ام المؤمنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا
جعفر صادق
اُمّ المؤمنین حضرت اُمِ سلمہ رضی اللہ عنہا:
نام: ہند
کنیت: اُمِ سلمہ
والد: ابوامیہ سہیل بن مغیرہ
والدہ: عاتکہ بنتِ عامر
سِن پیدائش: بعثت نبوی سے 9سال قبل
قبیلہ: بنو مخزوم
زوجیتِ رسولﷺ: 4 ہجری
سنِ وفات: 59 ہجری
مقامِ تدفین: جنت5 البقیع مدینہ منورہ
کل عمر: 81 سال تقریباً
نام و نسب:
نام ہند تھا والد کی طرف سے آپؓ کا سلسلہ نسب یہ ہے ہند بنتِ ابی امیہ سہیل بن مغیرہ بن عبداللہ بن عمر بن مخزوم۔ جب کہ والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب اس طرح ہے: ہند بنتِ عاتکہ بنتِ عامر بن ربیعہ بن مالک بن جذیمہ بن علقمہ بن جذل بن فراس بن غنم بن مالک بن کنانہ۔
کنیت: آپؓ کی کنیت اُم سلمہ تھی۔
ولادت: آپؓ کی ولادت آپﷺ کے اعلانِ نبوت سے تقریباً 9 سال قبل ہوئی۔
خاندانی پسِ منظر:
آپؓ کے والد ابوامیہ کا تعلق قریش کے خاندان مخزوم سے تھا۔ ابو امیہ نہایت سخی انسان تھے، عموماً جب کسی سفر میں جاتے تو سفر میں شریک تمام دوستوں کے سفر کے اخراجات خود برداشت کرتے۔ اس وجہ سے ان کا لقب "زاد الراکب" پڑ گیا تھا یعنی مسافروں کے سفری اخراجات و ضروریات کو پورا کرنے والا۔ سخی اور عزت دار گھرانے میں پرورش پانے کی وجہ سے سیدہ اُمِ سلمہؓ کے مزاج میں بھی عزت و حیا اور سخاوت غالب تھی۔
پہلا نکاح:
آپؓ کا پہلا نکاح اپنے چچا زاد سیدنا عبداللہ بن عبدالاسدؓ سے ہوا۔ سیدنا عبداللہ بن عبدالاسدؓ آپﷺ کے پھوپھی زاد اور رضاعی بھائی تھے۔
اولاد:
آپؓ کے سیدنا عبداللہ بن عبدالاسدؓ سے چار بچے تھے۔ جن کے نام یہ ہیں:
- سلمہ
- عمر
- درہ
- برہ
سلمہ: حبشہ میں پیدا ہوئے۔ ان کا نکاح آپﷺ نے سیدنا حمزہؓ کی بیٹی سیدہ اُمامَہ سے کیا تھا۔ لیکن دونوں بچپن ہی میں فوت ہو گئے تھے۔
عمر: سیدنا علیؓ کے دورِ خلافت میں بحرین اور فارس کے حاکم رہے۔
دُرّہ: دُرَّہ کے بارے میں اُمُ المؤمنین سیدہ اُمِ حبیبہؓ نے آپﷺ سے عرض کی کہ ہم سے کسی نے یہ بات کہی ہے کہ آپ درہ سے نکاح کرنا چاہتے ہیں کیا یہ بات درست ہے یا غلط؟ آپﷺ نے فرمایا کہ بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے اگر میں نے اس کی پرورش نہ بھی کی ہوتی تب بھی وہ میرے لیے کسی طرح جائز نہیں۔ کیونکہ وہ میرے رضاعی بھائی کی بیٹی ہے۔
برہ/ زینب: ان کی پیدائش سیدنا ابوسلمہؓ کی وفات کے بعد ہوئی، آپﷺ نے ان کا نام تبدیل کر کے زینب رکھا تھا، اپنے زمانے کی فقیہہ تھیں۔
قبولِ اسلام:
