Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اکتیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اکتیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف رقم طراز ہے:

’’ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی اکتیسویں دلیل یہ آیت ہے:

﴿وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتَابِ﴾ (الرعد:۴۳) ’’اور جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔‘‘ 

ابو نعیم سے روایت کیا گیا ہے کہ : ابن الحنفیہ کہتے ہیں کہ اس سے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ مراد ہیں ۔ ثعلبی حضرت عبد اللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:’’ علم الکتاب کس کے پاس ہے ؟‘‘ فرمایا علی رضی اللہ عنہ کے پاس۔روایت یہ دلالت کرتی ہے کہ آپ افضل ہیں ؛ لہٰذا آپ ہی امام ہوں گے۔ ‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]

جواب:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

۱۔ پہلی وجہ : ہم شیعہ سے عبد اللہ بن سلام اور محمد بن حنفیہ سے روایت کی صحت نقل کا مطالبہ کرتے ہیں ۔

۲۔ دوسری وجہ : نیز یہ کہ علماء کی مخالفت کے باوصف یہ روایت کیوں کر حجت ہو سکتی ہے ؟جب کہ جمہور علمائے کرام رحمہم اللہ ان دونوں کی [اس تفسیر میں ]مخالفت کررہے ہیں ۔

۳۔ تیسری وجہ : ہمارا دعویٰ ہے کہ یہ روایت دروغ اور بے بنیاد بات ہے،اور ان دونوں حضرات پر جھوٹ بولا گیا ہے ۔

۴۔ چوتھی وجہ : یہ تفسیر قطعی طور پر باطل ہے ۔اس لیے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ قُلْ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا بَیْنِیْ وَ بَیْنَکُمْ وَ مَنْ عِنْدَہٗ عِلْمُ الْکِتٰبِ﴾ [الرعد۴۳]

’’آپ جواب دیجئے کہ مجھ میں اور تم میں اللہ گواہی دینے والا کافی ہے اور وہ جس کے پاس کتاب کا علم ہے ۔‘‘

اگر اس سے حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہوتے تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کفار کے خلاف اپنے چچا زاد بھائی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے استشہاد کر رہے تھے۔ حالانکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اگر آپ کی رسالت کی شہادت دیتے بھی تو یہ کفار کے حق میں حجت نہ ہوتی اور نہ وہ اس دلیل کے سامنے گردن جھکانے کے لیے تیار تھے۔ وہ بڑی آسانی سے کہہ سکتے تھے کہ علی جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ آپ ہی نے سکھایا ہے یا وہ آپ ہی کی زبان بول رہے ہیں اور اس طرح آپ خود ہی اپنے حق میں شاہد بن جاتے ۔ کفاریہ بھی کہہ سکتے تھے کہ حضرت علی آپ کے چچا زاد ہیں ؛ اور آپ پر پہلے پہل ایمان لانے والوں میں ہیں ۔آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے محبت میں یہ بات کہی ہے۔ محل شاہد یہ ہے کہ اگر گواہی دینے والا جس چیز کی گواہی دے رہا ہے وہ اس باب میں تہمت سے بری نہ ہو تو اس کی گواہی کے مطابق فیصلہ نہیں کیا جائے گا۔ اور نہ ہی اس سے مشہود علیہ پر کوئی حجت قائم ہوگی۔ تو پھر اس وقت کیا عالم ہوگا جب گواہی دینے والے کے لیے مشہود علیہ کے علاوہ علم کا کوئی ذریعہ ہی نہیں ہے۔[توحضرت علی رضی اللہ عنہ کے پاس اس تہمت کا کیا جواب تھا؟]

اس کے برعکس اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوی کی صداقت پر ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما گواہی دیتے تو یہ زیادہ نفع بخش ہوتی۔ اس لیے کہ یہ لوگ تہمت سے بہت دور تھے۔ اور اس لیے ان کے بارے میں بھی کہا جاسکتاہے کہ یہ لوگ اس وقت جوانمرد تھے۔ شاید انہوں نے اہل کتاب یا کاہنوں وغیرہ سے کچھ خبریں سن رکھی ہوں ‘جن کا محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی تعلق نہ ہو۔ بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ اس لیے کہ آپ چھوٹی عمر کے تھے۔ اس لیے فریق مخالف کہہ سکتا تھا کہ آپ بھی وہی کچھ گواہی دے رہے ہیں جو آپ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے سیکھا ہے ۔

