حضرت ملا علی قاری رحمۃ اللہ کا فرمان
خوب سمجھ لو کہ اہلِ قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ان تمام عقائد پر متفق ہوں جو ضروریاتِ دین میں سے ہیں، جیسے حدوث عالم اور قیامت و حشر ابدان اور اللہ تعالیٰ کا علم تمام کلیات و جزئیات پر حاوی ہونا اوراسی قسم کے دوسرے عقائد مہمہ۔ پس جو شخص تمام عمر طاعات و عبادات پر مداومت کرے مگر ساتھ ہی عالم کے قدیم ہونے کا معتمد ہو یا قیامت میں مردوں کے زندہ ہونے کا یا حق تعالیٰ کے علم جزئیات کا انکار کرے وہ اہلِ قبلہ میں سے نہیں، اور یہ کہ اہلِ سنت کے نزدیک اہلِ قبلہ کی تعمیر نہ کرنے سے مراد یہی ہے کہ ان میں سے کسی شخص کو اس وقت تک کافر نہ کہیں جب تک اس سے کوئی ایسی چیز سرزد نہ ہو جو علامات کفر یا موجبات کفر میں سے ہے۔
اور شرح مقاصد مبحث سابع میں مذکور الصدر مضمون کو مفصل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اس میں کسی کا اختلاف نہیں کہ اہلِ قبلہ میں سے اُس شخص کو کافر کہا جائے گا جو اگرچہ تمام عمر طاعات و عبادت میں گزاریں مگر عالم کے قدیم ہونے کا اعتقاد رکھے یا قیامت و حشر کا یا حق تعالیٰ کے عالم جزئیات ہونے کا انکار کرے، اسی طرح وہ شخص جس سے کوئی چیز موجبات کفر میں سے صادر ہو جائے ۔
اور اس میں کسی کا خلاف نہیں کہ اہلِ قبلہ میں سے جو شخص ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر ہو وہ کافر ہے، اگرچہ تمام عمر طاعات و عبادات میں گزار دے۔
(جواهر الفله: جلد، 1 صفحہ، 33)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
اہلِ قبلہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو ساری ضروریاتِ دین پر ایمان رکھتے ہیں۔
(شرح فقه اكبر: صفحہ، 189)