Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمۃ اللہ کا فتوٰی


سوال: کافر، مرتد اور زندیق میں کیا فرق ہے؟ وضاحت فرمائیں؟
جواب: کافر اور مرتد کے درمیان فرق یہ ہے کہ کافر تو وہ ہے جو شروع ہی سے اسلام کو قبول نہ کرے۔ اور مرتد وہ ہے جو دین میں داخل ہونے کے بعد کفر کی طرف لوٹ جائے ۔ دین اسلام کو قبول کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اسلام کے ان تمام باتوں کو تسلیم کرے جن کا ثبوت قطعی تواتر کے ساتھ ہوا ہے اور جن کو ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے۔
ان میں سے کسی ایک کا انکار پورے دین کو نہ ماننے کے ہم معنیٰ ہیں۔ مثلاً: قرآن کریم کو ماننے کا مطلب یہ ہے کہ اول سے آخر تک پورے قرآن مجید کو اللہ تعالیٰﷻ کا کلام مانے اور نہ ماننے کے لیے یہ ضروری نہیں کہ پورے قرآن کا انکار کیا جائے، بلکہ نعوذ باللہ ایک آیت کا انکار بھی پورے قرآن کا انکار ہے۔ 
الغرض تمام ضروریات دین کا ماننے والا مسلمان ہے اور ان میں سے کسی ایک کا منکر کافر ہے۔ وہ جو نہ ماننے کے بعد منکر ہو جائے وہ مرتد ہے۔
جو لوگ پہلے مسلمان تھے، پھر کسی جھوٹے مدعی نبوت کو ماننے لگے، وہ تو کھلے مرتد ہیں۔ اور جو لوگ دعویٰ اسلام کے باوجود کسی جھوٹے مدعی نبوت کو مانتے ہیں، وہ زندیق ہیں۔ کیونکہ جو لوگ اپنے مذہب کو اسلام کے نام سے پیش کرتے ہوں، وہ کافر بھی ہیں اور زندیق بھی۔ 
(فتاویٰ بینات: جلد، 1 صفحہ، 375)
سوال: مسلمان کی تعریف کیا ہے؟
جواب: حضور اکرم ﷺ کے لائے ہوئے پورے دین کو ماننے والا مسلمان ہے، اسلام کے وہ امور جن کا دین میں داخل ہونا قطعی تواتر سے ثابت اور عام و خاص کو معلوم ہو، ان کو ضروریات دین کہتے ہیں۔ ان ضروریات دین میں سے کسی ایک بات کا انکار یا تاویل کرنے والا کافر ہے۔ 
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد، 1 صفحہ، 55)
سوال: آدمی کن باتوں سے کافر ہو جاتا ہے؟
جواب: وہ تمام باتیں جو حضور اکرم ﷺ سے تواتر کے ساتھ منقول چلی آئی ہیں اور جن کو گزشتہ صدیوں کے اکابر مجدّدین بلا اختلاف و نزاع، ہمیشہ مانتے چلے آئے ہیں (ان کو ضروریات دین کہا جاتا ہے) ان میں سے کسی ایک کا انکار کفر ہے اور منکر کافر ہے۔ کیونکہ ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک کا انکار حضور اکرم ﷺ کی تکذیب اور پورے دین کے انکار کو مستلزم ہے، جیسا کہ قرآن مجید کی ایک آیت کا انکار پورے قرآن مجید کا انکار ہے۔ 
اور یہ اصول کسی آج کے ملّا، مولوی کا نہیں بلکہ خدا تعالیٰﷻ اور حضور اکرم ﷺ کا ارشاد فرمودہ ہے اور بزرگان سلفؒ ہمیشہ اس کو لکھتے آئے ہیں۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حال: جلد، 2 صفحہ، 97)
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
