Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث]

  امام ابنِ تیمیہؒ

فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی دوسری حدیث]

[ اشکال] :شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں دوسری حدیث یہ ہے کہ جب آیت کریمہ ﴿ یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ﴾ (المائدہ:۶۷) ’’اے رسول جو کچھ آپ پر آپ کے رب کی طرف سے نازل ہوا ہے ‘ اسے آگے پہنچادیجیے ۔‘‘ نازل ہوئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر خطبہ دیتے ہوئے مجمع عام میں اعلان فرمایا:’’ اے لوگو! کیا میں تمھیں تمہاری جانوں کی نسبت زیادہ قریب نہیں ؟ انھوں نے کہا: کیوں نہیں [ضرور آپ ہمیں اپنی جانوں سے بھی زیادہ محبوب ہیں ] آپ نے فرمایا ’’جس کا میں مولیٰ ہوں علی بھی اس کے مولیٰ ہیں ۔ اے اللہ ! جو علی سے دوستی رکھے، اس سے دوستی رکھ اور جو علی سے عداوت رکھتا ہو اس سے عداوت رکھ، جو اس کی مدد کرے تو بھی اس کی مدد کر اور جو اسے تنہا چھوڑ دے تو بھی اسے تنہا چھوڑ دے۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بڑی خوشی کی بات ہے آپ(حضرت علی) میرے اور سب مومن مردوں اور عورتوں کے مولیٰ ہیں ۔‘‘

سابقہ تقریر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر مولی سے مراد تصرف میں اولویت[یعنی اولیت] رکھنے والا ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا تھا: کیا میں تمھیں تمہاری جانوں کی نسبت زیادہ قریب نہیں ؟‘‘[انتہی کلام الرافضی]

جواب:ہم قبل ازیں یہ واضح کرچکے ہیں کہ یہ روایت محض جھوٹ ہے۔ اس لے کہ یہ آیت کریمہ ﴿بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ﴾حجۃ الوداع سے بہت عرصہ پہلے نازل ہوئی ہے ۔جب کہ غدیر خم کا واقعہ حجۃ الوداع سے واپس آتے ہوئے ۱۸ ذوالحجہ کو پیش آیا ۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تقریباً اڑھائی ماہ کا عرصہ حیات رہے۔ اور یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ سورت مائدہ کی آخر میں نازل ہونے والی آیت : ﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ﴾ ہے ۔یہ آیت نوذوالحجہ کو عرفات کے موقع پر نازل ہوئی ۔اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میدان عرفات میں وقوف کیے ہوئے تھے۔ جیساکہ صحاح اور سنن میں یہ روایت ثابت ہے۔ اور تمام اہل علم مفسرین و محدثین کا اس پر اتفاق ہے ۔ 

غدیر خم کا واقعہ اس آیت کے نزول کے نو دن بعد مدینہ واپس جاتے ہوئے راستہ میں پیش آیا۔ تو پھر کیسے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ آیت اس مذکورہ بالا آیت ﴿بَلِّغْ مَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ﴾ اس کے بعد نازل ہوئی؟ اہل علم کا اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ آیت [اس آیت ﴿ اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ ....﴾سے]بہت پہلے نازل ہوئی ہے ۔ بلکہ یہ مدینہ طیبہ میں شروع شروع کے ایام میں نازل ہونے والی آیات میں سے ایک ہے۔ اس لیے کہ یہ سورت مائدہ کی آیت ہے جس میں شراب کے حرام ہونے کا بھی حکم ہے۔ اور شراب کی حرمت غزوہ احد کے بعد ہوئی ہے۔ ایسے ہی اس سورت میں اہل کتاب کے مابین حکم اور فیصلہ کرنے کا بیان ہے ۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے : ﴿فَاِنْ جَآئُ وْکَ فَاحْکُمْ بَیْنَہُمْ اَوْ اَعْرِضْ عَنْہُمْ﴾[المائد ۃ۴۲]

’’ اگروہ آپ کے پاس حاضر ہوں تو ان کے مابین فیصلہ کیجیے ؛ یا پھر ان سے منہ موڑ لیجیے ۔‘‘

