Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انتالیسویں دلیل:

  امام ابنِ تیمیہؒ

امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انتالیسویں دلیل:

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی انتالیسویں دلیل یہ آیت ہے:

﴿ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی شَہِدْنَا اَنْ تَقُوْلُوْا یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنْ ھٰذَا غٰفِلِیْنَ﴾ (الأعراف:۱۷۲)

’’ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں ! ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے ۔‘‘

کتاب الفردوس میں حضرت حذیفہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر لوگوں کو معلوم ہوتا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو امیر المومنین کے لقب سے کب ملقب کیا گیا تھا تو ان کی فضیلت کا انکار نہ کرتے۔ آپ اس وقت اس لقب سے نوازے گئے تھے؛جب آدم کی تخلیق ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی۔ اللہتعالیٰ کا فرمان ہے:

﴿ اِذْ اَخَذَ رَبُّکَ مِنْ بَنِیْٓ اٰدَمَ مِنْ ظُہُوْرِہِمْ ذُرِّیَّتَہُمْ وَ اَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ اَلَسْتُ بِرَبِّکُم

’’فرشتوں نے اللہ کی ربوبیت کا اقرار کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں تمہارا رب ہوں ۔ محمد تمہارے نبی ہیں اور علی تمہارے امیر ہیں ۔ یہ روایت اظہارمدعا میں بالکل صریح ہے۔‘‘[شیعہ کا بیان ختم ہوا]۔

جواب:اس کا جواب کئی طرح سے دیا جاسکتا ہے :

پہلی وجہ:....اس روایت کی صحیح سند پیش کرو۔تمام محدثین کا اجماع ہے کہ صرف صاحب فردوس کا کسی روایت کو ذکر کرلینا حدیث کے صحیح ہونے کے لیے کافی نہیں ہوتا ۔اس لیے کہ ابن شیرویہ الدیلمی الہمذانی نے اپنی اس کتاب میں بہت ساری صحیح احادیث بھی نقل کی ہیں ‘ حسن بھی اور موضوع بھی۔ یہ انسان اگرچہ اہل علم میں سے اور دیندار آدمی تھا۔ اور ان لوگوں میں سے نہیں تھا جو جان بوجھ کر جھوٹ گھڑ لیتے ہیں ۔ لیکن اس نے وہ روایات نقل کرلی ہیں جو لوگوں کی کتابوں میں موجود تھیں ۔کتابوں میں سچ او رجھوٹ ہر طرح کی باتیں ہوتی ہیں ۔ تو اس نے بھی ویسے ہی کیا جیسے بہت سارے دوسرے لوگ احادیث جمع کرتے وقت کیا کرتے ہیں ۔یا تو سند کے ساتھ روایت ذکر کرتے ہیں یا پھر سند کو حذف کردیتے ہیں ۔

دوسری وجہ :....یہ روایت سب محدثین کے نزدیک جھوٹی ہے۔اس پر اہل علم کا اتفاق ہے ۔

تیسری وجہ:....قرآن کریم کی ذکر کردہ آیت میں صرف یہ الفاظ ہیں : ﴿اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ قَالُوْا بَلٰی﴾ ’’کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں ؟ کہنے لگے : کیوں نہیں ‘ [ضرور آپ ہمارے رب ہیں ]۔‘‘اس میں نہ ہی کسی نبی کا ذکر ہے ؛ اور نہ ہی کسی امیر کا۔بلکہ اس سے اگلی آیت میں ہے : 

﴿اَوْ تَقُوْلُوْٓا اِنَّمَآ اَشْرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنْ قَبْلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنْ بَعْدِہِمْ

’’یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا ہی نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد ایک نسل تھے۔‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ یہ آیت صرف خاص طو ر پرمیثاق توحید پر مشتمل ہے۔ اس میں میثاق نبوت کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا، باقی اس سے کم درجہ امور تو الگ رہے ۔

چوتھی وجہ:....اس میثاق بارے میں احادیث بڑی معروف ہیں ۔ جوکہ مسند ‘سنن ؛ موطأ اور کتب تفسیر وغیرہ میں منقول ہیں ۔ ان میں ایسی کوئی بات ذکر نہیں کی گئی ۔اگر اس بات کی کوئی حقیقت ہوتی تو پھر سارے لوگ اس کے بیان کرنے کو ترک نہ کرتے ؛ بلکہ کوئی نہ کوئی ضرور اسے ذکر کرتا۔جب کہ یہاں ایک ایسا مصنف اسے ذکر کررہا ہے جس کی سچائی کا کوئی پتہ ہی نہیں ‘ بلکہ اس کا جھوٹا ہونا معروف ہے ۔