ایمان نام ہے حضور اکرم ﷺ کے لائے ہوئے پورے دین کو بغیر کسی تحریف و تبدیلی کے قبول کرنے کا اور اس کے مقابلے میں کفر نام ہے حضور اکرم ﷺ کے دین کی کسی قطعی و یقینی بات کو نہ ماننے کا۔ قرآن کی بے شمار آیات میں مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ کے ماننے کو ایمان اور مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَى الرَّسُوۡلِ: میں سے کسی ایک کے نہ ماننے کو کفر فرمایا گیا ہے۔ اس طرح احادیث شریفہ میں بھی یہ مضمون کثرت سے آیا ہے، مثلاً ، (صحیح مسلم شریف: جلد، 1 صفحہ، 37) کی حدیث میں ہے: اور وہ ایمان لائیں مجھ پر اور جو کچھ میں لایا ہوں۔
اس سے مسلمان اور کافر کی تعریف معلوم ہو جاتی ہے۔ یعنی جو شخص محمد رسول اللہ ﷺ کے لائے ہوئے دین کی تمام قطعی و یقینی باتوں کو من و عن  مانتا ہو مسلمان ہے، اور جو شخص قطعیاتِ دین کی میں سے کسی ایک کا منکر ہو یا اس کے معنیٰ و مفہوم کو بگاڑتا ہو، وہ مسلمان نہیں، بلکہ کافر ہے۔ 
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد، 1 صفحہ، 56)
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
ضروریات دین کا انکار کرنا یا اس میں خلاف مقصود تاویل کرنا دونوں کو علماء کرام نے موجبِ کفر بتلایا ہے۔
(فتاویٰ بینات: جلد، 1 صفحہ، 249)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
امت مسلمہ میں کوئی خلاف اس بارے میں نہیں کہ جو کوئی متواترات سے انکار کرے چاہے اس کا کرنا فرض ہو یا ترک حرام ہو، اس سے توبہ نہ کرے تو کافر ہے اور واجب القتل ہے۔ 
(فتاوی بینات: جلد، 1 صفحہ، 252)
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
ضروریات دین تین قسم کے ہیں۔ پہلی قسم یہ کہ تصریح نص قرآنی سے ثابت ہوں جیسے ماں بیٹی سے نکاح کا حرام ہونا۔ دوسری قسم یہ کہ سنت متواترہ سے ثابت ہوں۔ تواتر خواہ لفظی ہو خواہ معنوی، عقائد میں ہو یا اعمال میں، فرض ہو یا نفل ہو۔ تیسری قسم یہ کہ اجماع قطعی سے ثابت ہوں جیسے سیدنا صدیق اکبرؓ و سیدنا فاروق اعظمؓ کی خلافت وغیرہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس قسم کے امور سے اگر انکار کیا جائے تو اس شخص کا ایمان ۔۔۔۔۔ قرآن اور انبیاء کرام علیہم السلام پر صحیح نہیں ہے۔
(فتاوی بینات: جلد، 1 صفحہ، 255)
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
اہل قبلہ کے اس وقت تک تکفیر نہیں کی جاتی جب تک ضروریات دین کا یا کسی ایسی چیز کا جس پر اجماع منعقد ہو، انکار نہ کرے مثلاً حرام کو حلال سمجھنا۔ 
جو شخص تکذیب کرے یا کلیات شریعت میں سے کسی قاعدہ سے انکار کرے یا جو چیز نبی کریم ﷺ سے متواتر ثابت ہے اس کا انکار کرے اس کی تکفیر قطعی و یقینی ہے۔ 
(فتاویٰ بھی: جلد، 1 صفحہ، 253)
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
جو شخص ضروریاتِ دین کا منکر ہو، ایسا شخص تو مسلمان ہی نہیں۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد 5، صفحہ 69)
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
صحیح اصول یہ ہے کہ جو شخص حضرت محمد ﷺ کے پورے دین کو مانتا ہو اور ضروریات دین میں سے کسی بات کا انکار نہ کرتا ہو نہ توڑ مروڑ کر ان کو غلط معانی پہناتا ہو، وہ مسلمان ہے۔کیونکہ ضروریات دین میں سے کسی ایک کا انکار کرنا یا اس کے معنیٰ و مفہوم کو بگاڑنا کفر ہے۔
