغ ایک بابرکت درخت سے جلایا جاتا ہو۔‘‘ یعنی ابراہیم۔ ﴿ زَیْتُوْنَۃٍ لاَّ شَرْقِیَّۃٍ وَّلَا غَرْبِیَّۃٍ ﴾: لَا یَہُوْدِیَّۃٍ وَّلَا نَصْرَانِیَّۃٍ ’’زیتون کے درخت سے جو نہ مشرقی ہے اور نہ مغربی۔‘‘ یعنی وہ نہ تو یہودیت ہے اور نہ ہی نصرانیت۔ ﴿ یَکَادُ زَیْتُہَا یُضِیْئُ ﴾: یَکَادُ الْعِلْمُ یَنْفَجِرُبِہَا ’’ خود وہ تیل قریب ہے کہ آپ ہی روشنی دینے لگے ۔‘‘ یعنی قریب ہے کہ علم خود بخود ہی اس سے پھوٹنے لگے۔ ﴿وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْہُ نَارٌ نُوْرٌ عَلٰی نُوْرٍ﴾ إِمَامٌ مِّنْہَا بَعْدَ إِمَامٍ ’’گو اسے مطلقاً آگ لگی ہی نہ ہو نور پر نور ہے۔‘‘ یعنی ایک امام کے بعد دوسرا امام ہے ۔ ﴿ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآئُ﴾ یَہْدِی اللّٰہُ لِلْأَئِمَّۃِ مَنْ یَّشَائُ (]

جس انسان کو ادنیٰ علم اور عقل ہو وہ اس تفسیر کے بطلان کو جانتا ہے اور اسے علم ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسی کوئی من گھڑت تفسیر بیان نہیں کی۔

