Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پانچویں دلیل؛ حدیث:وصیت

  امام ابنِ تیمیہؒ

 فصل:....امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی پانچویں دلیل؛ حدیث:وصیت 

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اثبات میں پانچویں حدیث وہ ہے جو جمہور علماء نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے :کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے فرمایا:’’ آپ میرے بھائی، میرے وصی، میرے خلیفہ اور میرے بعد میرے قرض کو ادا کرنے والے ہیں ۔‘‘یہ روایت اس باب میں نص کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘ [انتہی کلام الرافضی]

[جواب]: اس کا جواب کئی وجوہ سے دیا گیا ہے : 

٭ پہلا جواب : ہم شیعہ سے اس روایت کی صحت ثابت کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ اس لیے کہ یہ حدیث ان کتب میں موجود نہیں ہے کہ جن کی طرف حدیث کو منسوب کرنا ہی حجت ہو۔ اور نہ ہی ائمہ حدیث میں سے کسی ایک نے اسے صحیح کہا ہے۔

٭ شیعہ مصنف کا یہ قول کہ:’’ جمہور علماء نے یہ روایت ذکر کی ہے۔‘‘[یہ مبالغہ پر مبنی ہے؛ اس لیے کہ] اگر شیعہ مصنف کی اس سے مراد وہ علماء حدیث ہیں جن کا اپنی کتب میں روایت نقل کرنا حجت سمجھا جاتا ہے ؛ جیسے امام بخاری ؛ مسلم وغیرہ ؛ اور انہوں نے اس روایت کو صحیح کہا ہے ؛ تو یہ محض ایک جھوٹ اور کھلا ہوا افتراء ہے۔ اور اگر وہ یہ کہنا چاہتا ہے کہ ابو نُعَیم نے ’’الفضائل ‘‘ میں اور مغازلی یا خطیب خوارزمی اور ان جیسے دوسرے لوگوں نے اسے روایت کیا ہے؛یا اسے فضائل کی کتابوں میں روایت کیا گیاہے۔ تومحض[ان کے روایت کرنے سے]یہ روایت باتفاق اہل علم فروعی مسائل میں بھی حجت نہیں [ہوسکتی]تو پھر امامت جیسے اصولی مسئلہ میں کیسے حجت ہوسکتی ہے ؟جس کی وجہ سے تم نے قیامت کھڑی کر رکھی ہے ۔ [پس اس کا باطل ہونا واضح ہے]۔

٭ دوسرا جواب : تمام اہل علم محدثین کا اس روایت کے جھوٹ ہونے پر اتفاق ہے۔ اس سے پہلے ابن حزم رحمہ اللہ کی وضاحت گزر چکی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :’’ ان ساری من گھڑی روایات کو ہر وہ انسان جانتا ہے جسے علم حدیث اور راویوں کے احوال کے ساتھ کوئی ادنی شغف بھی ہو۔‘‘ آپ نے یہ بات بالکل سچ ارشاد فرمائی ہے ۔ اس لیے کہ جس انسان کو صحیح اور ضعیف حدیث کی ادنی سی معرفت بھی ہو وہ جانتاہے کہ مذکورہ بالااور اس کی مانند دوسری روایات ضعیف ہیں ۔بلکہ اکثر جھوٹ اورمن گھڑت ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسی کوئی روایت کسی ایسے محدث نے اپنی ان کتابوں میں روایت نہیں کی جنہیں حجت سمجھا جاتاہے۔ ایسی روایات ان لوگوں نے نقل کی ہیں جو اپنی کتابوں میں موٹی اور پتلی[صحیح اورضعیف ] ہر قسم کی روایات جمع کرتے ہیں ۔جن کے بارے میں اہل علم جانتے ہیں کہ ان میں بہت زیادہ باتیں جھوٹ ہیں ۔جیسے کتب تفاسیر میں سے : تفسیر ثعلبی؛ تفسیر واحدی اوران جیسی دیگر تفاسیر۔ اور فضائل کی کتابوں میں سے جو ہر قسم کی روایات جمع کرتا ہے ان میں خصوصی طور پر خطیب خوارزمی قابل ذکر ہے ۔ جھوٹی روایات ذکر کرنے میں خطیب صاحب لوگوں میں سب سے زیادہ مشہور ہے۔ خطیب صاحب اورمغازلی کو علوم حدیث میں مہارت نہیں ہے [اسی وجہ سے وہ ہر قسم کی روایات جمع کرتے رہتے ہیں ]۔