(فتاوی ختم نبوت: جلد، 1 صفحہ، 96)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
شیعہ فرقہ اثنا عشریہ کے تکفیر کے بارے میں حضرت مولانا محمد منظور احمد نعمانی صاحبؒ کے مرتب کرتا استفتاء پر ہندوستان میں مفصل جواب مولانا حبیب الرحمن الاعظمی صاحبؒ نے مدلل طور پر تحریر کیا جبکہ پاکستان میں مولانا مفتی ولی حسن صاحبؒ کو اس فرقہ کے کفر کو بے نقاب کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور ہندوستان، پاکستان، بنگلہ دیش اور برطانیہ میں مقیم سینکڑوں جید اور ممتاز علمائے کرامؒ نے اس فتویٰ کی کی تائید کی۔  
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہیدؒ، حضرت مولانا منظور نعمانی صاحبؒ کی اس عظیم تالیفی کاوش کو بجا طور پندرہویں صدی کے اوائل کا تجدیدی کارنامہ قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ: 
عام غلط فہمی یہ ہے کہ شیعہ مذہب بھی اسلام کے اندر مسلمانوں ہی کا ایک فرقہ ہے۔ یہ غلط فہمی اس لیے ہوئی کہ شیعہ پر تقیہ کی سیاہ چادر تنی رہی، ورنہ شیعہ مذہب ناصرف یہ کہ بے شمار ضروریاتِ دین اور متواترات اسلام کا منکر ہے۔ بلکہ اس کا کلمہ بھی جو دین کی اولین احساس ہے مسلمانوں سے الگ ہے، اور قرآن کریم جو دین کا سر چشمہ ہے یہ اس کی تحریف کا بھی قائل ہے۔ جس گروہ کا کلمہ اور قرآن تک مسلمانوں سے الگ ہو ان کو مسلمان کہنا خود اسلام کی نفی ہے۔
(نظام خلافت راشدہ رسالہ: فروری 2014 عیسوی صفحہ، 19)
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
ضروریاتِ دین ایسے بنیادی امور ہیں، جن کا تسلیم کرنا شرط اسلام ہے، اور ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا کفر و تکذیب ہے۔ خواہ کوئی دانستہ کرے یا نا دانستہ طور پر،خواہ واقف ہو کے یہ مسئلہ ضروریاتِ دین میں سے ہے یا واقف نہ ہو، بہر صورت کافر ہوگا۔
شرح عقائد نسفى میں یے: 
الایمان فی الشرع هو التصديق بما جاء به من عند الله اي تصديق النبي عليه السلام بالقلب في جميع ما علم بالضرورة مجينه به من عند الله تعالى:
ترجمہ: شریعت میں ایمان کے معنیٰ ہیں ان تمام امور میں آپ ﷺ کی تصدیق کرنا جو آپ اللہ تعالیٰﷻ کی طرف سے لائے ہیں، یعنی ان تمام امور میں نبی کریم ﷺ کی دل و جان سے تصدیق کرنا جن کے بارے میں بداہتًہ معلوم ہے کہ آپ ان کو اللہﷻ کی طرف سے لائے۔ 
اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ جو شخص ضروریاتِ دین کا منکر ہو وہ حضور اکرم ﷺ پر ایمان نہیں رکھتا۔
علامہ شامیؒ ردالمحتار شرح در مختار میں لکھتے ہیں:
لا خلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام وان کان من اہل القبلۃ المواظب طول عمرہ على الطاعات كما في شرح ترى التحرير:
ترجمہ: جو شخص ضروریاتِ دین میں مسلمانوں کا مخالف ہو، اس کے کافر ہونے میں کوئی اختلاف نہیں، اگرچہ وہ اہل قبلہ ہو اور مدة العمر طاعات اور عبادات کی پابندی کرنے والا ہو، جیسا کہ شرح تحریر میں اس کی تصریح ہے۔