[’’ اللہ تعالیٰ اپنے نور کی طرف رہنمائی کرتا ہے جسے چاہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہے ائمہ کی طرف ہدایت دیتا ہے۔ ﴿ وَیَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ﴾۔ ’’ لوگوں کے سمجھانے کو یہ مثالیں اللہ تعالیٰ بیان فرما رہا ہے۔‘‘[أصول لکافی: ۱؍ ۱۴۰( کتاب الحجۃ، ح: ۵أن الأئمۃ نور اللّٰہ عزوجل] ۳: شیعی علماء شرک سے روکنے والی آیات کی تفسیر کرتے ہیں کہ وہ آیات علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی ولایت میں شرک کرنے سے روکنے والی ہیں یا آپ کی ولایت کا کفر کرنے سے روکنے والی ہیں ۔قمی، باقر رحمہ اللہ سے روایت کرتا ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تفسیر میں فرمایا: ﴿ وَلَقدْ اُوْحِیَ اِلیْکَ وَاِلَی الّٰذِیْنَ مَنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ﴾تفسیرہا: لئن أمرت بولایۃ أحد مع ولایۃ علی من بعدک ﴿ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخَاسِرِیْنَ ﴾ [ الزمر : ۶۵] ’’ یقیناً آپ کی طرف وحی کی گئی اور آپ سے پہلے( انبیاء )کی طرف بھی کہ اگر آپ نے شرک کیا‘‘[ اس کی تفسیر یہ ہے کہ اگر آپ حضرت علی کی ولایت کے ساتھ کسی اور کی ولایت کا حکم دیا] ‘‘’’ تو آپ کے عمل ضائع ہوجائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔‘‘[تفسیر القمی:۲؍ ۲۵۱ (سورۃالزمر)] شیعہ حجت اﷲ کلینی ابو عبد اﷲ علیہ السلام سے اس آیت کی یہ تفسیر بیان کرتا ہے کہ اگر آپ نے ولایت علی میں کسی دوسرے کو شریک کیا تو آپ کے اعمال ضائع ہوجائیں گے اور آپ خسارہ پانے والوں میں شامل ہوجائیں گے۔[اصول الکافی: ۱؍۳۲۳۔] شیعہ عالم عیاشی ابو جعفر علیہ السلام سے روایت کرتاہے کہ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کی تفسیر اس طرح کی ہے: ﴿’ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ﴾یعنی: أنہ لا یغفر لمن یکفر بولایۃ علی﴿ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ ﴾[یعنی لمن والی علیاً] [ النساء : ۴۸ ] ’’یقیناً اللہ تعالیٰ اپنے ساتھ شریک کیے جانے کو نہیں بخشتا ‘‘[یعنی اللہ تعالیٰ اس شخص کو نہیں بخشے گا جو علی رضی اللہ عنہ کی ولایت کا انکار کرتا ہے]۔اور اس کے سوا جسے چاہے بخش دیتا ہے۔‘‘ [یعنی محبان علی کو معاف کر دے گا][تفسیر العیاشی: ۱؍ ۲۷۲، حدیث نمبر: ۱۴۹۔ تفسیر البرہان، تفسیر نورالثقلین ۱؍ ۴۸۸۔ تفسیر الصافی۔ ۱؍ ۴۵۸( سورۃ النساء )۔] ۴: شیعی مفسرین جن آیات میں ایک اﷲ کی عبادت کا حکم اور طاغوت سے اجتناب کا امر ہے اس کی تفسیر ائمہ ولایت اور ائمہ کے دشمنوں سے براء ت کرنا کرتے ہیں ۔وہ روایت کرتے ہیں کہ ابو جعفر رحمہ اﷲ نے فرمایا (اور یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ایسا فرمائے ): ’’ اﷲ تعالیٰ نے ہر نبی کو ہماری ولایت کی خبر دینے اور ہمارے دشمنوں سے براء ت کا اعلان کرنے کے لیے مبعوث کیا۔ اور یہ بات اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمائی ہے اور وہ یہ ہے : ﴿ وَ لَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ اجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ فَمِنْہُمْ مَّنْ ہَدَی اللّٰہُ وَ مِنْہُمْ مَّنْ حَقَّتْ عَلَیْہِ الضَّلٰلَۃُ ﴾[بتکذیبہم آل محمد] [ النحل : ۳۶] ’’ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو ! صرف اللہ کی عبادت کرو اور اس کے سوا تمام معبودوں سے بچو، پس بعض لوگوں کو تو اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی اور بعض پر گمراہی ثابت ہو گئی۔‘‘[ یعنی آل محمد کی تکذیب کرنے کی وجہ سے] ان پر ضلالت ثابت ہوگئی۔ [تفسیر العیاشی: ۲؍ ۲۸۰۔ تفسیر الصافی: ۳؍ ۱۳۴۔ تفسیر البرہان: ۲؍ ۳۶۸۔ تفسیر نورالثقلین: ۳؍۵۳، حدیث نمبر: ۷۹)۔] اور ابو عبد اﷲ علیہ السلام نے فرمایا( اور وہ اس قول سے بری ہیں ): وہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان: ﴿وَ قَالَ اللّٰہُ لَا تَتََّخِذُوْآ اِلٰہَیْنِ اثْنَیْنِ﴾ ‘‘ یَعْنِیْ بِذٰلِکَ : لَا تَتَّخِذُوْا إِمَامَیْنِ اثْنَیْنِ۔(]

یہ وہ تفسیری اقوال ہیں جو ثعلبی نے اپنی تفسیر میں نقل کیے ہیں ۔جنہیں اس نے مجہول راویوں والی اسناد سے نقل کیا ہے ؛ جن کا کوئی تعارف ہی نہیں ۔[نیز اس کی اسناد میں جھوٹے راویوں کی بھر مار ہے ]۔ مثال کے طور پر راوی کہتا ہے : مجھے سفیان ثوری نے خبر دی - حالانکہ سفیان ثوری کے بارے میں ایسا کہنا جھوٹ ہے- ؛ وہ کہتے ہیں : مجھے ثعلبی نے خبر دی ؛ وہ کہتا ہے : مجھے حسن بن محمد دینوری نے خبردی؛ وہ کہتا ہے: ہم سے موسیٰ بن محمد بن علی بن عبداللہ نے بیان کیا ؛ وہ کہتا ہے: میرے والد نے ابو محمد بن حسن بن علویہ القطان پر اس کی کتاب پڑھ کر سنائی اور میں سن رہا تھا؛ وہ کہتا ہے : ہم سے

