حضرت شاہ رحمۃ اللہ کی تحقیق
اہلِ قبلہ سے ہر قبلہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے والا مراد نہیں بلکہ تحقیق یہ ہے کہ اس مذکورہ بالا مشہور و معروف مقولہ میں اہلِ قبلہ سے وہ لوگ مراد ہے جو ضروریاتِ دین کا انکار نہ کرتے ہوں۔ گویا قبلہ دین سے کنایہ ہے مراد دین کو ماننے والے لوگ ہے، نہ کہ وہ شخص جو صرف قبلہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتا ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ خود فرماتے ہیں
ليس البران تولوا وجوهكم قبل المشرق والمغرب ولكن البرمن أمن بالله۔ الخ
ترجمہ: نیکی اور دینداری صرف اس میں نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کی جانب منہ پھیر لو، بلکہ نیک اور دیندار وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہوں ۔ لہٰذا جو شخص ضروریاتِ دین کا انکار کرتا ہے، وہ اہلِ قبلہ اور مسلمان رہتا ہی نہیں۔
(اکفار الملحدين: صفحہ، 406)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
باقی رہا مسئلہ تکفیر میں فقہاء اور متکلمین کا اختلاف تو (اس سے ہرگز دھوکے میں مت پڑنا) یہ صرف مسلمان گمراہ فرقوں سے متعلق ہے (کفار و مرتدین کے بارے میں مطلق کوئی اختلاف نہیں ضروریاتِ دین کا منکر یا ان میں تاویل کرنے والا تمام امت کے نزدیک متفقہ طور پر کافر ہے اور یہ اختلاف بھی صرف ان اسلامی فرقوں کے اپنی گمراہی میں غلو اور حد سے تجاوز کرنے یا نہ کرنے پہ ہی ہے جو مسلمان گمراہ فرقے اپنے فاسد عقائدواعمال میں غالی ہیں کہ اپنے مخالف تمام مسلمانوں کو کافر و مشرک کہتے ہیں ان کو کافر کہا گیا ہے، اور جو غالی نہیں ہیں، ان کو کافر کہنے سے احتراز کیا گیا ہے اور یا یہ اختلاف ارباب تصانیف کے اختلاف حالات پرمبنی ہے، چنانچہ جس مصنف کا جس گمراہ فرقہ سے سابقہ پڑا،
اور اسے ان کی گمراہی کی تہہ تک پہنچنے کا موقع ملا اور ان کے فاسد عقائد و اعمال سے دین کو نقصان پہنچنے کا اسے علم و یقین ہوا، اس نے ان کے بارے میں شدت اختیار کی اور ایسی شدید تردید کی دھجیاں اڑا دی ہے اور نام ونشان تک باقی نہ رہنے دیا یعنیٰ دین اسلام سے بالکل خارج اور کافر بنا دیا اور جس مصنف کو ایسا سابقہ نہیں پڑا اور گمراہی کی گہراہی تک پہنچنے کا موقع نہ ملا، اس نے ازروئے احتیاط مسلمان اور اہلِ قبلہ سمجھ کر اصل کافر کہنے سے احتراز کیا۔ اور یہی حقیقت اس مشہور و معروف قول کی ہے کہ اہلِ قبلہ کی تکفیر نہ کی جائے یعنیٰ مسلمان گمراہ فرقوں کے متعلق اصول تو یہی ہے کہ ان کی تکفیر سے احتراز کیا جائے لیکن اگر کوئی گمراہ فرقہ اپنے مخصوص حالات اور حد سے تجاوز کرنے کی بناء پر دین کے لئے ضرر رساں بن رہا ہے تو یقیناً اس کو کافر کہا جائے گا اور مسلمانوں کو گمراہی سے بچایا جائے گا۔ مصنف فرماتے ہیں کہ ہم نے بھی اس رسالہ میں جہاں تک ممکن ہو احتیاط سے کام لیا ہے مگر یہ واضح ہونا چاہئے کہ احتیاط کی بھی ایک حد ہے (اس حد سے تجاوز کرنا خود بے احتیاطی ہے) بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ انسان کسی مسئلہ میں صرف ایک پہلو کو سامنے رکھ کر احتیاط برتتا ہے مگر دوسرے پہلو سے وہ خود بے احتیاطی میں ہوتا ہو جاتا ہے اور اسے پتہ بھی نہیں چلتا۔ ہم نے اس رسالہ میں صرف اللہ تعالیٰ کے اس دین (کے اصول) کا اعلان کیا ہے جس پر ہم قائم اور اس کی حفاظت کے ہم مکلف ہیں، اور ہر پہلو سے احتیاط کا جو حق تھا، اس کو ادا کیا ہے (یعنیٰ جس طرح کسی کلمہ گو کو کافر کہنے سے احتیاط برتنے کی ضرورت ہے۔ ایسی ہی دین اور اصول دین کی حفاظت وصیانت میں بھی انتہائی احتیاط برتنے کی ضرورت ہے، ایسا نہ ہو کہ کسی کلمہ گو کو کفر سے بچانے کی کوشش میں ہم دین کی بنیادوں کو نقصان پہنچا بیٹھیں کہ یہ کھلی ہوئی مداہنت اور اللہ تعالیٰ کے دین کے ساتھ غداری ہے۔ ہماری نیت بالکل پاک وصاف ہے جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں، اللہ تعالیٰ اس پر گواہ ہیں، اور وہی ہر حال میں حمد وثنا کے سزاوار ہیں۔
(اكفار الملحدين: صفحہ، 341)
نتيجہ بحث
فرماتے ہیں کہ چونکہ نماز میں قبلہ کی جانب رخ کرنا ایمان اور مومنین کی خصوصیات میں سے ہے خواہ
ازروئے عقیدہ کا خاصہ شاملہ کیے، خواہ ازروئے عمل خاصہ غیر شاملہ اس لئے علماء نے اپنے اقوال میں اہل ایمان کو اہلِ قبلہ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں مصلیٰ نمازی، کنایہ ہے مسلمان سے ۔ اسی طرح حدیث نهيت عن قتل المصلين مجھے نماز پڑھنے والوں سے قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس حدیث میں مصلین سے یقینا مؤمنین مراد ہیں۔ علاوہ ازیں قرآن کریم کی مذکورہ ذیل نص صریح بتلاتی ہے کہ اہلِ قبلہ وہی لوگ ہیں جو حضور اکرمﷺ کی ان تمام امور میں تصدیق کرنے والے ہیں جن کو آپﷺ کا بحیثیت پیغمبر لے کر آنا یقینی طور پر معلوم ہے۔
قال الله تعالى وصد عن سبيل الله وكفر به والمسجد۔الحرام واخراج اهله منه أكبر عند الله
ترجمہ: اور اللہ تعالیٰ کی راہ (دین) سے لوگوں کو دور رکھنا، اور اس کا انکار کرنا۔ اور مسجد حرام سے روکنا، اور اہلِ حرم کو حرم سے نکالنا، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا کفر ہے۔
(اکفار الملحدين: صفحہ، 414)
علامہ شامی رد المختار:جلد:1:صفحہ:377 پر فرماتے ہیں: اس شخص کے کافر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں جو دین اسلام کے یقینی اور قطعی عقائد واحکام کا مخالف ہو، اگرچہ وہ اہلِ قبلہ میں سے ہو اور ساری عمر عبادات و طاعات کا پابند رہا ہو۔
(اكفار الملحدين: صفحہ، 101)