سیدہ اُمِ سلمہؓ اور آپ کے شوہر سیدنا عبداللہ بن عبدالاسد ابوسلمہؓ کا شمار اُن اُولوالعزم لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اعلانِ نبوت کے کچھ ہی عرصہ بعد اسلام قبول کر لیا تھا۔ آپﷺ کی دعوتِ اسلام پر ابھی صرف دس لوگ مسلمان ہوئے تھے۔ آپﷺ مسلسل محنت فرما رہے تھے۔ چنانچہ ایک دن آپﷺ دارِ بنی اَرقم میں چند صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہمراہ تشریف فرما تھے اسی دوران سیدنا ابوسلمہؓ اپنی بیوی سیدہ اُمِ سلمہؓ کے ساتھ حاضر خدمت ہوئے۔ آپﷺ نے ان کے آنے پر خوشی کا اظہار فرمایا اور اسلام قبول کرنے کی دعوت دی، اور دونوں کو قرآنِ کریم کی چند آیات پڑھ کر سنائیں۔ قرآنِ مجید سننے کے بعد سیدنا ابوسلمہؓ نے کہا: بھائی ہونے کے ناتے میرا بھی یہ حق بنتا ہے کہ میں بھی اس روشنی سے اپنی روح کو منور کروں جس سے دوسرے فیض حاصل کر رہے ہیں۔ آپﷺ نے سیدنا ابوسلمہؓ کے یہ الفاظ سنے تو بہت خوش ہوئے، سیدنا ابوسلمہؓ نے دوبارہ عرض کی: ہم دونوں میاں بیوی کو مسلمان کر کے اپنی غلامی میں داخل کر لیجئے چنانچہ کلمہ شہادت پڑھ کر مشرف باسلام ہوئے۔
حبشہ کی طرف پہلی ہجرت:
اعلانِ نبوت کے پانچویں سال رجبُ المرجب کے مہینے میں حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا۔ چنانچہ11 مردوں اور 4 خواتین پر مشتمل چھوٹا سا قافلہ مکہ مکرمہ کو الوداع کہتے ہوئے حبشہ کی طرف روانہ ہوا۔اس قافلے میں سیدہ اُمِ سلمہؓ اور آپؓ کے شوہر سیدنا ابوسلمہؓ بھی شامل تھے۔ اسی دوران سیدنا ابوسلمہؓ کے گھر ایک بچہ سلمہ پیدا ہوا۔ والدین کو اپنے بچے سے بے حد محبت تھی۔ چنانچہ اسی کی وجہ سے دونوں میاں بیوی نے اپنی کنیت اُمِ سلمہ اور ابوسلمہ رکھی۔
حبشہ سے مکہ مکرمہ کی طرف واپسی:
جو مہاجرین حبشہ کی طرف ہجرت کر چکے تھے، اگرچہ وہ حبشہ میں احکامِ اسلام پر عمل کرنے میں مکمل آزاد تھے لیکن اس کے باوجود نبی کریمﷺ کی قربت اور اپنے وطن کی یاد انہیں ستاتی تھی۔ ایک روز انہیں کہیں سے یہ خبر ملی کہ کفار و مشرکین نے نبیِ کریمﷺ سے صلح کر لی ہے اور وہ سب مسلمان ہو گئے ہیں۔ اس خبر کو سننے کے بعد سب لوگ واپسی کی تیاری کرنے لگے کہ بنو کنانہ کا ایک شخص وہاں پہنچا اور اس نے بتایا کہ تم لوگوں تک جو خبر پہنچی ہے وہ جھوٹ ہے مکہ کے کفار و مشرکین اب بھی اسلام دشمنی پر ویسے ہی قائم ہیں۔ خبر سنانے والا بنو کنانہ کا وہ شخص تو چلا گیا لیکن مہاجرین سوچ میں پڑ گئے کہ آخر معاملہ کیا ہے؟ چنانچہ انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ ہمیں نبی کریمﷺ کے پاس حاضر ہونا چاہیئے۔ مہاجرین نے مکہ مکرمہ کی طرف واپسی کی راہ لی اور ہر شخص کسی نہ کسی قریشی سردار کی پناہ لے کر اپنے آبائی وطن میں داخل ہوا۔ سیدنا ابو سلمہؓ کو ان کے ماموں خواجہ ابوطالب نے پناہ دی۔ آپ مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔
قبیلہ بنو مخزوم کا ابوطالب سے مکالمہ:
سیدنا ابوسلمہؓ اپنی بیوی کے ہمراہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ قبیلہ بنو مخزوم کو جب یہ معلوم ہوا کہ ابوطالب نے سیدہ اُمِ سلمہؓ اور ان کے شوہر سیدنا ابوسلمہؓ کو اپنی پناہ میں لے لیا ہے تو انہیں بہت غصہ آیا۔ چنانچہ بنو مخزوم کے کچھ لوگ جمع ہو کر ابوطالب کے پاس آئے اور کہنے لگے: ابوطالب! ہمارے آدمیوں سے آپ کا کیا واسطہ؟ کون سے آدمی؟ ابوطالب نے حیرت سے پوچھا۔ بنو مخزوم کے لوگ کہنے لگے کہ ابوسلمہؓ اور اس کی بیوی اُمِ سلمہؓ۔ ابوطالب نے کہا: ابوسلمہؓ میرا بھانجا ہے، جب میں اپنے بھتیجے محمدﷺ کو پناہ دے سکتا ہوں تو اسے کیوں نہیں دے سکتا؟ گفتگو بڑھتی گئی اور بنو مخزوم اپنا دباؤ بڑھا رہے تھے، ابولہب درمیان میں بول پڑا: اے بنی مخزوم! تم نے ابوطالب کے ساتھ بہت کچھ بحث و تکرار کر لی اور میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اس پر برابر دباؤ ڈال رہے ہو۔ اگر تم نے ان کو تنگ کرنا بند نہ کیا تو مَیں بھی ان کی حمایت میں کھڑا ہو جاؤں گا۔ بنو مخزوم کے لوگوں نے جب ابولہب کی باتیں سنیں تو گھبرا گئے اور یہ کہتے ہوئے چلے گئے: اے ابو عتبہ! ہم تم کو ناراض نہیں کرنا چاہتے۔
حبشہ کی طرف دوسری ہجرت:
کفار و مشرکین مکہ اپنی زیادتیوں سے باز نہ آئے اور اہلِ اسلام کو مسلسل ظلم و ستم کا نشانہ بناتے رہے۔ چنانچہ بعثت کے چھٹے سال کی شروعات میں دوبارہ حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا۔ پہلے کی بنسبت اس بار حبشہ کی طرف جانا خاصا مشکل کام تھا۔ کیونکہ کفار و مشرکین مکہ نے مکہ سے باہر جانے والے تمام راستوں پر سخت پہرے بٹھا دیئے تاکہ کوئی مکہ سے باہر نہ نکلنے پائے۔ ان تمام تر سختیوں کے باوجود 83 مرد 20 خواتین کے ہمراہ مکہ سے حبشہ ہجرت کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دوسری ہجرت میں بھی سیدنا ابوسلمہؓ اور ان کی بیوی سیدہ اُمِ سلمہؓ شامل تھیں۔
کفار مکہ کے شاہِ نجاشی کو تحائف:
کفار مکہ نے بادشاہ حبشہ نجاشی کی طرف عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ کو تحائف دے کر روانہ کیا تاکہ وہ مہاجرین کی واپسی پر نجاشی کو کسی طور آمادہ کریں۔
شاہِ نجاشی کا انکار:
کفارِ قریش کا یہ وفد شاہِ حبشہ کے دربار میں پہنچا اور مسلمانوں کے خلاف ایسی باتیں کیں جو مسلمانوں میں پائی نہیں جاتی تھیں یہ باتیں سن کر بادشاہ نے سخت غصے میں کہا: جن لوگوں نے اپنا ملک چھوڑ کر میرے ملک اور مجھ پر بھروسہ کیا ہے۔ میں ان کے ساتھ بے وفائی نہیں کرسکتا۔ تم لوگ کل آنا اس معاملے میں فیصلہ کر دیا جائے گا۔
شاہِ نجاشی سے کفار کے وفد کی گفتگو:
دوسرے دن بادشاہ نجاشی نے تمام مسلمانوں کو دربار میں بلایا۔ وہاں کفارِ قریش کے سفیر عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ بھی موجود تھے۔ سیدہ اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ بادشاہ نے مسلمانوں سے کہا: یہ تم نے کیا کر دیا کہ اپنی قوم کا دین چھوڑ دیا اور میرے دین کو بھی قبول نہ کیا اور نہ ہی دنیا کے کسی دین کو اختیار کیا۔ آخر تمہارا دین کیا ہے؟