پانچویں وجہ:....علاوہ ازیں چونکہ یہ عہد سب لوگوں سے لیا گیا تھا۔ لہٰذا اس سے یہ لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جملہ انبیاء از نوح تا محمد علیہم السلام کے بھی امیر ہیں ؛ظاہر ہے کہ یہ ایک احمقانہ بات ہے ۔ اس لیے کہ یہ انبیاء علیہم السلام حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پیدائش سے پہلے وفات پا چکے تھے، ان کے امیر کیوں کر قرار پا سکتے تھے؟ زیادہ سے زیادہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے اہل زمانہ کے امیر ہو سکتے ہیں ۔ باقی رہی یہ بات کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پہلے لوگوں کے بھی امیر تھے اور ان لوگوں کے بھی جو آپ کے بعدپیدا ہوئے تو کوئی شخص بقائمی ہوش و حواس اس کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔اور نہ ہی اسے ایسی بے ڈھنگ باتیں کرتے ہوئے کوئی حیاء آتی ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ احمق رافضی گدھاعقلائِ یہود کے گدھے سے بھی گیا گزرا ہے جن کے متعلق قرآن نے فرمایا تھا:

﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ حُمِّلُوا التَّوْرَاۃَ ثُمَّ لَمْ یَحْمِلُوْہَا کَمَثَلِ الْحِمَارِ یَحْمِلُ اَسْفَارًا﴾ (الجمعۃ۵)

’’جن لوگوں کو تورات پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا پھر انہوں نے اس پر عمل نہیں کیا ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جو بہت سی کتابیں لادے ہو۔‘‘

عام لوگ اپنے اس کلام میں معذور ہیں کہ: رافضی یہودیوں کا گدھا ہے ۔اس لیے کہ ایک یہود کے اہل خرد و دانش سے یہ بات پوشیدہ نہیں کہ شیعہ کے یہ دلائل عقلاً و شرعاً بے کار ہیں ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے کسی نے کہا ہے : ان پر ان کے نیچے سے چھت گر گئی ۔ [کیا چھت بھی کبھی نیچے سے گرتی ہے؟] ایسے لوگوں کو نہ ہی عقل کام آتی ہے اور نہ ہی قرآن ۔ یہی حال ان کے اس عقیدہ کا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تمام اولاد آدم کے امیر ہیں ۔ آپ تو حضرت آدم علیہ السلام کی موت کے ہزاروں سال بعد پیدا ہوئے ۔ اور آپ کا گزرے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام پر امیر ہونا ؛ جو کہ آپ سے مقام و مرتبہ اور زمانے کے لحاظ سے متقدم ہیں ؛ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ملحد صوفی ابن عربی الطائی اور اس کے امثال کا یہ قول ہے کہ:

’’انبیاء کرام معرفت الٰہی کا علم خاتم الاولیاء کے سینے سے اخذ کیا کرتے تھے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے چھ سو سال کی مدت بعد پیدا ہوا تھا۔‘‘( ابن عربی اپنی کتاب ’’الفصوص‘‘ میں لکھتے ہیں کہ میں خاتم الاولیاء ہوں )

ابن عربی کے ہم نوا اولیاء کے بارے میں اسی طرح غلوّ سے کام لیتے ہیں ، جیسے شیعہ اماموں کے بارے میں ۔یہ دونوں دعوے جھوٹ؛ غلو؛ شرک اور باطل پروپیگنڈے کی بنیاد پر قائم کیے گئے ہیں ۔اور یہ دعوے کتاب و سنت اور اجماع سلف امت سے ٹکراتے ہیں ۔

حیرت بالائے حیرت ہے کہ شیعہ مصنف ایسے دلائل کو ’’صریح فی الباب‘‘ قرار دیتا ہے۔ بھلا ایسے دلائل کو کوئی عقلمند شخص تسلیم کر سکتا ہے؟یا ایسی باتوں سے کوئی بھی دانش مند انسان دلیل اخذ کرسکتا ہے؟ چہ جائے کہ اس کو بنیاد بنا کر امت کے بہترین لوگوں کو فاسق و فاجر قرار دیا جائے۔ اور انہیں کافر و جاہل اور گمراہ کہاجائے؟

اگرچہ ایسے دعووں کی بنیاد پر یہ سرکش ظالم اولیاء اللہ پر ظلم و تعدی نہ بھی کرتا ہو؛ اور اہل ارض کے سادات کو برابھلا نہ بھی کہتا ہو‘ اورا نبیاء کرام علیہم السلام کے بعد اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے معزز ومکرم مخلوق پر اور دین پر قدح نہ بھی کرتا ہو‘ اور کافروں کو مسلمانوں پر مسلط کرنے کی کوشش نہ بھی کرتا ہو تب بھی کیا یہ کم جرم ہے کہ ایسی باتوں سے وہ عام سادہ لوح مسلمانوں کے دلوں میں اسلام اور اہل اسلام کے متعلق شکوک و شبہات ڈال رہا ہے ۔ ہمیں ایسے اسرار کے حقائق معلوم کرنے اور ایسے رازوں سے پردہ اٹھانے کی ہر گز کوئی ضرورت نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہی اس انسان اور اس جیسے دوسرے لوگوں کے لیے کافی ہے۔