فصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل: حدیث طیر]
امام ابنِ تیمیہؒفصل:....[امامت حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آٹھویں دلیل: حدیث طیر]
[اشکال]:شیعہ مصنف لکھتا ہے:’’تمام جمہور نے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندہ لایا گیا، تو آپ نے دعا کی :’’ اے اللہ! اس پرندے کا گوشت کھانے کے لیے کسی ایسے شخص کو میرے پاس بھیج جو مجھے اور تجھے سب لوگوں میں سے عزیز تر ہو۔ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے؛ اور دروازے پر دستک دی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کہا : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی ضرورت میں مشغول ہیں ۔ پس آپ واپس چلے گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلے کی طرح دعا کی؛ اتنے میں دروازے پر دستک ہوئی۔ حضرت انس نے پھر کہا: کیا میں نے نہیں کہا کہ : آپ کسی ضرورت میں مشغول ہیں ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ پھر واپس پلٹ گئے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر پہلے کی طرح دعا کی ؛ آپ پھر واپس آئے اور پہلے دو بار کی نسبت بہت سخت دستک دی۔ اس دستک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیااور فرمایا: اسے اندر آنے کی اجازت دو۔ جب آپ اندر تشریف لائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم نے اتنی دیر کیوں لگادی ؟ تو انہوں نے عرض کیا : میں ایک بار آیا تو مجھے انس نے واپس کردیا ‘ پھر دوسری بار آیا تو انس نے واپس کردیا۔ پھر میں تیسری بار آیا تو انس نے واپس کردیا۔ آپ نے پوچھا : اے انس! تم نے ایسے کیوں کیا ؟ تو انہوں نے عرض کی : میں یہ امید کرتا تھا کہ یہ دعا انصار کے کسی فرد کے لیے ہو۔ تو آپ نے فرمایا : اے انس! کیا انصار میں علی سے بہتر بھی کوئی ہے ؟ یا انصار میں علی سے افضل بھی کوئی ہے۔ جب آپ اللہ کے ہاں سب سے محبوب مخلوق تھے تو اس سے واجب ہوا کہ آپ ہی امام بھی ہوں ۔ ‘‘[انتہی کلام الرافضی ]
[جواب]:اس کا جواب کئی طرح سے دیا گیاہے :
٭ پہلا جواب : ہم اس حدیث کی صحت پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں ۔ مصنف کا یہ کہنا کہ تمام جمہور نے اس روایت کو نقل کیا ہے ؛ جمہور پر جھوٹ اور بہتان ہے۔اسے نہ ہی اصحاب صحاح نے روایت کیا اور نہ ہی محدثین نے اسے صحیح کہا۔لیکن یہ بعض لوگوں کی نقل کردہ مرویات میں سے ہے۔ جیسا کہ اس جیسی دوسری روایات بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل میں نقل کی گئی ہیں ۔ بلکہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں بھی بہت ساری روایات نقل کی گئی ہیں ۔ اور اس باب میں مستقل کتابیں لکھی گئی ہیں ۔ لیکن محدثین کرام نے ان میں سے کسی ایک کو بھی صحیح نہیں کہا۔
٭ دوسرا جواب : ہم کہتے ہیں : یہ حدیث سب محدثین؛اہل علم ومعرفت کے نزدیک جھوٹی اور موضوع ہے۔ ابو موسیٰ المدینی کہتے ہیں : کئی معتبر محدثین نے اس [پرندہ والی ]روایت کی اسناد جمع کی ہیں ۔ جیسے کہ حاکم نیشا پوری ؛ ابو نعیم ؛ ابن مردویہ اور دوسرے محدثین کرام رحمہم اللہ ۔
مشہور محدث امام حاکم سے ’’حدیث الطیر ‘‘ کے بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے کہا:’’ یہ حدیث صحیح نہیں ۔‘‘ [تفصیل کے لیے دیکھئے۔ تذکرۃ الحفاظ للذہبی (۳؍۱۰۴۲۔۱۰۴۳۔ ترجمۃ للامام الحاکم)، البدایۃ النھایۃ لابن کثیر (۷؍ ۳۸۷)، یہ روایت سنن ترمذی(۳۷۲۱)، کتاب المناقب ‘ باب مناقب علی رضی اللّٰہ عنہ ؛(۳۸۰۵) میں مختصراً مروی ہے: اس حدیث کے الفاظ یہ ہیں : ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک پرندہ تھا؛ تو آپ نے فرمایا: ’’ اے اللہ ! میرے پاس مخلوق میں اپنے نزدیک سب سے محبوب انسان کو لے آ؛ تاکہ وہ میرے ساتھ یہ پرندہ کھائے؛ اتنے میں حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے اور انہوں نے آپ کے ساتھ اسے کھایا۔‘‘امام ترمذی اس حدیث کے نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں : یہ حدیث غریب ہے؛ سدی سے اسے ہم صرف اس سند کے ساتھ جانتے ہیں ۔یہ حدیث ایک اور سند سے بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے جسے امام شوکانی رحمہ اللہ نے فوائد مجموعہ میں ص ۳۸۲پر بھی نقل کیا ہے۔ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’ المختصر‘‘ میں کہا گیا ہے کہ اس حدیث کی کئی اسناد ہیں ‘ جوکہ تمام کی تمام ضعیف ہیں ۔اسے ابن جوزی رحمہ اللہ نے موضوعات میں درج کیا ہے۔جب کہ امام حاکم رحمہ اللہ نے اسے مستدرک حاکم میں نقل کرتے ہوئے صحیح کہا ہے۔جس پر بہت سارے اہل علم نے اعتراض کیا ہے۔ جو زیادہ تفصیل میں جانا چاہتا ہو اسے چاہیے کہ سیر اعلام النبلاء میں امام حاکم رحمہ اللہ کے حالات زندگی میں دیکھ لے۔ نیز دیکھیے: تحفۃ الاحوذی(۴؍۳۲۸)۔ موضوعات میں اس کے قریبی معنی میں ایک اور روایت ۱؍۳۷۶ پر نقل کی گئی ہے: اس میں ہے: ’’ حضرت انس فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا : اے انس ! میرے لیے وضوء کا پانی لاؤ۔ پھر آپ نے کھڑے ہوکر دو رکعت نماز ادا کی اور فرمایا: ’’اے(]