[ ’’اللہ تعالیٰ ارشاد فرما چکا ہے کہ دو معبود نہ بناؤ۔‘‘ یہاں اس سے مراد یہ ہے کہ دو امام نہ بناؤ۔ ‘‘ ﴿ اِنَّمَا ہُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ‘‘ إِمَامٌ وَّاحِدٌ ﴾’’معبود تو صرف وہی اکیلا ہے۔‘‘ یعنی امام صرف ایک ہے ۔ [تفسیر العیاشی، ج : ۲؍۲۵۸، البرھان، ج : ۲؍۳۶۸۔ الصافی، ج : ۱؍۹۲۳۔ نور الثقلین، ج : ۳؍۵۳۔۶۰۔] یہ لوگ کفارو منافقین کے بارے میں وارد آیات کی تفسیر کرتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اکابر صحابہ مرادلیتے ہیں ۔ انھوں نے روایت بیان کی ہے کہ ابو عبداللہ نے اللہ تعالیٰ کے اس فرمان : ﴿ وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا رَبَّنَآ اَرِنَا الَّذَیْنِ اَضَلَّانَا مِنَ الْجِنِّ وَالْاِِنْسِ نَجْعَلْہُمَا تَحْتَ اَقْدَامِنَا لِیَکُوْنَا مِنَ الْاَسْفَلِیْنَ ﴾ [السجدۃ : ۲۹] ’’اور کافر لوگ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں جنوں اور انسانوں کے وہ دونوں فریق دکھا جنھوں نے ہمیں گمراہ کیا تاکہ ہم انھیں اپنے قدموں تلے ڈال کر انھیں نہایت اور سب سے نیچے کر دیں ۔ ‘‘ کے متعلق فرمایا : ’’اس سے مراد وہ دونوں ہیں ۔‘‘ پھر فرمایا :’’ اور فلاں تو پکا شیطان تھا۔‘‘ ان کا علامہ مجلسی کہتا ہے: ’’دونوں ‘‘ سے مراد ابو بکر اور عمر ہیں اور ’’فلاں ‘‘ سے مراد عمر ہے۔ قرآن کی جس آیت میں بھی ’’جنّ ‘‘کا ذکر ہوتو اس سے عمرمراد ہوتا ہے۔ کیونکہ اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ یا تو وہ خود شیطان تھا‘یا تو اس میں شیطان کے شریک ہونے کی وجہ سے؛ کیونکہ وہ زانی کا بچہ ہے۔ یا وہ مکر و فریب اور دھوکے بازی میں شیطان کی طرح تھا ۔ اور دوسرا احتمال یہ ہو سکتا ہے کہ وہ ابو بکر مراد ہو۔‘‘ [فروع الکافی الذی بھامش مرآۃ العقول: ۴؍ ۴۱۶] اسی طرح شیعی علماء ابو کی سند سے ابو عبد اﷲ علیہ السلام سے بیان کرتے ہیں کہ انھوں نے اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد: ﴿ وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُواتِ الشِیْطَانِ ﴾ [البقرۃ] ’’ اور تم شیطانی راہوں پر مت چلو ۔‘‘کی یہ تفسیر کی ہے کہ اس سے مراد دوسرے( عمر )اور پہلے( ابو بکر )کی ولایت ہے ۔ [تفسیر العیاشی: ۱؍ ۱۲۱۔ حدیث نمبر: ۳۰۰( سورۃ البقرۃ)۔] مزید روایت کرتے ہیں کہ ابو عبد اﷲ علیہ السلام نے فرمایا( اور وہ اس سے بری ہیں )کہ اﷲ تعالیٰ کا یہ ارشاد: ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْجِبْتِ وَ الطَّاغُوْتِ ﴾ (ابو بکر و عمر ) [ النساء : ۵۱ ] ’’وہ بتوں کا اور باطل معبودوں کا اعتقاد رکھتے ہیں ۔‘‘ اس کی تفسیر یہ ہے کہ بت اور شیطان سے مراد فلاں فلاں ہیں ۔‘‘[بصائر الدرجات: ۵۴، ح: ۳( باب معرفۃأئمہ الھدی من ائمۃ الضلال وأنھم الجبت والطاغوت والفواحش )، تفسیر العیاشی: ۱؍ ۲۷۳، حدیث نمبر: ۱۵۳۔ بشارۃالمصطفی لشیعۃ المرتضی: الجزء الخامس، حدیث: ۳۷۔ تفسیر الصافی: ۱؍ ۴۵۹۔ الوافی ۱؍ ۳۱۴۔ تفسیر البرہان: ۱؍ ۲۰۸۔ ۳۷۷۔] فلاں فلاں کی وضاحت کرتے ہوئے مجلسی کہتا ہے:’’ اس سے مراد ابو بکر اور عمر ہیں ۔ ‘‘[بحار الأنوار: ۲۳ ؍ ۳۰۶، حدیث نمبر:۲، باب انہم أنوار اﷲ )]]