حافظ ابن حزم ظاہریؒ لکھتے ہیں: 
وصح الاجماع علی ان كل من جحد شيئا صح عندنا بالاجماع ان رسول الله ﷺ اتی به فقد كفر، وصح بالنص ان كل من استهزأ بالله تعالى، او بملك من الملائكه او بنبی من الانبياء، عليهم السلام او بآية من القرآن او بفريضۃ من فرائض الدين فهي كلها آیات الله تعالى، بعد بلوغ الحجۃ اليه فهو كافر، ومن قال بنبی بعد النبی عليه الصلوة والسلام اوجحد شينا صح عنده بان النبي ﷺ قاله فهو كافر
 ترجمہ: اور اس بات پر صحیح اجماع ثابت ہے کہ جو شخص کسی ایسی بات کا انکار کرے جس کے بارے میں جماعت سے ثابت ہو کہ حضور اکرم ﷺ اس کو لائے تھے، تو ایسا شخص بلا شبہ کافر ہے، اور یہ بات بھی نص سے ثابت ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰﷻ کا، کسی فرشتے کا، کسی نبی کا، قرآن کریم کی کسی آیت کا، دین کے فرائض میں سے کسی فریضے کا مذاق اڑائے (واضح رہے کہ تمام فرائض آیت اللہ ہیں) حالانکہ اس کے پاس حجت پہنچ گئی ہو، ایسا شخص کافر ہے، اور جو شخص حضور اکرم ﷺ کے بعد کسی نبی کا قائل ہو، یا کسی ایسی چیز کا انکار کرے کہ اس کے نزدیک ثابت ہو کہ حضور اکرم ﷺ نے یہ بات فرمائی ہے، تو وہ بھی کافر ہے۔
اور قاضی عیاض مالکی صاحبؓ: الشفاء  میں لکھتے ہیں:
وكذلك وقع الاجماع على تكفير كل من دافع نص الكتاب او خص حديثا مجمعا على نقله مقطوعا به مجمعا على حمله على ظاهره
ترجمہ: اسی طرح اس شخص کی تکفیر پر بھی اجماع ہے۔
جو کتاب اللہ کی نص کا مقابلہ کرے، یا کسی ایسی حدیث میں تخصیص کرے جس کی نقل پر اجماع ہو، اور اس پر بھی اجماع ہو کہ وہ اپنے ظاہر پر محمول ہے۔
آگے لکھتے ہیں: 
وكذلك نقطع بتكفير كل من كذب وانكر قاعة من قواعدة الشرع وما عرف يقينا بالنقل المتواتر من فعل الرسولﷺ ووقع الاجماع المتصل عليه..... الخ
ترجمہ: اسی طرح ہم اس شخص کو بھی قطعی کافر قرار دیتے ہیں جو شریعت کے قاعدوں میں سے کسی قاعدے کا انکار کرے، اور ایسی چیز کا انکار کرے جو حضور اکرم ﷺ سے نقل متواتر کے ساتھ منقول ہو اور اس پر مسلسل اجماع چلا آتا ہو۔
علمائے امت کی اس قسم کی تصریحات بے شمار ہیں، نمونے کے طور پر چند حوالے درج کیے گئے ہیں.
خلاصہ یہ ہے کہ ضروریاتِ دین کا اقرار و انکار۔ اسلام اور کفر کے درمیان حد فاصل ہے ۔ جو شخص ضروریاتِ دین کو: من و عن: بغیر تاویل کے قبول کرتا ہے، وہ دائرہ اسلام میں داخل ہے، وہ جو شخص ضروریاتِ دین کا انکار کرتا ہے یا ان میں سے ایسی تاویل کرتا ہے کہ جس سے ان کا متواتر مفہوم بدل جائے وہ دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ 
اور جو مسائل ایسے ہوں کہ ہیں تو قطعی و اجماعی، مگر ان کی شہرت عوام تک نہیں پہنچی صرف اہل علم تک محدود ہے، ان کو قطعیات تو کہا جائے گا، مگر ضروریات نہیں کہا جاتا۔ ان کا حکم یہ ہے کہ اگر کوئی شخص ان کا انکار کرے تو پہلے اس کو تبلیغ کی جائے، اور ان کا قطعی اور اجماعی ہونا اس کو بتایا جائے، اس کے بعد بھی اگر انکار پر اصرار کرے تو خارج از اسلام ہوگا۔