حالانکہ حاکم تشیع کی جانب منسوب ہے۔ان سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے فضائل میں کوئی حدیث بیان کرو ‘ تو آپ نے فرمایا :’’ ایسی کوئی روایت میرے دل میں نہیں آتی ؛ یامیری زبان پر جاری نہیں ہوتی ۔ اس بات پر آپ کو مارا بھی گیا ؛ مگر آپ نے فضائل معاویہ رضی اللہ عنہ میں کوئی حدیث بیان نہ کی۔ حالانکہ آپ وہی امام حاکم ہیں جنہوں نے اپنی کتاب اربعین میں صرف ضعیف ہی نہیں بلکہ ائمہ حدیث کے نزدیک موضوع احادیث تک جمع کی ہیں ۔ جیسا کہ وعدہ توڑنے والے اور بیعت توڑنے والے کو قتل کرنے کی روایت ۔ مگران کی شیعیت اور ان جیسے دوسرے ائمہ حدیث جیسے امام نسائی ‘ ابن عبد البر اور ان کے امثال کی شیعیت اس درجہ تک نہیں پہنچتی کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرات ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر فضیلت دیں ۔ علماء حدیث میں کوئی ایک بھی ایسا نہیں پایا جاتا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرات شیخین پر فضیلت دیتا ہو۔ بلکہ ان میں شیعیت کا انتہائی درجہ یہ ہے کہ یہ لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر ترجیح دیتے ہیں ۔ باقی ان
[انس! اس دروازے سے جو پہلا انسان تم پر داخل ہوگا وہ امیر المؤمنین ؛ سید المرسلین قائد غر المحجلین اور خاتم الوصیین ہوگا۔‘‘ حضرت انس کہتے ہیں : میں نے دعا کی یا اللہ! ایسا آدمی انصار میں سے کسی ایک کو کردے۔ پھر اچانک حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لائے؛ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اے انس کون ہے؟ میں نے کہا : علی ہیں ۔ آپ نے خوشخبری دیتے ہوئے کچھ فرمایا اور انہیں گلے لگا لیا۔‘‘ ابن جوزی کہتے ہیں : یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ یحییٰ بن معین کہتے ہیں : علی بن عابس کچھ بھی نہیں تھا۔ اور یہ روایت جابر جعفی سے نقل کی گئی ہے؛ اس نے طفیل سے اور اس نے انس سے نقل کی ہے۔ زائدہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: جابر جعفی انتہائی جھوٹا انسان تھا۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے جابر جعفی سے بڑھ کر جھوٹا کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ علامہ سیوطی نے اللآلی المصنوعہ ۱؍۳۵۹ پر کہا ہے: یہ پوری روایت سرا سر جھوٹ ہے۔سیوطی نے ابن جوزی کے کلام پر یہ عبارات زیادہ کی ہیں : میں کہتا ہوں : میزان میں ہے: یہ روایت من گھڑت ہے۔ ابراہیم بن محمد بن میمون کٹر قسم کا شیعہ تھا۔ اور لسان المیزان میں یہ جملہ بھی زیادہ ہے کہ : ازدی نے اسے ضعفاء میں شمار کیا ہے ۔ اور فرمایاہے: منکر الحدیث ہے۔ اور میں نے اپنے شیخ حافظ ابو الفضل کے خط سے نقل کیا ہے؛ آپ فرماتے ہیں : ’’ نا قابل اعتماد آدمی ہے ۔‘‘ اس کے قریب قریب روایت ابن عراق الکنانی نے تنزیہ الشریعہ ۱؍۳۵۷ پر نقل کی ہے۔ ہیثمی نے مجمع الزوائد ۹؍۱۲۵ پر کہا ہے:اس حدیث میں ہے: ’’ وہ میرے ساتھ اس پرندے کا بچہ کھائے ۔‘‘ پھر فرمایا: ایک روایت میں ہے: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک چاردیواری میں تھا؛ تو آپ کے پاس ایک پرندہ لایا گیا۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے: ’’ ام ایمن نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دو روٹیوں میں رکھ کر ایک پرندہ ہدیہ بھیجا۔ پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو آپ نے دریافت فرمایا: ’’ تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے ۔‘‘ تووہ پرندہ لے کر حاضر ہوگئیں ۔‘‘ میں کہتا ہوں : امام ترمذی نے اس روایت کا ایک حصہ بیان کیا ہے۔ امام طبرانی نے اوسط اور کبیر میں اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ابو یعلی میں تو بہت ہی زیادہ مختصر ہے۔ ہاں وہاں پر یہ الفاظ موجود ہیں : پس ابوبکر تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس کردیا؛ پھر عمر آئے تو آپ نے واپس کردیا؛ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ آئے۔ تو آپ نے انہیں اجازت دیدی۔‘‘ معجم الکبیر کی اسناد میں حماد بن مختار ہے ؛ جس کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں جب کہ بقیہ راوی صحیح ہیں ۔ اور ابو یعلی کی سند کے راوی ثقہ ہیں ۔ لیکن ان میں سے بعض میں ضعف پایا جاتا ہے۔ امام حاکم نے اسے شیخین کی شرط پر صحیح کہا ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث ان کے تیس سے زیادہ اصحاب نے روایت کی ہے ۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس پر یہ تعلیق لگائی ہے: ’’ میں کہتا ہوں : ابن عیاض کو میں نہیں جانتا۔ اور میں ایک لمبے زمانہ سے یہ سوچتا تھا کہ امام حاکم اپنی مستدرک میں ایسی روایت نقل کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے۔ لیکن جب میں نے اس کتاب پر تعلیقات لگانا شروع کیں تو وہاں کچھ ایسا خوفناک بھی دیکھنے کو ملا کہ اس کے مقابلہ میں یہ روایت آسمانوں پر ہے ۔‘‘ ]
ائمہ متقدمین پر زبان درازی کرنا‘ ان کے محاسن بیان کرنے سے اعراض اور من گھڑت روایات کا بیان ان کے ہاں نہیں تھا۔ علماء حدیث نے انہیں اس چیز سے بچالیا تھا۔ اور انہوں نے وہ قواعد مقرر کردیئے تھے جس سے ان صحیح احادیث کی پہچان حاصل ہوسکتی تھی جو حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں ۔