یہ آیت یا تو اس وقت نازل ہوئی جب دو یہودیوں کو [زناکے جرم میں ] رجم کیا گیا تھا؛ یا پھر بنو قریظہ اور بنو نضیر میں خون کے جھگڑے کے بارے میں نازل ہوئی۔

یہودیوں کے رجم کا واقعہ مدینہ طیبہ کے شروع شروع کے ایام میں پیش آیا ۔ ایسے ہی بنی نضیر اور بنو قریظہ کا واقعہ بھی شروع ایام مدینہ کا ہے۔ اس لیے کہ بنو نضیر کو غزوہ خندق سے قبل جلا وطن کردیا گیا تھا ؛ اور بنو قریظہ کو غزوہ خندق کے بعد قتل کر دیا گیا ۔ اوراس بات پر تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ غزوہ خندق کا واقعہ صلح حدیبیہ اور غزوہ خیبرسے پہلے پیش آیا تھا۔ یہ تمام تر واقعات فتح مکہ اور غزوہ حنین سے پہلے کے ہیں ۔ اور غزوہ حنین اور فتح مکہ حجۃ الوداع سے پہلے ہے ؛ اور حجۃ الوداع غدیر خم سے پہلے ہے۔ پس اب جو کوئی انسان کہے کہ سورت مائدہ کی کوئی آیت غدیر خم کے بارے میں نازل ہوئی ہے‘ تو ایسا انسان باتفاق اہل علم جھوٹا اور دروغ گو ہے۔

ایسے ہی اس آیت کے سیاق میں اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے:[صحیح بخاری، کتاب الایمان، باب زیادۃ الایمان ونقصانہ (حدیث:۴۵)، صحیح مسلم، کتاب التفسیر، باب فی تفسیر آیات متفرقۃ،(حدیث:۳۰۱۷)۔]

﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾ [المائد ۃ ۶۷]

’’اے رسول! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔‘‘

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تبلیغ رسالت پر لوگوں کے شر سے محفوظ رکھنے کی ضمانت دی ہے؛ تا کہ آپ دشمنوں کے خطرات سے پر امن ہوکراپنافریضہ سرانجام دے سکیں ۔روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کی جاتی تھی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو محافظین ہٹالیے گئے۔‘‘[سنن الترمذی ۴؍۳۱۷ ؛ کتاب تفسیر القرآن باب سورۃ المائدۃ ؛اس سے قبل پہریدار پہرہ دیا کرتے تھے۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبہ سے سر مبارک باہر نکال کر ارشاد فرمایا : ’’ اے لوگو! آپ چلے جاؤ؛ اللہ تعالیٰ نے میری حفاظت کی ذمہ داری لے لی ہے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث حسن غریب ہے ۔‘‘ ]

یہ واقعہ یقینی طور پر فریضہ تبلیغ کے مکمل ہونے سے پہلے کا ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر تبلیغ کا فریضہ مکمل ہوگیا تھا۔

حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اعلان فرمایا تھا:

’’ اے لوگو! کیا میں نے تم تک اللہ تعالیٰ کا دین پہنچادیا ؟ کیا میں نے رسالت کا حق ادا کردیا ؟

تو سب لوگوں نے یک زبان ہوکر کہا : ہاں ۔

پھر آپ نے فرمایا: اے اللہ ! اس پر گواہ رہنا ۔ اور لوگوں سے مخاطب ہوکر فرمایا :

’’ اے لوگو! میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں ؛ اگر تم ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے رہوگے تو کبھی گمراہ نہیں ہوگے۔ ان میں سے ایک چیزہے ‘ اللہ تعالیٰ کی کتاب۔ اے لوگو! تم سے میرے بارے میں سوال کیا جائے گا پس تم اس کا کیا جواب دو گے؟ لوگوں نے عرض کیا : ’’ ہم گواہی دیں گے کہ آپ نے اللہ کا پیغام پہنچادیا ‘ اور اس کی امانت ادا کردی اور امت کی خیر خواہی کا حق ادا کردیا ۔‘‘پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگشت شہادت کو کبھی آسمان کی طرف اٹھاتے اور پھر کبھی زمین کی طرف موڑ لیتے اور فرماتے : ’’ اے اللہ گواہ رہنا ؛ اے اللہ گواہ رہنا ۔‘‘

