Difa e Islam | الدفاع عن الإسلام | دفاع الإسلام

فصل:....[ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل: حدیث الرایہ]

  امام ابنِ تیمیہؒ

  فصل:....[ امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ساتویں دلیل: حدیث الرایہ]

[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’ اس ضمن میں ساتویں حدیث جسے جمہور نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔جب آپ نے انتیس (۲۹) راتوں تک خیبر کا محاصرہ کیا ؛ اس وقت تک علمبردار حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر آپ کو آنکھوں کی بیماری لاحق ہوگئی جس کی وجہ سے آپ جنگ سے عاجز آگئے۔تب مرحب جنگ کے لیے چیلنج کرتا ہوا نکلا۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلایا؛ اور فرمایا : یہ جھنڈا لے لو[اور حملہ کرو]۔ابوبکر نے جھنڈا لیااور مہاجرین کے ایک گروہ کے ساتھ مقابلہ کے لیے نکلے۔ مگر کوئی فائدہ حاصل نہ ہوا۔شکست خوردہ واپس لوٹے۔اس کے اگلے دن حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقابلہ کے لیے نکلے۔آپ تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ واپس لوٹے اور اپنے ساتھیوں کو بھی خبردی [یعنی انہیں بھی بزدل بناکرواپس لے آئے]۔اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: 

’’میرے پاس حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لایا جائے۔آپ کو بتایا گیا: ’’آپ کی آنکھوں میں تکلیف ہے ۔‘‘ پھر آپ نے فرمایا : ’’اسے لاکر مجھے دکھاؤ ؛ مجھے ایسا شخص دکھاؤ جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنیوالا ہے اوراللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔ جو بھاگنے والا نہیں ۔‘‘

اس وقت لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو لیکر آئے۔ آپ نے اپنا لعاب دہن اپنی ہتھیلی پر لے کر آپ کی آنکھوں میں اور سر پر لگایا۔اس سے آپ تندرست ہوگئے۔ سو آپ نے انہیں علم عطا کیا ؛ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھوں پر فتح عطا کی ؛اور مرحب قتل ہوا۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کے لیے یہ اوصاف بیان کرنا دوسروں سے ان اوصاف کے منفی ہونے اور آپ کی افضلیت کی دلیل ہے؛پس آپ ہی امام ہوں گے۔‘‘[انتہی کلام الرافضی]

[جوابات]: پہلا جواب :اس روایت کی صحیح سند کا مطالبہ کرتے ہیں ۔رافضی کا یہ کہنا کہ : ’’ اس روایت کو جمہور نے روایت کیا ہے ۔‘‘تو ہم کہتے ہیں کہ : ثقہ علماء نے یہ روایت ان الفاظ میں نقل نہیں کی۔ بلکہ صحیح روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ خیبر میں موجود نہ تھے؛ بلکہ آپ غائب تھے۔آپ اس غزوہ سے اس لیے پیچھے رہ گئے تھے کہ آپ کی  آنکھوں میں تکلیف تھی۔پھر آپ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہنا گراں گزرا ؛ لہٰذا آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جاملے۔ آپ کے خیبر پہنچنے سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’کل میں یہ جھنڈا ایسے انسان کو دوں گا جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے والا ہے اوراللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔‘‘

اس سے قبل یہ جھنڈا نہ ہی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس تھا اورنہ ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس۔اورنہ ہی ان دونوں میں سے کوئی ایک جھنڈے کے قریب تک گیا۔یہی وجہ ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے : ’’میں نے اس دن کے علاوہ کبھی بھی امیر بننا پسند نہیں کیا۔ اور تمام لوگوں نے اس حالت میں رات گزاری کہ ان میں سے ہر ایک اس امید پر تھا کہ شاید یہ جھنڈا اسے ہی مل جائے۔ جب صبح ہوئی تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو طلب کیا ؛ توآپ کو بتایا گیا : کہ آپ کی آنکھوں میں تکلیف ہے تو آپ نے اپنا لعاب دہن ان کی آنکھوں میں ڈالا؛ جس سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شفا دے دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا عطافرمایا ۔‘‘

٭ اس موقعہ پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت علی رضی اللہ عنہ کوبطور خاص جھنڈا عطا کرنا آپ کی تکلیف کے باوجود تشریف آوری پر جزاء تھی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کے بارے میں علم تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس وقت وہاں پر حاضر نہیں تھے۔ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ بھی ہے۔ اس حدیث میں حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے شان میں کوئی تنقیص ہرگز نہیں ۔