بعض معمولی درجہ کے محدثین نے جو اس قسم کی روایات کو رد کیا ہے ‘جیسا کہ ابن عقدہ وغیرہ ؛ تو ان لوگوں کا مقصود یہ تھا کہ فضائل علی رضی اللہ عنہ میں جھوٹی احادیث تک کو جمع کرلیا جائے۔موضوع احادیث کے زور پر ان صحیح احادیث کو رد نہیں کیا جاسکتا جو حضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما کے فضائل پر دلالت کرتی ہیں ‘ اور محدثین کے ہاں تواتر کے درجہ تک پہنچی ہوئی ہیں ۔ یہ احادیث حضرت علی رضی اللہ عنہ کے فضائل کی احادیث سے زیادہ کثرت کے ساتھ ہیں اوردلالت میں واضح اور صریح ہیں ؛ سند کے اعتبار سے صحیح ہیں ۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے یہ نہیں فرمایاکہ: ’’انہوں نے فضائل علی رضی اللہ عنہ میں ان احادیث کو صحیح قراردیا ہے جنہیں دوسرے محدثین نے صحیح نہیں کہا۔ امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے ‘آپ سے اس قسم کی جھوٹ بات کا صدور ہر گز نہیں ہوسکتا۔ بلکہ آپ سے نقل کیا گیا ہے کہ آپ نے فرمایا: ان سے وہ روایات نقل کی گئی ہیں ‘ جو دوسرے محدثین سے نقل نہیں کی گئیں ۔‘‘ لیکن آپ کے اس کلام میں کچھ اشکالات ہیں جن کے بیان کا موقع محل یہ نہیں ہے۔
٭ تیسرا جواب : پرندے کا گوشت کھانے میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کی مناسبت سے اللہ تعالیٰ کا سب سے محبوب انسان حاضر ہو اوروہ اس میں سے کچھ کھائے۔ اس لیے شریعت ہر نیک اور بدکردار کو کھانا کھلانے کا حکم دیتی ہے۔ اس میں کھانے والے کے لیے اللہ تعالیٰ کے ہاں زیادہ قربت کی کوئی بات نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی دینی یا دنیاوی مصلحت پوشیدہ ہے۔ تو پھر یہاں کون سی ایسی بڑی بات ہے جس کی وجہ سے یہ کہا جائے کہ یہ کام اللہ کا سب سے محبوب انسان ہی کرسکتا ہے ۔
٭ چوتھا جواب : اس حدیث میں رافضی مذہب کے مطابق تناقض پایا جاتا ہے ۔ اس لیے کہ ان کا کہنا یہ ہے کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کے ہاں مخلوق میں سب سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔ اور اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کے بعد خلیفہ بھی بنایا ہے ۔ جب کہ اس روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ کو پتہ نہیں تھا کہ حضرت علی اللہ تعالیٰ کو تمام مخلوق میں سب سے بڑھ کر محبوب ہیں ۔
٭ پانچواں جواب : یہاں پر دو ہی صورتیں ممکن ہیں :
۱۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اللہتعالیٰ کو سب مخلوقات کی نسبت عزیز تر ہیں ۔
۲۔ آپ کو اس بات کا علم نہ تھا۔
بصورت اوّل آپ کے لیے ممکن تھا کہ آپ کسی کو بھیج کرحضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلالیتے ؛پھر آپ نے انہیں کیوں نہیں بلا لیا؟ جیسے کہ آپ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک کو بوقت ضرورت بلالیا کرتے تھے۔ یا پھر آپ نے دعا میں یوں کیوں نہ فرمایا کہ :’’ اے اللہ! علی رضی اللہ عنہ کو حاضر کردے؛ بیشک وہ تیرے ہاں مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ اگر آپ ایسے صاف اور صریح الفاظ میں علی رضی اللہ عنہ کا نام لے کر دعا کردیتے تو حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک بھی باطل امید پر نہ رہتے ‘اور نہ ہی حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آمد پر دروازہ بند کردیتے ۔
اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات نہیں جانتے تھے ؛ تو رافضیوں کایہ دعوی باطل ثابت ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا علم تھا۔ نیز یہ کہ اس روایت کے الفاظ ہیں :
(( اَحَبَّ خَلْقِکَ اِلَیْکَ وَاِلَيَّ۔))
’’ جو تجھے اور مجھے تیری مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہو۔‘‘
حیرانی کی بات ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ سب مخلوقات سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز تر تھے تو آپ کو یہ بات کیوں کر معلوم نہ تھی؟
٭ چھٹا جواب : کتب صحاح ستہ میں جو احادیث صحیح اور ثابت ہیں اورجن کے صحیح ہونے پر محدثین کا اتفاق ہے ؛اور انہیں علمائے کرام رحمہم اللہ میں قبول عام حاصل ہے؛ وہ تمام احادیث اس روایت کے خلاف ہیں ۔ تو پھر ان کا مقابلہ اس موضوع اور جھوٹی روایات سے کیوں کر کیا جاسکتا ہے جنہیں کسی ایک نے بھی صحیح نہیں کہا۔
اس روایت کے ناقابل اعتماد ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بخاری و مسلم اور دوسری کتب میں وارد فضائل صحابہ کرام کی روایات ہیں ۔بخاری و مسلم میں مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اگر روئے زمین پر رہنے والوں میں سے کسی کو گہرا دوست بنانے والا ہوتا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بناتا۔‘‘[صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی رضی اللّٰہ عنہم ۔ باب قول النبی رضی اللّٰہ عنہم’’ لوکنت متخذًا خلیلاً‘‘ (ح:۳۶۵۶)،صحیح مسلم کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ ،(ح:۲۳۸۲)]
یہ حدیث مشہور ہی نہیں بلکہ اہل علم کے ہاں متواترہے۔صحاح ستہ میں مختلف طرق سے مروی ہے’ اس حدیث کے راویوں میں حضرت ابن مسعود[صحیح مسلم(۲۳۸۳) ] ،ابن عباس [صحیح بخاری (۳۶۵۶ ]،ابو سعید[صحیح بخاری (۳۶۵۴)، صحیح مسلم(۲۳۸۲ ] او ر ابن زبیر رضی اللہ عنہم [صحیح بخاری (۳۶۵۸)] جیسے جلیل القدر صحابہ شامل ہیں ۔
یہ حدیث اس باب میں ایک صریح ثبوت ہے اہل ارض میں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر محبوب کوئی دوسرا نہیں تھا۔ اس لیے کہ ’’خلۃ[یاخلیل]‘‘ کا لفظ محبت کے کمال [ومعراج ] کے لیے بولا جاتاہے۔ اور یہ چیز صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہی ہوسکتی ہے۔ اگر یہ اہل دنیا میں سے کسی کے لیے ممکن ہوتی تو پھر اس کے مستحق حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ اس لیے کہ آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے لوگوں میں سب سے بڑھ کر محبوب تھے۔