ہمارے بعض ساتھیوں نے بیان کیا؛ وہ کہتے ہیں : ہم سے مصر کے ایک آدمی نے بیان کیا ؛ اسے طسم کہا جاتا ہے ‘ وہ کہتا ہے: ہم سے ابو حذیفہ نے بیان کیا ؛ وہ کہتے ہیں :ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا کہ:

﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ﴾ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ و فاطمہ مراد ہیں ۔﴿بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾لؤلؤ اور مرجان سے حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنہما مراد ہیں ۔ 

اس سند میں ایک سے بڑھ کر ایک اندھیر ہے ۔ایسی اسناد سے بھی کوئی دلیل ثابت ہوسکتی ہے؟ [شیعہ مصنف کا یہ بیان از سر تا پا دروغ ہے اور حضرت ابن عباس نے یہ بات یقیناً نہیں کہی۔]

جس چیز سے اس دعوی کا جھوٹا ہونا ثابت ہوتا ہے ‘ اس میں کئی امور ہیں :

پہلی وجہ :....سورت الرحمن مفسرین کے اجماع کے مطابق مکی سورت ہے ؛جبکہ حضرت حسن اور حسین مدینہ میں پیداہوئے ۔

دوسری وجہ :....ان کے [والدین حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما ]کے نام بحرین رکھنا ؛ اور بچوں کے نام لؤلؤ اور مرجان رکھنا اور نکاح کو مرج کہنا ؛لغت عرب ان معانی کی متحمل نہیں ہو سکتی جو بیان کیے گئے ہیں ۔نہ ہی حقیقتاً اور نہ ہی مجازاً۔بلکہ جیسے اس شیعہ مصنف نے اللہ تعالیٰ پر اور قرآن پر جھوٹ بولا ہے ایسے ہی اس نے عرب لغت پر بھی دروغ گوئی سے کام لیاہے ۔

تیسری وجہ :....ان میں کوئی ایسی چیز زائد نہیں ہے جو سارے بنی آدم میں نہ ہو۔اس لیے کہ ہر وہ انسان جو کسی عورت سے شادی کرتا ہے اور پھر اس سے دو بچے پیدا ہوجائیں تو وہ بھی اسی جنس سے شمار ہوں گے۔اس طرح کا ذکر کرنے میں کوئی ایسی چیز نہیں جسے اللہ تعالیٰ کی قدرت و نشانیوں میں عظمت والا سمجھا جائے ۔ جو چیز باقی سارے بنی آدم میں بھی پائی جاتی ہے ؛ اس کو یہاں پر خاص کرنے کے لیے کوئی سبب نہیں پایا جارہا ۔ اگر میاں بیوی اور دو بچوں کی وجہ ہی فضیلت کا سبب ہے ‘ تو پھر حضرت ابراہیم اور حضرت یعقوب و حضرت اسحق علیہم السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بہت بہتر اور افضل ہیں ۔