محدث ابن الجوزی رحمہ اللہ نے کتاب الموضوعات میں یہ روایت ابو حاتم بستی سے نقل کی ہے ؛ وہ کہتا ہے: ہم سے محمد بن سہل بن ایوب نے حدیث بیان کی اورکہا : ہم سے عمار بن رجاء نے بیان کیا اور کہا: ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حدیث بیان کی اور کہا: ہم سے مطر بن میمون نے روایت بیان کی وہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’ بیشک علی بن ابی طالب میرا بھائی، میرا وزیر، میرے کنبہ میں جانشین ؛میرے بعد بہترین انسان جسے میں چھوڑے جا رہا ہوں ؛میرے بعد میرے قرض کو اداکرنے والا اورمیرے وعدوں کوپورا کرنے والا ہے۔‘‘

[ابن جوزی فرماتے ہیں :] یہ روایت موضوع ہے۔ محدث ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ مطر بن میمون نامی راوی ثقہ لوگوں کے نام لیکر موضوعات روایت کرتا ہے، اس سے روایت کرنا حلال نہیں ۔‘‘

ابن عدی کے واسطہ سے بھی یہ روایت اسی طرح بیان کی گئی ہے۔ اس روایت کا مدار مطر نامی راوی پر ہے، اس میں ’’ خلیفتی و وصیی‘‘ کے الفاظ نہیں ہیں ۔ بلکہ ’’خلیفتی فی أہلی ‘‘ کے الفاظ ہیں ۔

اسی طرح کے الفاظ میں یہ روایت احمد بن عدی سے بھی روایت کی گئی ہے۔ اس کی سند کا مدار عبیداللہ بن موسیٰ کی مطربن میمون سے روایت پر ہے۔ خود عبید اللہ بن موسیٰ صدوق[سچا]ہے ؛ اس سے امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی روایت کیا ہے؛ مگر یہ شیعیت میں معروف ہے۔اور اپنی شیعیت کی وجہ سے غیر ثقہ لوگوں سے بھی ایسی روایات نقل کرتا تھا جو اس کی خواہشات نفس کے مطابق ہوں ۔‘‘ جیسا کہ اس نے مطر بن میمون سے یہ روایت نقل کی ہے۔ حالانکہ یہ محض جھوٹ ہے۔ ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اسے اس روایت کے جھوٹ ہونے کا علم بھی ہو؛ اور ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ اپنے نفس کی خواہش پر لبیک کہتے ہوئے ؛ اس کے جھوٹ یا سچ پر تحقیق ہی نہ کی ہو۔ اگروہ اس کی تحقیق کرتا تو اس پر اس روایت کا جھوٹ ہونا واضح ہوجاتا۔اس کے باوجود جن لوگوں نے اسے روایت کیا ہے ان کے الفاظ میں :’’خلیفۃ من بعدی‘‘ میرے بعد خلیفہ ہوگا ؛ کے الفاظ نہیں ہیں ۔ بلکہ وہاں پر یہ الفاظ ہیں : ’’ وخلیفتي في أھلي۔‘‘ ’’میرے اہل خانہ میں میرا جانشین ہوگا۔‘‘یہ ایک خاص استخلاف ہے۔ 

جب کہ دوسرے الفاظ جوکہ ابن عدی نے روایت کیے ہیں ‘ وہ یوں ہیں :آپ فرماتے ہیں :

’’حدثنا ابن ابی سفیان ‘ حدثنا عدی ابن سہل ؛ حدثنا عبیداللہ بن موسیٰ ؛حدثنا مطر عن أنس قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : علي أخی وصاحبي و ابن عمي ؛ خیر من أترک من بعدي ؛ یقضي دیني و ینجز موعدي ۔‘‘

