حضرت مولانا عبدالقیوم قاسمی رحمۃ اللہ کا فرمان
یہ جومشہور ہے کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر جائز نہیں۔ تو اس کی تفصیل یہ ہے کہ شریعت کی اصطلاح میں اہلِ قبلہ وہ لوگ ہیں جو تمام اصولِ دین اور متواترات و ضروریاتِ دین پر ایمان رکھتے ہوں اس کی ایک امر دین کا منکر مکذب اور موٶل نہ ہوں تو وہ کافر نہیں ہیں۔ اور اگر وہ ضروریاتِ دین کے منکر یا مؤول ہوں تو اگرچہ ان کی ساری زندگی عبادت میں گزر چکی ہو وہ بہرحال کافر ہیں۔ چنانچہ حضرت ملاعلی قاریؒ فرماتے ہیں کہ جاننا چاہئے کہ اہلِ قبلہ سے مراد صرف وہ لوگ ہیں جو ضروریاتِ دین پر متفق اور ان کے قائل ہوں۔ اور علامہ عبد العزیز پر ہارویؒ فرماتے ہیں کہ حضرات متکلمین کی اصطلاح میں اہلِ قبلہ وہ شخص ہے جو ضروریاتِ دین یعنیٰ ایسے امور کی تصدیق کرتا ہو جن کے ثبوت اور شہرت کا علم شرع سے ہو چکا ہو ۔ پس جس شخص نے بھی ضروریاتِ دین میں سے کسی چیز کا انکار کیا مثال حدوث عالم یا حشر الاجسا دیا اللہ تعالیٰ کے علم جزئیات کا یا فرضیت نماز اور روزہ کا تو وہ شخص اہلِ قبلہ میں سے نہیں ہو گا۔ اگرچہ وہ عبادات میں محنت کرتا ہو۔ اور اسی طرح جس شخص نے تکذیب کی نشانیوں میں سے کسی کا ارتکاب کیا مثلاً بت کو سجدہ کیا یا کسی شرعی کام کی اہانت اور استہزا کی تو وہ شخص اہلِ قبلہ میں سے نہ ہو گا۔ اور اہلِ قبلہ کی عدم تکفیر کا معنیٰ یہ ہے کہ گناہوں کے ارتکاب کی وجہ سے اور نیز مخفی اور غیر مشہور امر کے انکار کی وجہ سے اس کی تکفیر نہ کی جائے گی۔ یہی حضرات محققین کی تحقیق ہے۔ اور ایسے ہی ضروریاتِ دین کے منکر کی تکفیر کی گئی ہے۔ اور یہ ضروری نہیں کہ خارج از اہلِ قبلہ کھلے طور پر اسلام کا مخالف ہو اور عبادت و تقویٰ وغیرہ ترک کر دے۔
چنانچہ امام زین العابدین ابن نجیم المصریؒ لکھتے ہیں کہ جب کسی مسئلہ میں کئی وجوہ کفر کی اور صرف ایک وجہ اسلام کی ہو تو مفتی کو اس وجہ کی طرف مائل ہونا چاہئے جو اسلام کی ہے، کیونکہ مسلمان کے بارے میں حسن ظنی سے کام لینا چاہئے لیکن اگر وہ شخص خود ہی کفر کی وجہ کو متعین کر دے تو اس کو تاویل، کفر سے محفوظ نہیں کر سکتی۔
تمام اہثل اسلام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فروعی مسائل میں خطاء اجتہادی (بشرطیکہ کہ کسی مجتہد سے نیک نیتی کی وجہ سے واقع ہو) قابل مواخذہ نہیں، اور نہ صرف ایسا شخص معذور تصور ہو گا بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر پائے گا لیکن اصولِ دین ضروریاتِ دین اور عقائد کا معاملہ اس سے بالکل الگ ہے۔ کیونکہ ان میں دیانت کے ساتھ غلطی بھی قابلِ معافی نہیں ہے اور نہ اس باب میں جہالت اور لاعلمی کی بناء پر کئی شخص معذور سمجھا جا سکتا ہے۔ اور اسی طرح قرآن کریم ،حدیث مشہور، اجماع اور قیاس جلی کا مخالف بھی معذور نہیں ہو سکتا، اگر و اپنے دعویٰ پر خبر غریب پیش کرتا ہو۔ چنانچہ علامہ سعد الدین تفتازانی الشافعیؒ لکھتے ہیں کہ اصول اور عقائد میں خطاء کرنے والا قابل سزا ہے بلکہ اس کی تحلیل یا تکفیر کی جائے گی ۔ اس لئے کہ عقائد اور اصول میں حق صرف ایک ہی ہے (اور فرع کی طرح ان میں حق متعد نہیں ہے تا کہ موجب سزا نہ ہو)
اور علامہ سیوطیؒ لکھتے ہیں کہ جو حدیث، قرآن کریم اور تواتر حدیث کے مخالف ہو تو اس کی تاویل کرنی واجب ہے، اگر تاویل ممکن نہ ہو تو وہ حدیث خود ہی باطل ہو جائے گی۔
لہٰذا یہ بات واضح ہوگئی کہ اصولِ دین اور عقائد اور اسی طرح قرآن کریم حدیث اجماع اور قیاس جلی کے مقابلہ میں اگرچہ خبر غریب بھی پیش کی جاتی ہو تب بھی وہ باطل اور مردود ہو گی اور اس باب میں مخالف یا خطی ہرگز معذور نہیں سمجھا جائے گا۔
مدار تكفير:
حضرات فقہاء کرامؒ کے نزدیک موجب تکفیر شرائع اسلام ضروریاتِ دین ، اصولِ دین اور قطعی دلائل مثلاً کتاب اللہ، حدیث متواتر اور اجتماع قطعی کا انکا ریا اس کی تاویل کرنا ہو تو وہ کافر ہے۔
چنانچہ امام محمدؒ فرماتے ہیں کہ : جس نے شرائع اسلام میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کیا تو اس نے: لا اله الا اللہ کے قول کو باطل کر دیا۔ حافظ ابن ہمامؒ لکھتے ہیں کہ اس پر اتفاق ہے کہ اصولِ دین اور ضروریاتِ دین میں جو شخص مخالفت کرتا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔ غرض یہ کہ اس قاعدہ پر حضرات فقہاء کرامؒ سب متفق ہیں کی ضروریاتِ دین میں اور قطعیات میں اور اسی طرح صریح الفاظ میں تاویل ہرگز قابل سماعت نہیں، اور ایسی تاویل کسی کو کفر سے نہیں بچا سکتی۔ قائل بہرحال کافر ہو گا لا شك فيه ولا ريب۔
(تفسير معارف الفرقان: جلد، 1 صفحہ، 122تا126)