بادشاہِ حبشہ نجاشی کی یہ بات سن کر سیدنا جعفر طیارؓ نے فوراً جواب دیا :اے بادشاہ! ہم ہر طرح کی برائیوں میں جکڑے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہم میں ایک رسول بھیجا جس کے نسب، سچائی، امانت داری اور پاک دامنی کے ہم گواہ تھے، اس نے ہمیں ایک معبود اللہ کی طرف بلایا اور ہم نے اس کی بات مان لی کہ جس کی پوری زندگی پاک دامنی کا نمونہ ہو اور جس نے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اس نے ہمیں برائیوں، غلط کاموں اور بت پرستی سے روکا۔ نیکیوں کی نصیحت کی اور سیدھا راستا دکھایا تو ہم اس پر ایمان لے آئے۔ اِس پر شاہ نجاشی نے کہا: تمہارے نبی پر جو کلام اترا ہے اس میں سے ہمیں بھی کچھ سناؤ۔ سیدہ اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں: سیدنا جعفر طیارؓ نے سورۃ مریم کی آیتیں پڑھ کر سنائیں جس سے بادشاہ بے حد متاثر ہوا۔
دوسرے دن دربار نجاشی میں:
جب کفار کے وفد کو نامرادی کا منہ دیکھنا پڑا تو انہوں نے پینترا بدلتے ہوئے ایک اور سازش سوچی۔ وہ یہ کہ بادشاہ عیسائی ہے اور پورا ملک حبشہ عیسائیت کا پیروکار ہے تو کیونکہ بات کو مذہبی رنگ میں پیش کیا جائے۔ عیسائی چونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ کا بندہ قرار دیتے ہیں جبکہ عیسائی انہیں اللہ کا بیٹا کہتے ہیں۔ اس بارے بادشاہ کے دربار میں بات کی جائے تاکہ نجاشی کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے مسلمانوں کا عقیدہ پتا چلے گا تو وہ انہیں اس جرم کی پاداش میں قتل/سخت سزا یا پھر ملک بدر کر دے گا یہ سوچ کر عمرو بن العاص نے عبداللہ بن ربیعہ سے مشورہ کیا۔ عبداللہ بن ربیعہ نے اس بارے بطورِ مشورہ کے کہا کہ ایسا نہ کرو۔ لیکن عمرو بن عاص نے جو ترکیب سوچی ہوئی تھی اس پر ڈٹ گیا اور دوسرے دن پھر دربار نجاشی میں جا پہنچا اب کی بار اس نے مقدمے میں ابنیتِ مسیح اور عبدیتِ مسیح کا کیس داخل کیا۔ اس نے شاہ نجاشی کو کہا: اے بادشاہ! ان مہاجرین سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پوچھیں۔ یہ اُن کو اللہ کا بندہ قرار دیتے ہیں۔
شاہِ نجاشی نے سیدنا جعفر طیارؓ سے اس بارے دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں اور اس کی طرف سے ایک کلمہ اور روح ہیں جسے اللہ نے کنواری مریم پر القا فرمایا تھا۔
یہ جواب سن کر نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا :اللہ کی قسم! جو تم نے کہا ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے ایک تنکے کے برابر بھی زیادہ نہیں۔
کفار مکہ کا ناکام وفد واپس لوٹا:
فریقین کی ساری گفتگو سننے کے بعد شاہِ نجاشی نے حکم دیا: مکہ کے سفیروں کے تحفے واپس کر دئیے جائیں، مجھے ان کی چنداں ضرورت نہیں۔ چنانچہ کفارِ مکہ کا وفد ناکام و نامراد واپس مکہ آ گیا۔
ہجرتِ مدینہ کا حکم:
اسلام تیزی کے ساتھ اپنی منزل کی طرف سفر کر رہا تھا، لوگ شامل ہوتے جا رہے تھے اور کاررواں بڑھتا جا رہا تھا۔ کفارِ مکہ اپنے مظالم کے ذریعے اسے دبانا چاہتے تھے لیکن اسلام مسلسل پھیل رہا تھا۔
ایک مرتبہ طفیل بن عمرو دوسی نے آپﷺ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ مکہ مکرمہ سے کچھ فاصلے پر ہمارا قبیلہ آباد ہے اور وہاں ایک مضبوط قلعہ ہے آپ ہمارے ہاں تشریف لائیں، آپﷺ نے انکار فرما دیا اور اس سلسلہ میں اللہ رب العزت کے حکم کا انتظار فرمانے لگے۔
اعلانِ نبوت کو تیرہ برس کا عرصہ بیت چکا تھا، اللہ کی طرف سے مدینہ طیبہ کی طرف ہجرت کا حکم ملا آپﷺ نے اس وقت کے اہلِ ایمان کو مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ مسلمانوں نے مدینے کی طرف ہجرت شروع کی۔ سب سے پہلے سیدہ اُمِ سلمہؓ کے شوہر سیدنا ابوسلمہؓ بن عبد الاسد اور سیدنا عامر بن ربیعہؓ ہجرت مدینہ کے سفر پر روانہ ہوئے۔
مدینہ روانگی سے پہلے:
سیدہ اُمِ سلمہؓ خود فرماتی ہیں: جب سیدنا ابوسلمہؓ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کرنے کا ارادہ فرمایا تو اونٹ پر کجاوہ کس کر مجھے اور سلمہ کو اونٹ پر بٹھا دیا اور اس کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چلتے رہے جب میرے میکے والوں کو ہمارے روانہ ہونے کی خبر ہوئی تو انہوں نے سیدنا ابوسلمہؓ سے کہا: تم اپنے بارے میں خود مختار ہو سکتے ہو مگر ہم اپنی بیٹی کو تمہارے ساتھ ہرگز نہیں جانے دیں گے۔
سیدہ اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں: یہ سُن کر سیدنا ابوسلمہؓ نے کہا: سیدہ اُمِ سلمہؓ میری بیوی ہے، میں اسے لے کر جہاں جانا چاہوں جا سکتا ہوں۔
اس پر قبیلے والوں نے کہا: یہ ہمارا فیصلہ ہے کہ سیدہ اُمِ سلمہؓ تمہارے ساتھ ہرگز ہرگز کسی صورت نہیں جاسکتی۔ یہ کہہ کر سیدنا ابوسلمہؓ کے ہاتھوں سے اونٹ کی نکیل چھین لی اور سیدہ اُمِ سلمہؓ کو زبردستی اپنے ساتھ لے گئے۔
سیدنا ابوسلمہؓ نے جاتے جاتے اپنی بیوی سیدہ اُمِ سلمہؓ سے فرمایا کہ: سیدہ اُمِ سلمہؓ اسلام پر سختی سے ڈٹے رہنا۔ اس کے علاوہ بھی چند نصیحتیں کیں۔
اپنے شوہر کی باتیں سن کر سیدہ اُمِ سلمہؓ نے کہا کہ: آپ مطمئن رہیئے جان قربان کر دوں گی مگر اسلام کو مَیں کسی حال میں نہیں چھوڑوں گی۔
سیدنا ابوسلمہؓ مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہو گئے۔ اسی دوران سیدنا ابوسلمہؓ کے خاندان والے بھی اس جگہ پہنچ گئے۔ جب انہیں پورا ماجرا معلوم ہوا تو وہ سیدہ اُمِ سلمہؓ کے خاندان والوں سے کہنے لگے: جب تم نے اپنی بیٹی ہمارے آدمی سے چھین لی تو اب ہم اپنے بچّے سلمہ کو کیوں اُس کے پاس رہنے دیں۔ انہوں نے آگے بڑھ کر سیدہ اُمِ سلمہؓ سے بچے کو بھی چھین لیا۔ بچّے کو زبردستی چھیننے میں اس کا ہاتھ اتر گیا اور وہ بہت زیادہ چیخنے چلانے لگا۔
