Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امام العصر، حضرت مولانا علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ کا فرمان


سوال: اس کی کیا دلیل ہے کہ اہلِ قبلہ سے وہی لوگ مراد ہیں جو تمام ضروریاتِ دین کی تصدیق کرتے ہو اور اہلِ قبلہ کا لفظ کیونکر اس پر دلالت کرتا ہے؟

جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ کفر اور ایمان ایک دوسرے کے مقابل ہیں۔ اور ان میں تقابل عدم و ملکہ کا ہے۔ اس لئے کہ کفر کے معنیٰ ہے عدم ایمان اور جن دو

چیزوں میں عدم و ملکہ کا تقابل ہوتا ہے ان کے درمیان مصداق کے اعتبار سے واسطہ (یعنیٰ تیسری صورت) نہیں ہوتا اگرچہ فی نفس الامر واسطہ ممکن ہو۔

 مثال نابینا اور بینا کہ نابینا اس شخص کو کہتے ہیں جس کو بینا ہونا چاہئے مگر نہیں ہے اور ظاہر ہے کہ جس مخلوق کو بینا ہونا چاہئے وہ دو حال سے باہر نہیں، بینا ہو گا یا نابینا، ممکن نہیں کہ وہ نہ بینا ہو اور نابینا ، بلکہ کوئی تیسری حالت ہو۔

اسی طرح اس میں شبہ نہیں کہ ایمان کا وہ شرعی مفہوم جو قرآن وحدیث اور تفسیر و عقائد و کلام کی کتابوں میں معتبر ہے، وہ یہی ہے کہ حضور اکرمﷺ کی ان تمام امور دینیہ میں تصدیق کرنا جس کے متعلق قطعی اور یقینی طور پر معلوم ہو کہ آپﷺ (بحیثیت رسول) ان کو لے کر آئے ہیں، اور ایسے شخص کا تصدیق کرنا جو اس تصدیق کا اہل ہو (یہ قید اس لئے کہ یہ تینوں عقل وخرد اور علم و معرفت سے عاری اور نا اہل ہیں اس لئے نہ یہ ایمان کے مکلف (اہل) ہیں اور نہ ان کا ایمان معتبر ہے۔

تو ایمان کی تعریف ہوئی، اور کفر کے معنیٰ یہ ہیں کہ جو شخص اس تصدیق کااہل ہو وه ان امور شرعیہ میں رسول اللہﷺ کی تصدیق نہ کرے، جن کو یقینی طور پر جان سکتا ہے کہ آپﷺ ان کو لے کر دنیا میں آئے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ کفر کی یہ تعریف بعینہ وہی ہے جو ہم نے بیان کی ہے کہ ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا بھی انکار کرنا کفر ہے اور منکر کافر ہے، لہٰذا اکسی بھی امر ضروری کے منکر کو مسلمان اور اہلِ قبلہ نہیں کہا جا سکتا ۔ 

(اکفار الملحدین: صفحہ، 411) 

سوال: جن اہلِ قبلہ کو کافر نہیں کہا جاتا ان سے کون لوگ مراد ہیں؟

جواب: عام طور پر مسلمان ایسے لوگوں یا فرقوں کو جو قطعی طور پر کفریہ عقائد و اعمال کے مرتکب اور کافر ہیں محض اس لئے کافر کہنے اور اسلام سے خارج قرار دینے سے اجتناب کرتے ہیں کہ وہ خدا تعالیٰ اور حضور اکرمﷺ اور قرآن کا نام لیتے ہیں۔ 

بظاہر مسلمانوں کے سے کام کرتے ہیں اور کہا کرتے ہے کہ اہلِ قبلہ کو کافر کہنا جائز نہیں۔ یہ ایک بہت بڑی غلط فہمی یا دھوکہ ہے، جس میں اچھے اچھے مسلمان گرفتار ہیں۔ در حقیقت كلمة حق اريد به الباطل کے طور پر یہ ایک چلتا ہوا فقرہ اور فریب ہے، جس کو یہ گمراہ اور کافر لوگ اپنے آپ کو مسلمان ثابت کرنے اور علماء حق کی تکفیر سے بچنے کے لئے سپر کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا بقول استاد محترمؒ فرمایا: جو اہلِ حق کو کافر کہے گا وہ یقیناً کافر ہے اور ہم اس کو کافر کہیں گے اگرچہ وہ اہلِ قبلہ میں سے ہو۔

