امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پینتیسویں دلیل:
امام ابنِ تیمیہؒامامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پینتیسویں دلیل:
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:
’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پینتیسویں دلیل یہ آیت ہے:
﴿ اِتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِیْنَ﴾ (التوبۃ:۱۱۹)
’’اے ایمان والو! اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو ۔‘‘
اس آیت میں ان لوگوں کی معیت و رفاقت کو واجب قرار دیا گیا ہے جن کا صادق ہونا واضح ہو۔ ظاہر ہے کہ ایک معصوم ہی صحیح معنی میں صادق ہو سکتا ہے؛ کیونکہ دوسروں سے جھوٹ کا صادر ہونا جائز ہے۔ اور معصوم خلفائے اربعہ میں سے صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی تھے۔ابو نعیم نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول نقل کیا ہے کہ یہ آیت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]
[جواب]:
٭ پہلی بات : صدّیق ؛صادق سے صیغہء مبالغہ ہے۔پس ہر صادق صدّیق نہیں ہوسکتا ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کثیر دلائل کی بنا پر صدیق تھے، لہٰذا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اس آیت کے اوّلیں مصداق ہیں ۔ بنا بریں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی معیت و رفاقت ہمارے لیے ضروری ہوئی ؛ اس لیے کہ باقی صحابہ کرام نے آپ کے حق میں تنازل کرلیا تھا؛ اور اس کے ساتھ ہی آپ کی خلافت کابھی اقرار کرتے تھے۔ اب یہ ممتنع ہے کہ ہم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو چھوڑ کر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی امامت کا اقرار کریں ۔ یہ آیت ان کے مطلوب کے نقیض پر دلالت کرتی ہے۔
٭ دوسری بات: ان سے کہا جائے گا کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ یاتو صدیق تھے ؛ یا نہیں تھے ۔اگر آپ صدیق نہیں تھے تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ صدیق ہیں ۔تو پھر صادق اور صدیق کے ساتھ ہونا اس سے زیادہ اولی ہے جو صرف صادق ہو صدیق نہ ہو۔ اور اگر آپ صدیق تھے تو پھر حضرت عمر و عثمان رضی اللہ عنہما بھی صدیق تھے۔پس جب خلفائے اربعہ کو صدیق قرار دیا جائے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت باقی نہیں رہے گی۔اور نہ ہی صداقت آپ کے ساتھ خاص رہی۔تو پھر تین کو چھوڑ کر ایک کا ساتھ دینا متعین نہیں ہوتا۔بلکہ اگر ٹکراؤ کی صورت پیش آئے تو پھر تین کا ساتھ دینا ایک کی نسبت زیادہ اولی ہے۔ اس لیے کہ ان کی تعداد زیادہ ہے ؛ اور پھر خصوصاً وہ صدق میں بھی زیادہ کامل ہیں ۔
٭ تیسری بات : حقیقت میں یہ آیت کریمہ اس وقت نازل ہوئی جب حضرت کعب بن مالک غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کر سکے ؛ اور آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سچ کہہ دیا کہ ان کا کوئی عذر نہیں تھا۔ اور راست بیانی کی وجہ سے ان کی توبہ قبولیت سے مشرف ہوئی تھی۔کچھ لوگوں نے آپ کو مشورہ دیا تھا کہ آپ کوئی جھوٹا عذر پیش کردیں ۔جیسا کہ منافقین نے جھوٹ بول کر اپنا عذر پیش کیا تھا۔ یہ واقعہ صحاح ستہ ؛ سنن اور مسانید و تفسیر اور سیرت کی کتابوں میں مذکور ہے۔[صحیح بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب حدیث کعب بن مالک (حدیث: ۴۴۱۸)، صحیح مسلم، کتاب التوبۃ۔ باب حدیث توبۃ کعب بن مالک....‘‘ (حدیث:۲۷۶۹)۔]