’’ بیشک علی میرا بھائی اور میرا دوست اورمیرے چچا کا بیٹا ہے۔میرے بعد ان لوگوں میں سے بہترین انسان جنہیں میں چھوڑے جارہا ہوں ۔یہ میراقرض ادا کرے گا اور میرے وعدے پورے کرے گا۔‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ مطر نامی راوی انتہائی جھوٹا ہے۔ اس کے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کے باوجود اہل کوفہ میں سے کسی ایک نے بھی اس سے حدیث روایت نہیں کی ۔نہ ہی اس سے یحی بن سعید القطان نے روایت کیا ہے ؛ نہ ہی وکیع نے ‘ نہ ہی ابومعاویہ نے ؛ نہ ہی ابو نعیم نے؛نہ ہی یحی بن آدم اور ان کے امثال دوسرے محدثین نے۔حالانکہ اس وقت کوفہ میں کثرت کے ساتھ شیعہ موجود تھے۔ اور وہاں کے بہت سارے عوام ایسے بھی تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے تھے۔ اور ان کی احادیث اصحاب کتب ستہ نے روایت کی ہیں ۔ یہاں تک کہ ترمذی اور ابن ماجہ ضعفاء تک سے روایت کرتے ہیں ؛ مگر انہوں نے اس انسان سے روایت نقل نہیں کی۔ بیشک یہ روایت عبیداللہ بن موسیٰ نے اپنی خواہش نفس کی وجہ سے اس لیے نقل کی ہے کہ وہ شیعیت کی طرف میلان رکھتا تھا ۔اور اس طرح کے لوگوں سے ایسی روایات نقل کرلیا کرتا تھا بھلے وہ جھوٹے ہی کیوں نہ ہوں ۔

یہی وجہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ جیسے محدث نے عبیداللہ بن موسیٰ سے روایت نقل نہیں کی؛ بخلاف عبدالرزاق کے ۔ امام احمد فرماتے ہیں : ’’ بیشک عبید اللہ اپنے پاس موجود چیز کااظہار کرلیا کرتا تھا بخلاف عبدالرزاق کے۔

ایسے ہی جو روایات اس مطر نامی راوی نے اپنی طرف سے گھڑلی ہیں ان میں سے وہ روایات بھی ہیں جو ابوبکر خطیب نے اپنی تاریخ میں روایت کی ہیں ؛ ان میں عبیداللہ بن موسیٰ کی روایت بھی ہے جسے وہ مطر سے اوروہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کرتا ہے آپ فرماتے ہیں : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس موجود تھا۔ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا؛ توفرمایا: ’’ میں اور یہ [یعنی علی] بروز قیامت اپنی امت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے حجت ہوں گے ۔‘‘

ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ یہ حدیث موضوع ہے۔‘‘ اس افتراء کاسہرا مطر کے سر ہے ؛ اس کے بارے میں ابو حاتم فرماتے ہیں : ’’ ثقہ راویوں کی طرف من گھڑت روایات منسوب کرتا ہے ۔‘‘ اس سے روایت نقل کرنا حلال نہیں ۔

٭ تیسری وجہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرض حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نہیں ادا کیا۔ بلکہ صحیح روایت میں ہے :’’ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو آپ کی درع تیس وسق جو کے بدلے ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی۔ یہ غلہ آپ نے اپنے اہل خانہ کے لیے خریدا تھا۔ ‘‘[البخاری کتاب الجہاد و السیر ؛ باب ما قیل في درع النبی رضی اللّٰہ عنہم ؛ سنن الترمذي ۷؍۳۳۴؛ کتاب البیوع باب ما جاء في رخصۃ في الشرآء إلی أجل ۔ و سنن النسائي ۷؍ ۲۶۷ ؛ کتاب البیوع باب مبایعۃ أہل الکتاب۔ سنن ابن ماجۃ ۲؍۸۱۵ ؛ کتاب الرہون ؛ باب حدثنا ابو بکر ابن ابی شیبۃ۔]

یہ قرض اس گروی سے پورا کیا گیا جو آپ نے اس کے پاس رہن میں رکھی ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی قرض نہیں تھا۔ صحیح احادیث میں ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’میرے ورثہ ایک دینار یا درھم بھی تقسیم نہیں کریں گے۔ جو کچھ میں اپنے بعد چھوڑ دوں ‘وہ میری ازواج کا خرچہ ہے اور جو کچھ میرے عمال کما لائیں گے وہ صدقہ ہوگا۔‘‘

اگر آپ پر کوئی قرض ہوتا تو اسے آپ کے چھوڑے ہوئے ترکہ سے پورا کردیا جاتا۔ اس لیے کہ قرض کی ادائیگی صدقہ پر مقدم ہے۔ جیسا کہ صحیح حدیث سے یہ بات ثابت ہے۔