یہ الفاظ صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی روایت سے منقول ہیں ۔ [مسلم ۲؍۸۹۰]

نیز آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ : ’’ پس چاہیے کہ حاضرین غائبین تک یہ پیغام پہنچائیں ۔ پس بہت سارے وہ لوگ جن تک پیغام پہنچایا جاتا ہے وہ سننے والے سے زیادہ یاد کرنے والے ہوتے ہیں ۔‘‘ [البخاری ۲؍۱۷۶]

پس اس سے ظاہر ہوا کہ جس عصمت و حفاظت کی ضمانت آیت کریمہ میں ہے ‘ وہ اس دعوت و تبلیغ کے وقت موجود تھی۔ تو پھر ایسا نہیں ہوسکتا کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے بعد نازل ہوئی ہو ۔ اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پہلے اپنی تبلیغ کو مکمل کر دیا تھا۔ اور اس لیے بھی کہ حجۃ الوداع کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی بشر کی جانب سے کسی طرح کا خوف و اندیشہ باقی نہیں رہا تھاجس کی وجہ سے آپ کو عصمت و حفاظت کی ضرورت ہو۔بلکہ فتح مکہ کے بعد اہل مکہ ؛ اہل مدینہ اور ان کے اردگرد کے لوگ اور[ باقی گروہ] مسلمان ہوکر آپ کی اطاعت میں داخل ہو چکے تھے ؛ ان میں کوئی ایک بھی کافر باقی نہیں بچا تھا۔ منافق انتہائی ذلت و رسوائی کا شکار اور اپنے نفاق کو چھپائے ہوئے تھے [انہیں کھل کر بات کرنے کی بھی ہمت نہیں ہوتی تھی]۔ ان میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں تھا جس میں جنگ و جدال اور مقابلہ کی ہمت باقی ہو۔ اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی قسم کا کوئی خوف و اندیشہ باقی تھا۔ تو اس حالت میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ :

﴿یٰٓاَیُّہَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَہٗ وَ اللّٰہُ یَعْصِمُکَ مِنَ النَّاسِ﴾ [المائدۃ ۶۷]

’’اے رسول! پہنچا دیجیے جو کچھ آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے اور اگرآپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اس کا پیغام نہیں پہنچایا اور اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے گا۔‘‘

اس سے یہ بات تو ثابت ہوگئی کہ جو کچھ یوم غدیر خم کے موقع پر پیش آیا وہ ان امور میں سے نہیں تھا جن کی تبلیغ کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا ہو۔ جیساکہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر تبلیغ کوپایہ تکمیل تک پہنچایا تھا۔ اس لیے کہ جن لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حج کیا تھا ان کی ایک بڑی تعداد بلکہ اکثریت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ واپس مدینہ نہیں پلٹی۔بلکہ اہل مکہ مکہ میں ہی رہ گئے؛ اہل طائف طائف واپس چلے گئے؛ اہل یمن یمن چلے گئے ؛ قریب کے دیہاتوں کے لوگ اپنے دیہاتوں کو واپس پلٹ گئے۔ آپ کے ساتھ وہی لوگ پلٹے جن کا تعلق مدینہ سے تھا یا پھر مدینہ کے قرب و جوار کے دیہاتوں کے رہنے والے تھے۔

اگر واقعی ایسے ہی ہوتا کہ جو کچھ غدیر خم کے موقع پر پیش آیا؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی تبلیغ کے لیے مامور تھے ؛ جیسا کہ آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر دعوت و تبلیغ کا فریضہ سر انجام دیا ؛ تو آپ اس انمول موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان امور کی تبلیغ بھی ضرور کرتے جیسے دوسرے امور کی تبلیغ کی تھی ۔ جب آپ نے حجۃ الوداع کے موقع پر امامت یا اس سے متعلقہ امور کا سرے سے ذکر تک ہی نہیں کیا ؛ اور نہ ہی کسی ایک عالم نے کسی صحیح یا ضعیف سند سے حجۃ الوداع کے موقع پر امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں کچھ ذکر کیا ؛ بلکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اپنے نقل کردہ خطبہ میں بھی امامت کا کہیں بھی کوئی تذکرہ نہیں کیا ۔ حالانکہ یہ وہ عام مجمع تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوتبلیغ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کا معاملہ ان امور میں سے نہیں تھا جن کی تبلیغ کا عام حکم ہو۔ بلکہ اس حوالے سے حدیث موالات اور حدیث ثقلین کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں ؛ اس لیے کہ ان میں کہیں بھی امامت کا ذکر نہیں ہے۔

