امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ نے کسی گناہ کی بناء پر اہل قبلہ کی تکفیر سے منع کیا ہے
امام ابو حنیفہؒ سے ممانعت تکفیر اہلِ قبلہ کا مسئلہ سب نے صرف منتقی سے ہی نقل کیا ہے۔ منتقی کی عبارت امام ابوحنیفہؒ سے حسب ذیل الفاظ میں نقل کی ہے جو لا نكفر اهل القبلة بذنب اور ہم تو کسی گناہ کی وجہ سے اہلِ قبلہ کو کافر نہیں کہتے۔
دیکھئے اس عبارت میں بذنب کی قید موجود ہے:
در حقیقت امام ابوحنیفہؒ کا قول صرف معتزلہ اور خوارج کی تردید کیلئے ہے، کہ خوارج تو گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرنے والے مسلمان کو کافر کہتے ہیں اور معتزلہ ایمان سے خارج اور مخلد فی النار کہتے ہیں لیکن ہم اہل سنت و الجماعت نہ اس کو کافر کہتے ہیں نہ خارج از اسلام اور مخلد فی النار بلکہ اس کو مسلمان اور لائقِ معذرت مانتے ہیں۔ اس لئے کی جملہ کا انداز بتا رہا ہے کہ امام صاحبؒ ان لوگوں پر تعریف کر رہے ہیں جو ایک مؤمن مسلمان کو بغیر کسی کفریہ قول یا فعل کے سر زد ہوئے محض کسی گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے کافر اور خارج از اسلام قرار دے دیتے ہیں۔ لیکن کلمات کفر کہنے پر بھی اگر کسی کو کافر نہ کہا جائے گا تو پھر ان کلمات کو کلمات کفر نہ کہنا چاہئے ، اور یہ محض فریب اور مغالطہ ہے۔
مصنفؒ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حافظ ابن تیمیہؒ کی کتاب الایمان کے صفحہ، 121 میں مندرجہ ذیل تصریح میری نظر سے گزری:
ہم جب یہ کہتے ہیں کہ اہلِ سنت اس پر متفق ہیں کہ گناہ کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر نہ کہا جائے تو اس گناہ سے ہماری مراد زنا، و شراب خوری وغیرہ معاصی ہوتے ہیں۔
ملحدوں اور زندیقوں کا دجل و فریب :
غرض یہ کہ ائمہ کرام کے قول لا نكفر اهل القبلة سے ملحدوں اور زندیقوں نے از راه دجل و فریب بہت زیادہ ناجائز فائدہ اٹھایا ہے، اور ہمیشہ تکفیر سے بچنے کیلئے ائمہ کے اس قول کو بطور سپر (ڈھال) استعمال کیا ہے۔ اسی لئے بہت سے ائمہ تو یہ کہنے سے بھی احتراز کرتے ہیں الا نکر احدا بذنب ہم کسی گناہ کی وجہ سے کسی کو کافر نہیں کہتے، بلکہ وہ کہتے ہیں لا نكفرهم بكل ذنب كما يفعله الخوارج ہم ہر گناہ کی وجہ سے
ان کو اس طرح کا فر نہیں کہتے جیسے خوارج کہتے ہیں۔
چنانچہ فقہ اکبر کے صفحہ 196 میں بحث ایمان کے تحت علامہ قونویؒ سے اس مشہور مقول الا نكفر احدا بذنب کے تحت صرف فساد عقیدہ کی صورت میں تکفیر کو نقل کیا ہے۔
ترجمہ: بذنب کے لفظ میں اس امر کی جانب اشارہ موجود ہے کہ فساد عقیدہ کی بنا پر ضرور کافر کہا جائے گا، جیسا کہ مشتبہ اور مجسمہ وغیرہ کے فاسد عقیدے، کہ ان کو ان کے فاسد عقائد کی بنا پر کافر کہا جاتا ہے، نہ کہ کسی گناہ کی بنا پر اور ظاہر ہے کہ فساد عقیدہ کو گناہ نہیں کہا جا سکتا، اور ہماری بحث گناہ سے ہے۔
حاصل کلام:
حاصل یہ ہے کہ کسی گناہ کی وجہ سے کسی مسلمان کو کافر نہ کہنے کے معنیٰ یہ نہیں ہے کہ کفریہ عقائد و اعمال کی وجہ سے بھی اس کو کافر نہ کہا جائے بلکہ بذنب کی قید سے یہ صاف ظاہر ہے کہ تکفیر سے ممانعت کا حکم صرف گناہ تک محدود ہے اور صرف مسلمان کے لئے ہیں، اور کفریہ عقائد و اعمال اختیار کر لینے کے بعد تو وہ مسلمان اور اہلِ قبلہ میں سے ہی نہیں رہتا۔
(اکفار الملحدين: صفحہ، 116تا119)