یہ معلوم ہوگیا کہ اس قصہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کوئی خصوصیت نہیں ۔حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’ حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ میرے استقبال کے لیے کھڑے ہوکر دوڑے ۔ اور مجھ سے معانقہ کیا ۔ اللہ کی قسم ! مہاجرین میں سے کوئی دوسرا میرے استقبال کے لیے کھڑا نہیں ہوا۔‘‘[تفسیر ابن کثیر ؛ آیت مذکورہ ]
حضرت رضی اللہ عنہ کعب کبھی بھی اس واقعہ کو نہیں بھولتے تھے۔ جب یہ ثابت ہوگیا تو اب اس آیت کوصرف اکیلے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر محمول کرنا باطل ہوا۔
٭ چوتھی بات : یہ آیت اس قصہ کے متعلق نازل ہوئی۔لیکن کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ آپ معصوم ہیں ۔ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ اور نہ ہی کوئی دوسرا ۔معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی مراد سچے لوگ ہیں ‘ اس کے لیے معصوم ہونے کی شرط نہیں لگائی۔
٭ پانچویں بات : علاوہ ازیں آیت کے الفاظ ہیں :﴿وَ کُوْنُوا مَعَ الصَّادِقِیْنَ﴾ نہ کہ ’’کُوْنُوْا مَعَ الصَّادِقِ‘‘ جمع کا صیغہ ہے؛ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ مراد ہوتے تو واحد کا صیغہ چاہیے تھا۔
٭ چھٹی بات : آیت﴿وَ کُوْنُوا مَعَ الصَّادِقِیْنَ﴾کا مطلب یہ ہے کہ راست باز لوگوں کی طرح راست گفتاری کے عادی بنو۔ جھوٹوں کی رفاقت اختیار نہ کرو۔ فرمان الٰہی ہے:﴿وَارْکَعُوْا مَعَ الرَّاکِعِیْنَ﴾ ( البقرۃ:۴۳)’’تم رکوع کرو رکوع کرنے والوں کیساتھ ۔‘‘ اور ایسے ہی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّہَدَآئِ وَ الصّٰلِحِیْنَ وَ حَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا﴾ [النساء ۶۹]
’’اور جو بھی اللہ تعالیٰ کی اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کرے، وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام کیا، جیسے نبی اور صدیق اور شہید اور نیک لوگ، یہ بہترین رفیق ہیں ۔‘‘
اور ایسے ہی ارشاد فرمایا ہے :
﴿فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ سَوْفَ یُؤْتِ اللّٰہُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا﴾ [النساء ۱۴۶]
’’تو یہ لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور عنقریب اللہ تعالیٰ مومنوں کو بہت بڑا اجر دے گا۔‘‘
ا س سے مراد یاتو یہ ہوسکتی ہے کہ ہر چیز میں صادقین(سچے لوگوں ) کا ساتھ دو؛ اگرچہ اس کا تعلق صداقت سے نہ بھی ہو ۔ مگر یہ دوسرا معنی باطل ہے ۔ اس لیے کہ کسی انسان پر واجب نہیں ہے کہ وہ مباح چیزوں میں کسی کا ساتھ دے ۔جیسے کھانا پینا ؛لباس وغیرہ کے معاملات ۔ جب پہلی بات ہی صحیح ہے تو اس میں کسی متعین شخص کا کوئی حکم نہیں ہے۔بلکہ مقصود یہ ہے کہ سچ بولو اور جھوٹ سے بچ کر رہو۔ صحیحین میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تم پر سچ بولنا واجب ہے۔ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے اور نیکی جنت کی طرف لے کر جاتی ہے۔ اور انسان سچ بولتا رہتا ہے اور سچائی کی تلاش میں رہتا ہے یہاں تک کہ وہ سچا لکھ دیا جاتا ہے۔اپنے آپ کو جھوٹ سے بچاؤ؛بیشک جھوٹ برائی کا راستہ دکھاتا ہے اور برائی دوزخ کی طرف لے جاتی ہے۔ اور انسان جھوٹ بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘[اس کی تخریج گزر چکی ہے۔]