وہ حدیث جسے امام مسلم رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے فرمایا :

’’ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں ؛ ایک ہے کتاب اللہ ۔ پھر آپ نے کتاب اللہ کا ذکر کیا اور اس کی خوب ترغیب دلائی ؛ پھر آپ نے فرمایا :’’(دوسری چیز)میرے اہل بیت ہیں ، میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ،(آپ نے یہ کلمات تین بار ارشادفرمائے )۔‘‘

یہ روایت امام مسلم رحمہ اللہ کے تفردات میں سے ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے روایت نہیں کیا۔

سنن ترمذی کی روایت میں یہ الفاظ بھی زیادہ ہیں : ’’یہ دونوں اس وقت تک جدا نہیں ہوسکتے جب یہ میرے پاس حوض پر وارد نہ ہوجائیں ۔‘‘ [مسلم ۴؍۱۸۷۳؛ الترمذي ۵؍۳۲۸۔]

ان الفاظ کی زیادتی پر کئی ایک نقاد وحفاظ محدثین نے طعن و تنقید کی ہے۔ اور انہوں نے یہ فرمایاہے : ’’ یہ الفاظ حدیث کے نہیں ہیں ۔‘‘ لیکن جو لوگ اس روایت کے صحیح ہونے کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ کہتے ہیں : اس سے مراد مجموع اہل بیت ہیں جو کہ تمام بنی ہاشم پر مشتمل ہیں ؛ ان تمام لوگوں کا گمراہی پر جمع ہونا محال ہے۔ اہل سنت والجماعت میں سے ایک جماعت کا یہی قول ہے۔ قاضی ابو یعلی رحمہ اللہ نے بھی اس روایت کا یہی جواب دیا ہے ۔

مسلم کی روایت کردہ حدیث میں اگرچہ یہ الفاظ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائے ہیں ؛ تواس میں صرف کتاب اللہ کی اتباع کی وصیت ہے ‘ تو یہ ایسا معاملہ ہے جس کے متعلق وصیت اس سے پہلے حجۃ الوداع کے موقع پر گزر چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل بیت کی اتباع کرنے کا حکم نہیں دیا۔ لیکن آپ نے یہ ضرور ارشاد فرمایا :

(( اُذکِرکم اللّٰہ فِی أہلِ بیتِی ))۔

’’میں تم لوگوں کو اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ یاد دلاتا ہوں ۔‘‘

اس یاد دھانی کا تقاضا ہے کہ اس سے پہلے اہل بیت کے جو حقوق بیان کیے جا چکے ہیں ‘ انہیں ادا کیا جائے ‘ اور ان پر کسی بھی قسم کا ظلم کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ اس کا بیان غدیر خم سے پہلے ہو چکا تھا۔

اس سے معلوم ہوا کیا غدیر خم کے موقع پر شریعت کا کوئی نیا حکم نازل نہیں ہوا ‘ نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حق میں اور نہ ہی کسی دوسرے کے حق میں ۔ نہ ہی آپ کی امامت کے متعلق اور نہ ہی کسی دوسری چیز کے متعلق ۔

رہ گئی حدیث موالات ؛ توامام ترمذی اور امام احمد بن حنبل رحمہما اللہ نے مسند میں نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’من کنت مولاہ فہذا علي مولاہ ۔‘‘’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے۔ ‘‘[سنن الترمذي ۵؍۲۹۷۔ والمسند ۱۴؍۲۱۴۔ اور دوسرے مقامات پر۔]