٭ دوسرا جواب : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ خبر دینا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ اوراس کے رسول سے محبت کرتے ہیں ‘ اور اللہ اوراس کا رسول ان سے محبت کرتے ہیں ۔‘‘ اس میں نواصب پر رد ہے۔ لیکن اس میں رافضیوں کی کوئی دلیل نہیں ہے جو کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مرتد ہوگئے تھے۔ اورنہ ہی ان کے لیے اس دلیل سے استدلال کرنا ممکن ہے۔ اس لیے کہ خوارج انہیں یہ جواب دیتے ہیں کہ : حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تو ان لوگوں میں سے تھے جو مرتد ہوگئے تھے۔ جیسا کہ جب جرگہ داروں نے فیصلہ کیا توخوارج حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے : ’’ آپ اسلام سے ارتداد کا ارتکاب کرچکے ہیں ؛ لہٰذا دوبارہ اسلام قبول کیجیے ۔‘‘

٭ امام ابوالحسن اشعری رحمہ اللہ اپنی کتاب ’’المقالات‘‘ میں لکھتے ہیں :’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کے کفر پر سب خوارج کا اجماع منعقد ہو چکا ہے۔‘‘ [مقالات الاسلامیین ۱؍ ۱۵۶]

٭ اس حدیث سے اہل سنت والجماعت کے لیے کئی دلائل کے ساتھ خوراج کے خلاف استدلال کرناممکن ہے۔ لیکن یہ دلائل باقی تینوں خلفاء کے ایمان کے بارے میں بھی مشترک ہیں ۔جب کہ رافضی باقی خلفاء کے ایمان پر تنقید کرتے ہیں ۔ پس روافض کے لیے ممکن نہیں کہ وہ خوارج کے خلاف دلیل قائم کرسکیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حالت ایمان میں فوت ہوئے تھے۔بلکہ رافضی جو بھی ا یسی دلیل ذکر کریں گے جس میں قدح ہو؛ اس سے خود ان کے اصل کا بطلان ثابت ہو گا۔کیونکہ ان کی اصل ہی فاسد ہے۔

٭ اس وصف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کسی خصوصیت کو بیان نہیں کیا گیا۔اس لیے کہ دوسرے صحابہ بھی اللہ اور اس کے رسول کو چاہتے تھے ؛ اوراللہ اوراس کا رسول بھی انہیں چاہتے تھے۔ ہاں اتنی بات ضرور ہے کہ اس میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شخصیت کے لیے بطور تعین گواہی موجود ہے۔جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دس بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جنت کی خوشخبری سنائی۔اورحضرت قیس بن ثابت کے لیے جنتی ہونے کی گواہی دی؛اور عبد اللہ الحمار کے لیے گواہی دی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے؛ حالانکہ انہیں کئی بار شراب نوشی پر سزا مل چکی تھی۔

٭ رافضی مصنف کا یہ کہنا کہ : ’’اس سے باقی لوگوں سے اس وصف کا انتفاء ثابت ہوتا ہے ۔‘‘اس میں دو جواب ہیں ۔

٭ پہلاجواب: اگراس بات کو تسلیم بھی کرلیا جائے توپھر بھی دیکھیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاہے : ’’کل میں یہ جھنڈا ایسے انسان کو دوں گا جو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنیوالا ہے اوراللہ اور اس کا رسول اس سے محبت کرتے ہیں ۔اور اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔‘‘ سو یہ مجموعہ [صفات ] آپ کے ساتھ خاص ہیں اوریہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ پر فتح عطا کی ۔جب یہ متعین فتح آپ کے ہاتھوں پر تھی ؛ تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ دوسروں سے بھی افضل اور امامت کے لیے مختص ہوں ۔

٭ دوسراجواب: یہ کہاجائے کہ : اس بات کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے سے کسی کوئی خصوصیت ثابت نہیں ہوتی ہے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں یہ مال کسی فقیر آدمی یا نیک آدمی کو دوں گا۔یا آج کے دن میں کسی مریض کویا نیک انسان کو بلاؤں گا۔ یا میں اپنا جھنڈا کسی بہادر آدمی کو دوں گا۔ یہ اس طرح کے دیگر کلمات کہے ۔ توان الفاظ میں کوئی ایسی چیز نہیں پائی جاتی کہ جس سے ظاہر ہوتا ہو کہ کسی دوسرے میں یہ صفات نہیں پائی جاتی۔ بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان صفات کا حامل ایک یہ انسان بھی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کسی ایک نے اگر کہا ہوکہ وہ ایک ہزار درہم کسی نیک آدمی پریا فقیرپر صدقہ کر وں گا۔پھر اس نے اپنی یہ نذر پوری کردی ‘تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس آدمی کے علاوہ کو ئی دوسرا نیک یا فقیر نہیں ۔اور ایسے ہی اگر یوں کہاجائے کہ یہ مال اس آدمی کو دیدو ‘ جس نے میری طرف سے حج کیاہے تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ کسی دوسرے نے اس کی طرف سے حج نہ کیا ہو ۔