صحیح بخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا : سب سے زیادہ معزز اور بزرگ کون ہے؟

’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو سب سے زیادہ خدا کا خوف رکھتا ہو۔ لوگوں نے کہا :’’ہم یہ بات نہیں پوچھتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ سب سے زیادہ معزز یوسف نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن نبی اللہ ابن خلیل اللہ ہیں ۔‘‘

[صحیح بخاری:ح:۵۸۸]

وہ آل ابراہیم علیہ السلام جن کے متعلق ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ ہم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ سے سوال کریں کہ ان پر ایسے درود نازل فرمائے جیسے ان پر نازل فرمایا تھا۔ ہم اور ہر ایک مسلمان یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ آل ابراہیم علیہ السلام آل علی رضی اللہ عنہ سے افضل ہیں ۔ لیکن محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابراہیم علیہ السلام سے افضل ہیں ۔ پس اس بنیاد پر یہاں پر ایک مشہور سوال وارد ہوتا ہے کہ جب محمد صلی اللہ علیہ وسلم افضل تھے تو یہاں پر یوں کیوں کہا گیا:(کما صلیت علی إِبراہِیم) جب کہ اصول یہ ہوتا ہے کہ مشبہ کا مقام و مرتبہ مشبہ بہ سے کم ہوتا ہے۔

اس کے کئی ایک جواب دیے گئے ہیں ۔ ان میں سے ایک جواب یہ بھی ہے کہ : اس میں کوئی شک نہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل میں انبیاء ہوگزرے ہیں ۔ ان میں سے ہی محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی ہیں ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :

’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی آل ابراہیم میں سے ہیں ۔‘‘ پس مجموعی طورپر آل ابراہیم آل محمد سے افضل ہیں ۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آل پر درود پڑھا جاتا ہے تو اس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی داخل اور شامل ہوتے ہیں ۔ مگر پھر بھی ہم اللہ تعالیٰ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اہل بیت کے لیے اللہ تعالیٰ سے ایسے ہی برکات اور درود طلب کرتے ہیں جیسا کہ حضرت ابراہیم علیہم السلام کی آل کے لیے طلب کیا تھا۔ تو آپ کے اہل بیت کو اس میں سے وہی کچھ ملتا ہے جس کے وہ مستحق ہوتے ہیں ۔ اور یہ باقی سب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے باقی رہ جاتا ہے۔پس یہ ایسے ہو جاتا ہے کہ آپ کے لیے وہ تمام برکات طلب کی جاتی ہیں جو آل ابراہیم علیہ السلام کے انبیاء کے لیے تھیں ۔ توآپ کے اہل بیت کے فاضل افراد کو وہ حصہ نہیں ملتا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ پس اس اعتبار سے آپ پر صلاۃ پڑھنا بہت عظمت کا باعث بن جاتا ہے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ : یہ تشبیہ اصل میں ہے قدر میں نہیں ۔

چوتھی وجہ:....﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ﴾ کے الفاظ سورۂ فرقان میں بھی مذکور ہیں ۔ اللہتعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّ ھٰذَا مِلْحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَہُمَا بَرْزَخًا﴾ (الفرقان:۵۳)

’’ یہ ہے میٹھا اور مزیدار اور یہ ہے کھاری کڑواان دونوں کے درمیان ایک حجاب ہے۔‘‘

اگر مرج البحرین سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی ہیں ۔توپھر اس سے حضرت علی اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما دونوں میں سے ایک کی مذمت لازم آتی ہے۔ یہ بات اہل سنت و اہل تشیع کے اجماع سے باطل ہے ۔