روایت کے یہ زیادہ الفاظ ’’اللہم !وَالِ مَنْ وَّالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہٗ ۔‘‘ بلاشبہ جھوٹ ہیں ۔ اَثرم نے سنن میں امام احمد رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے کہ عباس نے امام احمد رحمہ اللہ سے دریافت کیا کہ حسین الاشقر[اس کا نام حسین بن حسن اشقر کوفی ہے اس کا ترجمہ میزان الاعتدال(۱؍۲۴۹) پر مذکور ہے بخاری فرماتے ہیں :’’ فیہ نظر‘‘ ابو زرعہ کہتے ہیں یہ منکر الحدیث ہے، ابو حاتم کہتے ہیں یہ ضعیف راوی ہے جوزجانی فرماتے ہیں یہ صحابہ کوگالیاں دیا کرتا تھا۔ یہ ۲۰۸ھ میں فوت ہوا۔‘‘ ]نے دو حدیثیں روایت کی ہیں ۔ ان میں سے ایک یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

’’آپ کو مجھ سے اظہار بیزاری کرنے پر مجبور کیا جائے گا، مگر آپ مجھ سے بیزار نہ ہونا۔‘‘

دوسری مذکورہ صدر روایت : ’’اللّٰہم !وَالِ مَنْ وَّالَاہُ وَعَادِ مَنْ عَادَاہٗ ۔‘‘یہ سن کر امام احمد رحمہ اللہ نے ان حدیثوں کو تسلیم نہ کیا اور فرمایا کہ : ’’ان دونوں روایات کے جھوٹ ہونے میں کوئی شک نہیں ۔‘‘

ایسے ہی یہ روایت کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

’’ أنت أولی بکل مؤمن و مؤمنۃ ۔‘‘

’’ آپ ہر مؤمن مرد اور عورت کے لیے اس کی جان سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔‘‘محض جھوٹی روایت ہے ۔

رہ گئی یہ حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ من کنت مولاہ فہذا علي مولاہ ۔‘‘’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے ۔‘‘

یہ روایت صحاح میں سے نہیں ۔لیکن یہ ان روایات میں سے ہے جو بعض علماء نے نقل کی ہے ؛ مگر اس کے صحیح ہونے میں اختلاف ہے ۔ امام بخاری اور امام ابراہیم الحربی اور دوسرے اہل علم محدثین رحمہم اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے اس روایت پر تنقید کی ہے ‘ اور اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔ اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ اس حدیث کو حسن کا درجہ دیتے ہیں ۔ جیسا کہ امام ترمذی رحمہ اللہ نے بھی اسے حسن کہا ہے۔ ابو العباس بن عقدہ نے اس حدیث کی اسناد پر ایک کتاب بھی لکھی ہے۔

امام ابن حزم رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فضائل حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں مندرجہ ذیل حدیثیں صحیح ہیں :

۱۔ آپ کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو کہ حضرت ہارون کوحضرت موسیٰ علیہ السلام سے ہے بس یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔[البخاری،باب مناقب علی رضی اللّٰہ عنہ (ح:۳۷۰۶)، مسلم، باب من فضائل علی بن ابی طالب(ح۲۴۰۴)۔]

۲۔ غزوۂ خیبر کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ کل میں ایک شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہوگا ‘ اور جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہوں گے۔‘‘[صحیح بخاری،حوالہ سابق، (حدیث:۳۷۰۱)،صحیح مسلم۔حوالہ سابق (حدیث:۲۴۰۹)۔]

یہ صفت جو ہر مؤمن اور مسلمان کے لیے واجب اور باعث فضیلت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عہد ہے کہ :

۳۔ ’’صرف مومن حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کریں گے اورصرف منافق آپ سے بغض رکھیں گے۔ ‘‘[صحیح مسلم، کتاب الایمان باب الدلیل علی ان حب الانصار وعلی رضی اللّٰہ عنہ (حدیث:۷۸)۔ ]

آخر الذکر حدیث انصار مدینہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ :

’’اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی انسان انصار سے بغض نہیں رکھے گا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب الایمان ، باب حب الانصار من الایمان(حدیث:۱۷)، صحیح مسلم، حوالہ سابق (حدیث:۷۴،۷۵)۔]

باقی رہی حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ من کنت مولاہ فہذا علي مولاہ۔‘‘ ’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے ۔‘‘ تو یہ صحیح نہیں ہے؛ اس کی کوئی بھی سند ثقہ راویوں پر مشتمل نہیں ۔ اس کے علاوہ روافض جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل و مناقب میں جو روایات بیان کرتے ہیں وہ سب موضوع ہیں ، جنہیں علم حدیث سے معمولی واقفیت رکھنے والا شخص بھی جانتا ہے۔ 