البتہ اگر اہل علم، اہل کتاب اپنے انبیاء علیہم السلام کی متواتر روایات کی بنا پر شہادت دیں تو ان کی شہادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں نفع بخش ہوگی۔ یہ شہادت اسی طرح ہے جیسے حضرات انبیاء علیہم السلام بذات خود شہادت دیں اس لیے کہ جو بات انبیاء علیہم السلام سے بتواتر منقول ہو وہ ان کی ذاتی شہادت سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے ذ ریعہ حاصل کردہ معلومات کی بنا پر امم سابقہ کے حق میں شہادت دیں گے، جیسا کہ سورت بقرہ [۱۴۳]

میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿وَکَذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّسَطًا لِّتَکُوْنُوْا شُہَدَآئَ عَلَی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْدًا

’’ ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایاتاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم تم پر گواہ ہو جائیں ۔‘‘

اس جاہل شیعہ نے جس چیز کوحضرت علی رضی اللہ عنہ کی فضیلت گردانا؛اس کی وجہ سے خود حضرت علی رضی اللہ عنہ او ر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی پر بھی قدح وارد ہوئی جن کی وجہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ اہل ایمان میں سے شمار ہونے لگے تھے۔ایسا کلام کسی زندیق سے ہی صادر ہوسکتا ہے یا پھر کسی انتہائی درجہ کے جاہل انسان سے ۔

’’ اگر تم کچھ نہیں جانتے تو یہ بھی مصیبت ہے ۔ اور اگر جانتے ہو تو پھر مصیبت اس سے بھی بڑی ہے ۔‘‘

۵۔ پانچویں وجہ : علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے کے متعدد مقامات پر اہل کتاب کی شہادت کا ذکر کیا ہے۔ قرآن میں فرمایا:

﴿قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِِنْ کَانَ مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَکَفَرْتُمْ ﴾[فصلت۵۲]

’’آپ کہہ دیجئے!اگر یہ(قرآن)اللہ ہی کی طرف سے ہو اور تم نے اسے نہ مانا ہو۔‘‘

اور فرمایا:﴿بِہٖ وَشَہِدَ شَاہِدٌ مِّنْ بَنِیْ اِِسْرَآئِیلَ عَلٰی مِثْلِہٖ ﴾ [الأحقاف ۱۰]

’’ اور بنی اسرائیل کا ایک گواہ اس جیسی کی گواہی بھی دے چکا ہو۔‘‘

اس رافضی سے پوچھا جائے گا کہ : کیا تم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بنی اسرائیل میں سے شمار کرتے ہو؟ نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ

( یونس:۹۴)

’’اگر آپ کو قرآن کے بارے میں کوئی شبہ لاحق ہو تو ان لوگوں سے پوچھ لیجیے جو آپ سے پہلے کتاب پڑھتے ہیں ۔‘‘

اس سے پوچھا جائے کہ : کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان لوگوں میں سے ہیں جو پہلے سے کتاب پڑھ رہے تھے؟

نیز اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

﴿وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ اِلَّا رِجَالًا نُّوْحِیْٓ اِلَیْہِمْ﴾ [یوسف۱۰۹]

’’آپ سے پہلے بھی ہم مردوں کو ہی بھیجتے رہے، جن کی جانب وحی اتارا کرتے تھے۔‘‘

اور فرمان الٰہی ہے: ﴿فَسْئَلُوْٓا اَہْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾۔[النحل۴۳]

’’ پس اگر تم نہیں جانتے تو اہل علم سے دریافت کرلو ۔‘‘

کیا حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی وہ اہل ذکر ہیں جن سے پوچھنے کا کہا گیا ہے یا آپ ان رجال میں سے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے مبعوث کیا تھا؟

۶۔ چھٹی وجہ : فرض کیجیے شاہد سے مراد حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں ۔تو پھربھی اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ افضل الصحابہ ہیں ۔ جیساکہ اہل کتاب بھی اس کی گواہی دیتے ہیں ؛ گواہی دینے والوں میں حضرت عبد اللہ بن سلام ، سلمان و کعب الاحبار وغیرہ لوگ شامل تھے، حالانکہ یہ باقی صحابہ سابقین اولین ‘مہاجرین و انصار جیسے حضرات ابو بکر و عمر و عثمان اور علی و جعفر رضی اللہ عنہم وغیرہ سے افضل نہ تھے۔