ایسی آیات میں معیت سے یہ مراد نہیں لیا گیا کہ ہر بات میں ان کا انداز اختیار کرو یہاں تک کہ مباحات و ملبوسات میں بھی ان کی رفاقت کے دائرہ سے باہر نہ نکلو۔ جیسے کہا جاتا ہے: ﴿کُنْ مَعَ الْمؤمنین﴾’’ایمان والوں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ ﴿کُنْ مَعَ الْاَبْرَارِ﴾’’نیکوکاروں کے ساتھ ہوجاؤ۔‘‘ یعنی اس وصف میں ان کے شریک و سہیم بن جاؤ۔اس سے مراد یہ نہیں کہ آپ پرہر چیز میں ان کی اتباع واجب ہوگئی ہے۔
٭ ساتویں بات: اس سے کہا جائیگا: جب اس سے مراد یہ ہے کہ مطلق طور پر سچوں کے ساتھ ہوجاؤ ؛اس کی وجہ یہ ہے کہ سچائی تمام نیکیوں کی طرف راہ دکھاتی ہے ۔ جیسا کہ حدیث میں ہے : ’’تم پر سچ بولنا واجب ہے۔ سچ نیکی کا راستہ دکھاتا ہے۔‘‘پس اس صورت میں یہ وصف ہر اس انسان کے لیے ثابت ہوگا جو ان صفات سے موصوف ہو۔
٭ آٹھویں بات: ان سے کہا جائے گا کہ : اللہ تعالیٰ نے ہمیں حکم دیا ہے کہ ہم صادقین کا ساتھ دیں ۔ اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جن کا سچا ہونا تمہیں معلوم ہو۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلَّہِ ﴾ [الطلاق ۲]
’’اور آپس میں سے دو عادل شخصوں کو گواہ کر لو اور اللہ کی رضامندی کے لیے ٹھیک ٹھیک گواہی دو ۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ جن کو تم جانتے ہو کہ وہ تم میں سے عدل والے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَہْلِہَا﴾ [النساء ۵۸]
’’اللہ تعالیٰ تمہیں تاکیدی حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں انہیں پہنچا ؤ۔‘‘
یہ نہیں فرمایا کہ تم جنہیں جانتے ہوں کہ وہ امانت کے اہل ہیں ۔نیز ارشادفرمایا:
﴿وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالَعَدْلِ﴾ [النساء ۵۸]
’’جب لوگوں کا فیصلہ کرو تو عدل اور انصاف سے فیصلہ کرو ۔‘‘
اللہ نے یہ نہیں فرمایا کہ جس کو تم عدل سمجھتے ہو۔ لیکن اس حکم کو وصف کے ساتھ معلق کیا ہے۔
ہم پر واجب ہوتا ہے کہ حسب ِ امکان صدق و عدالت اوراہل امانت اور عدل کی معرفت میں اجتہاد کریں ۔ ہمیں اس بارے میں علم الغیب کا مکلف نہیں ٹھہرایا گیا۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی انصاف کرنے کا حکم دیا گیا تھا؛ آپ نے فرمایا:
’’تم اپنا جھگڑا میرے پاس لاتے ہو اور ہو سکتا ہے کہ تم میں سے کوئی اپنی دلیل کو دوسرے سے عمدہ طریقے سے بیان کرنے والا ہو اور میں اس کے لیے فیصلہ کردوں ۔ اس بات پر جو میں نے اس سے سنی پھر میں جس کے لیے اس کے بھائی کا حق دلا دوں تو اسے نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے جہنم کا ایک ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں ۔‘‘[صحیح مسلم:ج: دوم:ح۱۹۸۱۔]