اگر سوال کیا جائے کہ محدث ابن حزم رحمہ اللہ نے مذکورہ صدر قول میں حدیث’’اَنْتَ مِنِّی وَ اَنَا مِنْکَ‘‘ نیز ’’حدیث مباہلہ‘‘ اور حدیث’’ الکساء‘‘ ذکر نہیں کیں ؛تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ ابن حزم رحمہ اللہ کے نزدیک یہ احادیث بھی ضعیف ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ابن حزم رحمہ اللہ نے احادیث صحیحہ سے وہ حدیثیں مراد لی ہیں جن میں صرف علی رضی اللہ عنہ کی مدح وستائش کی گئی ہے اور کسی کا ذکر نہیں کیا گیا۔جب کہ ان روایات میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔آپ نے حضرت جعفر رضی اللہ عنہ سے یہ بھی فرمایا تھاکہ:’’ تم شکل و صورت میں اوراخلاق میں مجھ سے مشابہت رکھتے ہو۔‘‘

حضرت زید رضی اللہ عنہ سے آپ نے فرمایا تھا: ’’ أنت أخونا و مولانا ۔‘‘

’’آپ ہمارے بھائی اور ہمارے سردار ہیں ۔‘‘

جب کہ حدیث مباہلہ اور حدیث کساء میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے علاوہ حضرت فاطمہ اور حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کا بھی ذکر ہے ‘ اس لیے ابن حزم رحمہ اللہ پر اعتراض وارد نہیں ہوسکتا۔

اس کے علاوہ بھی ہم ایک مرکب جواب دیتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں :’’ اگر یہ الفاظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے[ غدیر خم کے مقام پر] ارشاد فرمائے بھی تھے؛ تو ان پر کوئی کلام نہیں ہوسکتا ؛ اس لیے کہ اس سے تو آپ کی مرادآپ کے بعد امامت و خلافت ہرگز نہ تھی۔ اس لیے کہ ظاہری الفاظ سے یہ مفہوم نہیں نکلتا۔ ایسی اہم بات بڑے واضح انداز میں بیان کرنا چاہیے تھی نہ کہ مجمل و مبہم الفاظ میں ۔اس لیے کہ ان الفاظ میں کہیں بھی کوئی ایسی دلیل نہیں پائی جاتی جس سے مراد خلافت لی جاسکتی ہو۔ [مولیٰ کا لفظ عربی زبان میں وَلی کا مترادف ہے]۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوا﴾ (المائدہ:۵۵)

’’ بیشک تمہارا دوست اللہ ہے اور اس کا رسول اور وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ۔‘‘

نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :

﴿وَاِِنْ تَظٰہَرَا عَلَیْہِ فَاِِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلٰہُ وَجِبْرِیلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَعْدَ ذٰلِکَ ظَہِیرٌ

’’اور اگر تم اس کے خلاف ایک دوسرے کی مدد کرو تو یقیناً اللہ خود اس کا مدد گار ہے اور جبریل اور صالح مومن اور اس کے بعد تمام فرشتے مددگار ہیں ۔‘‘[التحریم ۴]

اس آیت سے مستفاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ سب مومنین کے دوست ہیں ۔ اور یہ مؤمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دوست ہیں ۔ جیسا کہ اس سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا دوست ہے ‘ اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں ۔ اور اہل ایمان آپس میں بھی ایک دوسرے کے دوست ہیں ۔

موالات (دوستی لگانا) معادات( دشمن رکھنا) کی ضد ہے۔ یہ جانبین سے استوار کی جاتی ہے۔ ضروری نہیں کہ دوستی لگانے والے دونوں فریق مرتبہ و مقام کے لحاظ سے برابر ہوں ۔ بلکہ اس بات کا بھی امکان ہے کہ ایک فریق عالی منصب ہو اور اس کا دوسرے سے دوستی لگانا اس کے فضل و احسان پر مبنی ہو۔ اس کے مقابلہ میں ایک فریق فروتر درجہ رکھتا ہو اور اس کا فریق اعلیٰ سے دوستی لگانا اطاعت و عبادت کا درجہ رکھتا ہو۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ اہل ایمان سے محبت رکھتا ہے ‘ اور اہل ایمان اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہیں ۔ تو ثابت ہوا کہ موالات کا معنی دوستی لگانا ہے جو کہ دشمنی کرنے ‘ دھوکہ بازی کرنے اور لڑنے جھگڑنے کی ضد ہے ۔ کفار اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں رکھتے ۔ بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے ہیں ‘ اور ان کے ساتھ دشمنی کرتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :

﴿ لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّی وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ﴾ [الممتحنۃ ۱]

’’ میرے اور اپنے دشمن کو اپنا دوست مت بناؤ ۔‘‘

اللہ تعالیٰ ایسا کرنے پر بدلہ سے نوازتے ہیں ۔ جیساکہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا :

﴿فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ﴾ [البقرۃ ۲۷۹]

’’ اگر تم ایسا نہ کرو تو پھر تم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لیے تیار ہوجاؤ ۔‘‘

بیشک اللہ تعالیٰ اہل ایمان کا دوست ہے ‘ اور وہ انہیں کفر و گمراہی کے اندھیروں سے اسلا م کی روشنی کی طرف نکالتاہے ۔

بنابریں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے مولیٰ ہونے کے یہ معنی ہیں کہ یہ سب مومنوں سے دوستی رکھتے ہیں ، گویا مولی کا لفظ اندریں صورت موالات سے ہو گا جو معادات کی ضد ہے۔ مومن جو اللہ و رسول کے ساتھ موالات قائم کرتے ہیں ، وہ بھی معادات کی ضد ہے۔ دوستی لگانے کا یہ حکم سب مومنوں کے لیے ہے۔ بلاشبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ایک بلند پایہ مومن ہیں اور وہ باقی مومنوں سے دوستی رکھتے ہیں ۔[اور اہل ایمان ان سے دوستی رکھتے ہیں ]۔

اس حدیث میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے باطنی ایمان کا اثبات و اقرار ہے ۔ اور اس بات کی گواہی موجود ہے کہ آپ ظاہری و باطنی طور پر دوستی کے مستحق ہیں ۔ بنا بریں اس حدیث میں آپ رضی اللہ عنہ کے دشمنان خوارج و نواصب کی تردید پائی جاتی ہے۔ حدیث میں یہ کہیں مذکور نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی دوسرا مومنوں کا کوئی دوست ہی نہیں ۔اور ایسا کیسے ہوسکتا ہے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت سارے دوست ہیں ۔ جن میں نیک و کار اہل ایمان شامل ہیں ۔ ان میں حضرت علی رضی اللہ عنہ بدرجہ اولی شامل ہیں ۔اور تمام اہل ایمان آپ سے محبت رکھتے ہیں ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ قبیلہ مسلم و غفار و جہینہ و مزینہ اور قریش و انصاریہ سب میرے دوست ہیں ۔ اللہ و رسول کے سوا ان کا کوئی دوست نہیں ۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب مناقب قریش(حدیث:۳۵۰۴)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل غفار و اسلم....‘‘(حدیث: ۲۵۲۰)۔]

فی الجملہ ولی ؛ مولی اور والی کے مابین فرق پایا جاتا ہے ۔ پس وہ ولایت جس کا معنی دوستی کا ہے[اور جس کا الٹ دشمنی ہوتی ہے] وہ ایک علیحدہ چیز ہوتی ہے ؛ جب کہ وہ ولایت جس کا معنی حکومت و امارت ہے وہ ایک علیحدہ چیز ہے ۔

اس حدیث میں وارد ولایت پہلے معنی یعنی دوستی کے مفہوم میں ہے؛ دوسرا معنی مراد نہیں ۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں ارشاد فرمایا کہ : ’’ من کنت والیہ فعلي والیہ ۔‘‘’’جس کا میں والی ہوں علی بھی اس کا والی ہے۔‘‘رسول اللہ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان مبارک :’’ من کنت مولاہ فہذا علي مولاہ۔‘‘’’جس کا میں مولا ہوں علی بھی اس کا مولا ہے ‘‘ سے یہی مراد ہے ۔ اس مولی سے والی مراد لینا باطل ہے ۔ اس لیے کہ ولایت دونوں اطراف سے ثابت ہوتی ہے ؛ جیسے کہ مومنین اللہ تعالیٰ کے ولی اور اس کے دوست ہیں ‘ اور اللہ تعالیٰ ان کا ولی اور دوست ہے ۔