نوٹ: ضروریاتِ دین کو تسلیم کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ صرف ان کے الفاظ کو مان لیا جائے، بلکہ ان کے اس معنیٰ و مفہوم کو ماننا بھی ضروری ہے جو حضور اکرم ﷺ سے لے کر آج تک تواتر اور تسلسل کے ساتھ مسلم چلے آتے ہیں۔
فرض کیجیے! ایک شخص کہتا ہے کہ میں قرآن کریم پر ایمان رکھتا ہوں، لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہتا ہے کہ قرآن کریم کے بارے میں میرا عقیدہ یہ نہیں کہ یہ حضور اکرم ﷺ پر بذریعہ وحی اللہ تعالیٰ ﷻ کی طرف سے نازل ہوا، جیسا کہ مسلمان سمجھتے ہیں، بلکہ میں قرآن مجید کو حضور اکرم ﷺ کی اپنی تصنیف کردہ کتاب سمجھتا ہوں۔ کیا کوئی شخص تسلیم کرے گا کہ ایسا شخص قرآن پر ایمان رکھتا ہے؟
یا فرض کیجیے! ایک شخص کہتا ہے کہ میں: محمد رسول اللہ ﷺ سے خود میری ذات مراد ہے۔ کیا کوئی عاقل کہہ سکتا ہے کہ یہ شخص محمد رسول اللہ ﷺ پر ایمان رکھتا ہے؟
یا فرض کیجیے! ایک شخص تسلیم کرتا ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے تواتر کے ساتھ آخری زمانے میں حضرت عیسیٰؑ کے نازل ہونے کی خبر دی تھی، لیکن ساتھ ہی کہتا ہے کہ عیسیٰؑ سے خود اس کی ذات مراد ہے۔ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ حضرت عیسیٰؑ کے نزول پر ایمان رکھتا ہے؟
الغرض ضروریاتِ دین میں اجماعی اور متواتر مفہوم کے خلاف کوئی تاویل کرنا بھی درحقیقت ضروریاتِ دین کا انکار ہے۔ ضروریاتِ دین میں ایسی تاویل کرنا الحاد و زندقہ کہلاتا ہے، قرآن کریم میں ہے:
ان الذين يلحدون فی اياتنا لا يخفون علينا، افمن يلقى في النار خير ام من ياتی امانا يوم القيامه اعملوا ما شئتم انه بما تعملون بصير
ترجمہ: جو لوگ ٹیڑھے چلتے ہیں ہماری باتوں میں، وہ ہم سے چھپے ہوئے نہیں ، بھلا ایک پڑتا ہے آگ میں، وہ بہتر ہے یا جو آئے گا امن سے، دن قیامت کے، کیے جاؤ جو چاہو، بے شک جو تم کرتے ہو، وہ دیکھتا ہے۔
جو لوگ ضروریاتِ دین میں تاویلیں کر کے انہیں اپنے عقائد پر چسپاں کرتے ہیں، انہیں ملحد و زندیق کہا جاتا ہے، اور ایسے لوگ نہ صرف کافر و مرتد ہیں بلکہ اس سے بھی بدتر کیونکہ کافر اور مرتد کی توبہ قبول کی جاتی ہے، لیکن زندیق کی توبہ بھی قبول نہیں کی جاتی۔
رقم الحروف نے اپنے رسالے قادیانی جنازہ: میں زندگی کے بارے میں ایک نوٹ لکھا تھا، جسے جیل میں نقل کیا جاتا ہے
جو شخص کفر کا عقیدہ رکھتے ہوئے اپنے آپ کو اسلام کی طرف اس منسوب کرتا ہو، اور نصوص شرعیہ کی غلط سلط تاویلیں کر کے اپنے عقائدے کفریہ کو اسلام کے نام سے پیش کرتا ہو، اسے زندیق کہا جاتا ہے ۔ علامہ شامیؒ باب المرتد میں لکھتے ہیں:
فان الزنديق يموه كفره يروج عقيده الفاسده ويخرجها في صورة الصحيحه هذا معني ابطان الكفر
ترجمہ: کیونکہ زندگی اپنے کفر پر ملمع کیا جاتا ہے اور اپنے عقیدہ فاسدہ کو رواج دینا چاہتا ہے اور اسے بظاہر صحیح صورت میں لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے اور یہی معنیٰ ہے کفر کو چھپانے کے۔