٭ نویں بات : تصور کیجیے : اس سے مراد وہ لوگ ہوں ؛ جن کے سچا ہونے کا علم ہو۔ لیکن یہ علم بھی اس علم کی طرح ہوگا جیسے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿فَاِِنْ عَلِمْتُمُوْہُنَّ مُؤْمِنَاتٍ﴾ [الممتحنۃ۱۰]
’’اگر تم انہیں مؤمنات جان لو۔‘‘
ایمان سچائی سے زیادہ مخفی ہوتا ہے۔جب یہاں پر علم کی شرط رکھی گئی ہے ؛ تو پھر جیسے یہاں پر یہ بات کہنا ممتنع ہے کہ معصوم کے علاوہ کسی کو یہ علم حاصل نہیں ہوسکتا ؛ ایسے ہی یہ بات کہنا بھی جائز نہیں کہ امام معصوم کے علاوہ کسی کا سچا ہونا معلوم نہیں ہوسکتا۔
٭ دسویں بات: تصور کیجیے : اس سے مراد : صدق کا علم ہمیں حاصل ہوگیا؛ لیکن یہ کہا جائے گا کہ : بیشک ابو بکر و عمر اور عثمان اور ان کے علاوہ دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم جن کی صداقت معلوم ہے؛ اور جوعمداً جان بوجھ کر جھوٹ نہیں بولتے ؛ اگرچہ ان سے خطاء یا بعض گناہوں کا سرزد ہونا جائز ہوسکتا ہے ؛جب کہ جھوٹ توبلا ریب بہت بری چیز ہے ؛اس لیے کہ علمائے کرام رحمہم اللہ کے ایک قول کے مطابق صرف ایک جھوٹ بولنے کی وجہ سے گواہی رد کی جاسکتی ہے۔ اور امام احمد سے بھی دو روایتوں میں سے ایک یہی ہے ۔ اس بارے میں ایک مرسل حدیث بھی روایت کی گئی ہے۔تو ہم یقینی طور پر اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان میں سے کوئی ایک بھی جان بوجھ کر کسی حال میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہیں بولتا تھا۔اور ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے کہ ہم جھوٹ کا منفی ہونا صرف اس کے بارے میں جان سکتے ہیں جس کے بارے میں ہمیں یقینی طور پر علم ہو کہ معصوم مطلق ہے۔ بلکہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں جن کو اگر آپ پرکھیں گے تو پتہ چلے گا کہ وہ جھوٹ نہیں بولتے۔ اگرچہ اس سے غلطیاں بھی ہوتی ہوں ؛ اور بعض دوسرے گناہ بھی سر زد ہوتے ہوں ۔ اور ہم یہ بات بھی تسلیم نہیں کرتے کہ جو کوئی معصوم نہیں وہ جان بوجھ کر جھوٹ بولتا ہے ۔
یہ بات خلاف واقع ہے۔اس لیے کہ عمداً جھوٹ صرف وہی انسان بول سکتا ہے جو لوگوں میں سب سے زیادہ برا ہو۔ ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جو جان بوجھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولتا ہو۔
اہل علم حضرات جیسے : مالک ؛شعبہ ؛ یحی بن سعید ؛ثوری؛ شافعی؛اوراحمد بن حنبل رحمہم اللہ جیسے لوگ یقینی طور پرجان بوجھ کر کبھی بھی جھوٹ نہیں بولتے تھے؛ نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر اور نہ ہی کسی دوسرے پر۔تو پھر ابن عمر ؛ ابن عباس اور ابوسعید رضی اللہ عنہم جیسے لوگوں کے متعلق ہم کیا کہہ سکتے ہیں ؟
٭ گیارھویں بات : اگریہ تسلیم کرلیا جائے کہ اس سے مراد معصوم ہی ہے ؛ تو پھر بھی ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عصمت کی نفی پر اجماع کو تسلیم نہیں کرتے۔ جیسا کہ اس سے پہلے بیان کیا جاچکا ہے ۔بیشک بہت سارے وہ لوگ جو کہ رافضہ سے درجہا بہتر ہیں ؛ وہ اپنے شیوخ کے متعلق بھی اسی قسم کے دعوے کرتے ہیں ؛ اگرچہ انہوں نے اس عبارت میں تھوڑی سی تبدیلی کردی ہے۔ ہم ان کی عصمت کو بھی باقی لوگوں سے عصمت کی نفی کے ساتھ تسلیم نہیں کرتے ۔ اگر عصمت ہوگی تو سب کے لیے اور اگر اس کی نفی کی جائے گی تو سب سے نفی کی جائے گی۔