حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن رحمۃ اللہ کا فرمان
لفظ اہلِ قبلہ ایک شرعی اصطلاح ہے جس کے معنیٰ اہلِ اسلام کے ہیں، اور اسلام وہی ہے جس میں کوئی بات کفر کی نہ ہو، لہٰذا یہ لفظ صرف ان لوگوں کیلئے بولا جاتا ہے جو تمام ضروریاتِ دین کو تسلیم کریں اور حضور اکرمﷺ کے تمام احکامات پر صدق دل سے ایمان لائیں، اس سے مراد ہر وہ شخص نہیں جو قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہے۔
تنبيہ: حدیث شریف اور رفقہ سے نا آشنا اور فرض متکلم سے نا واقف لوگ یہاں یہ سمجھے کہ جو شخص قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھ لے۔ اس کو کافر کہنا جائز نہیں، خواہ کتنے ہی کفریہ عقائد رکھتا ہو ۔ یہ بہت بڑی نا واقفیی اور جہالت کی بات ہے۔ معلم فقہ و عقائد کی کتابوں کی مندرجہ ذیل عبارات اس پر شاہد ہیں۔
وفی اصطلاح المتكلمين من يصدق بضروريات الدين اي الأمور التي علم ثبوتها في الشرع واشتهر فمن انكر شيئا من الضروريات لم يكن من أهل القبلة ولوكان مجاهداً بالطاعات. و کذلک من باشر شيئاً من امارات التكذيب والاهانة بامر شرعي والاستهزاء عليه فليس من اهل القبلة۔
اہلِ قبلہ کی عدم تکفیر کا مطلب:
حضرت ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں کہ اہلِ سنت کے نزدیک اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کرنے سے مراد یہی ہے کہ اس میں سے کسی شخص کو اس وقت تک کافر نہ کہا جائے جب تک اس سے کوئی ایسی حرکت سر زد نہ ہو جو علامات کفریا موجباتِ کفر میں سے ہے۔
(فتاوىٰ عثمانيه: جلد، 1 صفحہ، 92)