(اكفار الملحدين: صفحہ، 94:95)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

ضروریاتِ دین میں مخالفت کرنے والے کو کافر کہنے کے بارے میں تو اہلِ حق میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگر چہ وہ اہلِ قبلہ میں سے ہو۔

(اکفار ملحدین: صفحہ، 105)

ایک جگہ فرماتے ہیں:

جو شخص ضروریاتِ دین کا انکار کرتا ہے وہ اہلِ قبلہ اور مسلمان رہتاہی نہیں۔۔

(اكفار الملحدين: صفحہ، 406)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

نیز علمائے اہلِ سنت کے نزدیک کسی اہلِ قبلہ کو کافر نہ کہنے کا مطلب یہی ہے کہ کسی اہلِ قبلہ کو اس وقت تک کافر نہ کہا جائے جب تک کہ اس میں کوئی کفر کی علامت یعنیٰ کوئی کفریہ قول یا فعل نہ پایا جائے اور کوئی موجب کفر امر اس سے سر زد نہ ہو۔

گویا کسی مسلمان سے اگر کوئی بھی کفریہ قول یا فعل سر زد ہو، یا اس میں کوئی بھی علامت کفر پائی جائے تو وہ اہلِ قبلہ سے خارج اور کافر ہو جاتا ہے۔ اگرچہ وہ خود کو مسلمان کہتا رہے اور مسلمانوں کی طرح عبادات و احکامِ شریعت کا پابند بھی ہو۔۔۔

(اكفار الملحدين: صفحہ، 101)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اس میں تو کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ اہلِ قبلہ (مسلمان کہلانے والے) جو عمر بھر روزه، نماز وغیره تمام عبادات واحکام کا پابند رہا ہو، لیکن عالم کو قدیم مانتا ہو یا جسمانی حیات بعد الموت کا انکار کرتا ہو یا اللہ تعالیٰ کو ہر ہر چیز کا عالم نہ مانتا ہو، وہ قبلہ کی طرف نماز پڑھنے کے باوجود بلا شک و شبہ کافر ہے۔ اسی طرح کوئی اور کفریہ قول یا فعل اس سے سر زد ہو تو وہ بھی کافر ہے۔ 

(اکفار الملحدين: صفحہ، 99)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

منتظمین کی اصطلاح میں اہلِ قبلہ وہی لوگ ہیں جو تمام ضروریاتِ دین یعنیٰ ان تمام عقائد و احکام کو مانتے ہو جن کا ثبوت شریعت میں یقینی اور معروف مشہور ہے۔ لہٰذا جو شخص ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کا بھی منکر ہو، مثلاً نماز یا روزہ کے فرض ہونے کا انکار کرتا ہو وہ اہلِ قبلہ میں سے ہرگز نہیں ۔

اسی طرح جس شخص میں کوئی بھی علامت کفر پائی جائے ، مثلاً کسی بت وغیرہ کو سجدہ کرے یا کسی امر شرعی کی توہین کرے اور مذاق اڑائے وہ بھی اہلِ قبلہ میں سے ہرگز نہیں۔

اہلِ قبلہ کو کافر نہ کہنے کے معنیٰ صرف یہ ہے کہ کسی مسلمان کو گناہوں کے ارتکاب کرنے یا غیر معروف نظری مسائل کا انکار کرنے پر کافر نہ کہا جائے، یہی محققین کی تحقیق ہے، اس کو اچھی طرح یاد رکھو۔

(اکفار الملحدين: صفحہ، 102)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اہلِ قبلہ میں سے وہ گمراہ لوگ جس کو اس کی گمراہی کی وجہ سے کافر تو نہیں کہا جاتا اور کبھی کبھی اس کو گنہگار اہلِ قبلہ کے لفظ سے تعبیر کر دیا جاتا ہے جیسا کہ شیخ ابن ہمامؒ نے اس سے قبل وللنهي عن تكفير اهل القبلة کے ذیل میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس سے صرف وہی شخص مراد ہے جو ضروریاتِ دین میں تو اہلِ حق سے متفق ہو، یعنیٰ اصولی عقائد و اعمال میں اہلِ حق سے متفق ہو اور فروعی مسائل میں مخالف ہو صرف اس شخص کو کافر نہیں کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ضروریاتِ دین میں مخالفت کرنے والے کو کافر کہنے کے بارے میں تو اہلِ حق میں کوئی اختلاف نہیں ہے، اگرچہ وہ اہلِ قبلہ میں سے ہو۔