حدیث صحیح میں وارد ہوا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا تھا کہ سب لوگوں میں سے آپ کو عزیز تر کون ہے؟ فرمایا:’’ عائشہ۔‘‘ عرض کیا گیا مَردوں میں سے کون؟ فرمایا: ’’ان کے والد ابوبکر رضی اللہ عنہ ۔‘‘[صحیح بخاری ، حوالہ سابق (حدیث:۳۶۶۲)، صحیح مسلم، حوالہ سابق (حدیث: ۲۳۸۴)]
سقیفہ بنی ساعدہ کے روز حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مہاجرین وانصار کے ہجوم میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرکے کہا تھا:
’’آپ ہم میں سب سے بہتر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عزیز تر ہیں ۔‘‘[صحیح بخاری ،حوالہ سابق(حدیث:۳۶۶۸)۔ ]
صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے بھی اس کی تردید نہیں کی تھی۔‘‘
نیز یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اللہ تعالیٰ کی محبت کے تابع ہے ۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ کو مخلوق میں سب سے محبوب تھے ‘اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوبھی آپ سے بہت زیادہ پیار تھا۔
ہاں بالکل معاملہ ایسے ہی تھا۔ اس لیے کہ[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد] آپ ان سب میں اللہ سے زیادہ ڈرنے والے اور عزت والے تھے۔ اور مخلوق میں اللہ کے ہاں سب سے زیادہ معزز و مکرم اور کتاب و سنت کا تقوی رکھنے والے تھے۔ سب سے بڑے متقی تھے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو متقی قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی oاَلَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo وَ مَالِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی o اِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی oوَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ (اللیل:۱۷۔۲۱)
’’اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے۔جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔بلکہ صرف اپنے پروردگار بزرگ و بلند کی رضا چاہنے کے لیے۔ یقیناً وہ (اللہ بھی)عنقریب رضامند ہو جائے گا۔‘‘
ائمہ تفسیر فرماتے ہیں کہ یہ آیات حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئیں ۔ [مستدرک حاکم(۲؍۵۲۵)،تفسیر درمنثور(۶؍۶۰۵)۔ تفسیر قرطبی میں ہے: یعنی اس جہنم سے وہ آدمی دورہوگا جو متقی اور ڈرنے والا ہے حضرت ابن عباس نے فرمایا، الاتقی سے مراد حضرت ابوبکر ہیں جنہیں جہنم میں داخل ہونے سے دور رکھاجائے گا۔]
ہم ائمہ تفسیر کے اس قول کی صحت دلیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں :’’الاتقی‘‘ سے مرادکبھی ایک نوع ہوتی ہے اور کبھی شخص واحد بھی مراد لیا جا سکتا ہے۔جب اس سے مراد نوع ہو تو پوری جماعت بھی مقصود ہوسکتی ہے۔اگر یہ کہیں کہ ان میں صرف ایک شخص ہی اتقی ہوسکتا ہے تو یہ قول باطل ہے۔ اس لیے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض افراد بعض سے زیادہ متقی ہوتے ہیں ۔حالانکہ یہ چیز اہل سنت و الجماعت اور شیعہ کے اقوال کے خلاف ہے۔ اس لیے کہ اہل سنت و الجماعت کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد مخلوق میں سب سے زیادہ متقی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔جب کہ شیعہ کہتے ہیں : نہیں ؛ بلکہ وہ شخص حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے۔ بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد حضرت عمر رضی اللہ عنہ تھے اور کچھ لوگوں سے اس کے علاوہ بھی تفاسیر منقول ہیں ۔جس انسان کو اس بارے میں پختہ علم ہو ‘ [یا شک کی صورت میں بھی؛ تو] وہ کبھی یہ نہیں کہہ سکتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تقوی میں برابر تھے۔ اگر کوئی ایسی بات کہے گا تو وہ تمام گروہوں کے اجماع کی مخالفت کرے گا۔ پس یہ بات متعین ہوگئی کہ یہ لوگ تقوی میں برابر نہیں [بلکہ ان کے مراتب میں فرق ہے ]۔
اگراس سے فرد معین مراد لیں تو پھر وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہوں گے یاحضرت علی رضی اللہ عنہ ۔اس لیے کہ لفظ’’ اتقی‘‘اسم جنس ہے ‘ جو اس جنس میں شامل تمام افراد کے لیے بولا جاسکتاہے۔ اس صورت میں اس سے مراد پہلی قسم یعنی جماعت ہوگی۔
یا پھر اس سے کوئی ایسا متعین شخص مراد ہو جو ان دوحضرات کے علاوہ ہو ؛ تو یہ چیز بھی اہل سنت و الجماعت اور شیعہ کے عقیدہ کے خلاف ہے ۔
نیزحضرت علی رضی اللہ عنہ کو اس کا مصداق ٹھہرانا اس لیے صحیح نہیں کہ اس میں یہ آیت بھی ہے:
﴿اَلَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo وَمَالِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی oاِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی o وَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ (اللیل: ۱۸۔۲۱)
’’جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔بلکہ صرف اپنے رب بزرگ وبرتر کی رضا چاہنے کے لیے۔ یقیناً وہ (اللہ بھی)عنقریب رضامند ہو جائے گا۔‘‘
یہ وصف کئی وجوہات کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ میں موجود نہ تھا۔