سیدہ اُمِ سلمہؓ کی استقامت:
مجبور شوہر کی تنہا ہجرت اور بچے کا چھن جانا ایک بیوی اور ماں ہونے کے ناتے آپ کے دل پر کیا گزری؟ اس دکھ کا ان ظالموں کو کوئی احساس نہ تھا۔ ان سب کے باوجود آپؓ نے صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔
ایک سال بعد:
سیدہ اُم سلمہؓ خود فرماتی ہیں: ایک سال کا عرصہ گذر چکا تھا نہ شوہر کے پاس جا سکی تھی اور نہ ہی بچّہ مل سکا تھا چنانچہ ایک دن یوں ہوا کہ میرے ایک چچا زاد بھائی نے میری حالت دیکھ کر خاندان والوں سے کہا کہ تم اس بے کس پر رحم کیوں نہیں کرتے؟ اسے کیوں نہیں چھوڑ دیتے اور اس کو بچّے اور شوہر سے دور کیوں رکھا ہوا ہے؟ سیدہ اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں: بنی مغیرہ نے اپنے اُس آدمی کی سفارش پر مجھے اپنے شوہر کے پاس جانے کی اجازت دے دی۔ جب اس بات کی خبر بچّہ کی ددھیال والوں کو ہوئی تو انہوں نے بچّہ بھی مجھے دے دیا۔
مدینہ منورہ کی طرف سفر:
جب آپؓ کو بچہ مل گیا اور مدینہ منورہ جانے کی پابندی بھی ہٹ گئی تو آپؓ نے تنِ تنہا مدینے کی طرف سفر کرنے کا ارادہ کیا اور ایک اونٹ تیار کر کے بچّے کو ساتھ لیا اور اکیلے سوار ہو کر مدینہ منورہ کے لیے نکل پڑیں۔ تقریباً تین چار میل ہی چلی ہوں گی کہ سیدنا عثمان بن طلحہٰؓ جو قبیلہ بنی عبدالدار کے معزز انسان تھے اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے آپؓ کو تنہا سفر کرتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ سیدہ اُمِ سلمہؓ خود فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: اپنے شوہر کے پاس مدینہ منورہ جا رہی ہوں۔ سیدنا عثمان بن طلحہٰؓ نےپوچھا: کوئی مرد ساتھ بھی ہے؟ سیدہ اُمِ سلمہؓ فرماتی ہیں کہ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ ہے اور یہ بچّہ ہے۔ یہ سُن کر سیدنا عثمان بن طلحہٰؓ نے میرے اونٹ کی نکیل پکڑ لی اور آگے آگے چلنے لگے۔ خدا کی قسم! مَیں نے عثمان بن طلحہٰؓ جیسا شریف آدمی نہیں دیکھا۔ جب منزل پر اترنا ہوتا تو وہ اونٹ بٹھا کر کسی درخت کی آڑ میں کھڑے ہو جاتے اور پھر اونٹ کو باندھ کر مجھ سے دور کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتے اور جب کوچ کرنے کا وقت ہوتا تو اونٹ پر کجاوہ کس کر میرے پاس لا کر بٹھا دیتے اور خود وہاں سے ہٹ جاتے جب میں سوار ہو جاتی تو اس کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چل دیتے۔ اسی طرح وہ مجھے مدینہ منورہ تک لے گئے جب ان کی نظر بنی عمرو بن عوف کی آبادی پر پڑی جو قباء میں تھی تو انہوں نے کہا کہ آپ کا شوہر یہیں پر ہے، آپ چلی جائیں۔ چنانچہ مجھے سلام کر کے رخصت ہو گئے۔