پانچویں وجہ :....ہم شیعہ سے پوچھتے ہیں کہ﴿بَیْنَہُمَا بَرْزَخٌ لَا یَبْغِیَانِ﴾ سے وہ کیا مراد لیتے ہیں ، حضرت علی رضی اللہ عنہ یا سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ؟ علاوہ ا زیں ’’یَبْغِیَانِ‘‘ کے لفظ سے مستفاد ہوتا ہے کہ برزخ ایک دوسرے پر ظلم کرنے سے مانع ہے ۔ اگر اس سے مراد یہی دونوں ہیں تو پھر برزخ سے مراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہوں گے۔ جیسا کہ ان لوگوں کا خیال ہے ۔ یا پھر اگر کوئی دوسرا مراد لیا جائے تو ظاہر ہے کہ یہ مدح نہیں بلکہ مذمت ہے۔ 

چھٹی وجہ :....ائمہ تفسیر کا اس ذکر کردہ تفسیر کے خلاف پر اجماع ہے۔جیسا کہ ابن جریر وغیرہ نے ذکر کیا ہے ۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں : آسمانی سمندر اور زمینی سمندر سال میں ایک بار ملتے ہیں ۔ حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’مرج البحرین سے مراد فارس اور روم کے سمندر ہیں ؛ اور ان کے درمیان برزخ الجزائر ہے۔

اور یہ فرمان الٰہی :

﴿یَخْرُجُ مِنْہُمَا اللُّؤْ لُؤُ وَالْمَرْجَانُ﴾ [الرحمنِ: 22]

زجاج نے کہا ہے : بیشک یہ نمکین سمندر سے نکلتا ہے۔ لیکن یہاں پر دونوں [نمکین اور میٹھے] سمندروں کو یکجا کرکے یہ اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جب ان دو میں سے کسی ایک سمندرسے یہ چیزیں نکلیں گویا کہ دونوں سمندروں سے نکلیں ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَجَعَلَ الْقَمَرَ فِيهِنَّ نُورًا﴾

فارسی نے کہا ہے : اس سے مراد ان دو میں سے ایک مراد ہے ۔ تویہاں پر مضاف کو حذف کردیا گیا ہے۔

ابن جریر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : یہاں یہ فرمایا ہے : (منہما) تثنیہ [دو] کا صیغہ لائے ہیں ؛ اس لیے کہ موتی سمندری صدف میں آسمانی بارش کا قطرہ گرنے سے پیدا ہوتی ہے۔

جہاں تک لؤلؤ[موتی] اور مرجان کا تعلق ہے تو ان کی تفسیر میں دو قول ہیں :

پہلا قول:....جو مرجان موتی سے چھوٹا ہو تاہے جب وہ بڑا ہوجائے تو اسے موتی کہا جاتا ہے۔ یہ اکثر اہل علم کا قول ہے ان میں حضرت ابن عباس؛ قتادہ؛ فرآء اور ضحاک رحمہم اللہ شامل ہیں ۔ زجاج رحمہ اللہ کہتے ہیں : لؤلؤ سمندر سے نکلنے والے دانے کا ایک جامع نام ہے ؛ جب وہ چھوٹا ہوتا ہے تو اسے مرجان کہا جاتا ہے۔

دوسرا قول:....لؤلؤ یعنی موتی چھوٹے دانے کوکہتے ہیں ؛ جب وہ بڑا ہوجائے تو اسے مرجان کہا جاتا ہے۔ یہ قول مجاہد؛ سدی اور مقاتل رحمہم اللہ کا ہے۔ ابن عباس فرماتے ہیں : جب آسمانوں سے بارش برستی ہے تو صدف اپنا منہ کھول لیں ہیں ۔ پس بارش کا جو قطرہ ان کے منہ میں گر جائے وہ موتی بن جاتا ہے۔ جب کہ ابن جریر کہتے ہیں : جیسے ہی قطرہ اس کے منہ میں گرتا ہے تو وہ موتی کی شکل میں بدل جاتا ہے۔

ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : مرجان سرخ گھونگھے ہوتے ہیں ۔

زجاج کہتے ہیں : مرجان بہت زیادہ سخت سفید ہوتے ہیں ۔

ابن ابی یعلیٰ سے روایت ہے کہ مرجان بھی موتیوں کی ایک قسم ہے۔