٭ پہلی وجہ : چونکہ یہ سورت بالاتفاق مکی ہے اور علی رضی اللہ عنہ مکہ میں تنگ دست اور عیال محمدی میں شامل تھے[سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۱۵)۔] ۔ آپ کے پاس کوئی مال نہیں تھا جو آپ خرچ کرتے؛جب مکہ میں قحط پڑا تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنے کنبہ میں شامل کر لیا تھا۔
٭ دوسری وجہ :اس آیت میں کہا گیا ہے : ﴿ وَ مَالِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی ﴾
’’ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔‘‘
٭ بنا بریں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر دو احسان تھے:
۱۔ [دنیوی احسان]کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو اپنے عیال کے ساتھ ملا لیا تھا۔ بخلاف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے۔ اس لیے کہ آپ پر کوئی دنیاوی احسان نہیں تھا؛ سوائے دینی نعمت کے۔اور اس پر جزاء نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے کہ دین کے معاملہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے ؛ کوئی بھی انسان اس کا بدلہ نہیں چکا سکتا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حضرت ابوبکر صدیق پر دینی احسانات ہیں جن کابدلہ نہیں دیا جاسکتا ہے ۔ جب کہ حضرت رضی اللہ عنہ پر ہر دو طرح کے احسانات ہیں : ۱۔ دنیاوی [جن کا بدلہ دیا جاسکتا ہے]۔
اور ۲۔اخروی و دینی احسان[جن کا بدلہ ممکن نہیں ]۔
پہلا احسان قابل جزاء ہے۔ جب کہ دوسرے احسان کا صلہ اللہتعالیٰ سے ملے گا۔
اس سے معلوم ہوا کہ آیت میں ذکر کردہ وصف’’اتقی‘‘حضرت صدیق رضی اللہ عنہ میں موجود تھا۔ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ میں نہیں ۔ بے شک حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسروں سے زیادہ متقی تھے۔ مگر مذکورہ وصف میں حضرت علی رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہم سر نہ تھے۔[تفسیر قرطبی میں ہے: حضرت عطا اور ضحاک رحمہما اللہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے کہ مشرکوں نے حضرت بلال کو اذیتیں دیں اور حضرت بلال احد، احد، کہتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس سے گزرے تو ارشاد فرمایا، احد تجھے نجات دے گا۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا، اے ابابکر رضی اللہ عنہ ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اللہ کی وجہ سے عذاب دیاجاتا ہے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارادہ بھانپ گئے اور اپنے گھر چلے گئے سونے کا ایک رطل لیا اور اسے امیہ بن خلف کے پاس لے گئے اس سے پوچھا کیا توبلال کو میرے ہاتھ بیچتا ہے ؟ اس نے کہا، ہاں ۔ حضرت ابوبکر نے حضرت بلال کو خرید لیا اور اسے آزاد کردیا مشرکوں نے کہا، حضرت ابوبکر نے بلال کو آزاد نہیں کیا مگر اس لیے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر کوئی احسان ہوگا۔ تو یہ آیت کریمہ نازل ہوئی یعنی کسی کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کوئی احسان نہیں کہ اس کا بدلہ دیاجتا بلکہ انہوں نے جو کچھ کیا ہے وہ اپنے بزرگ وبرتر کی رضا کے لیے کیا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا کہ حضرت ابوبکر صدیق نے امیہ بن خلف اور ابی بن خلف سے حضرت بلال کو ایک غلام اور دس اوقیہ میں خریدا اور اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے آزاد کردیا تو یہ آیت نازل ہوئی: ﴿ إِنَّ سَعْيَكُمْ لَشَتَّى﴾’’بیشک تمہاری کاوشیں مختلف ہیں ۔‘‘ سعید بن مسیب نے کہا ہے جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے امیہ بن خلف سے کہا، کیا توبلال رضی اللہ عنہ کو میرے ہاتھ بیچتا ہے اس نے کہا ہاں میں اسے نسطاس کے بدلے بیچتا ہوں نسطاس حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کاغلام تھا جس کے پاس دس ہزار دینار، غلام، لونڈیاں اور مویشی تھے وہ مشرک تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے مسلمان ہونے پر برانگیختہ کیا کہ وہ اسلام قبول کرے توجتنا مال اس کے قبضہ میں ہے سب اسی کا ہوگا؛ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے نسطاس حضرت بلال کے بدلے میں بیچ دیا۔ مشرکوں نے کہا، حضرت ابوبکر نے حضرت بلال کیساتھ یہ معاملہ کسی احسان کی وجہ سے کیا ہے جوحضرت بلال رضی اللہ عنہ نے ان پر کیا ہوگا تو اس پریہ آیات نازل ہوئیں ۔ ابوحیان تیمی اپنے باپ سے وہ حضرت علی سے روایت نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا، رحم اللہ ابابکر زوجنی ابنتہ، وحملنی الی دارالھجر واعتق بلالا من مالہ۔ اللہ تعالیٰ حضرت ابوبکر پر رحم کرے اس نے اپنی بیٹی میرے عقد نکاح میں دی، مجھے دار ہجرت کی طرف لے گئے اور اپنے مال سے حضرت بلال کو آزاد کیا۔ جب حضرت ابوبکر نے حضرت بلال کو خریدا توحضرت بلال نے آپ سے کہا، کیا آپ مجھے اپنے کام کے لیے خریدا ہے یا اللہ تعالیٰ کے لیے خریدا ہے ؟ حضرت ابوبکر نے فرمایا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے لیے۔ حضرت بلال نے کہا مجھے اللہ تعالیٰ کے لیے چھوڑ دو توحضرت ابوبکر نے اسے آزاد کردیا۔ حضرت عمر بن خطاب کہا کرتے تھے حضرت ابوبکر صدیق ہمارے سردار ہیں انہوں نے ہمارے سردار حضرت بلال کو آزاد کیا۔]
اگر یہ کہا جائے کہ آپ نے اللہ کی رضا کے لیے اپنا مال خرچ کیا ؛ تو پھر اس میں انعام کرنے والے کے لیے تو کوئی جزاء نہیں ۔ اگر یہ بات مان لی جائے کہ کسی انسان نے اپنے ساتھ بھلائی کرنے والے کو اجرت دی ؛ اور پھر اس کے بعد کوئی چیز اسے اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے بھی دیدی ؛ تو یہ بھی ایسی ہی چیز ہے جس کی جزاء کسی ایک کے پاس نہیں ہے۔