٭ تیسرا جواب : اگر یہ بات مان لی جائے کہ اس وقت میں آپ ہی افضل تھے ؛ تو اس میں کوئی دلیل نہیں پائی جاتی کہ بعد کے کسی دوسرے وقت میں کوئی دوسرا آپ سے افضل نہ ہو۔

٭ چوتھا جواب :اگر آپ کی افضلیت کو مان بھی لیا جائے تواس سے لازم نہیں آتا کہ آپ ہی امام منصوص علیہ ہیں ۔ بلکہ بہت سارے شیعہ زیدیہ ؛ اور متأخرین معتزلہ اور دوسرے لوگ آپ کی افضلیت کا اعتقاد رکھتے ہیں ‘ مگر وہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق مانتے ہیں ۔ ان کے نزدیک مفضول کی ولایت جائز ہے۔ یہ بات بہت سارے ان دوسرے لوگوں کے ہاں بھی جائز جو خلفاء اربعہ میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دینے میں توقف اختیار کرتے ہیں ؛اوروہ لوگ جن کا خیال ہے کہ یہ ایک ظنی مسئلہ ہے ؛ اس میں کسی ایک متعین کی فضیلت پرکوئی دلیل قطعی موجود نہیں ہے ۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جس انسان کو صحیح سنت کی معلومات نہ ہوں ‘وہ اس مسئلہ میں شک کا شکار ہوجائے گا۔

٭ جب کہ باقی تمام مشہور ائمہ کا اتفاق ہے کہ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما حضرت عثمان و حضرت علی رضی اللہ عنہما سے افضل ہیں ۔ یہ اجماع کئی لوگوں نے نقل کیا ہے۔امام بہیقی رحمہ اللہ نے کتاب ’’ مناقب الشافعی‘‘ میں اپنی سند کے ساتھ امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے ۔ آپ فرماتے ہیں : حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے باقی تمام صحابہ سے افضل ہونے میں صحابہ کرام اورتابعین رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کابھی اختلاف نہیں ہے۔‘‘[یہ جملہ عبارت کتاب ’’مناقِب ِ الشافِعِی‘‘ میں وارد ہوئی ہے؛جو کہ ابوبکر أحمدبن حسین البیہقی کی تالیف ہے۔ دیکھو:۱؍۴۳۴۔اس کے بعد لکھا ہے: ’’ إِنما اختلف منِ اختلف مِنہم فِی علِیِّ وعثمان: مِنہم من قدم علِیًّا علی عثمان، ومِنہم من قدم عثمان علی علِیٍّ۔ ونحن لا نخطیِئُ أحدا مِن أصحابِ رسولِ اللہِّٰ صلی اللہ علیہِ وسلم فِیما فعلوا۔‘‘ بیشک اخلاف کرنے والوں میں یہ اختلاف بعد میں حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہما کے بارے میں واقع ہوا ہے؛ ان میں کچھ حضرت علی کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہما پر اور کچھ اس کے برعکس تقدیم دیتے ہیں ۔ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ کیا ؛ ہم ان میں سے کسی کو بھی غلط نہیں کہتے ۔‘‘ اس سے اہل سنت و الجماعت کا عادلانہ اور صاف و شفاف منہج نکھر کر سامنے آگیا۔]

٭ امام مالک رحمہ اللہ نے نافع سے اوروہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں : آپ فرماتے ہیں : ’’ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں صحابہ کرام کو ایک دوسرے پر فضیلت دیا کرتے تھے ؛ ہم کہا کرتے تھے : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے بہترین انسان ابوبکر اوران کے بعدعمرہیں - رضی اللہ عنہما -۔اس بارے میں امام بخاری کاکلام گزر چکا ہے۔

٭ وہ شیعہ جنہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ وقت گزارا؛ ان کا بھی یہی عقیدہ تھا۔یہی عقیدہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اسی (۸۰) سے زیادہ اسناد سے منقول ہے۔ یہ ایسی قطعی اور یقینی بات ہے جو کسی بھی ایسے انسان پر مخفی نہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین کے احوال کی معرفت رکھتا ہے ۔