اس تحقیق سے یہ بھی واضح ہو گیا کہ کسی گناہ کی وجہ سے اہلِ قبلہ کی تکفیر کی ممانعت کا ضابطہ بھی عام نہیں ہے، الا یہ کہ گناہ سے وہ گناہ مراد لیا جائے جو کفر نہ ہوں تو وہ شخص جس کی تکفیر کسی موجبِ کفر گناہ کی وجہ سے کی جائے وہ تو ضرور اس ضابطہ سے خارج ہو گا، اور اس کو کافر کہا جائے گا۔ نیز یہ بھی ثابت ہوا کی ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار یا موجباتِ کفر کا ارتکاب اس کو نہ اہلِ قبلہ سے خارج کر دیتا ہے۔ نیز یہ کہ اہلِ قبلہ کے معنیٰ قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑ ھنے والے سمجھنا ناواقفیت کی دلیل ہے۔

(اکفار الملحدين: صفحہ، 105)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

صریح کفر کے مرتکب اہلِ قبلہ کو کافر کہا جائے گا۔ اگرچہ وہ قبلہ سے منحرف نہ ہوں اور اسلام سے خارج ہونے کا قصد بھی نہ کرے۔

(اکفار الملحدين: صفحہ، 113)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اگر کسی گمراہ فرقہ نے اپنے باطل عقیدہ میں غلو اختیار کیا اور حد سے تجاوز کر گیا تو اس کو کافر قرار دینا ضروری ہے۔ ایسی صورت میں اہلِ حق کے ساتھ اس کی موافقت یا مخالفت کا بھی اعتبار نہ ہو گا، اس لئے کہ وہ مسلمانوں میں داخل ہی نہیں رہا جس کو جان و مال کی امان حاصل ہے، اگرچہ وہ قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا رہے اور خود کو مسلمان سمجھتا رہے۔ اس لئے کہ مسلمان ہر قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے والے کا نام نہیں ہے بلکہ مسلمان وہ شخص ہے جس کا پورے دینِ اسلام اور عقائد یقینیہ و احکام قطعیہ پر ایمان ہو، یہ شخص یقیناً کافر ہے اگرچہ وہ خود کو کافر نہ سمجھے۔

(اكفار الملحدين: صفحہ، 101)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

اہلِ قبلہ قصد و ارادہ کے بغیر بھی کفریہ عقائد اعمال کی بنیاد پر اسلام سے خارج ہو سکتے ہیں۔ فرماتے ہیں يقولون الحق ويقرؤن القرآن ويمرقون من الاسلام لا يتعلمون منه بشي وہ حق بات زبان سے کہتے ہوں گے، قرآن پڑھتے ہوں گے، اس کے باوجود وہ اسلام سے نکل جائے گے، اور ان کو اسلام سے کوئی علاقہ باقی نہیں رہے گا۔

یہ حدیث شریف ان لوگوں کے قول کی تردید کرتی ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں داخل ہونے اور مسلمان کہلانے کے بعد اہلِ قبلہ میں سے کوئی فرد یا گروہ اس وقت تک اسلام سے خارج اور کافر نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ جان بوجھ کر اسلام سے نکلنے کا ارادہ نہ کرے۔ یہ قول بالکل باطل ہے۔

(اکفار الملحدين: صفحہ، 129)

ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:

علامہ ابن تیمیہؒ کے نزدیک وہ تمام افراد اور فرقے جو مسلمان کہلانے اور اہلِ قبلہ میں سے ہونے کے باوجود اسلام کے قطعی اور یقینی عقائد و احکام سے

انحراف و انکار کریں یا انبیاء کرام علیہم السلام پر سب و شتم یا توہین و تذلیل کریں ، وہ نہ صرف کافر و مرتد اور واجب القتل ہیں، بلکہ دوسرے تمام کافروں اور غیر مسلموں سے زیادہ اسلام کے دشمن اور مضرت رساں ہیں۔ ان کی بیخ کنی سب سے زیادہ ضروری اور مقدم ہے۔ نیز یہ کہ ان کی کوئی تاویل بھی مسموع و معتبر نہیں ۔

(اكفار الملحدين: صفحہ، 194)