رہا مسئلہ اپنے نفوس سے بڑھ کر عزیز ہونا تو یہ صرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ثابت ہے ۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر اہل ایمان کے لیے اس کی جان و مال سے بڑھ کر محبوب ہونا یہ نبوت کے خصائص میں سے ہے ۔ اگر یہ ثابت ہوجائے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بعد کسی کو بذریعہ نص خلیفہ متعین کیا تھا؛ تو اس سے بھی یہ لازم نہیں آتا کہ خلیفہ اہل ایمان کو ان کی جانوں سے بڑھ کر محبوب ہو۔ یہ بات کسی ایک نے بھی نہیں کہی ۔ اور نہ ہی کسی ایک سے منقول ہے۔ اور اس کا معنی بھی یقینی طور پر باطل ہے ۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اہل ایمان کے لیے ان کی جانوں سے بڑھ کر محبوب ہونا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اور موت کے بعد بھی ثابت ہے ۔ اور اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کو تسلیم بھی کرلیا جائے تو پھر بھی یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کی بات ہے ۔ آپ کی زندگی میں ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے جائز نہیں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں خلیفہ بنتے۔ تو اس وقت آپ ہر مؤمن کے لیے اس کی جان و مال سے بڑھ کر محبوب و مقدم نہیں تھے۔ اور اگر مولی کے لفظ سے مراد خلافت لی جائے تو اس وقت آپ کسی ایک مؤمن پر بھی خلیفہ نہیں تھے۔

اس سے ظاہر ہوگیا کہ ان الفاظ سے خلافت مراد نہیں ہے ۔ اپنی جانوں سے بڑھ کر محبوب ہونا ایسا وصف ہے جو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ہی ثابت ہے؛ جس کے لیے موت کے بعد تک کا کوئی انتظار نہیں کیا گیا ۔ جب کہ خلافت کا معاملہ اس سے مختلف ہے ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات تک کوئی بھی خلیفہ نہیں تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا حدیث سے جو معنی شیعہ مراد لیتے ہیں ‘ وہ کہیں بھی ثابت نہیں ہے ۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں اور موت کے بعد بھی قیامت تک کے لیے اہل ایمان کے لیے ان کی جان و مال سے بڑھ کر محبوب و قریب ہیں ۔ جب آپ کی حیات مبارک میں ہی کوئی انسان بعض امور پر نائب بنایا جائے‘ یا تسلیم کرلیا جائے کہ کوئی انسان بعض امور میں آپ کی حیات مبارک میں ہی خلیفہ یا نائب بن جائے اور اسے اجماع اور نص کی روشنی میں خلیفہ تسلیم کرلیا جائے۔تو وہ اس خلافت کا [آپ کے بعد بھی ] زیادہ حق دار ہوگا‘ اور اہل ایمان کے لیے ان کی جانوں سے بھی بڑھ کر مقدم ہوگا‘ تو پھر کوئی دوسرا انسان اس کو چھوڑ کر اہل ایمان کے لیے ان کی جانوں سے بڑھ کر محبوب نہیں ہوگا۔ خصوصاً آپ کی حیات مبارک میں ۔

رہ گیا حضرت علی رضی اللہ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کا ہر اہل ایمان کا ولی اور دوست ہونا؛ یہ ایسا وصف ہے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ [یا دیگر صحابہ کرام ] کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارک میں بھی ثابت ہے ؛ اور وفات کے بعد بھی۔اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد بھی۔حضرت علی رضی اللہ عنہ آج بھی ہر مومن کے دوست اور محبوب ہیں ‘ جب کہ آج آپ کسی پر بھی والی یا حاکم نہیں ہیں ۔ یہی حال باقی تمام اہل ایمان کا ہے ۔ وہ اپنی زندگیوں میں بھی اور موت کے بعد بھی اہل ایمان کے دوست ہیں ۔