امام الہند حضرت مولانا شاہ ولی اللہ محدث دہلوی صاحبؒ مسوی شرح مؤطا میں لکھتے ہیں:
بيان ذلك ان المخالف للأين الحق ان لم يعترف به ولم يذعن له لا ظاهر أو لا باطناً فهو كافر وان اعترف بلسانه وقلبه على الكفر فهو المنافق ، وان اعترف به ظاهراً ، لكنه يفسر بعض ما ثبت من الدين ضرورة بخلاف ما فسره الصحابة والتابعون واجتمعت عليه الأمة فهو الزنديق
 ترجمہ: شرح اس کی یہ ہے کہ جو شخص دین حق کا مخالف ہے، اگر وہ دین اسلام کا اقرار ہی نہ کرتا ہو اور نہ دین اسلام کو مانتا ہو ، نہ ظاہری طور پر اور نہ باطنی طور پر تو وہ کافر کہلاتا ہے۔اور اگر زبان سے دین کا اقرار کرتا ہو لیکن دین کے بعض قطعیات کی ایسی تاویل کر تا ہو جو صحابہ کرامؓ و تابعینؒ اور اجماع امت کے خلاف ہو تو ایسا شخص زندیق کہلاتا ہے۔
 خلاصہ یہ کہ جو شخص اپنے کفریہ عقائد کو اسلام کے رنگ میں پیش کرتا ہو ، اسلام کے قطعی و متواتر عقائد کے خلاف قرآن و سنت کی تاویلیں کرتا ہو، ایسا شخص زندیق کہلاتا ہے۔
( آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد، 1 صفحہ، 63 )
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
 یہ طے شدہ امر ہے (جس میں کسی کا اختلاف نہیں) کہ محمد رسول اللہﷺ کے لائے ہوئے پورے دین کو :من و عن: تسلیم کرنا اسلام ہے اور دینِ محمدی ﷺ کی کسی بات قبول نہ کرنا کفر ہے کیونکہ یہ حضور اکرم ﷺ کی تکذیب ہے ۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد، 1 صفحہ، 60 )
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
حضور اکرمﷺ نے خدا تعالٰیﷻ سے پا کر جو دین امت کو دیا ہے ۔ اس پورے کے پورے دین کو اور اس کی ایک ایک بات کو ماننا اسلام ہے ، اور ماننے والے کو مسلمان کہتے ہیں، اور دین اسلام کی جو باتیں حضور اکرم ﷺ نے بیان فرمائی ہیں ان میں سے کسی ایک بات کو نہ ماننا یا اس میں شک یا تردد کا اظہار کرنا کفر کہلاتا ہے۔ پس جو شخص دین اسلام کی کسی قطعی اور یقینی بات کو جھٹلاتا ہے یا اس کا مذاق اڑاتا ہے وہ مسلمان نہیں۔ 
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد، 1 صفحہ، 78 )
 ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
 ایسے تمام دینی امور جن کاثبوت حضور اکرم ﷺ سے قطعی تواتر کے ساتھ ثابت ہے، اور جن کا دین محمدی ﷺ میں داخل ہونا ہر خاص و عام کو معلوم ہے ، ان کو ضروریاتِ دین کہا جاتا ہے ۔ ان تم امور کی تاویل کو بغیر تاویل کے ماننا اسلام ہے ۔ ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا یا اس میں تاویل کرنا کفر ہے۔ 
 آپ کے مسائل اوران کا حل : جلد، 2 صفحہ، 44 )
ایک جگہ فرماتے ہیں کہ:
ایسے تمام امور جن کا ثبوت حضور اکرم ﷺ سے قطعی تواتر کے ساتھ ثابت ہے،اور جن کا دین محمدی ﷺ میں داخل ہونا ہر خاص و عام کو معلوم ہے ان کو ضروریات دین کہا جاتا ہے ان تمام امور کو بغیر تاویل کے ماننا شرطِ اسلام ہے ان میں سے کسی ایک کا انکار کرنا یا اس میں تاویل کرنا کفر ہے۔
(آپ کے مسائل اور ان کا حل: جلد، 2 صفحہ، 44)