تواس کے جواب میں کہا جائے گا: ’’ تصور کیجیے ! معاملہ بالکل ایسے ہی ہے۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ خرچ بھی کرتے تو آپ اسی جگہ پر خرچ کرتے جہاں پر خرچ کرنے کا حکم انہیں بارگاہ رسالت سے ملتا۔ اورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اس نعمت کی جزاء دینے کی گنجائش موجود تھی۔ تو آپ کا خرچ کرنا مجازات سے ایسے خالی نہیں ہوسکتا جیسے ابوبکر رضی اللہ عنہ کا انفاق فی سبیل اللہ مجازات سے خالی ہے۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ دوسروں سے بڑھ کر متقی ہیں ‘ مگر اس مذکورہ وصف میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ زیادہ کامل تھے۔ حالانکہ آیت کے الفاظ میں یہ بات واضح ہے کہ مخلوق میں سے کسی ایک کے پاس بھی آپ کے احسانات کا بدلہ نہیں ۔ یہ وصف اسی انسان کا ہوسکتا ہے جو لوگوں کو ان کے احسانات پر بدلہ دیتا ہو‘ اور مخلوق میں سے کسی ایک کا کوئی احسان اس پر باقی نہ رہا ہو۔ یہ وصف حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر یوں پوری طرح سے منطبق ہوتا ہے کہ مہاجرین میں سے کوئی دوسرا انسان آپ کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ بیشک مہاجرین -حضرت عمر ‘ حضرت عثمان اور حضرت علی رضی اللہ عنہم اور دوسرے صحابہ کرام - میں کوئی ایک انسان بھی ایسا نہیں تھا جو اسلام سے قبل اور اسلام کے بعد لوگوں کے ساتھ اپنی جان و مال سے اس قدر احسان کرنے والا ہوجس قدر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ احسان کیا کرتے تھے۔آپ لوگوں میں مألوف و محبوب تھے ؛ لوگوں کی خیرخواہی میں ان کیساتھ مدد کیا کرتے۔جیسا کہ مکہ سے آپ کی ہجرت کے وقت اس علاقہ کے سردار ابن دغنہ نے کہا تھا: ’’اے ابوبکر! آپ جیسے لوگوں کو نہ ہی نکالا جاسکتا ہے‘ اور نہ ہی وہ خود نکل سکتے ہیں ۔بیشک آپ کمزوروں کی مدد کرتے ہیں ؛ مہمان نوازی کرتے ہیں ؛ ضرورت مند کی مدد کرتے ہیں اور حق کے کاموں پر لوگوں کی مدد کرتے ہیں ۔‘‘
صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ نے حضرت عروۃ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ سے کہا تھا:’’ تو لات کی شرم گاہ چوس! کیا ہم بھاگ جائیں گے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں ہی اکیلا چھوڑ دیں گے ؟ تو اس نے جواب میں کہا: اگر تمہارا مجھ پر ایک احسان نہ ہوتا جس کا میں بدلہ نہیں دے سکا ؛ تو میں ضرور تمہیں اس کا جواب دیتا ۔‘‘
اسلام سے قبل اور اس کے بعد کسی ایک بھی ایسے انسان کے بارے میں بھی علم نہیں ہوسکا جس کا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر کوئی احسان ہو۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے آپ ہی اس بات کے حق دار تھے کہ ان الفاظ میں آپ کی مدح سرائی کی جائے:
﴿وَ مَالِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰی﴾
’’ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔‘‘
آپ اس آیت کے مقصود میں داخل ہونے میں لوگوں میں سے سب سے زیادہ حق دار ہیں ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دنیاوی احسانات ہیں ۔ مسند أحمد بن حنبل میں ہے : ’’ اگر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے کوڑا گر جاتا تو آپ کسی کو نہیں کہتے تھے کہ یہ اٹھاکر مجھے دیدو ۔اور آپ فرمایا کرتے تھے :
’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہے کہ میں کبھی بھی لوگوں سے کسی بھی چیز کاسوال نہ کروں ۔‘‘
مسند احمد اور سنن ترمذی اور سنن ابو داؤد میں ہے: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ اس وقت میرے پاس مال موجود تھا۔ میں نے اپنے جی میں کہا: آج میں ابوبکر رضی اللہ عنہ پر سبقت لے جاؤں گا۔ پس میں اپنے گھر کا آدھا مال لیکر حاضر ہوگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’ اپنے گھروالوں کے لیے کیا چھوڑا ؟ میں نے عرض کیا: اتنا ہی مال اپنے گھر والوں کے لیے چھوڑ آیا ہوں ۔اتنے میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنے گھر کا سارا مال لیکر حاضر ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: ’’ اپنے گھروالوں کے لیے کیا چھوڑا ہے؟ تو آپ نے عرض کیا: اپنے گھر والوں کے لیے اللہ اور اس کے رسول کو چھوڑ آیا ہوں ۔‘‘ پس میں نے کہا: میں کبھی بھی آپ پر سبقت حاصل نہیں کرسکتا۔‘‘
ہاں ! ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے گھر کا سارا مال پیش کردیا ‘ مگر اس کے باوجود آپ کسی سے لے کر نہیں کھاتے تھے۔ نہ ہی صدقہ کا مال اور نہ ہی صلہ رحمی کا؛ نہ ہی نذر و نیاز [نہ ہی نذرانہ ]۔ بلکہ آپ تجارت کیا کرتے تھے۔ اور اپنے ہاتھوں کی کمائی سے کھایا کرتے تھے۔ جب لوگوں نے آپ کو حکمران بنادیا توآپ تجارت چھوڑ کر مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں مشغول ہوگئے۔تو آپ اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ مال؛ اللہ اور اس کے رسول کے حصہ [خمس] سے کھایا کرتے تھے ؛ کسی مخلوق کے مال سے کبھی کچھ نہیں کھایا۔
ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی مال غنیمت میں سے کوئی چیز بطور خاص نہیں دیا کرتے تھے ؛ بلکہ جیسے عام مسلمان مجاہد کو غزوات میں حصہ ملتا ایسے ہی آپ کو بھی ملا کرتا تھا۔بلکہ آپ سے مال لے کر اسے لوگوں پر خرچ کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے استعمال تو کیا مگرکبھی بھی یہ ثابت نہیں ہے کہ آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی چیز بطور خاص دی ہو۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو آپ نے عطیہ دیا؛ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مال فئے میں سے دیا‘ اورایسے ہی نئے مسلمانوں اور مؤلفۃ القلوب کو اور آزاد کردہ لوگوں کو دیا کرتے تھے۔ اہل نجد کو بھی دیا ۔ایسا بھی ہوتا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین و انصار میں سے سابقین اولین کو کچھ بھی نہیں دیتے تھے۔ جیسا کہ غزوہ حنین اور بعض دوسرے مواقع پر ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ میں کچھ لوگوں کو دیتا اور کچھ لوگوں کو چھوڑ دیتا ہوں ۔ جس انسان کو میں کچھ نہیں دیتا وہ میرے نزدیک ان لوگوں کی نسبت زیادہ محبوب ہے جنہیں میں کچھ دیتا ہوں ۔ اور میں ان لوگوں کودیتا ہوں جن کے دلوں میں کچھ ملال یا کمزوری ہے۔ اور جن کے دلوں میں اللہ تعالیٰ نے تونگری اور خیر رکھی ہے ان کا معاملہ اللہ کے سپرد کردیتاہوں ۔‘‘
جب آپ کو یہ اطلاع ملی کہ انصار عطیات کے بارے میں کچھ چہ می گوئیاں کررہے ہیں ‘ تو آپ نے ان سے اس بارے میں دریافت کیا؛ تو انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہم میں سے جولوگ صاحب الرائے انہوں نے تو کچھ بھی نہیں کہا؛ ہاں کچھ نوجوان چھوکروں سے ایسی باتیں ہوئی ہیں ۔ انہوں نے کہا تھا: اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو معاف فرمائے ‘
آپ قریش کو دے رہے ہیں اور ہمیں خالی چھوڑ رہے ہیں جب کہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کا خون ٹپک رہا ہے ۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں کفر سے نئے مسلمان ہونے والوں کو ان کی تألیف قلبی کے لیے دیتا ہوں ۔ کیا آپ اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ لوگ مال لے کر واپس جائیں اور تم اپنے گھروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ساتھ لے کر جاؤ۔ اللہ کی قسم ! جو چیز لے کر تم واپس جاؤ گے وہ اس سے بہت بہتر ہے جو وہ لوگ لے کر واپس اپنے گھروں کو جائیں گے۔‘‘
وہ سبھی کہنے لگے: ’’کیوں نہیں یا رسول اللہ! ہم اس پر راضی ہیں ۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ تم لوگ میرے بعد بہت زیادہ تونگری دیکھوگے ؛ تو تم صبر کرنا یہاں تک کہ اللہ اس کے رسول سے حوض پر ملاقات کرو ۔‘‘انصار نے عرض کیا:’’تو پھر ہم صبر کریں گے۔‘‘ [صحیح مسلم:۲۴۲۹]
نیز آیت کریمہ :
﴿وَسَیُجَنَّبُہَا الْاَتْقٰی oاَلَّذِیْ یُؤْتِیْ مَالَہٗ یَتَزَکّٰیo وَ مَالِاَحَدٍ عِنْدَہٗ مِنْ نِّعْمَۃٍ تُجْزٰیoاِِلَّا ابْتِغَائَ وَجْہِ رَبِّہٖ الْاَعْلٰی oوَلَسَوْفَ یَرْضٰی ﴾ (اللیل:۱۷۔۲۱)
’’اور اس سے ایسا شخص دور رکھا جائے گا جو بڑا پرہیزگار ہے۔جو پاکیزہ ہونے کی خاطر اپنا مال دیتا ہے اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہے جس کا بدلہ اسے دینا ہو۔وہ توصرف اپنے رب عالی مقام کی رضا جوئی کے لیے(یہ کرتا ہے)۔ یقیناً وہ(اللہ بھی) عنقریب رضامند ہو جائے گا۔‘‘
اس میں مستثنیٰ منقطع ہے۔اس کا معنی یہ ہوا کہ : یہ ’’اتقی ‘‘ عطیات دینے میں صرف ان لوگوں پر انحصار نہیں کرتا جن کا ان پر کوئی احسان ہے ؛ اس لیے کہ لوگوں کا آپس میں ایسا کرناتوعدلاً واجب ہے جو کہ خرید و فروخت اور اجرت کی منزلت پر ہے۔ہر انسان کے ساتھ ایسا کرناہر ایک پر واجب ہے۔ اور اگر کسی انسان کا کوئی قابل معاوضہ [بدلہ ]احسان نہ ہو تو پھر اس قسم کے معادلہ [برابری کے سلوک] کی ضرورت نہیں رہتی۔ پس اس صورت میں عطاء خالص اللہ کی رضا کے لیے ہوگی ۔ بخلاف اس شخص کے جس پر کسی کا کوئی احسان ہو‘ تو وہ بدلہ چکانے کا محتاج ہوتا ہے۔اسے ضرورت ہوتی ہے کہ وہ بھلائی کے بدلہ میں بھلائی کا سلوک کرے۔ لیکن جس شخص پر کسی کا کوئی ایسا احسان نہیں ہے جس کا اسے بدلہ دیا جائے ‘تو جب یہ شخص اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرے تو یہ صرف اپنے تزکیہ نفس کے لیے ہوگا۔ اس لیے کہ یہ انسان ہمیشہ لوگوں کو ان کے معاملات میں پورا پورا بدلہ دیتا ہے؛ ان کی مدد کرتا اورانہیں جزاء سے نوازتا ہے۔پس جب اللہ تعالیٰ اسے مال عطا کرتا ہے تو وہ اسے تزکیہ نفس کے لیے خرچ کرتا ہے ‘ اس پر کسی کا کوئی احسان نہیں ہوتاجس کا بدلہ دے رہا ہو۔
نیز اس آیت میں ایک پہلو یہ بھی ہے کہ : یہ فضیلت اس انسان کی ہے جو معاوضات میں سے واجبات کی ادائیگی کے بعد خرچ کررہا ہو۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
﴿وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ﴾ [البقرۃ۲۱۹]
’’ آپ سے دریافت کرتے ہیں کہ کیا کچھ خرچ کریں ، تو آپ فرما دیجئے حاجت سے زیادہ چیز۔‘‘
پس جس پر قرض یادوسرے فرائض ہوں ‘ پہلے وہ ادا کرے گا ‘وہ صدقہ کو ان واجبات پر مقدم نہیں کرے گا۔اگر اس نے ایسا کرلیا تو کیا اس کا صدقہ واپس کردیا جائے گا؟ اس مسئلہ میں فقہاء کرام کے ہاں دو قول معروف ہیں ۔
