سیدنا احمد بن حنبلؒ کا فتویٰ
سیدنا احمد بن حنبلؒ کا فتویٰ:
طبقات الحنابله: میں سیدنا احمد بن حنبلؒ تو یہ فرمان منقول ہے کہ آپؒ نے فرمایا:
ذکر محاسن اصحابؓ رسول اللہﷺ کلھم اجمعین والکف عن ذکر مساویھم والخلاف الذی شجر بینھم فمن سب اصحابؓ رسول اللہﷺ او احدا او تقصه او طعن علیھم او عرق بعیبھم او عاب احدا منھم فھو مبتدع، رافضی خبیث مخالف لا یقبل اللہ عنه صرفا ولا عدلا بل حبھم سنۃ والدعاء لھم قربۃ والا قتداء بھم وسیلۃ والاخذ باثارھم فضیلۃ ۔۔۔۔۔ لایجوز لاحد ان یذکر شینا من مساویھم ولا یطعن علی احد منھم بعیب ولا یقص فمن فعل ذلک فقد وجب علی السلطان تادیبه و عقوبته لیس له ان یعفو عنه بل یعاقبه و یستتیبه فان تاب قبل منه وان ثبت عاد علیه بالعقوبۃ و خلد الحبس حتی یموت او یرجع:
ترجمہ: یعنی نبی کریمﷺ کے صحابہؓ کے محاسن کو ذکر کیا جائے اور ان کی لغزشوں کو ذکر کرنے اور ان کے مابین ہونے والے مشاجرات کو بیان کرنا ہے سے اجتناب کیا جائے۔جو شخص تمام صحابہ کرامؓ یا ان میں سے کسی ایک صحابیؓ کی شان میں گستاخی کرتا ہے یا ان کی تنقیض کرتا ہے یا ان پر طعن و ملامت کرتا ہے یا عین پر عیب لگانے کی کوشش کرتا ہے یا ان میں سے کسی ایک صحابیؓ پر عیب لگاتا ہے تو وہ خبیث بدعتی رافضی ہے،اللہ تعالیٰ کہ ہاں نہ اس کا کوئی فرض قبول ہے اور نہ کوئی نفل۔بلکہ صحابہ کرامؓ سے محبت سنت ہے،ان کے لیے دعائے خیر قربتِ خداوندی کا ذریعہ ہے،ان کی اقتداء کامیابی کا وسیلہ ہے اور ان کے آثار کی اتباع میں بہت بڑا درجہ ہے ۔۔۔۔۔ کسی کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان کی لغزشوں کو ذکر کرے اور نہ کسی کے لیے یہ جائز ہے کہ ان پر عیب لگائے یا ان کی تنقیض کرے جو شخص ایسا کرے تو حاکم پر واجب ہے کہ اس کو سزا دے اور اسے معاف نہ کرے اسے سخت سزا دے اور اس سے توبہ کرائے،اگر وہ توبہ کرے تو ٹھیک ورنہ اسے پھر سزا دے اور ہمیشہ قید خانے میں رکھے،یہاں تک کہ وہ رجوع کرے یا وہیں مر جائے۔
(توہینِ صحابہ کا شرعی حکم:صفحہ 94)