مدینہ کی بہاریں:
آپؓ اپنے شوہر سیدنا ابو سلمہؓ کے ساتھ مدینہ منورہ میں خوش و خرم زندگی بسر کرتی رہیں۔ اللہ کریم نے آپؓ کو اولاد عطا فرمائی۔ ایک بچہ جس کا نام عمر اور دو بچیاں جن کے نام دُرَّہ اور بَرَّہ تھے۔ برہ کا نام آپﷺ نے تبدیل فرما کر زینب رکھا۔
سیدنا ابو سلمہؓ کا مشورہ:
سیدہ اُمِ سلمہؓ اور آپ کے شوہر سیدنا ابوسلمہؓ دونوں مثالی میاں بیوی تھے۔ ایک دن سیدہ اُمِ سلمہؓ نے اپنے شوہر سے عرض کی کہ میں نے سنا ہے کہ اگر مرد اور عورت دونوں جنتی ہوں اور عورت مرد کے بعد کسی سے نکاح نہ کرے تو وہ عورت جنت میں اسی مرد کو ملے گی۔ اسی طرح مرد اگر دوسری عورت سے نکاح نہ کرے تو وہی عورت اسے ملے گی اس لیے آؤ ہم عہد کریں کہ ہم میں سے جو پہلے اس دنیا سے چلا جائے بعد والا دوسرا نکاح نہ کرے یہ سُن کر سیدنا ابوسلمہؓ نے فرمایا: کیا تم میرا کہا مان لو گی؟ آپؓ نے فرمایا: ماننے کے لیے ہی مشورہ کر رہی ہوں۔ سیدنا ابوسلمہؓ فرمانے لگے: تم میرے بعد نکاح کر لینا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کسی مسئلے میں مختلف آراء پیش فرماتے تو اس کے بارے حتمی فیصلہ کرانے کے لیے آپؓ کے پاس تشریف لے جاتے اور مسئلہ کا حل دریافت فرماتے۔
عدت کا مسئلہ:
سیدنا عبداللہ بن عباسؓ اور سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمٰنؓ کے درمیان اس عورت کی عدت کے بارے میں بحث ہوئی جس نے خاوند کی وفات کے چند روز بعد بچے کو جنم دیا۔ سیدنا ابنِ عباسؓ فرماتے تھے کہ زیادہ مدت کو عدت سمجھا جائے گا، جبکہ سیدنا ابوسلمہ بن عبدالرحمٰنؓ فرماتے تھے کہ بچے کی پیدائش کے بعد عدت پوری ہو گئی، سیدنا ابوہریرہؓ نے ان کی تائید کی۔ تینوں نےسیدہ اُمِ سلمہؓ سے فیصلہ کرنے کو کہا۔
آپؓ نے فرمایا کہ سبیعہ اسلمیہ کا یہی معاملہ تھا۔ تو اس وقت رسول اللهﷺ نے بچہ پیدا ہونے کے فوراً بعد ان کو نکاح کی اجازت دے دی تھی۔
صلح حدیبیہ میں دانش مندانہ کردار:
سیدہ اُمِسلمہؓ کو اللہ کریم نے بہت سی صلاحیتوں سے خوب خوب نوازا تھا، دانش مندی اور معاملہ فہمی میں بہت آگے تھیں۔
6ھ میں آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ساتھ عمرہ کے لیے مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کے لیے روانہ ہوئے۔ مشرکینِ مکہ کو اس کا علم ہوا تو انہوں نے سخت مزاحمت کی، آپﷺ کو حدیبیہ کے مقام پر رکنا پڑا۔ حالات اتنے کشیدہ تھے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی جنگ کا ارادہ کر لیا۔ لیکن آپﷺ حتی الامکان جنگ سے بچ کر صلح کی کوشش فرما رہے تھے۔ نبیِ کریمﷺ نے مصلحت و حکمت کے پیش نظر بڑی رعایت کے ساتھ کفارِ مکہ سے صلح فرمائی تھی۔ اس صلح میں آپﷺ نے ان کی شرائط قبول فرمالیں جو بظاہر مشرکین کے حق میں فائدہ مند جب کہ مسلمانوں کے حق میں نقصان دہ لگ رہی تھیں۔ شرائطِ صلح میں سے ایک یہ بھی شرط تھی کہ اس سال مسلمان عمرہ نہیں کریں گے آئندہ سال عمرہ کے لیے آسکتے ہیں۔ صلح نامہ سے فارغ ہو کر نبیِ کریمﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا: اپنے احرام کھول دو، قربانی کے جانور ذبح کر لو اور اپنے سر منڈوا لو۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خواہش یہ تھی کہ ہم عمرہ کر کے واپس جائیں۔ اس لیے ذرا تامل کا شکار ہوئے اور اس آس میں تھے کہ شاید نبی کریمﷺ کی طرف سے عمرہ کی ادائیگی کا حکم مل جائے۔ آپﷺ نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو تین مرتبہ یہی ارشاد فرمایا۔ اس کے بعد خیمے میں تشریف لائے اور سیدہ اُمِ سلمہؓ کو اس معاملے سے آگاہ فرمایا۔
آپؓ نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! کیا آپ یہ چاہتے ہیں کہ سب احرام کھول دیں؟ تو پھر ایسا کریں کہ آپ باہر نکل کر کسی سے کوئی بات نہ کریں اور اپنے جانور ذبح فرما دیں اور بال مونڈنے والے کو بلا کر اپنے بال مونڈا لیں۔ چنانچہ نبیِ کریمﷺ نے ایسا ہی کیا اور باہر نکل کر اپنا جانور ذبح کر دیا اور بال منڈالیے۔ اس کو دیکھتے ہوئے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی وہ آس بھی ختم ہو گئی کہ شاید عمرہ کی ادائیگی کا حکم مل ہی جائے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی احرام کھول دیے اور اپنے جانور ذبح کر ڈالے اور آپس میں ایک دوسرے کا سر مونڈنے لگے۔
موئے مبارک سے محبت:
آپؓ کو نبی کریمﷺ سے بے حد محبت تھی۔ آپؓ کے پاس نبی کریمﷺ کے چند بال موئے مبارک تھے جو آپ نے سنبھال رکھے تھے۔ عثمان بن عبد اللہ بن موہبؒ کہتے ہیں کہ میں سیدہ اُمِ سلمہؓ کے پاس گیا تو انہوں نے مجھے وہ بال دکھائے۔ مہندی اور کتم (سیاہ رنگ دینے والا پودا) لگنے کی وجہ سے ان کا رنگ سرخ ہو گیا تھا۔
خوشبوِ نبوت:
سیدہ اُمِ سلمہؓ خود فرماتی ہیں: نبی کریمﷺ کی وفات کے دن میں نے اپنا ہاتھ آپﷺ کے سینہ مبارک پر رکھا۔ کئی جمعے گزر گئے، میں کھاتی پیتی اور وضو کے لیے ہاتھ دھوتی ہوں، لیکن مشک کی خوشبو میرے ہاتھ سے نہیں گئی۔
وفات:
آپؓ نے اُمہاتِ المؤمنینؓ میں سے سب سے آخر میں وفات پائی۔ سیدنا ابوہریرہؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی۔ آپؓ کے پہلے شوہر سے دونوں بیٹے عمر اور سلمہ، عبداللہ بن عبداللہ بن ابی امیہ اور عبداللہ بن وہب بن زمعہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپؓ کو قبر جنت البقیع کے قبرستان میں اتارا۔
سنِ وفات: بعض نے 53ھ بعض نے59ھ بعض نے 62ھ لکھا ہے جبکہ بعض مؤرخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ آپؓ کی وفات 63ھ میں ہوئی۔