اس آیت سے وہ لوگ استدلال کرتے ہیں جو صدقہ واپس کرنے کا کہتے ہیں ۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس انسان کی تعریف کی ہے جو اپنا مال تزکیہ نفس کے لیے خرچ کرتا ہے ‘اور اس پر کسی کا قابل معاوضہ [یا بدلہ ] احسان نہیں ہوتا۔ اگر اس پر کسی انسان کا احسان ہو توضروری ہے زکوٰۃ کا مال نکالنے سے پہلے بدلہ چکائے۔ اگر اس نے بدلہ چکانے سے پہلے اس مال کو تزکیہ کے لیے خرچ کردیا ‘تو اس کایہ فعل قابل تعریف نہ ہوگا۔ بلکہ اس کایہ عمل مردود ہوگا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
’’ جس کسی نے کوئی ایسا کام کیا جس کا ہم نے حکم نہیں دیا تو اس کا وہ کام مردود ہوگا۔‘‘
٭ تیسری بات : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھے اور کسی کے مال سے اتنا فائدہ نہیں پہنچا جتنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال سے حاصل ہوا۔‘‘ [الترمذی۔ کتاب المناقب۔ باب۱۵؍۳۴)، (ح:۳۶۶۱)، سنن ابن ماجۃ۔ المقدمۃ۔ باب فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۹۴)۔ ]
نیزفرمایا:’’ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت و رفاقت اور مال کے احسانات مجھ پر سب سے زیادہ ہیں ۔‘‘ [صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی صلي اللّٰه عليه وسلم۔ باب قول النبی صلي اللّٰه عليه وسلم’’ سدوا الابواب الا باب ابی بکر‘‘ (ح:۳۶۵۴)، صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل ابی بکر الصدیق رضی اللّٰہ عنہ (ح:۲۳۸۲)۔ ]
بخلاف حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے کسی قسم کا انفاق فی سبیل اللہ کا کوئی تذکرہ نہیں کیا تھا۔اور یہ بات بھی معلوم شدہ ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے شروع اسلام کے ایام میں سات ایسے لوگوں کو خرید کر آزاد کیا تھا جن کو اسلام لانے[اورایمان قبول کرنے]کے جرم میں ستایا جاتا تھا۔[مستدرک حاکم (۳؍۲۸۴)، سیرۃ ابن ہشام(ص:۱۴۷)۔]آپ نے یہ کام صرف اللہ رب ذوالجلال کی رضامندی کے حصول کے لیے کیا تھا۔ آپ کا یہ کارنامہ جناب ابو طالب کے کردار کی طرح نہیں تھا جنہوں نے صرف قرابت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت کی ۔ ان کا مقصود اللہ تعالیٰ کی رضامندی یا اس کی خوشنودی کا حصول نہیں تھا۔
ہم یہ بھی کہتے ہیں کہ ’’ الاتقی‘‘ اسم جنس ہے اس میں امت کے سبھی اعلی تقوی رکھنے والے شامل ہیں ؛ اور ظاہر ہے کہ حضرات صحابہ کرام جلیل القدراور خیر القرون کے لوگ ہیں ۔وہی اس امت کے سب سے بڑے متقی گروہ سے تعلق رکھتے ہیں اور امت کے اہل تقوی کے سرخیل یا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ یا پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ؛ یا کوئی تیسرا انسان ہے۔ کسی تیسرے انسان کا ہونا بالاجماع منتفی ہے۔ اورحضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کہا جاتا ہے کہ آپ بھی اس قسم میں شامل ہیں ۔
اس لیے کہ جب آپ کو مال حاصل ہوگیا تھا تو آپ تزکیہ وطہارت کے حصول کے لیے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے۔ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ : حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ شروع اسلام کے ایام میں اس وقت خرچ کیا کرتے تھے جب اس کی بہت سخت ضرورت تھی۔ پس آپ اس وصف ِ اتقی میں دوسرے لوگوں سے بڑھ کر کامل و اکمل ہوئے ۔
مزید برآں یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایسے مواقع پر آگے بڑھاتے تھے جہاں کسی دوسرے کی شراکت ممکن نہیں ہوا کرتی تھی؛ جیسے نماز اورحج میں اپنا نائب بنانا؛ سفر ہجرت میں اپنی ہمراہی کے لیے صرف ان کا انتخاب کرنا؛رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں آپ کا تقریر کرنا؛ آپ کو تقریر کی اجازت ملنا؛ نیز فتوی دینا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس پر رضامندی کا اظہار کرنا؛اور ان کے علاوہ دیگر اتنے خصائص ہیں جن کایہاں پر بیان طوالت کاموجب ہوگا ۔
جو انسان ان اوصاف میں اکمل ہو ‘ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں سب سے زیادہ عزت والا اور محبوب ہوگا۔یہ بات بے شمار دلائل کی روشنی میں ثابت ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ مقام صدیقیت میں تمام صحابہ کرام سے بڑھ کر عزت والے اور مقدم تھے۔ اور آپ انبیاء کرام علیہم السلام کے بعد سب سے افضل ترین ہستی ہیں ۔ اور جو ان اوصاف میں کامل ہووہی افضل ہوگا۔
نیز یہ کہ صحیح سند کے ساتھ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اس امت کے افضل ترین لوگ حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما ہیں ۔‘‘
یہ بات اتنی مشہور ہے کہ حدِ تواتر کو پہنچی ہوئی ہے۔ اور آپ نے ایسے انسان کو کوڑے لگانے کی وعید سنائی تھی جو افتراء پردازی کرتے ہوئے آپ کو ان حضرات پر فضیلت دے ۔ اور یہ بھی روایت کیا گیا ہے کہ آپ نے یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی تھی۔ اور ظاہر بات ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ یہ بات دو ٹوک طور پر اسی صورت میں کہہ سکتے ہیں جب آپ کو اس کاعلم حاصل ہو چکا ہو۔
مزید برآں یہ کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو تقدیم دینے پر اجماع ہے ‘ جب کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آپ سے افضل ہیں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ان دونوں سے افضل ہیں ۔ کئی دوسرے مواقع پر یہ مسئلہ بہت تفصیل کے ساتھ بیان ہوچکا ہے۔ جس کا کچھ حصہ یہاں بھی گزر چکاہے ۔لیکن یہاں پر اس کا ذکر پرندہ والی حدیث کے جھوٹ کو طشت ازبام کرنے کے لیے کیا گیاہے ۔